آصف علی
اقبال کی شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا بھی گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، اور اُردو بولنے والوں کے لیے نعمتِ عظمی ہے کہ اقبال سا شاعر اُنہیں نصیب ہُوا جس نے اپنے ندرت کلام اور افکار سے دُنیا بھر میں شہرت پائی اور اُمتِ مسلمہ کے عروج کے گیت گائے اور زوال کے اسباب کو شعروں میں نہ صرف بیان کیا بلکہ اُسے دوبارہ عروج میں بدلنے کے تصورات فراہم کیے۔۔ آج میرا موضوع کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں کچھ بیان کرنے کےلیے ایسے تو میں خود کو اہل نہیں سمجھتا لیکن اس کے الفاظ کو خود پر قرض بھی سمجھتا ہوں، اور اس قرض کی ادائیگی کی جانب یہ ادنی’ سی کوشش ہے۔
اقبال نے لفظ ’بانگ درا‘ کیوں استعمال کیا؟
یہ لفظ اس دور میں استعمال ہوتاتھا جب قافلوں میں سفر ہوتے تھے، سب سے پہلے اونٹ کے گلے میں ایک گھنٹی بندھی ہوتی تھی۔ جب تک قافلہ رواں دواں رہتا تب تک گھنٹی بجتی رہتی اور جب کہیں قیام کرنا ہوتا تو سب سے پہلے اونٹ کو روک دیا جاتا۔ قافلہ دوبارہ روانہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو دوبارہ چلایا جاتا اور بکھرے ہوئے لوگ اس گھنٹی کی آواز سن کر جوق در جوق واپس قافلے میں شامل ہوتے اور قافلہ رواں دواں ہو جاتا۔ اقبال بھی اپنے مشہور ‘ترانہ ملّی’ میں پہلے ہمارے آقا حضرت محممدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو سالار بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ :
سالارِ کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
اور پھر فرماتے ہیں:
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
اقبال نے ان دو اشعار میں قرآن کی آیت کا مفہوم بیان کیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں مت پڑو۔
اقبال نے امّت کے نوجوانوں کو دوبارہ یہی ‘بانگ درا’ سنا کر اکٹھا کرنے کی کوشش کی کہ آؤ دوبارہ ایک ہو جائیں اور صفت سیل رواں چلیں اور ایک بار پھر اسی عروج پر واپس چلیں، جہاں خدا ہم سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہےاور اس خودی کے مقام پر پہنچنے کے لیے اقبال نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
اقبال نوجوانوں کے سامنے اسلاف کی مثال رکھتے ہیں، تدبر اور کھوج کے لیے ان پر زور دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ تم ایسی قوم کے فرد ہو جس نے پوری دنیا کو بہترین نظام دیا۔ آج بھی اس نظام کی جڑیں باقی ہیں، تمہیں فقط ایک بار اس زرخیز مٹی کو نرم کرنا ہے۔ اس کام کے لیے اقبال نے نوجوانوں کو شاہین بننے کا درس دیا۔
علامہ اقبال کے پورے فکری نظام اور اس میں ہونے والی اردو و فارسی شاعری میں شاہین ایک بنیادی اور مرکزی کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ شاہین کی درویشانہ خصوصیات ہیں۔ اقبال ہی کے الفاظ میں:
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت سے خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ
اقبال کے مرد کہستانی اور بندہ صحرائی میں بھی شاہین کی ہی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اسی نظم کے آخر میں ٫کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ، بھی اسی درویشی کو ظاہر کرتا ہے کہ زندگی فقط زندہ رہنے کا نام نہیں۔ اقبال نے بارہا اس بات کو دہرایا ہے کہ نوجوان دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہونے کے بجائے یکجا ہوکر اس قافلے کو دوبارہ رواں دواں کریں اور بانگ درا کو سنیں۔ امت کے اس بکھرے ہوئے قافلے کو دوبارہ یکجا کرنا مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔
پھر نوجوانوں کو تن آسانی کے بجائے مشکل کوشی کی ترغیب اور صاف صاف الفاظ میں فضائے بدر پیدا کرنے کی ترغیب دی کہ خدا معجزات سے بھی اس وقت نوازتا ہے جب انسان کوشش کرتاہے۔ اس لیے نوجوانوں کا کام فقط جدوجہد کرنا ہے، جہد مسلسل کرنا ہے۔ طوفانوں سے ٹکرائیں اور عزم و استقلال کو قائم رکھیں تو وہ آپ کو مزید بلندیوں پر لے جائے گا :
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
پھر یہ پیغام کہ
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
جس سمت بھی چل صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنَر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص
کرتا نہیں جو صُحبتِ ساحل سے کنارا
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسار
ا دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیرِ اُمَم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے
’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!‘
آج میں جب مسلمانوں کے زوال کے بارے میں سوچ رہا تھا میرے ذہن میں صلاح الدین اور اقبال دونوں جمع تھے اور میری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی تھی کہ ہم اتنا پیچھے کیوں رہ گئے؟ ہمارے اس زوال کا سبب اقبال نے جو بیاں کیا وہ کچھ یوں تھا کہ ہم نے خودی اور مردِ درویش کی مشکل زندگی چھوڑ کر تن آسانی کی زندگی کو اپنانا شروع کر دیا اسلاف کی میراث کو بھول گئے تو
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اس میراث کو دوبارہ پانے کے لیے جس کا نام خودی ہے، اقبال ہمیں شاہیں بننے کا درس دیتے ہیں۔ شاہیں فقط ایک پرندہ ہی نہیں مکمل زندگی کا نام ہے۔
شاہیں کی زندگی میں نہایت اہم پہلو تربیت ہوتاہے جو کہ اس وقت دنیا فانی سے ناپید ہو رہی ہے اقبال اسی تربیت کا ذکر کرتے ہیں شاہیں جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی تربیت کے لیے اس کو شاہینوں کے درویش اور بزرگ استاد کے پاس بھیجا جاتا ہے جو اس کو تربیت دیتا ہے اور وہ تمام اصول سیکھاتا ہے جو مرد درویش کا خاصہ ہوتے ہیں اقبال نوجوانوں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں:
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
بوڑھے بزرگ جو اہل علم ہوں اہل نظر ہوں، امام برحق ہوں، اقبال ان سے علم حاصل کرنے کا کہتے ہیں کہ کسی ایسے نایاب جوہری کو تلاش کرو جو تمہیں اس طرح تراشے کہ تم اس کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت بن جاؤ ورنہ اگر تم اس معاشرے کے ایسے شکست خودرہ لوگوں کے پاس جاؤ گے جو زندگی میں فقط پیٹ کی خاطر زندہ ہیں تو وہ تمہیں بھی اپنی طرح کا بنا ڈالیں گے اقبال یہی کہتے ہیں:
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیاہے رہ رسم شاہبازی
اقبال نے پھر مکتب و مدرسہ پر فرمایا کہ
شکایت ہے ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
آج ہم جس بھی ادارے کا رخ کریں ہمیں شکست خودرہ استاد جو فقط پیٹ کی خاطر اس مقدس پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں، وہ کیا جانیں کہ ہیرا کیسے تراشہ جاتاہے؟ ان کو معلوم نہیں کہ کیسے کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا کرنا ہے؟ وہ فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو کا نعرہ لگاتےنظر آئیں گے یا یورپ کی مشینوں کا سہارا بن جائیں گے۔ اقبال نے ہمیں یہی کہا :
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اقبال کی حق شناس آنکھ اس چیز کی غمازی کرتی ہے کہ ہم نے اپنی حدود کو محدود کر لیا اور ہم بھول گئے کہ ہمارا جہاں کون سا ہے؟ ہم اس قوم سے تھے جس نے "تاج سر دارا” کو قدموں تلے روند دیا تھا۔ ہم نے اپنے پیٹ کو ملحو ظ خاطر رکھا اور ہم اپنی زندگی کے مقاصد سے ناآشنا ہوتے چلے گئے ہم نے میراث جسے اقبال خودی کا نام دیتے ہیں وہ گنوا دی تو ہم زوال کی پستیوں میں جا گرے۔
ہم نے علم و عمل کی جگہ جب سے ایک کاغذ کے ٹکڑے کو دی جب سے علم فق نوکری کا حصول بن کر رہ گیا تو اللہ نے ہم سے ہماری پہچان بھی چھین لی اور ہمیں محکوم قوموں میں شامل کر دیا۔ اقبال ضرب کلیم میں ہمارے مکتب کی کم نگاہی پر نالاں نظر آتے ہیں:
اقبال! یہاں نام نہ لے علم خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
اقبالی دور اندیش آنکھوں نے مکتب کے حال احوال دیکھ لیے تھے کہ یہاں شاہینوں کو کرگس بنایا جا رہاہے اور اسی پر اقبال نے فرمایا تھا کہ مکتب کے جواں کو کیا خبر کہ خودی کیا چیز ہے کسی مدرسہ یا مکتب میں علم خودی کو پڑھایا ہی نہیں گیا بلکہ آج بھی کسی ادارے نے بھی اس ضروری موضوع کو شامل نصاب نہیں کیا اس سے اگلے شعر میں اقبال فرماتے ہیں:
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
ان فریب خودرہ شاہینوں ان کو کیا معلوم کہ ان کی زندگی کیا تھی ان کو بتا نے کی ضرورت نہیں کہ یہ کس غلط راہ پر دھکیل دیے گئے ہیں۔ اقبال ہی نہیں اس پر اکبر آلہ آبادی بھی فرماتے ہیں:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
تمام دوراندیش آنکھیں اس فرسودہ نظام تعلیم کی کوتاہیاں دیکھ چکی تھیں اور ان کو اپنے الفاظ میں بیان فرما گئیں۔ اگلی نظم میں اقبال نے دوبارہ اسی موضوع کو جاری رکھا :
زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ
علم میں دولت بھی ہے قدرت بھی لذت بھی
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
اہل دانش عام ہیں کمیاب ہیں اہل نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایا غ
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادہ دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
اقبال اس میں علم اور عمل کو علیحدہ کرتے ہیں علم ہونے کے باوجود آپ کی زندگی اگر تڑپ سے خالی ہے تو آپ کے علم کا کوئی فائدہ نہیں جو آپ کو کچھ کرنے پر مجبور نہ کرے۔ بے شک آپ علم سے دولت اقتدار اور دنیا کی بے شمار چیزیں حاصل کر سکتے ہیں لیکن، آ پ اس سے اپنا سراغ حاصل نہیں کر سکتے، اپنی حقیقت اپنی معرفت کو نہیں جان سکتے کیونکہ یہاں اہل علم بہت زیادہ ہیں لیکن اہل نظر بہت کم ہیں اور اس میں کوئی بڑی بات نہیں کہ اہل نظر کی کمیابی نے تمہیں کوئی ایسا استاد ایسا جوہری نہیں دیا جو تمہیں تمہارے ہنر کو جان کر تمہیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کے اصول بتا سکے۔ آج کل کی تعلیم کا میعاراس قابل نہیں کہ وہ خودی کو نوجوانوں میں بیدا ر کر سکے اس نظام تعلیم سے خودی کی بیداری کی امید ایسے کی جاسکتی ہے جیسے دیا سائی سے بجلی کے بلب کے روشن ہونے کی امید کرنا۔
اقبال کے اشعار کے ساتھ اگر نطام تعلیم کے معیار کو دیکھا جائے تو کتابیں بھی کم پڑ جائیں۔ اس وسیع موضوع کو اک ہی تحریر میں پرونا ممکن نہیں ہمیں فقط عالم جانباز کی میراث کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر اسی مقام کی ضرورت ہے جس کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے میرا مقام اے ساقی
اقبال نے امت کے نوجوانوں سے امیدیں وابستہ رکھیں اور بارہا ہمیں تن آسانی چھوڑ کر امت کے لیے کھڑے ہونے کی تلقین فرماتے۔ اقبال نے نوجوانوں کو شاہین کی درویشانہ خصوصیات اپنانے کا درس دیا تو کہیں ہمیں ہمارے اسلاف کے کارناموں کا ذکرکر کے ہمیں تدبر، غور وفکر اور خودی میں ڈوب جانے کا مشورہ دیا۔ اقبال بے شک ایک عظیم مفکر تھے، ان کی شاعری پڑھ کر کسی بھی باذوق انسان پر وجدان کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ علامہ نے اپنی ایک مشہور زمانہ نظم "خطاب بہ نوجوانان اسلام” میں ہمیں اسلاف کے کارناموں کا ذکر کر کے جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ فرماتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ
اقبال نے پہلے مصرع میں قرآن کی آیت أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ کا ترجمہ کیا اور تدبر کرنے کی دعوت دی اور ساتھ میں فرمایا کہ تمہارا ماضی ایک آسمان کی مانند ہے اور تم اپنے آسمان سے بے خبر ٹوٹے ہوئے تارے ہو۔ جس کے ساتھ ہی اگلے شعر میں فرماتے ہیں:
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا س نے پاؤں میں تاج سردارا
اقبال اس شعر میں مسلمانوں کی عظیم کامیابی کا ذکر کرتے ہیں کہ تمہیں اس قوم نے اپنے آغوش میں پالا جس قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہبری میں اپناسفر شروع کیا اورپھر ایک وقت ایسا آیا کہ ایران کی ایک عظیم ساسانی سلطنت کو شکست دے کر تاج سر دارا کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا تھا۔ تاج سر دارا اقبال نے ساسانی سلطنت کو کہا ہے جو ایران کی چوتھی اور فارسی کی دوسری سلطنت تھی جس نے 400 سال سے زیادہ ایران پر اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھا۔ ساسانی سلطنت موجودہ ایران، عراق، آرمینیا، افغانستان، ترکی اور شام کے مشرقی حصوں، پاکستان، قفقاز، وسط ایشیا اور عرب پر محیط تھی۔ خسرو ثانی کے دور میں مصر، اردن، فلسطین اور لبنان بھی سلطنت میں شامل ہوگئے۔ مسلمانوں نے اس سلطنت کو شکست دی اور خلافت اسلامیہ میں شامل کردیا، جس کے بعد مسلمانوں کی تہذیب نے فروغ پایا اور اس تہذیب نے جس تہذیب میں پانی پینے سے لے کر کپڑے پہننے تک ضرورت زندگی سے اختتام زندگی تک ہر اصول موجود تھا، جس کو اقبال نے کچھ یوں بیاں فرمایا :
تمدّن آفریں خلّاق آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارا
اقبال کے مطابق صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ دوسری اقوام نے بھی اسی تہذیب و تمدن کو اپنایا اور اسی نظام حکومت سے اپنے نظام کا موازنہ کیا اور آج تک اپنے اصولوں کو انہی بنیادوں پرسنوارتے آرہے ہیں۔ یہ سب اسی عرب کے صحرا سے اونٹ پالنے والے بدوؤں سے اللہ نے نکالااور پوری دنیا کو اس کے تابع کر دیا اور اقبال اس سے اگلے شعر میں مسلمانوں کی اس درویشانہ خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں کہ آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرنے کے باوجود فقر پر فخر کیا جاتا تھا۔
سماں الفقر و فخری کا رہا شانِ امارت میں
باب و رنگ و خال وخط چہ حاجت روئے زیبا را
اقبال نے پورے اسلاف کی تاریخ ہمارے سامنے اس نظم میں بیاں کر دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ مسلمان ضرورت مند ڈھونڈتے تھے کس کو زکٰوۃ دیں اور کوئی ضرورت مند نہیں میسر آتا تھا کیوں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ :
دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جائے گا تو قیامت کے دن مجھ سے سوال ہوگا۔ اسی کو اپنے شعر میں اقبال کچھ یوں ڈھالتے ہیں:
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
پھر اقبال نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہیں اور فرماتے ہیں
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے؟
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
یعنی کہ اے نوجوانانِ مسلم!
تو اس دور کا تصور کرنے سے قاصر ہے، اقبال فرماتے ہیں کہ میں تجھے کیا کہوں کہ صحرا میں رہنے والوں نے دنیا فتح کی اور پھر دنیا کو ایک بہترین نظام حکومت دیا، دنیا کی حفاظت کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام سے اس جہاں کو آراستہ کیا مگر اقبال کہتے ہیں کہ میں تمہارے سامنے اس مکمل دور کی خوبیوں کے انبار لگا دوں مگر تم ابھی عشق کی اس بلندی تک نہیں پہنچے۔ فرماتے ہیں:
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
اقبال اسی نظم میں آگے اس گمشدہ میراث کا ذکر کرتے ہیں
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پرآسمان نے ہم کو دے مارا
اس شعر میں اقبال نے امت کے ان پستیوں میں گرنے کا ذکر کیا جس کی گہرائیوں میں ہم اس وقت موجود ہیں۔ ۔ پھر آخر میں اقبال کہتے ہیں:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتاہے سیپارہ
مسلمانوں کی کتابوں کو کبھی جلا دیا گیا، کبھی دجلہ و فرات میں بہا دیا گیا اور جتنی اٹھا کے لے جا سکے۔ اٹھا لے گئے/ وہ نایاب کتابیں جو مسلمان محققین نے لکھی تھیں، مسلمان سائنس دانوں نے لکھی تھیں۔
یونانی اپنے علم پر بہت ناز کرتے تھے جب مسلمان اپنے علم کو لے کر وہاں پہنچے تو ان کی آنکھیں کھلیں۔ وہ ایک روشن دور کا آغاز تھا یورپ کے سب سے بڑے کتب خانے (لائبریری ) میں فقط پانچ ہزار کتابیں تھی جبکہ مسلمانوں کے کتب خانوں میں لاکھوں کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ بابائے کیمیا نے سو سے زیادہ کتابیں لکھیں ان کی کتابوں کا لاطینی میں ترجمہ ہوا کسی نے ان کا نام لکھنا گوارا نہیں کیا۔ بوعلی سینا، محمد بن الزکریا الرازی اور وہ تمام بڑے نامور سائنس دان جنہوں نے قرآن اور سائنس کو اکٹھا کیا اور امت کو ایک مقام دیا، آج ان کی کتابیں جب یورپ میں دیکھنے کو ملتی ہیں تو دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے اور جلتے پر تیل کا کام کرنے کوہم خود ہیں جو کہ وہ سب بھول کر انجانے راستے پر غیروں کے ہم سفر بنے کھڑے ہیں۔ اقبال نے اس نظم میں نوجوانوں کو یہی کہا ہے کہ اے نوجوانو! آؤ اسی رستے کی جانب جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ذکر کیا ہے، آؤ دوبارہ صفت سیل رواں چلیں اور اسی بلندی پر دوبارہ پہنچیں جہاں خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔
اقبال کی فکر خودی کے بارے میں اگر بیان کرنا شروع کردیں تو شائد الفاظ کم پڑ جائیں اور سیاہی ساتھ نا دے پائے، اقبال ایک ایسا آفتاب تھے کہ آج بھی کتنے ہی چاند ان کی اس روشنی کو رفلیکٹ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
علم و ادب کا ایسا شاہ کار اب شاید ہی کوئی صدی پیدا کر پائے۔ اقبال کی دور اندیشی سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا، اقبال وہ سمندر ہیں جس میں جتنا ڈوب کر دیکھا جائے اتنا ہی اور ڈوبنے کا دل کرتا ہے۔ اقبال وہ ہیرا ہے جس کی آب و تاب آج بھی کئی دلوں میں تپش پیدا کر رہی ہے۔ کہیں کسی چنگاری کی بنیاد رکھ رہی ہے تو کہیں کسی دہکتے لاوے کو مزید دہکا رہی ہے۔ اقبال کو جب ہم پڑھتے ہیں تو ان کے الفاظ کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اکثر وہ بات نظر انداز کر جاتے ہیں جو اقبال اصل میں کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)