گہوارہ علم و دانش حوزہ علمیہ قم میں ہندوستانی طلاب ،علماء اور افاضل کی جانب سے تحریک تحفظ اوقاف کی حمایت اور حالیہ مظفر پور پولیس کی تشدد آمیز کاروائی کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ منعقد ہوا ۔
مدرسہ حجتیہ میں ہونے والے اس احتجاجی جلسہ کا آغاز مولانا محمد حسین صورت والا نے کیا بعدہ حجت الاسلام والمسلمین جناب فیضان جوادی صاحب ( صدر انڈیک اسلامک اسٹوڈنٹ یونین ) نے نظامت کے فرائض کو نبھاتے ہوئے مختصر طور پر اس جلسہ کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی اسکے بہار بہار ہی سے تعلق رکھنے والے جناب حجہ الاسلام ولمسلین فیض صاحب نے جناب شبیب کاظم سے اپنی پرانی آشنائی کا تذکرہ کرتے ہوئے انکی شخصیت کے ساتھ حالیہ واقعہ کے پس منظر اور اس کے مختلف گوشوں پر سیر حاصل روشنی ڈالی ۔فیض صاحب نے جناب شبیب کاظم صاحب کے گھر پر ہونے والے غیر قانونی حملہ کی شدید طور پر مذمت کرتے ہوئے کہا پولیس کا یہ بہیمانہ انداز کسی بھی طرح قابل قبول نہیں جس طرح پولیس نے بوڑھوں جوانوں عورتوں حتی بچوں تک کو نشانہ ظلم بنایا ہے اس کی انسانیت میں کوئی جگہ نہیں ہے اب سب کے لئیے ضروری ہے کہ پولیس کی اس بربریت کے خلاف آواز اٹھائیں اس لئیے کہ پولیس نے اس جگہ لاٹھی چارج کیا ہے جہاں نہ کوئی مومنٹ تھا نہ کوئی اجتماع تھا اور نہ کوئی مخالفین کی ایسی تعداد تھی جو شہر کے نظم و ضبط کو خراب کرنے کے درپے ہو پولیس نے جو حملہ کیا ہے وہ نماز جمعہ کے بعد جب مولانا اپنے گھر واپس آگئے ہیں تو ان کے گھر پر جا کر کیا ہے اور ایسے وقت میں کیا ہے جب مومنین کرام نماز جمعہ سے فارغ ہو کر اپنے اپنے گھروں جا چکے تھے اور بعض افراد ضروری شرعی مسائل کے استفسار و دیگر امور کے سلسلہ سے مولانا کے پاس ملاقات کے لئیے گئے تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ ان میں ایک ایسے معمر فرد کو بھی نشانہ ظلم بنایا گیا جو مولانا کے پاس محض اپنی بیٹی کا شادی کارڈ دینے گئے تھے جناب مولانا فیض صاحب نے اس پورے واقعہ کو تحفظ اوقاف کی تحریک کو دبانے کی ایک کڑی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک مولانا شبیب کاظم صاحب کی شخصیت کی بات ہے تو وہ ایک فرض شناس و درد مند عالم ہیں اسی لئیے پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے یہ ان کی فرض شناسی ہے کہ انہوں نے جب وقف کی پراپرٹی کو تاراج ہوتا ہوا دیکھا تو خاموش نہ رہ سکے اور پہلے قانونی کاروائی کی جہاں جہاں ہو سکتا تھا انتظامیہ سے لیکر دیگر ان حکومتی وزارتوں تک جہاں ان کی بات سنی جا سکتی تھی جناب کاظم صاحب نے سب جگہ مستند دستاویز کے ساتھ مکتوبات روانہ کیا اور آخر میں تھک ہار کر احتجاج کرنا شروع کیا ۔ فیض صاحب نے جناب شبیب کاظم صاحب کی تحریک کو ایک قومی تحریک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جناب شبیب کاظم صاحب کا کہنا صرف یہ ہے کہ قوم کے غریب و نادار طبقہ کو اس کا حق ملنا چاہیے اور وقف کی زمین قوم کا سرمایہ ہے اگر اسے صحیح راہ میں استعمال کیا جائے تو قوم کی بہت سی مشکلات کو حل کیا جا سکتا ہے ۔فیض صاحب نے وقف مافیاوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس بات کی تاکید کی وقف خوروں نے پہلے تو مافیا کے ساتھ مل کر شبیب کاظم صاحب کو روکنے کی کوشش کی لیکن جب وہ اپنے تمام ہتھکنڈوں کو اپنانے کے باوجود بھی کچھ نہ کر سکے تو پولیس کے ساتھ ساز باز کر کے ایسا قدم اٹھایا جس سے انسانیت شرمندہ ہے ،مولانا نے اپنی تقریر کے آخری مرحلہ میں طلاب قم کی جانب سے جناب شبیب کاظم صاحب کی مکمل حمایت کا اعلان کیا نیز اس بات کی طرف عوام کو متوجہ کرنے کی کوشش کی کہ ایک عالم دین کے گھر پر اس طرح کا حملہ ایک منظم سازش کا بیانگر ہے لہذا اس سازش کو سمجھتے ہوئے اسے ناکام بنانے کی کوشش ہم سب کی ذمہ داری ہے فیض صاحب نے جناب کاظم صاحب کے عزم و حوصلہ کی داد دیتے ہوئے آگے کہا کہ میری ان سے فون پر ہوئی بات چیت میں جناب کاظم صاحب نے کہا ہے کہ ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور آگے بھی ہمارا احتجاج جاری رہے گا ،جناب فیض صاحب کی تقریر کے بعد حجتہ الاسلام و المسلمین جناب شمشاد احمد صاحب نے سورہ بقرہ کی ۲۷۹ نمبر آیہ کریمہ کو عنوان گفتگو قرار دیتے ہوئے ظالم و مظلوم کے سلسلہ سے اس بات کو بیان کیا کہ ہمیں ایسا ہونا چاہیے کہ ہم نہ کسی پر ظلم کریں اور نہ خود ظلم سہنے کے عادی بنیں مولانا نے فتح قسطنطنیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح عیسائیت آپس میں اختلاف کی بنا پر کمزور ہوئی اور پادریوں کے ایک دوسرے پر نشانوں کو شکار ہو گئی اور اس کا شیرازہ بکھر گیا اسی طرح آج مسلمانوں کا حال ہے مولاناشمشاد صاحب نے ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر مسلمانوں کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کے حالات جس ڈگر پر جا رہے ہیں انکے پیش نظر مسلمانوں کا آپس میں متحد ہونا بہت ضروری ہے ہندوستان میں گئو رکشھکوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا نے اسے مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیا اور ساتھ ہی الکبیر اور النور جیسی بیف کی بڑی کمپنیوں کی طرف اشارہ کیا جس کے مالک ہندو ہیں اور ساری دنیا میں گوشت ایکسپورٹ کرتے ہیں لیکن نشانہ مسلمان بنتے ہیں، مولانا نے ہندوستان میں موجود سازشوں کو بیان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ گائے کے سلسلہ سے ہونے والے تنازعات اور اس جیسے دیگر مسائل در حقیقت مسلمانوں کے اقتصادکو کمزور کرنے کے لئیے ہیں ،ہندوستان پر مسلمانوں پر روا ظلم کو بیان کرتے ہوئے مولانا نے بیان کیا یوں تو مسلمان ہر جگہ مظلوم ہے لیکن آج سب سے مظلوم قوم شیعہ ہے مظفر پور میں ہونے والی جارحیت کو نمونہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں ہو رہے شیعوں پر مظالم کی یہ ایک کڑی ہے جس کی ہمیں شدید طور پر مذمت کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ اگر فرض کریں جناب شبیب کاظم صاحب خطا کار تھے اور ان سے غلطی ہوئی تھی تو بوڑھوں اور نہتھے لوگوں نے کیا غلطی کی تھی جنہں نشانہ ظلم بنایا گیا عورتوں نے کیا خطا کی تھی بچوں نے کیا گناہ کیا تھا جنہیں زود کوب کیا گیا ؟اسکا مطلب ہے نہتھے مردوں عورتوں اور بے گناہ بچوں پر جو کچھ ہوا وہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ہوا اور ہم اس سازش کو محکوم کرتے ہوئے مولانا شبیب کاظم کے ساتھ اپنی حمایت کا مکمل اعلان کرتے ہیں ۔
جناب شمشاد صاحب کے بعد حجت الاسلام والسملمین جناب اختر عباس جون صاحب نے اپنی فکر انگیز تقریر میں مظفر پور حادثہ کی مذمت کرتے ہوئے ہندوستان میں وقف کی پراپرٹی کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ وقف کی پراپرٹی ہمارے پاس اتنی زیادہ ہے کہ اگر اسکا صحیح سے استعمال کیا جائے تو قوم کی بہت سی مشکلات حل ہو سکتی ہیں مولانا نے ہندوستان میں وقف کی املاک کو لاحق خطرات کو بیان کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی کہ یقینا وقف کی زمینوں کو مفاد پرست لوگوں سے بہت خطرہ لیکن اس بھی بڑا خطرہ خود شیعت کو ان لوگوں سے ہے جو اسے منحرف طور پر پیش کر رہے ہیں آج شیعیت کو چند سمٹی ہوئی رسموں سے نکال کر ائمہ طاہرین علیھم السلام کی حانب سے پیش کرتا حقیقی شیعیت کی طرف لے جانے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد قرآن و تعلیمات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے ۔
عباس اختر جون صاحب کی تقریر کے بعد مظفر حادثہ کی مذمت میں جناب مولانا سید نجیب الحسن زیدی صاحب نے طلاب کرام کی جانب سے تیار شدہ میمورنڈم کو پیش کیا جسکے ہر بند کی تائید نعرہ تکبیر اور حسینت زندہ باد و یزیدیت مردہ باد کے نعروں سے کی گئی میمورنڈم کے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں :
۲۱ جولائی ۲۰۱۷ بروز جمعہ مظفرپور بہار میں رونما ہونے والے انتہائی افسوسناک واقعہ نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے جس میں مصدقہ اطلاعات کے مطابق صوبۀ بہار میں تحفظ اوقاف کی تحریک چلانے والے عالیجناب مولانا سید محمد کاظم شبیب صاحب اورامن پسند شہریوں کو محض اس لئیے نشانہ ظلم بنایا گیا کہ وہ لوگ ظلم کے خلاف خاموش نہ رہ سکے جس کے پاداش میں ، بہار پولیس نے اس وقت انتہائی بربریت کے ساتھ اندھا دھند لاٹھی چارج کیا، جب وہ نماز جمعہ کے بعد تحفظ اوقاف کے لئے احتجاج کررہے تھے۔پولیس کا یہ اقدام اس قدر جارحانہ تھا کہ پردہ نشین خواتین اور معصوم بچے بھی اس جارحیت سے محفوظ نہ رہ سکے اور اس کھلے ہوئے تشدد کے بعد مولانا کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور موصولہ اطلاعات کے مطابق ابھی تک وہ پولیس کی حراست میں ہیں ہم پولیس کی جانب سے اس وحشیانہ اقدام کی مذمت کرتے ہوئے حسب ذیل مطالبات بہار کی ریاستی حکومت کے سامنے رکھتے ہوئے اس پورے واقعہ کی شدید طور پر مذمت کرتے ہیں
۱۔ وقف مافیاؤں کے اشارہ پر بہار پولیس کے ذریعہ کی گئی اس شرمناک کی تفتیش کی جائے اور اس میں ملوث مجرموں کو ان کے اعمال کی سخت سے سخت سزا دی جائے اور جناب مولا نا شبیب کاظم صاحب اور احتجاج میں شریک گرفتار شدہ مومنین جلد از جلد باعزت رہا کیا جائے۔
۲۔ بہار کی ریاستی حکومت شہری نظم و نسق پر توجہ دیتے ہوئے ان افراد کو لگام دے جو پولیس کو آلہ کار بنا کر ریاست کو جنگل رات کے طور پر پیش کرنے کے درپے ہیں اور اپنی شرمناک حرکتوں سے پشیماں ہونے کے بجائے پولیس کی آڑ میں کھلم کھلا دہشت پھیلاتے گھوم رہے ہیں لہذا ہم ریاستی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ پورے واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق کے بعد اس سلسلہ میں ضروری چارہ جوئی کرے ۔
۳۔ اس پوری تشدد آمیز کاروائی میں ملوث پولیس اہلکاروں اور ان کو حکم دینے والے افسروں کے خلاف اور وقف خوروں کے خلاف سی بی آئی جانچ کی جائے اور دیکھا جائے کہ وقف خوروں نے اب تک وقف کی سرزمینوں کے ساتھ کیا کیا ہے نیز پولیس کے وقف مافیاوں سے کیا تعلقات ہیں
۴۔ ہم تمام طلاب کرام ، علماء عظام اور دانشوران قوم و ملت سے آپسی یگانگت اتحاد کی فضا قائم رکھنے اور ہم دلی کی عاجزانہ اپیل کرتے ہوئے گزارش گزار ہیں کہ ہر گز قوم میں تفرقہ پھیلانے اور اپنے مفاد کی خاطر علماء دین و بزرگان قوم توہین کرنے والے لوگوں کو ہرگز یہ موقع نہ دیں کہ وہ اتحاد کی فضا کو خراب کریں یا کوئی ایسا اقدام کریں جس کے بل پر قوم کو شرمندگی اٹھانی پڑے ۔
۵۔ ہم مجلس علماء ہند اپیل کرتے ہیں کہ حالیہ ہوئے واقعہ کے سلسلہ میں علماء کی میٹنگ بلا کر اس کی ریشہ یابی کریں اور دیکھیں کہ اس طرح کے واقعات کیوں اور کس کی شہ پر رونما ہوتے ہیں ان کے پیچھے کون سے محرکات کار فرما ہیں تاکہ آ یندہ کوئی ایسا نا خوشگوار واقعہ رونما نہ ہونے پائے ۔
میپورنڈم کے ہر بند پر حاضرین نے زور دار انداز میں نعرہ تکبیر و حسینیت زندہ باد و یزیدیت مردہ باد لگا کر اس کی بھرپور تائید کی آخر میں حجۃ السلام والسملمین جناب مولانا محمد علی عون نقوی صاحب نے ہندوستان میں مسلماںوں کی ابتر صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختصر انداز میں اس بات پر توجہ دلانے کی کوشش کی کہ کب تک ہم لاٹھی ڈنڈیں کھاتے رہیں گے اور کب تک ہماری آبرو کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہے گا ۔
جناب عون محمد نقوی صاحب نے ہندوستان کی پارلیمنٹ میں مسلم اراکین پارلیمنٹ کی روز بہ روز گھٹتی ہوئی تعداد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے لہذا ضروری ہے کہ جمہوری طرز و جمہوری اصولوں کے ساتھ ہی وہاں پر موثر طور پر اپنی شناخت بنائی جائے اور اس کے لئیے ایک قیادت کا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے ہندوستان میں مسلماںوں کی مضبوط قیادت کو مسلمانوں کی موجودہ صورت حال سے نکلنے کا حل بیان کرتے ہوئے مولانا نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں چھوٹے چھوٹے عہدوں کو حاصل کر کے خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ مستقل طور پر ایک تحریک کی صورت آگے بڑھنا چاہیے تاکہ اپنے حقوق کو جمہوری آئین کے مطابق حاصل کر سکیں
آخر میں ناظم جلسہ جناب فیضاج جوادی صاحب نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جلسہ کے اختتام کا اعلان کیا اور دعای امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی قرات کے ساتھ یہ جلسہ احتجاج اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس جلسہ کے کامیاب انعقاد کے لئیے جناب غلام رضا صاحب جناب فیضان جوادی صاحب ، جناب نصرت جعفری صاحب جناب فائز باقری صاحب اور انکے رفقاء کار کی کاوشیں بہت اہم رہیں جنکی انتھک کوششوں کی بنیاد پر یہ جلسہ بحسن وخوبی منعقد ہو سکا ۔