میری اپنی ذاتی سوچ کے مطابق اس عالم ہست وبود میں کسی تخلیق کار کی موت المیہ نہیںبلکہ اُس کی ایک نئی زندگی کی بازیافت کا نام ہے۔کوئی ضروری نہیں کہ آپ میری اس بات سے اتفاق کریں۔لیکن موت کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔زندگی کی تمام تر حسن و رعنائی کا نکتہ ارتکاز موت ہے۔اگر یہ موت نہ ہوتی تو شاید ہمارے وجود کے اثبات کے لئے ہماری زندگی کاکوئی منطقی جواز نہ ہوتا۔اس لئے قدرت نے ہر ذی نفس کی فطری سر نوشت میں موت کو مقدر کردیا ہے،اور موت ہی ایک ایسی حقیقت ہےجو زندگی کے تمام مبادیاتی آئین کےنصاب کی تدوین کرتی ہے۔ اگر موت کی تخلیق ناہوتی تو اس عالم رنگ و بو کی حقیقت اور اس عالم امکان کے تمام شہود و غیاب اور اس کے رمز و اسرار کی تمام تر اجتماعی حقیقت ایک اساطیری افسانے اور مابعد طبیعات کے ایک موہوم انعکاس کے ردعمل کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔شاید اسی لئے قدرت نے زندگی کی حقیقت کی تفہیم اور اس کے رمزو حقائق کے ادراک کے لئے موت کو خلق کیا ہے۔کمال تو یہ ہے کہ اس موت کوخلق کرنے والے نے اپنے بندوں سے ایک ایسی زندگی کا وعدہ کیا ہے، جو ازلی تو نہیں لیکن ابدی ضرورہے۔اور اسی نقطہ تخلیق پر اسلامی نظریات کی تمام بنیاد یں استوار کی گی ہیں۔لہذا ہر صاحب بصیرت کو زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے موت کو سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے۔
لیکن موت اور حیات سے متعلق اس کرہ ارض پر مختلف مذاہب و عقائد سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور انٹلیکچولس حضرات کے مختلف نظریات ہیں جنھوں نے اپنی مذہبی معتقدات کی بنیادپر اس کی توضیح و تشریح کی ہے۔ جن کے مطالعہ سے اس بات کاانداز ہوتا ہے کہ موت کے سربستہ اسرار کو ابھی تک کسی نے واشگاف نہیںکیا ہے ۔اس لئے موت کے حوالے سے لوگوں کے نظریات میں بڑا کنٹرا ڈکشن پایاجاتا ہے۔لیکن اسلامی آئیڈیالوجی دیگر مذاہب سے قدرے مختلف ہے۔ اس لئے کہ اسلام نے زندگی اور موت کے فلسفہ پر بڑی واضح گفتگو کی ہے ، اور اسلامی اسکالرس ، مفکرین اور علما نے اس کی توضیحات و تشریحات بڑے منطقی استدلال کے ساتھ پیش کی ہیں ۔جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہمیں موت سے انکار نہیں ،لیکن ہمیں اس بات کا افسوس ضرور ہوتا ہے کہ ہمارے سماج اور معاشرے میں کچھ ایسی اہم شخصیات ہوتی ہیں جن کی موت سے روح کو عجیب کربناک اور اذیت انگیز کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اصل میں اس کی وجہ اس شخص کی اخلاقی روادی ،ادبی و تخلیقی فعالیت ہوتی ہے ۔جو اس کی شخصیت کو ایسا تابدار بنا دیتی ہے جس کی ہر دلعزیزیت رونق ہنگامہ محفل بن جاتی ہے، اور جب وہی شخص ہمارے درمیان سے اٹھ جاتا ہے تو ہمارے سماج میں ایک ایسا بحران پیدا ہوجاتا ہے جس کی شخصیت کا متبادل ممکن نہیں ہوتا۔
آج میں ایسی ہی ایک شخصیت کا تذکرہ کررہا ہوں جو فکشن نگاری کے میدان کا ایک ایسا شہسوار تھا جس نے اپنی فکری جولانی طبع سے ایسے شاہکار تخلیق کئےجس نے اپنے عہد کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔اس شخص کو ہمارے اردو کے ادبی سماج میں پروفیسر نیر مسعود کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ان کی ولادت 1936 کو لکھنو میں ہوئی اور ان کا انتقال 24؍جولائی 2017 کو ہوا،انھوں نے 81 ؍سال کی عمر پائی،اور ان کے والد ادبی دنیا کی ایک ممتاز شخصیت تھے۔ جنھیں لوگ سید مسعود حسن رضوی ادیب کے نام سے جانتے ہیں۔پروفیسر نیر مسعود لکھنؤ یونیورسٹی میں فارسی شعبہ سے وابستہ رہے،اور اپنی علمی فیض رسانی سے اپنے بہت سے شاگردوں کو بہرہ مند فرمایا۔ان کی ناقابل فراموش ادبی خدمات کے اعتراف میں 1979؍ میں انہیں سرسوتی اور ساہتیہ اکادمی جیسے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
پروفیسر نیر مسعود کا شمار برصغیر میں فارسی ادب کے علاوہ اردو ادب کے چند اہم دانشوروں میں کیا جاتا رہا ہے۔ان کا محبوب مشغلہ تحقیق و تدوین کے علاوہ افسانہ نگاری تھا انھوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں جدید ترین افسانے لکھے۔ان کے افسانوں کی بنیادی اساس فلسفہ وجودی ہے۔ان کے افسانوں کے متون اور انسانی نفسیات سے ارتباط رکھنے والے تمام تر معنوی التزامات کی عکاسی بڑی ادبی ذہانت کے ساتھ کی گئی ہے۔ان کے افسانوں کے بیانیہ میں ـ’’میجکل رئیلزم‘‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کی تفہیم اور اس کے معنی کے ادراک میں قاری کو کافی ذہنی مشق کی ضرورت پڑتی ہے۔
انھوں نے اردو افسانے میں اپنے علامتی اظہار بیان کے مختلف تجربے کئے ،اور اپنے فن کی ماہرانہ ذہانت سے لفظوں کی نئی قبائیں تراشیں اور ان کے معنی کو نئے پیراہن عطاکئے ابلاغ و ترسیل کی سطح مرتفع سے بلند ہوکر اپنے افسانوں کی ایک نئی کائنات تخلیق کی جس میں تحیر و استعجاب کی ایسا فضاہموار کی جس کو پڑھنے کے بعد قاری کا تجسس آمیز ذہن مزید متحرک ہوجاتا ہے،ان حقیقتوں کے ادراک میں جو اس کے متن میں تہہ در تہہ پوشیدہ ہوتی ہیں۔یہ ان کے قلمی اعجاز بیانی کی بہترین تمثیل ہے۔نیر مسعود نے شعوری طور پر مروجہ افسانہ نگاری سے خود کوالگ رکھنے کے لئے اپنی ایک الگ سمت ورفتار کا تعین کیا ۔جس کی وجہ سے اس میدان میں انھوںنے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ۔ویسے توانھوں بہت سے افسانے لکھےہیں،جو اپنے ایک الگ زاویہ انفراد کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کا ایک افسانہ ’’طاوس چمن کی مینا‘‘ بھی ہے۔ میں اس افسانے کو ان دیگر افسانے سے قدرے منفر سمجھتا ہوں ۔چونکہ انھوں نے اس افسانے میںاس شہر کی تہذیب و ثقافت کے بدلتے ہوئے منظر نامہ اور اس کی جزئیات نگاری کو بڑی باریک بینی سے دریافت کیا ہے۔جسے لکھنؤ کہتے ہیں۔ویسے بھی لکھنؤ ایک ایسا طلسماتی شہر ہے ۔جس کا جادو ہر خاص وعام کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔اس کی فضاوں میں انجذاب و تجذیب کی ایسی کیفیت پائی جاتی ہے کہ یہ ہر تخلیق کار کو متاثر کرتا ہے۔لہذا ایسی صورت میں پروفیسر نیر مسعود کےقلم کے دائرہ تخلیق میں لکھنؤ کاہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ۔چونکہ وہ خود اسے مٹی کے فرزندتھے۔اس لئے ’’طاوس چمن کی مینا‘‘ نیر مسعود کی اسی خواب کی تعبیر ہے ،جو، ان کے بچپن کے ساتھ تدریجی طور پرمرحلہ درمرحلہ پروان چڑھتا رہا ہے۔لہذا اس کہانی کار نے لکھنؤ کواپنے قلم کی زبان سے کچھ اس طرح سے بیان کیا کہ اس شہر کی تہذیب و ثقافت اپنے پورے وجود کے ساتھ ان کی تحریروں میں سانس لیتا ہوا محسوس ہوتی ہے۔حالانکہ اس افسانے کا کلیدی کردار کالے خان ہے۔یہی وہ راوی ہے جو کہانی کارکے ذہن کے کینوس پر گردش کرنے والےاس شہر کی تمام نیرنگیوں کو ہو بہو بیان کررہا ہے جس طرح سے اس کہانی کار نے اس شہر کو دیکھا اور محسوس کیا تھا۔اس افسانے سے متعلق قاضی افضال حسین نے بڑی اچھی بات تحریر کی ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’۔۔۔۔افسانہ جھوٹ کو سچ کر کے دکھانے کا عمل ہے۔اس لئے نہیں اس میں بیان کردہ واقعات ’’سچے‘‘نہیں ہوتے ؍ہوسکتے ہیں بلکہ اس اعتبار سے کہ افسانہ نگار،ہر وہ فنی تدبیر استعمال کرتا ہے جس سے وہ اپنے قاری کو یقین دلاسکے کہ وہ افسانہ نہیں لکھ رہا ہے بلکہ سچا واقعہ سنا رہا ہے اور اگر اس نے افسانے کی تشکیل کے لئے کوئی خاص یا مکانی عرصہ منتخب کیا ہے،جس کا تعلق ماضی بعید سے ہو تو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ افسانے کے خیالی بیانیہ کو تاریخی واقعہ کی شکل دے کر قاری کو یقین دلادے کہ وہ ’’فرضی‘‘ کہانی نہیں سنارہا ،ایک خاص انداز سے بیان کر رہا ہے۔‘‘
(اساس تنقید:پروفیسر قاضی افضال حسین ،ص 352،ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ )
پروفیسر نیر مسعود کے علمی آفاق کا دائرہ بہت وسیع تھا،ان کی دسترس صرف اردو فکشن نگاری پر ہی نہیں تھی بلکہ وہ مغربی ادب میں معرض تخلیق میں آنے والے افسانوں پر بھی بڑی عمیق نگاہ رکھنے والے شخص تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں بعض دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ وہ ’’کافکا‘‘ ’’کامیو پنچن‘‘ ایڈ گرایلن پو‘‘ اور دوستو فیسکی ‘‘ کی بھی تخلیقات سے بھی متاثر تھے۔پروفیسر نیر مسعود کے انتقال پر امریکہ میں مقیم احمد سہیل نے اپنے ایک تاثراتی نوٹ میں کراچی سے شائع ہونے والے ’’ڈان ‘‘ میں 17؍ فروری 2013؍ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا ذکر کیا ہے ۔یہ مضمون انگریز ی میں مضمون محمد عمر میمن نے لکھا تھا۔اس کا یہ اقتباس آپ بھی ملاحظہ کریں۔
But as stories, Masud’s work falls squarely within the limits of the created world. And it is here that the suspension of the defining temporal conventions creates the dizzying sensation of disjuncture. At the same time, it jars the reader into the recognition that behind the apparent multiplicity of his work lies a single concern: the experience of being. Therefore no limits or order producing perimeters are possible. Each story is a variation on a single theme. Just as the present is an imaginary point along a continuum where consciousness may choose to place it, a story is a discrete embodiment only insofar as consciousness chooses to see it as such. In essence, it has no beginning and,
therefore, no end
پروفیسر نیر مسعود اپنے افسانوں کی دنیا کا ایک ایسا ’’عندلیب گلشن ناآفریدہ ‘‘ جس کی اصل تفہیم اور اس کی معنوی ادراکات کا دائرہ عصر موجود سے کہیں زیادہ آنے والے عہد پر محیط و بسیط دکھائی دیتا ہے،مجھے اس بات پر مکمل وثوق ہے کہ ان کے افسانوں کے اصل قاری اردو ادب کی آنے والی نسلیں ہوں گی۔جو انھیں ایک نئی جہت کے ساتھ پھر سے دریافت کریں گیں۔انشا اللہ میں عنقریب ان کے کسی افسانی پر ایک تجزیاتی گفتگو کرونگا۔فی الحال میں چاہتا ہوںاپنے اس تاثراتی نوٹ میں ان کی کچھ اہم کتابوں کا تذکرہ کرکے اپنی بات کا اختتام کروں جو صرف ہمارے لئے ہی اہم نہیں بلکہ اردوادب کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ان کی چند کتابیں یہ ہیں۔
(1)رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنامے
(2)بچوں سے باتیں مرتب
(3)بستانِ حکمت ترجمہ
(4)سوتا جاگتا
(5)انیس
(6)عطر کافور
(7)سیمیا
(8)طاؤس چمن کی مینا
(9)ایرانی کہانیاں