قم - سنئیر ایرانی عالم دین نے کہا ہے کہ دہشتگرد گروپ داعش کا کسی خاص مذہب،نسل، فرقے یا قوم سے وابستہ تعلق نہیں بلکہ وہ امریکہ اور ناجائز صہیونی ریاست کی تخلیق ہے۔
یہ بات ایرانی کے مذہبی شہر قم کے دینی مدارس کے پروفیسر آیت الله 'محسن غرویان نے منگل کے روز ارنا کے نمائندے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ تہران کے حالیہ دہشتگردانہ حملوں کو فرقہ وارانہ تنازعات یا نسلی اختلافات کا رنگ نہیں دینا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک میں داعش اور دیگر دہشتگرد گروپوں، امریکہ اور ناجائز صہیونی ریاست کے سیاسی اداکار ہے اور اسلام کے دشمنوں اس اداکاروں کی صلاحیتوں کے استعمال سے اندرونی خانہ جنگی اور مذہبی تنازعات کو اضافہ کرنے کا خواہاں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فی الحال دہشتگرد داعش گروپ کے کارندوں اور فورسز دنیا کی سب زبانوں میں بات چیت کر رہے ہیں تو داعش گروپ کی فورسزکی زبان سے اس نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے ہیں کہ داعش کونسی زبان، کونسی قومیت اور کونسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ تہران کے حالیہ دہشتگردانہ واقعات ملک کی کسی قومیت سے منسلک نہیں اور اس حوالے سے کسی قومیت اور فرقے کو قصور وار نہیں کریں۔
غروریان نے بتایا کہ دشمنوں کی سازشوں سے نمٹنے کےلیے ملک کے سب فرقوں اور قومیتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مزید متحد ہوجانا چاہیے اور اس حوالے اپنے قومی اتحاد اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ تہران کے وقائع کے بعد ایرانی عوام اور حکومت کی یکجہتی اور اتحاد پر زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
ياد رہے کہ چار مسلح افراد نے 7 جون کو تہران ميں ايرانی پارليمنٹ کے داخلی دروازے پر تعينات سيکورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی جس کے ابتدائی نتيجے ميں تين افراد زخمی ہوگئے۔
پارليمنٹ پر فائرنگ کے چند لمحے بعد ہی فائرنگ کا دوسرا واقعہ پيش آيا جس ميں تين مسلح افراد نے تہران کے جنوبی علاقے ميں واقع بانی عظيم اسلامی انقلاب امام خمينی (رح) کے روضے کے باہر فائرنگ کردی۔
تفصیلات کے مطابق،تہران کے دہشتگردی کے واقعات کے نتیجے میں اب تک 17افراد شہید اور 52 زخمی ہوگئے ہیں۔