امام خمینی (رہ) تعلیمی و تحقیقی ادارہ کے سربراہ آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی نے ایران کے مقدس شہر قم میں قائد انقلاب اسلامی کے آفس میں منعقدہ درس اخلاق میں حکومت کی قانونی حیثیت کے مطالب کو بیان کرتے ہوئے کہا : اگر خلیفہ کو معین کرنا عوام کے ہاتھ میں ہے اور اس کا نظر قانونی حیثیت رکھتا ہے تو لوگوں نے جس کسی کو بھی چنا تو اس وقت علی علیہ السلام کی ذمہ داری تھی کہ اس کی تابعیت کرتے لیکن حضرت نے ایسا نہیں کیا جب تک کہ دیکھا لوگ دین سے واپس ہو رہے ہیں اور مرتد ہونے لگے ہیں ۔
انہوں نے وضاحت کی : مسئلہ صرف مرتد ہونے کا نہیں تھا بلکہ لوگ اس بات پر یقیقن کرنے لگے تھے اسلام ختم ہو جانا چاہئے تو امام اس وقت اسلام کی حفاظت کے لئے خلفا کی مدد کی تا کہ اسلام کو کسی طرح کا خطرہ لاحق نہ ہو اور دین اصیل محمدی ختم نہ ہو جائے ، خلفا علمی و سیاسی و فوجی مسائل میں امیرمؤمنان علی (ع) سے مشورہ کرتے تھے ۔
حوزہ علمیہ قم میں جامعہ مدرسین کے ممبر نے اس بیان کے ساتھ کہ شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام کو معصوم ہونا چاہیئے اور خداوند عالم کی طرف سے منصوب ہو ، اس نظریہ کے مطابق اگر کوئی شخص اس عقیدہ کو نہیں رکھتا ہے تو وہ شیعہ نہیں ہے ، یہاں پر یہ بات بھی ذکر کرتا چلوں کہ حکومت کی قانونی حیثیت لوگوں کے ووٹ سے تھا اور لوگوں نے علی (ع) کو ووٹ نہیں دیا اس لئے وہ قانونی طور پر حکومت نہیں بنا سکتے حالانکہ قانونی حیثیت یعنی وہ جو خدا کی طرف سے اجازت دی گئی ہو نہ کہ عوام منتخب کرے ، اگر قانونی حیثیت سے مراد کچھ اور ہو تو اس کی الگ بحث ہے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : خلیفہ سوم کا رویہ مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے لئے نا راضی کا سبب ہوا ، یہ یاد رہے کہ بعض لوگ اس فکر میں ہیں کہ اگر پچاس فیصد بہ اضافہ ایک ووٹ حاصل کر کے صدر جمہور ہو گئے تو تمام چیزوں کا اختار ہو گیا اور مال و پسٹ و مقام سے جیسے بھی چاہے نگے استفادہ کرے نگے ، بعض لوگ بھی اس طرح کا خیال رکھتے تھے کہ اگر خلیفہ ہو گئے تو جیسے بھی چاہے نگے عمل و بذل و بخشش کرے نگے اور سخاوت کا مظاہرہ کرے نگے اور یہ سخاوت خیلفہ کے رشتہ داروں تک میں تھا ۔
آیت اللہ مصباح یزدی نے بیان کیا : خلیفہ سوم کے بعد مسلمانوں کی نا رضایتی کی وجہ سے لوگ امیر المومنین علی علیہ السلام کے پاس جوق در جوق پہوچے اور ان سے بیعت کرنے لگے جمعیت اس قدر تھی کہ امام حسن و امام حسین (ع) اس مجمع میں کچلے جانے لگے تھے ؛ اگر کوئی عادی انسان ہوتا تو اس عوام پر اعتماد نہیں کرتا کیوںکہ ان لوگوں نے پیغمبر اکرم ص کے صریح حکم کی خلاف ورزی کی تھی اور دوسری طرف امیر المومنین کو اس زمانہ کے لوگون پر حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔
انہوں نے بیان کیا : حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کے اصرار پر حکومت کو قبول کر بھی لیتے ہیں تو کسی کے تابع نہیں رہونگا اور صرف خداوند عالم کا حکم اور سنت پیغمبر ص پر عمل کرونگا ، حضرت نے اتمام حجت کر دی کہ بعد میں کوئی بیعت کی وجہ سے امید نہ کرے ۔