جاثیہ تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق ایران میں مقیم عراقی تجزیہ نگار سید رضا قزوینی (الغرابی) نے لندن میں مذکورہ فرقے کی بستی “فدک الصغری” کو قریب سے دیکھا اور سوشل میڈیا پر لکھا: “فدک الصغری لندن کا سرسبز و شادب اور خوشگوار علاقہ ہے؛ یہ بستی سید مجتبی شیرازی کے داماد شیخ یاسر الحبیب نے خرید لی ہے۔۔۔ یہ بستی تیار ہوئی اور سنہ 2013 میں یہاں ایک مسجد کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ ایک عسکری تقریب میں یاسر الحبیب یا پھر “ہیئۃ خدام المہدی” نامی تنظیم کا پرچم بستی کی ایک پہاڑی پر لہرایا گیا جبکہ تنظیم کے اسکاؤٹس سبز یونیفارم میں ملبوس تھے۔۔۔ عمومی نمازیں یا باجماعت نمازیں اس بستی میں پڑھائی جاتی ہیں۔۔۔ ایک حوزہ علمیہ اور ایک اسکول بھی بستی میں تعمیر کیا گیا ہے اور یاسر الحبیب کا کہنا تھا کہ اطراف کی زمینیں خرید کر اس بستی کو ایک شیعہ بستی میں تبدیل کرنے اور یہاں کے انگریز باشندوں کو تشیع کی راہ دکھانے کا منصوبہ ہے”۔۔۔ یہاں کے اسکاؤٹس کا یونیفارم سبز ہے، یہاں ایک بستی کی بنیاد رکھی گئی ہے، سبز یونیفارم زیب تن کرکے اسکاؤٹس مذہبی مواقع پر مارچ کرتے ہیں اور “سعودی عرب” کو فتح کرنے کا نعرہ لگایا جاتا ہے ۔۔۔ صرف نعرے کی حد تک ۔۔۔ شہر لندن میں اس بستی کی مسلسل ترقی بہت دلچسپ ہے”۔
یاد رہے کہ حال ہی میں اس فرقے کے ایک شخص کو ایران میں برطانیہ کے لئے جاسوسی کے الزام میں پکڑا گیا تو سعودی عرب کے تمام تر ذرائع ابلاغ نے اسرائیلیوں، امریکیوں اور برطانویوں کے ساتھ مل کر اس فرقے کی مظلومیت پر سوگ منایا۔۔۔ چنانچہ اس فرقے کا مقصد سعودی عرب کو فتح کرنا نہیں بلکہ اسرائیل کے آگے مسلمانوں کی مزاحمت توڑنے میں سعودی عرب کا ہاتھ بٹانا ہے اور وہ صرف ایک نعرہ ہے سادہ دل شیعہ نوجوانوں کو بہلانے کے لئے۔
اور جب بہت بڑی رقم ادا کرکے ایک بہت بڑی اور شاندار عمارت میں ـ جو لندن کے یہودی محلے کے قلب میں واقع ہے ـ حسینیہ رسول اعظم کی بنیاد رکھی جاتی ہے کہ تو مقامی یہودی احتجاج کرتے ہیں مگر یہودی راہنما تل ابیب کی منظوری سے میدان میں آتے ہیں اور ہری بتی دکھا دیتے ہیں؛ سعودی ولیعہد انسانیت کے خلاف جرائم کے باوجود لندن کا دورہ کرتا ہے تو شیرازی فرقے کے افراد اسی وقت ایران کے سفارتخانے پر حملہ کرتے ہیں، امریکی، برطانوی، یہودی اور سعودی حملہ آوروں کی حمایت کرتے ہیں، دنیا بھر کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز ہوجاتی ہے اور اس کی آڑ میں برطانوی عوام کی مخالفت کے باوجود، برطانوی حکومت 14 ارب پاؤنڈ کا مزید اسلحہ سعودیوں کو فروخت کردیتی ہے۔۔۔ جس سے بڑی آسانی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ منصوبہ برطانیہ ـ اسرائیل اور سعودیوں کا مشترکہ ہے اور وہ مستقبل میں اس فرقے سے کوئی بڑا کام لینا چاہتے ہیں اور تشیع کا چہرہ مکمل طور پر مخدوش کرنا بھی تو اس کے اصل مقاصد میں شامل ہے اور جیسا کہ یاسر الحبیب نے کہا ہے: اس مرکز میں ہر قسم کی عزاداریوں کا منصوبہ ہے، قمہ زنی ہوگی، چھریوں والی زنجیر کا ماتم ہوگا؛ آگ اور کانٹوں پر ماتم کا اہتمام کیا جاتا رہے گا، اور ننگے جسم پر کیلوں والی زنجیر کا ماتم ہوگا”۔ یعنی سادیت اور سادیت (Sadism) یا آزار کشی کے رجحان اور ہر قسم کے جعلی خرافات کو مذہب کے عنوان سے عزاداری کے سانچے میں لایا جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی اور مرجع تقلید شیعیان امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “ہم اس تشیّع کو قبول نہیں کرتے جس کا مرکز لندن میں ہو؛ یہ وہ تشیّع نہیں ہے جس کو ائمہ علیہم السلام نے رائج کیا اور اسے چاہا۔ جس تشیّع کی بنیاد اختلاف انگیزی اور اسلام دشمنوں کی جارحیتوں کے وجود میں آنے کے لئے راستہ ہموار کرنے پر استوار ہو، یہ تشیّع نہیں ہے؛ یہ انحراف اور گمراہی ہے”۔ (خطاب مورخہ 17 اگست 2015)
حوزہ علمیہ قم کے استاد اور تقریب بین المذاہب اسلامی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ ڈاکٹر محسن اراکی کہتے ہیں:
“جو کردار داعش نے سنی اسلام پر دھبہ لگانے کے لئے ادا کیا وہی کردار شیرازی فرقے کو بھی سونپ دیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر شیعہ اسلام کو داغدار کر دے اور ساتھ ساتھ اہل سنت کو بھی شیعہ مکتب کی دشمنی پر اکسا دے”.
سید حسن نصراللہ فرماتے ہیں: “تکفیری صہیونیوں سے زيادہ تشدد پسند اور خونخوار ہیں، اور لندنی غالی شیعہ دونوں سے زیادہ خطرناک ہیں”۔
آیت اللہ ڈاکٹر محسن اراکی جنہوں نے شیرازی ـ انگریزی فرقے پر وسیع تحقیق کی ہے ـ نے مورخہ 31 اگست 2015 کو مہر نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
“جس وقت میں برطانیہ میں تھا، مجھے رپورٹ ملی کہ برطانوی حکومت بہت سے سنی اور شیعہ نوجوانوں کو جاسوسی کے لئے بھرتی کررہی ہے۔ میں ان دنوں کچھ اکیڈمک معاملات کے سلسلے میں جامعات میں جاتا رہتا تھا۔ میں نے ان جامعات کی مسجدوں میں کچھ منظم افراد کو دیکھا جن کو برطانوی حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ میرا مطلب ہے کہ برطانوی حکومت مشرقی ممالک میں اثر و نفوذ کے حوالے سے طویل تجربہ رکھتی ہے؛ چنانچہ اس طرح کے پروگراموں کی بنیادی منصوبہ بندی انگریز سرکار ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے؛ اور انگریزی تشیّع سے مراد بھی یہی ہے۔ یعنی وہ تشیّع جو انگریز کی منصوبہ بندی اور انتظام کے تحت جاسوسی اداروں کا حصہ بنیں اور انگریزی حکومت ان کی مالی اور تشہیری مدد کرے۔ انگریزی تشیع سے مراد وہ شیعہ نہیں ہیں جو برطانیہ میں رہتے ہیں؛ میری بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے سارے شیعہ انگریزی شیعہ ہیں کیونکہ برطانیہ میں بہت اچھے شیعہ رہتے ہیں اور جب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ کچھ لوگوں کو انگریز سرکار کے سیاستدانوں کی حمایت حاصل ہوئی ہے، تو انہیں دکھ پہنچتا ہے”۔
آیت اللہ اراکی یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ شیرازی فرقہ ـ سیاست سے دوری اور خالص مذہبی ہونے کا نعرہ لگانے کے باوجود ـ ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کو مغربی ممالک، اسرائیل اور حتی کہ سعودی عرب کی طرف سے ہمہ جہت مالی اور تشہیری امداد فراہم کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے: “معاشرتی مقبولیت کے لحاظ سے اس فکر کے حامیوں کا رتبہ بہت ہی کمزور ہے؛ لیکن یہ بہت خطرناک ہیں اس لئے کہ انھوں نے ایک ابلاغی سلطنت قائم کی ہے۔ انہیں مغرب کی پشت پناہی میں 20 سے زائد ٹی وی چینلز کی سہولت حاصل ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ کسی وقت امریکی کانگریس نے اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے کئی کروڑ ڈالر کا بجٹ منظور کیا جس کے فوری بعد شیرازی فرقے کے متعدد ٹی وی چینلز کا افتتاح منظر عام پر آیا۔ کچھ امریکی حکام نے بڑے کھلے انداز سے اعلان کیا کہ “ہمیں شیعہ معاشروں کے درمیان انتہاپسند افکار کو ترویج دینا اور ان کی حمایت کرنا ہوگی”۔ آج 20 سے زائد ٹی وی چینلز اس فرقے کے ہاتھ میں ہیں جو انگریزوں، امریکیوں اور یہودی ریاست کے مقاصد کے لئے کام کررہے ہیں۔ ان کے خطرناک ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ایک منظم جال (نیٹ ورک) کے طور پر کام کرتے ہیں اور تیسری صورت یہ ہے کہ بیرونی قوتیں بہت ہی وسیع سطح پر ان کی مالی مدد کررہی ہیں”۔
حال ہی میں لاس اینجلس میں مقیم اسلامی انقلاب کے مخالف اور شہنشاہیت کے حامی اور ابلاغیات کے شعبے کے سرگرم کارکن “شہرام ہمایون” نے یورپ میں سرگرم سیٹلائٹ چینلز کے حقائق طشت از بام کرتے ہوئے کہا: “لندن میں تعینات مذہبی چینلز کی مالی سرپرست کمپنی اسرائیلی ہے”۔
مشرق وسطی کے مسائل کے ماہر پروفیسر سید ہادی سید افقہی نے مئی 2015 میں انگریزی تشیّع کے لئے منعقدہ نشست بعنوان “انگریزی مولوی” میں شرکت کرکے شیرازی فرقے کے اہداف و مقاصد یوں بیان کئے: ”
1۔ اجنبی قوتوں کی حمایت میں مرجع تراشی
2۔ [سیاست سے دوری کا دعوی کرنے کے باوجود] انقلاب اسلامی کی آشکارا مخالفت، نوجوانوں کو بہلا کر انقلاب اسلامی کی عدم پیروی کی ترغیب دلانا؛ چنانچہ صادق شیرازی خود کہتا ہے: “اے نوجوانو! دھوکہ مت کھاؤ! اپنے باپوں کی طرح مت ہو، جن میں سے کچھ نے دھوکہ کھایا؛ پیغمبر کی تاریخ کو خود پڑھو، ان کی ہر بات کی تصدیق نہ کرو”۔ میں نہیں کہتا کہ سید صادق شیرازی انگریزوں کا ایجنٹ ہے؛ میں پوچھتا ہوں کہ جناب صادق شیرازی! ایسی بات کیوں کرتے ہو جس کا برطانوی حکومت خیر مقدم کرتی ہے؛ اور تمہاری باتوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے؟
3۔ عصر حاضر میں تشیّع کا پرچم سنبھالنے والے امام خمینی (قدس سرہ) اور امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) کی کردار کشی۔
4۔ اسلام کے اہم ترین اور مرکزی ترین مسئلے [فلسطین] کی مخالفت کرنا۔
5۔ عالمی استکبار ـ بالخصوص بڈھے استعمار (برطانیہ) کی حمایت کرنا۔
6۔ منافقین (نام نہاد مجاہدین خلق) کی حمایت؛ صادق شیرازی کہتے ہیں: کیا پیغمبر(ص) نے کسی ایک منافق کو مارا جو مدینہ میں رہتے تھے؟
7۔ فتنہ پرور قوتوں کا ساتھ دینا۔
8۔ سیاسی انحرافات کے سلسلے میں انجمن حجتیہ کی حمایت۔
9۔ دین اور سیاست کی جدائی کے نظریئے کو فروغ دینا۔
10۔ عراق کے معاملات اور داعش کی تکفیری تنظیم کے سلسلے میں دوہرا موقف اختیار کرنا۔
11۔ اہل سنت کے مقدسات پر حملہ کرنا اور توہین کا نشانہ بنانا۔
12۔ شہید سازی کا منصوبہ نافذ کرکے بعض متوفی افراد کو شہید کا عنوان دینا؛ مثال کے طور پر 2001 میں سید محمد شیرازی کا اپنی رہائشگاہ میں انتقال ہؤا تو دعوی کیا گیا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا ہے۔ حالانکہ وہ ایک لمحے کے لئے بھی گرفتار نہیں ہوئے تھے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ صادق شیرازی نے داعش اور عراق اور شام میں لاکھوں انسانوں کے قاتل دہشت گرد ٹولوں کے بارے میں آج تک کوئی موقف اختیار نہیں کیا ہے وجہ یہ ہے کہ ان تنظیموں کی بنیاد امریکہ اور برطانیہ نے رکھی ہے”، اور یہودی ریاست نیز سعودی قبائلی حکومت اس کی حمایت کررہی ہے۔
لیکن شیرازی فرقے کی کارکردگی کے بارے میں دلچسپ ترین اور رسوا کن ترین اعتراف لندن میں مقیم عالم نما شخص یاسر الحبیب نے کیا۔ الحبیب ایک کویتی عالم نما، مجتبی شیرازی کا داماد، اور “فدک” نامی سیٹلائٹ چینل کا بانی ہے۔ اس چینل کا کام اہل سنت کے ہاں کی محترم شخصیات کی توہین کرکے عالم اسلام میں فتنہ انگیزی اور شرانگیزی اور شیعہ مراجع تقلید کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قائدین کی توہین کرکے شیعہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش سے عبارت ہے۔
ياسر الحبيب
اس شخص نے ایک دفعہ لندن میں تعینات فدک چینل کے ایک براہ راستی نشری پروگرام کے ضمن میں کہا:
“مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے کتنے اردنی اور فلسطینی بھائی ایمیل کے ذریعے مجھے پیغام دیتے تھے اور کہتے تھے کہ “یہاں مالی صورت حال بہت دشوار ہے، غربت ہے، اور ہم برطانیہ ہجرت کرکے جانا چاہتے ہیں۔ اور مجھ سے راہ علاج مانگ رہے تھے چنانچہ میں نے ان سے کہا: “اگر تم عائشہ بنت ابی بکر کی شان میں گالی گلوچ اور دشنام طرازی کرو تو تمہیں یہاں لایا جائے گا، تمہیں ہفتہ وار 750 پاؤنڈ کی تنخواہ دی جائے گی اور ہائڈ پارک لندن کے بالمقال ایک اپارٹمنٹ دیا جائے گا”۔
۔۔۔۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے پر حملے کی کمان یاسر الحبیب کے ہاتھ میں تھی
حال ہی شیرازی فرقے کے کچھ افراد نے داعشی دہشت گردوں کے طرز پر نقاب پہن کر برطانیہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی پشت پناہی میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے پر حملہ کیا؛ اور حملے کی کمان یاسرالحبیب کے ہاتھ میں تھی۔
“مہنّد الشویلی”، فدک چینل کے اصلی افراد میں سے ایک اور یاسرالحبیب کا دست راست ہے جس نے ایک نشری پروگرام کے ضمن میں اعتراف کیا:
“میں برطانیہ میں رہتا ہوں، میں اس ملک کا مقروض اور مرہون منت ہوں، کیوں؟ اس لئے کہ اس ملک نے میرے لئے اچھی اور خوشگوار زندگی کا امکان فراہم کیا ہے، مجھے گھر دیا ہے، اور کبھی کبھی جب بےروزگار ہوجاتا ہوں تو MI6 والے دوستوں سے رابطہ کرتا ہوں اور وہ مجھے مالی امداد دیتے ہیں: ہر ہفتے 700 پاؤنڈ! میرے پورے کنبے کا ہر فرد الگ الگ تنخواہ لیتا ہے؛ بچوں کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ ہمارے لئے تمام تر طبی خدمات مفت فراہم کی جاتی ہیں؛ اور یہ سب سہولیات سبب بنتی ہیں کہ میں ان کی طرف مائل رہوں اور ان کی نسبت غیرت رکھوں”۔
بالفاظ دیگر، اس منحرف فرقے کی طرف سے اتنی صراحت اور وضاحت کے ساتھ انگریز کی غلامی اور ایم آئی 6 سے وابستگی کے اعترافات کا مقصد مکتب تشیّع میں فننہ انگیزی اور اختلاف و انتشار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ انگریز حکومت اور ملک برطانیہ یا پھر ملکہ برطانیہ کی نسبت غیرت اور تعصب کا دعوی کرتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ: برطانیہ نے عزاداری کے مقدس اسلامی فریضے کی آڑ میں پرتشدد ترین اور نامعقول ترین اور خونریزترین روشوں کی کھلی اجازت دے رکھی ہے، انہیں مختلف چینلز دیئے ہیں جن کی تعداد 20 تک پہنچتی ہے لیکن ایک یا دو کے سوا دوسرے چینلز پر ان کے باضابطہ موقف کا اظہار نہیں ہوتا اور ان کا کام صرف اور صرف نفرت انگیزی اور فتنہ پھیلانا ہے۔ داعش کے عمائد دوسروں کے گلے کاٹ کر اسلام کو بدنام کرتے ہیں اور اس جماعت اور اس جیسی دوسری جماعتیں خودآزاری کے حربوں کی ترویج کرکے تشدد کو فروغ دے رہے ہیں اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ گویا مذہب شیعہ یہی ہے جو ان چینلز پر متعارف کرایا جارہا ہے تا کہ مغربی دنیا میں سنی اسلام کے ساتھ ساتھ شیعہ اسلام بھی مزید نہ پنپ سکے اور فروغ نہ پاسکے۔ اور اہم ترین ہدف یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران، ولایت فقیہ اور مراجع تقلید ـ جو مذہب تشیع کے مروج اور حافظ و علمدار ہیں ـ کی بےحرمتی کو رائج کرکے یہودی ریاست اور ان کے سعودی چیلوں کا ہاتھ بٹا رہے ہیں تا کہ شیعہ مکتب ـ جو فکری اور منطقی عظمتوں کے ساتھ نجات امت کے سلسلے میں بھی اپنی استعداد ثابت کرچکا ہے اور اس وقت امت کی واحد امید ہے ـ کا چہرہ مسخ کیا جاسکے اور ساتھ ساتھ ان کے پڑوسی سنی آبادیوں کو ان کے خلاف اکسایا جاسکے۔