لکھنؤ۶ ستمبر : حسین آباد ٹرسٹ نے ماہ محرم میں حسین آباد ٹرسٹ کی جانب سے عزاداروں میں تقسیم ہونے والے تبرک میں کمی کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔ہر سال عزاداروں کو ٹرسٹ کی جانب سے شیرمال ، آلو کا سالن اور روٹی تقسیم کی جاتی تھی لیکن اس سال صرف عزاداروں کو ایک ایک شیر مال ہی تقسیم کی جائے گی۔ اس سے شیعہ قوم میں غصے کا ماحول بناہواہے ۔کیونکہ ٹرسٹ شیعوں کی ملکیت ہے اور عزاداری کے لئے وقف کئے گئے امام باڑوں اور اراضی کی آمدنی سے اگر عزاداری ہی متاثرہوتی ہے اور اسکے روایتی پروگراموں میں کمی کی جاتی ہے تو یہ قابل مذمت ہے ۔کیونکہ ٹرسٹ کی آمدنی اچھی خاصی ہے اور ٹرسٹ کبھی گھاٹے میں بھی نہیں رہا ۔حد یہ ہے کہ ٹرسٹ کی املاک پر ناجائز قبضے ہیں اگر ان قبضوں کو ہٹاکر انکی آمدنی بھی ٹرسٹ میں شامل کی جائے تو حسین آباد ٹرسٹ پورے محرم اور صفر کے مہینہ میں مسلسل عزاداروں کو روایتی تبرک تقسیم کرسکتاہے اسکے بعد بھی اسے کوئ خسارہ نہیں ہوگا ۔
شیعہ قوم کا کہناہے کہ ۲۰۰ سالوں سے بھی زیادہ مدت سے چلی آرہی روایت کو اچانک کیوں ختم کیا جارہاہے ؟کیا ٹرسٹ خسارہ میں ہے جو تبرک مین کمی کی جارہی ہے ؟اگر ایسا ہے تو سرکار ٹرسٹ کا حساب و کتاب اور آمدی و اخراجات کا حساب پیش کرے ۔رائل فیملی کا بھی یہی مانناہے ۔لیکن حسین آباد ٹرسٹ اس روایت کو ختم کرنے پر آمادہ ہے۔ رائل فیملی کا کہناہے کہ حسین آباد ٹرسٹ کی آمدنی بڑھتی جا رہی ہے تو پھر اس کٹوتی کا کیا مطلب ہے۔ اس کو لیکر انہوں نے وزیر اعلیٰ کو ایک میمورنڈم بھی بھیجا ہے۔
رائل فیملی اور شیعہ قوم کے سربرآوردہ افراد کا کہناہے کہ محمد علی شاہ کی وصیت کو بدلنے کا اختیار ٹرسٹ کو کس نے دیا ہے ۔اس سلسلے مین ہر مناسب اقدام کیا جائے گا ارو روایت کو ختم ہونے نہیں دیا جائے گا ۔