از، ثوبیہ عندلیب
جدودجہد آزادی میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے نومبر کا مہینہ کافی اہم ہے۔ یہ مہینہ تحریک آزادی پرچند انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ اس مہینے میں دو ایسی نابغہ روزگار ہستیاں پیدا ہوئیں جو آزادی کی راہ کا درخشاں باب بن گئیں۔ ان میں سے ایک کو دنیا شہید میسور اور مملکت خداداد کے محافظ سلطان ٹیپو(رح) کے نام سے جانتی ہے اور دوسرے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال۔ 20 نومبر 1750 سلطان ٹیپو کا یوم ولادت ہے۔ اوراس کے تقریبا 127 سال بعد 9 نومبر 1877 کو علامہ اقبال (رح) پیدا ہوئے۔ یہ مطابقت محض اتفاق نہیں لگتا۔
دونوں شخصیات میں کئی اور باتیں بھی مشترک ہیں۔ مقصد یکساں تھا، آزادی۔ نظریہ ایک تھا، مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور اسلام کی سربلندی۔ اگرچہ راہ عمل جدا تھی۔ ایک میدان جنگ کا ہیرو تھا، تلوار سے جہاد کرتا رہا، اور ایک کا قلم تلوار بن کر چمکا۔ دونوں کا دشمن ایک ہی تھا۔ انگریز کے غاصبانہ قبضے کے خلاف یہ دونوں ہستیاں اپنی سوئی ہوئی قوم کو نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔
دونوں نے اپنے اقوال و کردار سے سامراجی نظام کی نہ صرف مزاحمت کی بلکہ اس کے خلاف پوری قوم کو متحد کیا۔ مگر افسوس، دونوں کو رفقاء اور جانشین ایک جیسے نہ ملے۔ ایک کو محمد علی جوھر اور محمد علی جناح جیسے حق شناسوں کی رفاقت حاصل ہوئی۔ ایک کو میر صادق اور پورنیا جیسے غداروں کا ساتھ ملا جن کے بارے میں علامہ نے کہا:
جعفر اَز بنگال و صادق اَز دکن
ننگ آدم ننگ دیں ننگ وطن
علامہ صاحب کو سلطان ٹیپو سے بے پناہ عقیدت تھی۔ جسکا اظہار 1932 میں شائع ہونے والی ان کی کتاب جاوید نامہ میں ملتا ہے۔ کتاب میں اقبال ایک خیالی سفر میں آسمان پر گئے اوروہاںان کی سلطان ٹیپو سے ہوئی ملاقات کی روداد بیان کی گئی ہے۔ اقبال سلطان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
آں شہیدان محبت را امام
آبروئے ہند و چین و روم شام
نامشں از خورشید و مہ تابندہ تر
خاک قبرش از من و تو زندہ تر
ازنگاہ خواجہ بدر و حنین
فقر سلطا ن وارث جذب حسین ؓ
ترجمہ: جو شہیدوں کا امام تھا۔ جو ہند، چین روم و شام کی آبرو تھا۔ جس کانام مہ و خورشید سے بھی زیادہ تابندہ ہے۔ جس کی قبر کی مٹی ہم زندہ انسانوں سے بھی زیادہ زندہ ہے۔ حضور کریم کی نگاہوں میں سلطان ٹیپو کا فقر جذبہ حسینؓ کا وراث ہے۔
ایک مقام پر کہا:
“مشرق اندر خواب و او بیدار بود”
جب مشرق سویا ہوا تھا،وہ بیدار تھا
ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ:
“سینہ ئی داری اگر در خورد تیر
در جہان شاہین بزی شاہین بمیر”
اگر تیرا سینہ تیر کھانے کے قابل ہے
تو دنیا میں شاہین کی طرح زندگی بسر کر اور شاہین بن کر مر
ایک مقام پر ہے:
“بندۂ آزاد را شأنے دگر
مرگ او را میدہد جانی دگر”
مرد آزاد کی شان ہی اور ہے
موت تو اسے ایک نئی زندگی دیتی ہے
کہا جاتا ہے کہ اس سے کچھ عرصہ قبل سلطان شہید کے مزار پر گئے اور مزار کے دروازے بند کروا کر تنہا مزار کے پاس بیٹھے روتے رہے۔ وہ کافی دیر وہاں رہے اور جب دروازہ کھلا تو ان کی سرخ تھیں۔
علامہ اقبال نے اپنی کتاب “ضرب کلیم ” میں اس شہیدوں کے امام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک نظم ” ٹیپو سلطان کی وصیّت” شامل کی ہے۔ جو سلطان کی شـخصیت اور کردار کے آئینے میں مسلمانوں کو وہ راز زندگی سمجھاتی ہے کہ جس میں ان کی بقا مضمر ہے۔ علامہ اقبال سلطان ٹیپو کے الفاظ میں کہتے ہیں کہ:
تُو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدہِ کائنات میں
محفل گداز! گرمئِ محفل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانہِ حق و باطل نہ کر قبول
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول