مومنین کی طاعتوں اور عبادتوں کی قبولیت کی آرزو کرتے ہوئے ، حوزہء علمیہ قم کے سیاسی اجتماعی دفتر کے مسئول حجۃ الاسلام و المسلمین محمد حسن زمانی کی زبانی رمضان المبارک کے اٹھارہویں دن کی دعا کی تشریح ترجمہ کرنے کا شرف حاصل کر رہی ہے ۔
“اللّهمّ وفّرْ فیهِ حَظّی من بَرَکاتِهِ و سَهّلْ سَبیلی الی خَیراتِهِ و لاتَحْرِمْنی قَبولَ حَسَناتِهِ یا هادیاً الی الحَقّ المُبین”خدایا اس مہینے میں اس کی برکتوں سے میرے حصے میں اضافہ فرما ، اور اس کی نیکیوں تک رسائی کے راستے کو میرے لیے آسان فرما ، اور اس میں کیے گئے نیک کاموں کی قبولیت سے مجھے محروم نہ کر ، اے آشکارا حق کی جانب ہدایت کرنے والے !
روزہ دار انسان اس مبارک دن میں خدا سے تین دعائیں مانگتا ہے ۔
اس دعا کے پہلے اقتباس میں آیا ہے : “ اللّهمّ وفّرْ فیهِ حَظّی من بَرَکاتِهِ ” خدایا اس مہینے میں اس کی برکتوں سے میرے حصے میں اضافہ فرما ۔
رمضان المبارک ضیافت الہی کا مہینہ ہے اور خدا وند متعال چونکہ اس مہینے میں اپنے بندوں کا میزبان ہے لہذا وہ دوسرے مہینوں کے مقابلے میں اس میں اپنے بندوں کی خاص مہمان نوازی کرے گا ۔ جیسے کہ اگر کوئی اس مہینے میں قرآن مجید کی ایک آیت کو پڑھے گا تو اسے پورے قرآن کا ثواب ملے گا ، یا یہ کہ اگر صدقہ پورے بارہ مہینوں میں ثواب رکھتا ہے تو اس مہینے میں اس کا ثواب بہت زیادہ بتایا گیا ہے ؛ معصوم علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے ؛ “مَنْ تَصَدَّقَ بِرَمَضَان وَ لَوْ بِدِر ْهَمٍ فکأنما تَصَدَّقَ بِجَبَل أَبُو قبیس ” ،جو شخص ماہ رمضان میں صدقہ دے چاہے وہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو تو گویا اس نے کوہ ابو قبیس کے برابر صدقہ دیا ہے ، یا شب ہائے قدر میں جاگنا ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر ہے جو خدا وند متعال ہمیں عنایت کرتا ہے ۔ اس دعا کے دوسرے اقتباس میں نقل ہوا ہے ؛ ” و سَهّلْ سَبیلی الی خَیراتِهِ” اور اس کی نیکیوں تک رسائی کے راستے کو میرے لیے آسان فرما .
دعا کے اس بند میں چند نکتے قابل غور ہیں ؛ پہلا نکتہ یہ ہے کہ نیک کام کرنے والے انسان دو طرح کے ہیں ، کچھ لوگ کار خیر کی انجام دہی میں مشکل سے دوچار ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اسے آسانی کے ساتھ انجام دیتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ انسانوں کے لیے دو طرح کی مشکلیں ہوتی ہیں ، کچھ نفسیاتی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں جب کہ کچھ کی مشکلیں مالی ہوتی ہیں ۔
وہ لوگ جن کی مشکل نفسیاتی ہوتی ہے ، ان کے لیے نماز شب ، مناجات ، محتاجوں کی مدد کرنے ، جہاد ، درس پڑھنے ، نیکی کی ہدایت کرنے اور برائی سے روکنے وغیرہ جیسے اعمال کی بجا آوری مشکل ہوتی ہے ، لہذا ہمیں حضرت حق سے دعا کرنا چاہیے کہ اس مشکل کو ہمارے راستے سے دور کرے اور نفسیاتی مشکلوں کو ہمارے لیے آسان کرے ۔
بعض کے سامنے کار خیر کے آلات اور وسایل کی مشکل ہوتی ہے مثال کے طور پر ایک شخص محتاجوں کی مدد کرنا چاہتا ہے ۔لیکن اس کے پاس مال نہیں ہے ۔ یا چاہتا ہے کہ اپنا علم دوسروں تک پہنچائے ، لیکن کوئی اس کو تعاون کی دعوت نہیں دیتا ، تو ایسے میں خدا سے دعا کرنا چاہیے کہ نیک کام انجام دینے کے وسایل اسے فراہم کرے ۔
اس دعا کے دوسرے بند میں دوسرا نکتہ یہ ہے : خدا نے جتن کیے ہیں کہ امور کو مومنوں اور بندوں کے لیے آسان کرے ؛ سورہء شرح کی آیت نمبر ۵ اور ۶ میں آیا ہے : “ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرا * إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً” یقینا ہر سختی کے ساتھ آسانی ہے ، جی ہاں ! یقینا ہر سختی کے ساتھ آسانی ہے ۔
اس طرح دوسری جگہ فرمایا ہے ؛ کہ خدا سے دعا کرو کہ وہ کاموں کو آسان کرے ؛” رَبِّ یَسِرْ و لا تُعَسِّر سَهِّل عَلَینا یا رب العالمین” پروردگارا آسانی پیدا کر سختی سے بچا ، اے عالمین کے پالنے والے ہمارے لیے آسانی پیدا کر ۔
فقہی احکام میں خدا کی طرف سے آسانی ،
ایک نکتہ جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگر دینی اور فقہی احکام میں کچھ کام سخت ہیں ، تو خدا نے انہیں ہمارے لیے آسان کیا ہے ، مثلا اگر کوئی مریض ہو یا مسافر ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے خدا نے اس سلسلے میں سورہء بقرہ کی آیت نمبر ۱۸۵ میں فرمایا ہے ؛” شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ هُديً لِلنَّاسِ وَ بَيِّناتٍ مِنَ الْهُدي وَ الْفُرْقانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَ مَنْ کانَ مَريضاً أَوْ عَلي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللَّهُ بِکُمُ الْيُسْرَ وَ لا يُريدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللَّهَ عَلي ما هَداکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ” رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی واضح نشانیاں موجود ہیں ، اور حق و باطل کے درمیان فارق ہے ، پس جو شخص ماہ رمضان میں اپنے گھر پر ہو وہ روزہ رکھے ، اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ان دنوں کے بجائے دوسرے دنوں میں روزہ رکھے ، خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ مشکل ، مقصد یہ ہے کہ ان دنوں کو پورا کریں ، اور خدا کی اس بات پر کہ اس نے تمہاری ہدایت کی ہے بڑائی بیان کرو تا کہ شکر ادا کر سکو !
اس دعا کے تیسرے بند میں بیان ہوا ہے :” و لاتَحْرِمْنی قَبولَ حَسَناتِهِ ” اور اس میں کیے گئے نیک کاموں کی قبولیت سے مجھے محروم نہ کر ۔
اعمال کے صحیح اور قبول ہونے میں فرق ،
قبولیت کے سلسلے میں چند موضوع قابل غور ہیں ؛
اعمال کے صحیح اور قبول ہونے میں فرق ہے ؛ نماز کے جو شرائط فقہ میں بیان ہوئے ہیں جیسے لباس کا پاک ہونا ، بدن کا پاک ہونا ، مکان کا پاک ہونا ، اور قرائت کا صحیح ہونا وغیرہ یہ نماز کے صحیح ہونے کے شرائط ہیں نہ کہ قبول ہونے کے ، اس لیے کہ قبولیت کی شرط الگ مسئلہ ہے ۔
نماز کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قضا اس کا اعادہ اور اس کی مجازات نہ ہو اور انسان نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے ؛ لیکن نماز کی قبولیت کے دوسرے شرائط ہیں ، کہ خضوع و خشوع ، مال حلال کھانا ، اور بدن میں حرام لقمے کا نہ ہونا وغیرہ ان میں کچھ شرائط ہیں ۔
تقوی عبادت کی قبولیت کی شرط ہے ،
بہت ساری عبادتیں ایسی ہیں کہ اگر فقہی شرائط کے ساتھ انجام پائیں تو عبادت صحیح ہے لیکن قبول ہونے کی دوسری شرطیں ہیں ۔
دوسرا نکتہ یہ کہ قبولیت کی ایک شرط کہ جس کو خدا نے قرآن میں بیان کیا ہے تقوی ہے ؛ سورہء مائدہ کی آیت نمبر ۲۷ میں آیا ہے :” وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبا قُرْباناً فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِما وَ لَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قالَ إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقينَ ” اور آدم کے دو فرزندوں کی سچی داستان ان کے سامنے پڑھو ؛ جب دونوں نے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی دی ، ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی ، جس بھائی کی قربانی رد ہوئی تھی اس نے دوسرے سے کہا : خدا کی قسم میں تجھے قتل کر دوں گا ۔ دوسرے بھائی نے کہا : میں نے کیا گناہ کیا ہے ؟ اس لیے کہ خدا صرف اہل تقوی کے عمل کو قبول کرتا ہے ۔ لیکن فسق ،عمل کی قبولیت میں رکاوٹ ہے ، سورہء توبہ کی آیت نمبر ۵۳ میں آیا ہے : ” قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعاً أَوْ کَرْهاً لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْکُمْ إِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْماً فاسِقينَ” کہہ دیجیے کہ جتنا چاہے خرچ کر لو خوشی سے یا مجبور ہو کر ہر گز تم سے قبول نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ تم لوگ فاسق ہو ۔
اس دعا کے آخر میں آیا ہے :“ یا هادیاً الی الحَقّ المُبین!“ اے آشکارا حق کی طرف ہدایت کرنے والے !
حق کبھی مبین ہوتا ہے اور کبھی غیر مبین ،
اگر حق اور حقیقت انسان ، مسلمان ،طالب علم یا مومن کے لیے آشکار ہو تو وہ پوری طاقت کے ساتھ خدا کے راستے پر چلتا ہے ، لیکن اگر مبہم ہو اور اس کے سامنے حق غیر مبین ہو تو اس صورت میں ممکن ہے وہ ہمیشہ خدا کے راستے پر نہ چلے ،
قرآن کریم سورہء حجر کی پہلی آیت میں فرماتا ہے : “ الر تِلْکَ آياتُ الْکِتابِ وَ قُرْآنٍ مُبينٍ“الر،یہ آیات کتاب اور روشن قرآن ہے۔ نیز سورہ مائدہ کی آیت 15 میں آیا ہے :” يا أَهْلَ الْکِتابِ قَدْ جاءَکُمْ رَسُولُنا يُبَيِّنُ لَکُمْ کَثيراً مِمَّا کُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْکِتابِ وَ يَعْفُوا عَنْ کَثيرٍ قَدْ جاءَکُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَ کِتابٌ مُبينٌ ” اے اہل کتاب ! ہمارا پیغمبر کہ جو بہت سارے آسمانی کتاب کے حقائق کو کہ جسے تم چھپاتے ہو روشن کرتا ہے ، وہ تمہاری طرف آیا ہے وہ ایسی بہت ساری چیزوں سے کہ جن کے ظاہر کرنے میں مصلحت نہیں ہے در گذر کرتا ہے ۔ بے شک اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور آیا ہے اور روشن کتاب آئی ہے ۔
نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ کی تبلیغ مبین تھی ،
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ ، مبین تبلیغ تھی ، اور حقائق لوگوں کے لیے آشکار ہو جاتے تھے ، سورہء مائدہ کی آیت نمبر ۹۲ میں آیا ہے :” وَ أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ احْذَرُوا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّما عَلي رَسُولِنَا الْبَلاغُ الْمُبينُ “خدا اور رسول کی اطاعت کرو اور اس کے فرمان کی مخالفت سے ڈرو ! اور اگر نافرمانی کرو گے تو سزا کے مستحق کہلاو گے ، جان لو کہ ہمارے پیغمبر کا کام صرف کھل کر پہنچا دینا ہے ۔
سورہء اعراف کی آیت ۱۸۴ میں آیا ہے : ” أَ وَ لَمْ يَتَفَکَّرُوا ما بِصاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذيرٌ مُبينٌ” کیا انہوں نے نہیں سوچا کہ ان کا صاحب مجنون نہیں ہے ، بلکہ وہ تو آشکارا ڈرانے والا ہے ؟
جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ مبین تھی اسی طرح تمام مبلغین کو بھی چاہیے کہ حق کو کھل کر بیان کریں تا کہ حقائق سب پر عیاں ہو جائیں ۔اس مسئلے کی ضرورت اس قدر نمایاں ہے کہ خدا وند عالم سورہء نحل کی آیت نمبر ۳۵ میں فرماتا ہے:” … فَهَلْ عَلَي الرُّسُلِ إِلاَّ الْبَلاغُ الْمُبينُ ” پس آیا کھل کر تبلغ کے علاوہ پیغمبروں کی کوئی اور ذمہ داری ہے ؟ !