شہید حق و عدالت، شیخ نمر باقر النمر کے ہاتھوں کی تحریر کتاب ’’عزت و وقار کی عرضداشت‘‘ اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی سے وابستہ ابناء الرسول(ص) ثقافتی ادارے کے ذریعے منظر عام پر آ گئی۔
سانحہ منیٰ کی دوسری سالگرہ کے موقع پر اور ایسے ایام میں کہ شیخ نمر کا آبائی گاؤں آل سعود کی جارحیت اور بربریت کی آگ میں جل رہا ہے یہ کتاب دنیا کی گیارہ زندہ زبانوں میں شائع کی گئی ہے۔
کتاب ہذا ایسے مکمل منشور پر مشتمل ہے جسے شہید شیخ نمر نے سن ۲۰۰۷ عیسوی میں سعودی عرب کے نظام حکومت اور عوام کے درمیان اکھڑے ہوئے تعلقات کو صحیح اور بہتر بنانے کے لیے تحریر کیا۔
سعودی عرب کے مشرقی صوبہ کے رہنے والے عالم دین نے اپنے منشور اور پلان میں قومی نظام حکومت کے قیام عمل کے لیے اپنے ملک کے عوام کے جائز سیاسی اور سماجی مطالبات پیش کئے، ایسی حکومت جس میں عدالت، آزادی اور وقار، مقننہ، مجریہ اور عدلیہ کے ذریعے سماج کے اندر بغیر کسی تبعیض اور امتیازی سلوک کے پایا جاتا ہو۔
کتاب عزت و وقار کی عرضداشت ۳۳۲ صفحوں پر مشتمل، اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی سے وابستہ موسسہ ابناء الرسول کے ذریعے شائع کی گئی ہے۔
یہ کتاب دنیا کی زندہ ۱۱ زبانوں؛ فارسی، عربی، انگلیش، اردو، ترکی، فرانسوی، ہسپانوی، روسی، انڈونیشیائی، ہندی اور تاملی میں عالمی موسسہ شہید آیت اللہ نمر اور خبر رساں ایجنسی ابنا کے تعاون سے اس کا ترجمہ کیا گیا۔
اس کتاب کی پی ڈی ایف فائل حاصل کرنے کے لئے درج ذیل لینک پر رجوع کریں:
http://ahl-ul-bayt.org/fa/books?id=964
کتاب ہذا کے آغاز میں جو مختصر مقدمہ تحریر کیا گیا ہے جو درج ذیل ہے:
۲۰۰۷ کے موسم گرما میں سعودی عرب کے مشرقی علاقے کے رہنے والے عالم دین شہید شیخ نمر باقر النمر نے ایک سیاسی و سماجی ترقیاتی پلان اور منشور پیش کیا تھا جو اس ملک کے سیاسی اور سماجی حالات کو بہتر بنانے اور حکومت و ملت کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کے لیے ایک بہترین اور لاجواب لائحہ عمل تھا۔
شیخ نمر نے اس منصوبہ اور منشور کو ’’ریضۃ العزۃ و الکرامۃ‘‘ (عزت و وقار کی عرضداشت) کے عنوان سے سعودی عرب کی حکومت کو پیش کیا اور اس کے بعد اپنے اس ایجاد کردہ منشور کو عملی جامہ پہنانے کے طریقہ کار کو نماز جمعہ کے خطبوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مبتکرانہ عرضداشت کے ذریعے کوشش کی جاتی ہے کہ عدالت، برابری، آزادی اور سربلندی کے بنیادی قواعد پر مبنی عوامی حکومت کا وجود عمل میں لایا جائے اور اس کی قانونی حمایت، منصفانہ عدلیہ کے ذریعے کی جائے۔
یہ عرضداشت سعودی عرب کے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے عوام کے مطالبات کا خلاصہ اور عوامی حکومت کے قیام کو عمل میں لانے کا ایک شرعی منشور تھا۔ ایسی حکومت جس میں عدالت، آزادی اور سربلندی قانونی اور عدالتی دائرے میں بغیر کسی امتیاز کے تحقق پائے۔
شیخ نمر کی عرضداشت نے سعودی عرب کے اندرونی اور بیرونی افکار کی توجہ کو اپنی طرف جلب کر لیا، ان کی یہ تحریر ہر عام و خاص کا موضوع سخن بن گئی۔ یہ وہ چیز تھی جس نے آل سعود کی نیندوں کو حرام کر دیا۔ حالانکہ اگر سعودی حکومت اس منشور کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی رعایا کے پامال ہو رہے شہری حقوق پر تجدید نظر کرتی تو ملک کی صورت حال میں بہتری آ سکتی تھی۔
اُدھر شیخ نمر کا اپنی عرضداشت پر ثابت قدم رہنا اور اسے بار بار جمعے کے خطبوں میں دھرانا اس بات کا باعث بنا کہ ۸ جولائی ۲۰۱۲ کو حکومتی معیاروں کے خلاف زبان کھولنے کے جرم میں وحشیانہ طریقے سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ دنیا نے سیٹلائٹس چینلوں کے ذریعے دیکھا کہ کس بے دردی سے آیت اللہ نمر کو گرفتار کیا گیا۔ سکیورٹی مزدوروں نے ان کی گاڑی کا تعاقب کیا اور گولی چلائی جس کی وجہ سے ان کی دونوں ٹانگوں میں گولیاں پیوست ہو گئیں۔ اور بے ہوشی کے عالم میں انہیں جیل میں بند کر دیا گیا۔
بعد از آں شیخ نمر کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا گیا۔ اور سعودی فوجداری نے ۱۵ اکتوبر ۲۰۱۴ کو ۱۳ عدالتی سماعتوں کے بعد آیت اللہ نمر کو سزائے موت دیئے جانے کا حکم صادر کر دیا۔ یہ سیاسی اور ظالمانہ فیصلہ آیت اللہ نمر کے اس اصلاحی منشور کی وجہ سے تھا جو نہ صرف سعودی حکومت کے نقصان میں نہیں تھا بلکہ حکومت اور عوام دونوں کے لیے مفید فائدہ تھا۔ لیکن آل سعود نے دولت اور غرور کے نشے بلکہ یہود و نصاریٰ سے دوستی کے غرور میں آکر ۲ جنوری ۲۰۱۶ کو انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا۔
جو کچھ اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے وہ شہید شیخ نمر باقر النمر کی اسی تحریر کا مکمل ترجمہ ہے جسے ’’عالمی کمیٹی برائے ہمدلی با شیخ نمر‘‘ اور ’’خبر رساں ایجنسی ابنا‘‘ کے تعاون سے تیار اور ترجمہ کروا کر ایک بار پھر منظر عام پر لانے کی سعادت حاصل کی ہے تاکہ روشن خیال رکھنے والے تمام انسان اس تاریخی سند کی حقیقت اور اس میں بیان کئے گئے سیاسی اور فلاحی مطالبات سے آشنا ہوں اور اس کے بعد خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ منشور اور پلان، حمایت اور حوصلہ افزائی کا طلبگار ہے یا جیل اور سزائے موت کا؟
سید علی رضا حسینی عارف
مدیر ادارہ ثقافتی ابناء الرسول