ترجمہ کیا ہے؟ یا اس کی تعریف کن الفاظ میں کی جا سکتی ہے؟ یقیناً یہ ایک اہم سنجیدہ اور دل چسپ سوال ہے اور اس کی حیثیت بھی بنیادی نوعیت کی قرار دی جاسکتی ہے، لیکن بنظرِ غائر دیکھا اور پرکھا جائے تو یہ کوئی ایسا سادہ اور ہلکا سوال نہیں ہے کہ اس کا جواب چند فقروں میں دے کر کسی کہ مطمن کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ یہ فن کسی بھی دوسرے تخلیقی کام سے زیادہ مشکل اور پے چیدہ ہے کیوں کہ ایک خیال کو تخلیق کا جامہ پہنانے والا شاید اتنا زیادہ نہیں سوچتا، جتنا کہ کسی ایک زبان سے دوسری زبان میں اس تخلیق کو منتقل کرنے والا سوچتا ہے۔ تخلیق تو ایک طرح سے جبری اور فطری تقاضے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ مرزا غالب نے کہا ہے:
شعر خود کردہ تقاضائے کہ گردو فن ما
اور شاید اسی لیے ڈاکٹر جمیل جالبی کو فنِ ترجمہ کے ادق ہونے کا یقین ہے، لکھتے ہیں:
”ترجمے کا کام یقیناًایک مشکل کام ہے اس میں مترجم، مصنف کی شخصیت، فکرو اسلوب سے بندھا ہوتا ہے۔ ایک طرف اس زبان کا کلچر، جس کا ترجمہ کیا جا رہا ہے، اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور دوسری طرف اس زبان کا کلچر، جس میں ترجمہ کیا جارہا ہے، یہ دوئی خود مترجم کی شخصیت کو توڑ دیتی ہے۔“
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ایسا جان جوکھوں ولا کام ہے تو پھر اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دراصل یہ کام انسا ن کی تہذیبی، سماجی، ثقافتی، لسانی، فکری حتیٰ کہ مذہبی ترقی و ضرورت ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جب کوئی انسان کسی دوسرے کو اپنا مدعا اپنے دل کا حال اور مافی الضمیر بیان نہیں کر پائے گا تو وہ کیسے اگلا قدم اٹھانے میں کام یاب ہو گا؟ یقیناً شروع میں ایک دوسرے کی زبان سے نا آشنا لوگ، اشاروں کی زبان میں ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے ہوں گے اور اس دوران ممکن ہے کچھ مخصوص اقسام کی آوازیں بھی وضع کر لی ہوں گی؛ جن کی مدد سے وہ سماجی رشتے قائم کرنے میں کام یا ب رہے ہوں گے۔ لیکن کیا وہ پوری طرح سے اپنے مطالب اور مفاہیم کا سلسلہ قائم کر پائے ہوں گے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوا ہو گا۔ چوں کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ادھوری بات سے کبھی بھی مطمن نہیں ہوتا؛ اس لیے اس نے پوری بات سننے اور پہنچانے کے لیے اس زبان کو سمجھنے کا فیصلہ کیا ہو گا، اور جب زبان سیکھ لی ہو گی تو پھر یہ بھی سوچا ہو گا کہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا جانا چاہیے، تاکہ ان کو ایسی دشواری اور الجھن پیش نہ آئے، جیسی کہ کبھی انھیں پیش آئی تھی۔ بس اسی سوچ نے پھر ترجمہ نگاری کی روایت ڈالی۔ ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
”ترجمہ نگاری ایسا دریچہ ہے جس سے دوسری قوموں کے احوال ہم پر کھلتے ہیں۔“
تواریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ایران کے فرماں روا، بغداد کے عباسی خلفا اور مصر کے فاطمی خلفا، علم و ادب کے رسیا تھے اور انھوں نے نہ صرف دنیا کے نام ور شہ پاروں کو عربی زبان میں ترجمہ کروایا بل کہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں کتب خانے قائم کر کے منفرد اور قابلِ تقلید مثالیں بھی قائم کیں۔ بغداد کے بیت الحکمت اور مصر کے بیت الحکم جیسے کتب خانے، اپنی مثال آپ تھے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں ترجمہ نگاری کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود اردو زبان۔ برصغیر پاک و ہند میں ترجمہ نگاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ روایت تقریبا پندرھویں صدی کے نصف آخر میں اپنی ابتدائی شکل میں نظر آتی ہے۔ اسی لیے یہ مانا جاتا ہے کہ یہی دور، اردو زبان کے آغاز اور ارتقا دونوں لحاظ سے بہت اہم ہے۔ یہ با ت بھی ذہن میں رہے کہ بعض اوقات مترجم کو شارح بننا پڑتا ہے (حالاں کہ ترجمہ اور تشریح دو الگ الگ راستے ہیں) لیکن ایسا عموما شاعری کے میدان میں ہوتا ہے، کیوں کہ شاعری میں تمثیل، تخیل، علامت، تلمیح، استعارے اور تشبیہہ کو ہو بہو منتقل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پروفیسر مسکین علی حجازی لکھتے ہیں:
”علمی ادبی اور فنی مواد کو ایک زبان سے دوسری زبان میںِ منتقل کرنا خاصا دشوار کام ہے، یہ کام وہی شخص صحیح طور پر کر سکتا ہے جو متعلقہ علم، صنفِ ادب یا فن کا ماہر ہونے کے علاوہ دونوں زبانوں پر مکمل طور پر قادر ہو۔“
ایک عام رائے یہ بھی ہے کہ سولھویں اور خصوصا سترھویں صدی کا زمانہ جنوبی ہند میں، عہدِ زریں کہلانے کا مستحق ہے۔ اس زمانے میں ترجمہ نگاری اور اردو زبان دونوں حوالے سے ایسے ایسے شاہ کار تخلیق ہوئے کہ جن کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔ اس دور میں تمام تراجم مشرقی زبانوں سے کیے گیے جن میں فارسی، عربی، سنسکرت اور برج بھاشا وغیرہ شامل ہیں۔ مغلوں کے عہد میں سرکاری اور مقامی ضرورتوں کے کارن (وجہ سے) مختلف زبانوں سے فارسی میں اور فارسی سے ان زبانوں میں لازمی طور پر تراجم ہوتے ہوں گے، لیکن مغل بادشاہوں نے ہندُستانی ادب کی طرف بھی خاص طور سے توجہ کی۔ اکبر کے دور میں ایسے ہندووں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو فارسی سے بخوبی واقف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر کو سنسکرت سے خاص لگاو تھا۔ اس نے سنسکرت سے شاعری، فلسفہ، ریاضی اور الجبرا وغیرہ کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کروایا۔ اکبر ہی کے عہد میں کئی علما نے مل کر، مہا بھارت کا فارسی ترجمہ کرنا شروع کیا، جو ۱۵۹۱ء میں مکمل ہوا۔ لیلاوتی، نل ومن، تاجک اور ہری بنس وغیرہ کے تراجم تیار ہوئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان ترجموں کی تیاری میں برہمن اور مسلمان عالم دونوں برابر کے شریک تھے۔ ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں:
”ترجمے کا کام صرف ہندُستان تک ہی محدود نہیں تھا، دوسری ہجری کے وسط میں ہندُستان سے باہر کے مسلمانوں کے ہندُستان سے علمی تعلقات قائم ہو چکے تھے؛۷۷۰ء میں سندھ سے ایک وفد خلیفہ منصور عباسی کے دربار میں گیا تھا۔ اس وفد میں ایک ایسے پنڈت بھی شامل تھے جو ہئیت اور ریاضیات کے ماہر تھے۔ یہ پنڈت اپنے ساتھ ہئیت کی مشہور کتاب \’سدھانت\’ لے گیا تھا۔ خلیفہ کو جب اس کتاب کے مندرجات کا علم ہوا تو اس نے اپنے دربار کے ایک ریاضی دان ابراہیم فرازی کو حکم دیا کہ وہ اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کرے جو پنڈت اپنے ساتھ یہ کتاب لے کر بغداد گیا تھا اسے علم ہئیت میں غیر معمولی مہارت کی وجہ سے بہت عزت حاصل ہوئی۔ بغداد کے دو عالم اور ماہر ہئیت ابراہیم فرازی اور یعقوب بن طارق پنڈت کے شاگرد ہو گئے؛ ان دونوں شاگردوں نے اپنے اپنے طریقے سے \’سدھانت\’ کے بنیادی اصولوں کو عربی میں منتقل کیا۔ ہئیت کے علاوہ ریاضی اور دوسرے علوم کی کتابوں کا بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ ان میں دو کتابوں بہت اہم ہیں۔ ایک \’کلیلہ و دمنہ\’ اور دوسری \’بوزاسف و بلوہر\’۔ کلیلہ ودمنہ، \’پنچ تتر\’ کا ترجمہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ساسانیوں کے عہد میں ان دونوں کتابوں کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ دنیا کی بہت سی ترقی یافتہ زبانوں میں عربی سے ان کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔“
اردو زبان میں ترجمہ نگاری کے حوالے سے سب سے پہلی کتاب \’نشاۃالعشق\’ ہے۔ یہ ایک صوفی بزرگ عبداللہ حسینی (جو حضرت بندہ نواز گیسو دراز کے پوتے تھے) نے اردو میں ترجمہ کی؛ لیکن اس سے بھی بعض مححقین سخت اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ کہنا اور ثابت کرنا قدرے مشکل ہے کہ اردو میں پہلا ترجمہ کون سا ہے۔ ان کے خیال میں شاہ میراں جی خدا نما نے ابوالفضائل عبداللہ بن محمد عین القضاۃ ہمدانی کی تصنیف \’تمہیداتِ ہمدانی\’ کا عربی سے اردو میں جو ترجمہ کیا تھا، وہ اردو کا پہلا ترجمہ ہے۔ بعض اس کو بھی نہیں مانتے ان کے خیال میں ملا وجہی نے پہلی بار شاہ جی نیشاپوری کی فارسی تصنیف \’دستور عشاق\’ کا اردو میں ترجمہ \’سب رس\’ کے نام سے کیا۔ ۱۷۰۴ء شاہ ولی اللہ قادری نے شیخ محمود کی فارسی تصنیف \’معرفت السلوک\’ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اٹھارھویں صدی عیسوی کے شروع میں سید محمد قادری کی فارسی تصنیف \’طوطی نامہ\’ کا ترجمہ ہوا۔ تقریبا اسی زمانے میں فضل علی فضلی نے ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی کتاب \’روضتہ الشہدا\’ کا اردو ترجمہ \’کربل کتھا\’ کے نام سے کیا۔ ان ترجموں کے بارے میں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ کوئی باقاعدہ ترجمے نہیں، بل کہ کتابوں کی تلخیص یا آزاد ترجمے ہوتے تھے اور ماہرین کے نزدیک ان ترجموں میں ان سائنسی اصولوں کی پابندی نہیں کی گئی جو اچھے ترجموں کے لیے ازبس ضروری ہے۔
دیکھا جائے تو عادل شاہی دور میں بھی ترجمہ نگاری خوب پھلتی پھولتی نظر آتی ہے۔ اس دور کے اہم شاعر رستمی کی نظم \’خاور نامہ\’ دراصل ایک فارسی نظم کا ترجمہ ہے۔ مگر رستمی نے کمال خوب صورتی اور مہارت سے ترجمہ کر کے اسے اپنا بنا لیا۔ اس کا زمانہ تصنیف ۱۴۴۹ ہے۔ اسی طرح اس عہد کے ایک دوسرے شاعر ملک خوش نود کی مثنوی \’ہشت بہشت\’ خاصی مشہور ہے۔ یہ نظم امیر خسرو کی فارسی نظم پر مشتمل ہے۔ پھر \’مقیمی\’ جو فارسی شاعر تھا نے ایک ہندی لوک کتھا \’چندر بدن مہیار\’ بڑے دل کش اسلوب میں لکھی ہے۔۱۵۵۴ء میں علی عادل شاہ ثانی برسر اقتدار آیا اس کے عہد میں بیجا پور کے باکمال شاعر \’نصرتی\’ کے ڈنکے بجے۔ مثنوی کی ہئیت میں اس کی تین کتابیں بہت مشہور ہوئیں، جن میں سے \’گلشنِ عشق\’ اور \’علی نامہ\’ کو آج بھی سراہا جاتا ہے۔ بیجا پور کے ایک نابینا شاعر \’ط ہاشمی\’ کی تصنیف \’یوسف و زلیخا\’ جو ایک آزاد ترجمہ ہے بھی ایک اہم چیز ہے۔ اسی طرح قطب شاہی دور میں ترجمہ نگاری پر اچھا وقت رہا۔ اس دور میں ملا وجہی، محمد قلی قطب شاہ کے عہد کا بہت اعلیٰ پائے کا نثر نگار اور شاعر تھا۔ ۱۶۳۵ء میں ملا وجہی نے اپنی شہرہ آفاق \’سب رس\’ ترجمہ کی۔ اس کا اسلوب مقفیٰ ہونے کے باوجود سادہ و پرکار ہے۔ اس ترجمہ کو دیکھ کر ڈاکٹر سید عابد حسین عابد کی حقانیت پر بے اختیار ایمان لانے کو دل چاہتا ہے۔ لکھتے ہیں:
”ترجمے کو ادبی قدرو قیمت اس وقت حاصل ہوتی ہے، جب ایک زبان سے دوسری زبان میں مفہوم کے ساتھ وہ آب و رنگ، وہ چاشنی، وہ خوش بو، وہ مزا بھی آجائے، جو اصل عبارت میں موجود تھا۔“
قطب شاہی دور کا ایک اور بڑا شاعر \’غواصی\’ تھا۔ اس کا مقام \’ملک الشعراء\’ جیسا تھا۔ اس کی مشہور تصنیف \’سیف الملوک و بدیع الجمال\’ اور \’طوطی نامہ\’۱۶۳۱ء میں لکھی گئی۔ طرزِ بیان میں سادگی اور کمال کی روانی ہے۔ اس دور کا ایک اہم شاعر \’ابنِ نشاطی\’ ہے۔ اس کی مثنوی، \’پھول بن\’ دکنی اردو کے خزینہ ادب کا ان مول رتن کہلاتی ہے۔ \’پھول بن\’ فارسی تصنیف \’ب تین\’ پر مشتمل ہے، لیکن شاعر کی بے پناہ تخلیقی صلاحیت اور فن کاری نے، اس داستان کی پے چیدہ کہانی کو اپنا بنا لیا ہے۔ عیسائیوں نے جب ہندُستان میں تاجروں کے بھیس میں قدم رکھا تو ان کے مبلغین نے اپنی مذہبی کتابیں ترجمہ اور تالیف کر کے شائع کیں۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں انھوں نے عیسائیت کے پرچار اور فروغ کے لیے توریت اور انجیل کے اردو ترجمے شائع کیے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے کی پہلی کتاب \’کتابِ پیدائش\’ کے پہلے چار بابوں کا ترجمہ ہندُستانی ہے۔ یہ ترجمہ بنجمن شولٹز (BENJAMAIN SCHULTZE) نے کیا تھا۔ اس کے بعد اسی شولٹز نے \’کتابِ دانیال\’ کا اردو ترجمہ شائع کیا۔ (ان کتابوں کی فہرست \’سی اے گیریرسن\’ نے اپنی کتاب \’ہندُستان کا لسانی جائزہ\’ جلد نہم میں دی ہے)
اٹھارویں صدی کے خاتمے سے کچھ پہلے دلی میں قرآن شریف کے دو ترجمے ہوئے۔ یہ مشہور بزرگ شاہ ولی اللہ کے دو صاحب زادوں مولانا شاہ رفیع الدین اور ان کے چھوٹے بھائی شاہ عبدالقادر نے کیے۔ دونوں ترجموں میں ۹ سال کا فرق ہے۔ شاہ رفیع الدین کا لفظی ترجمہ تھا، اس میں ہر لفظ کا اس طرح کیا گیا کہ اردو فقروں کی ساخت بالکل بدل گئی۔ چوں کہ سلاست اور روانی نہ تھی، اس لیے اس کا اصل مفہوم سمجھنے میں دقت ہوتی تھی۔ یہ ترجمہ ۱۷۸۶ء میں ہوا تھا۔ عبد القادر کا ترجمہ ۱۷۹۵ء میں ہوا، پہلے کے مقابلے میں زیادہ آسان، شگفتہ، سلیس اور رواں تھا۔ ان تراجم کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں، وہ بھی اس مقدس کتاب کو سمجھ لیں، پڑھ لیں۔ یہ ابتدائی مساعی ادبی نہیں تواریخی زمرے میں زیادہ شمار کی جاتی ہے۔ مذہبی کتابوں کے علاوہ ۱۷۷۵ء میں فارسی داستان \’قصہ چہار درویش\’ کا ترجمہ حسین عطا تحسین نے کیا۔ اصل میں اس کے مصنف محمد معصوم تھے۔ کتاب کا نام \’نو طرز مرصع\’ ہے۔ تحسین فارسی کی کئی کتابوں کے مصنف تھے، لیکن اردو ادب میں اس ترجمے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اس دور کی ایک کتاب \’بہادر نامہ\’ بھی ملتی ہے، جس میں سرنگا پٹم کی تواریخ ٹیپو سلطان کی جنگ تک جاتی ہے۔ خیال ہے کہ یہ بھی کسی فارسی تصنیف کا حصہ یا ترجمہ ہے۔ اس طرح پنڈت دیا شنکر کول کا نام ان کی تصنیف \’گل زارِ نسیم\’ کی وجہ سے زندہ رہے گا۔ یہ مثنوی لکھنوی طرز تحریر کی نمایندہ مانی جاتی ہے۔ پنڈت جی نے \’لیلہ و الف لیلیٰ\’ کی کچھ کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا، مگر لازوال شہرت ان کی مترجمہ مثنوی \’گل زارِ نسیم\’ کی وجہ سے نصیب ہوئی۔ یہ بہت طویل مثنوی پنڈت جی کے استاد آتش کے کہنے پر مختصر ہوئی۔ اس مثنوی کا اردو ادب میں جو مقام و مرتبہ ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
ٓاردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کی کئی شہرہ آفاق نظمیں بھی غیر ملکی ادب سے اخذ شدہ ہیں۔ ان میں \’ماں کا خواب\’، \’بچے کی دعا\’، \’ایک مکڑی اور مکھی\’، \’ایک گائے اور بکری\’، \’ایک پہاڑ اور گلہری\’ (ماخوذ ازایمرسن) \’ہم دردی(ماخوذ ازولیم کوپر)، \’آفتاب\’ (ترجمہ، گایتری) \’پیامِ صبح\’ (ماخوذ از لانگ فیلو)،\’عشق اور موت\’ (ماخوذ ازٹینی سن)ِ، \’رُخصت اے بزمِ جہاں\’ (ماخوذازایمرسن) وغیرہ۔
آخر میں یہی کہنا ہے کہ ادبیا ت میں تراجم کا سلسلہ رُکا نہیں ہے، اب دیکھنا بس یہ ہے کہ موجودہ دور اور مستقبل میں ترجمے کے ہمہ گیر ادبی و تمدنی اثرات کو کس طرح قبول کیا جاتا ہے۔
حوالہ جات
۱۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر،ارسطو سے ایلیٹ تک ،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلام آباد،طبع ہفتم ،۲۰۰۳،ص۱۳
۲۔ رشید امجد،فنِ ترجمہ کے اصولی مباحث ،مشمولہ رودادِ سیمینار۔۔۔اردو زبان میں ترجمے کے مسائل،ص۴۲
۳۔ مسکین علی حجازی،ڈاکٹر ،صحافتی زبان،لاہور،سنگِ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۷،ص۷۳
۴۔ خلیق انجم،مترجمہ فنِ ترجمہ نگاری ،انجمن ترقی اردو ہندی نئی دہلی ،طبع سوم۱۹۹۴،ص۱۰
۵۔ مشمولہ بیاض مبارک،مرتبہ سید زوار حسین زیدی،ص۵۶