حجۃ الاسلام والمسلمین علی رضا پناہیان کے ٹیلیگرام میں ظہورکی تاخیرکےاصلی اسباب کے باب میں آیا ہے:
دسواں نکتہ: ہمیں سماجی کامیاب کام کا معلوم نہیں ہے
ہماری تربیت اورنشوونما اس حدتک ہونی چاہیےکہ ہم اپنے سماجی روابط میں اپنی آزمائشوں میں سرخرو ہوں۔ لیکن ہم سماجی امتحانات سے بچنے کے لیےگروہی اورسماجی کام نہیں کرتے ہیں اور ہمارے روابط فقط احوال پرسی کی حدتک ہیں۔
گیارہوں نکتہ: اخلاقی فضائل پرمشتمل گروہی زندگی
ظہوراس چیزکا منتظرہےکہ ہم اپنی معاشرتی زندگی کو تقویٰ اوراخلاقی فضائل پراستوار کریں اور سماجی روابط میں توحید پرستی کا جلوہ نمایاں ہونا چاہیے۔اگرسچ کہتے ہیں تو مل کرکام کریں اس کے بعد اگر تمہاری صلاحیتوں کی وجہ سے حاصل ہونے والے بعض مفادات تمہارے دوست کے لیےمفید ثابت ہوں اورتمہارے دوست کے عیوب کی نسبت تمہاری طرف دی جائے تواس وقت کام کا آغاز ہوتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس انفرادی تقویٰ اورروحانیت کا اثرظاہرہوتا بھی ہےیا نہیں؟
بارہوں نکتہ:
جب آپ نے سماجی زندگی میں ایک گروہ تشکیل دیا تو پھراس وقت جھگڑا بھی شروع ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ایک لڑکا اورلڑکی جب تک شادی نہیں کرتے توایک دوسرے پرقربان ہونےکی باتیں کرتے ہیں؛لیکن شادی کے بعد لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں کیوں؟ کیونکہ اب وہ ایک دوسرے سے وابستہ ہوگئے ہیں اورانہیں اپنی(منیت) سے چشم پوشی کرنی چاہیے۔ گروہی اورسماجی کام بھی ایسا ہی ہےکہ جو تمہیں گھیرلیتا ہے اورپھرتمہاری ترقی کا باعث بنتا ہے۔