علماء اور عوام کے ساتھ پولیس کے وحشیانہ سلوک اور وقف مافیائوں کی بربریت کے خلاف مظفر پور میں یوم سیاہ منایا گیا
M.U.H
21/07/2018
تاریخ ہندوستان، بالخصوص تاریخ بہار کے اوراق پر آج سے ٹھیک ایک سال قبل 21جولائی 2017 کو بروز جمعہ ایک بدنما داغ مرتب ہوا۔ تمام عالم انسانیت نے اپنی آنکھوں سے نہایت سنگین ظلم و ستم کا دیدار کیا کہ جب اس وقت کہ مظفر پور اعلی انتظامیہ (بالخصوص ڈی۔ایم۔دھرمیندرسنگھ، معطل ایس۔ایس۔پی ویویک کمار، ڈی۔ایس۔پی۔ آشیش آنند، ایس۔ ڈی۔ او۔ سنیل کمار اور دیگر افسروں) نے شہر کے خطرناک مجرموں کے ساتھ مل کر حکومت بہار کے حمایت یافتہ شیعہ وقف بورڈ ، پٹنہ کے بدعنوان عہدیدواروں (چیئرمین ارشاد علی آزاد، انسپکٹر عارف رضا، سی۔ای۔او۔ انور حسین) کے اشاروں پر مولانا جناب سید محمد کاظم ، شبیب ، امامِ جمعہ ، شیعہ جامع مسجد ، محلہ کمرہ، مظفرپور کے رہائش گاہ پر بعد نماز جمعہ انتہا درجے کی بربریت کا مظاہرہ کیا اور مولانا ، ان کے کئی ساتھیوں پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔
مولانا کا ہاتھ توڑ دیا گیا ۔ کئی روز مولانا اور ان کے کئی ساتھی زخمی حالت میں اسپتال میں رہے۔ یہ سارے کریمنلس اچھی طرح جانتے تھے کہ مولانا ہارٹ کے مریض ہیں اور بائی پاس سرجری ہو چکی ہے۔ اس کے لیے دوائیں لیتے ہیں۔ دونوں آنکھوں میں کالے موتیے کا آپریشن ہو چکا ہے ۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض ہیں، اتنا مارو کہ قصہ ختم ہو جائے۔ اس روز مولانا کا بچ جاناایک معجزہ ہے۔ مولانا کے گھر کو تاراج کیا اور مال و اسباب لوٹ لیے گئے۔ مولانا کے لائبریری کو مسمار کیا گیا۔ مذہبی کتابیں جن میں قرآن کریم بھی ہے ، زمین پر اٹھا اٹھا کر پھینکی گئیں۔ یہ سارے کارنامے پولس انتظامیہ ، لینڈمافیہ اور خونخوار کریمنلس نے شانہ بشانہ انجام دیے ۔ یہ اتنے دلیر تھے کہ انہیں اس کا بھی خوف نہیں تھا کہ یہ ساری گھنونی حرکتیں تصاویر اور ویڈیو میں ریکارڈ ہوتی جا رہی ہیں۔ ضعیف افراد ، خواتین اور بچوں کو بے رحمی سے زد و کوب کرکے بے تحاشہ زخمی کر دیا گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مظاہرۂ سفاکی کا سبب کیا تھا؟ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مولانا اپنے حامیوں اور ساتھیوں کے ساتھ گذشتہ سات سالوں سے مستقل شیعہ وقف کے املاک خصوصی طور پر نواب محمد تقی خان وقف اسٹیٹ کمرہ مظفرپور، صغریٰ بیگم شیعہ وقف پکی سرائے ، کرار صاحب کی باڑی، مظفر پور شیعہ قبرستان ، چھوٹی کربلا، گولا روڈ ، مظفرپور، اوقاف برھمپور، مظفر پور بڑی کربلا مظفرپور، کولہوا مظفرپوراور دیگر تمام اوقاف مظفر پور اور بہار کے دیگر ضلعوں میں ہونے والی بدعنوانیوں کے خلاف تحفظ املاک ِ اوقاف کے لیے آئینی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش پر آمادہ ہے۔
ظاہر ہے کہ جس شیعہ وقف بورڈ کے زیر سرپرستی حد سے زائد اوقاف تباہ ہو گئے ہیں، انہیں مولانا کی یہ مہم نشتر کی طرح چبھ رہی ہے۔ زمین کے مافیہ اور بڑے بڑے کریمنلس کی حرامخوریوںکے خلاف مولانا مستقل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔
مولانا کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن پروپیگنڈہ کو اپنایا گیا ۔ سوشل میڈیایر گذشتہ کئی سالوں سے انتہائی نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جاتارہا۔ ہزاروں گالیاں اور دھمکی بھرے گمنام خط بھیجے گئے یہاں تک قتل کی سازش بھی رچی گئی ۔ تمام مکرو فریب کے راستے ، ڈرانے دھمکانے کے وسیلے جب ناکام نظر آئے تو دو درجن سے زیادہ جھوٹے ایف۔آئی ۔آر اور مقدمات مولانا اور ان کے حمایت کرنے والوں یر لاد دیے گئے ۔ مولانا کا عزم و ارادہ مسلسل بڑھتا رہا۔ لہذا شیعہ وقف بورڈ مظفر پور کی اس وقت کی اعلیٰ انتظامیہ اور نامور مجرموں نے مل کر ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش کے تحت مولانا اور ان کے ساتھیوں پر جان لیوا حملہ کیا۔ سبھوں کو شدید زخمی کیااور 32لوگوں کو گرفتار کیا۔ مولانا تقریباً ساڑھے تین مہینے جیل میں رہے۔
لہذا آج 21جولائی 2018 بروز سنیچر ہم اس ظلم کے خلاف احتجاج کا اعلان کرتے ہیں اور تمام ارباب انصاف کے ذہنوں کے مرکوز کر کچھ اہم سوالوں کے لیے دعوتِ فکر دیتے ہیں۔
(1) ایک عالم دین مذہبی پیشوا جو امام جمعہ ہے جامع مسجد کا ، اس کی شان میں گذشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پر نازیبا الفاظ، گالیوں کا سلسلہ جاری رہا مگر انتظایہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ شاید اس مقصد سے مولانا کے ساتھی افراد میں لگاتار غم و غصہ بڑھتا رہا۔ کیا یہ کسی اور ملک و مذہب کے پیشوا کے ساتھ تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟
(2) آخر ایسی کیابات تھی کہ مظفر پور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے اپنے ساتھ خونخوار کریمنلس کو لے کر مولانا اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کیا۔ کیا حکومت بہار کبھی اس سوال کا جواب دے پائے گی؟ کیا یہ حکومت بہار کے لیے سنہرے لفظوں میں لکھے جانے والے اقدام ہیں؟
(3) کیا بدعنوانیوں کے خلاف احتجاج کو ہمارا آئین اجازت نہیں دیتا؟ آخر ایسی کیا بات ہے کہ 21جولائی 2017 کے سیاہ کرتوتوں کو چھپانے کے لیے شیعہ وقف بورڈ مستقل ایک سال سے وقف کے املاک میں ہوئی چوریوں کا اعتراف کرنے لگا۔ یہ21جولائی 2017 کا ایسا کون سا میجک نمبر تھا کہ شیعہ وقف بورڈ ، حکومت بہار ، انتظامیہ تک کو نظر آنے لگا کہ نواب تقی خان کی زمین 7بگہہ سے زیادہ تھی جو گھٹ کر تقریباً 3بگہہ رہ گئی ، کولہوا کے وقف کے متولیوں کو معطل کر دیا گیا۔ اور ایسی کتنی روزانہ خبریں آتی ہیں کہ یہاں کا وقف آزاد کرایا گیا اور وہاں کا۔ یہ سب فریب دینے والی ایمانداریاں 21جولائی کے بعد ہی نظر کیوں آنے لگیں؟
بقولِ مرزا غالب:
کی میرے قتل کے بعد، اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
کیا یہ دھول جھونکنا 21جولائی 2017 کو کیے گئے پاپوں کو دھو سکیں گے؟ یہی بات تو مولانا سات سال سے اٹھا رہے تھے۔ کیا ان ڈراموں سے 21جولائی 2017 کے ظلم کے پاپی خود کو بچا سکیں گے؟ ستم بالائے ستم دوسری طرف وقف بورڈ اپنے لوگوں کو اوقاف کا متولی بنا نے میں لگا ہے جو صبح شام سوشل میڈیا یر مولانا کو گالیاں دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔
(4) مولانا کے جتنے بھی احتجاجی جلسے و جلوس ہوئے ہیں، پٹنا سے لے کر مظفر پور تک، کوئی بھی ثابت کر سکتا ہے کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا بھی تشدد ہوا ہو۔ کسی کو خراش بھی آئی ہو؟ کیا اس سے بھی زیادہ پر امن احتجاج ممکن ہے؟
(5) اس وقت کی انتظامیہ(خاص طور پرمعطل ایس۔ایس۔ پی۔ ویویک کمار، ڈی۔ایم۔ دھرمیندر سنگھ اور ہوم سیکریٹری عامر سبحانی ) نے لکھ کر دیا کہ مولانا سنی وقف صغریٰ بیگم وقف پر حملہ آور ہو رہے ہیںاور شیعہ سنی کا فساد ہو جائے گا اور بعد میں ہندو مسلم کی صورت اختیار کرلے گا۔
ہوم سیکریٹری جیسی نہایت ذمہ دار منصب پر فائز عامر سبحانی کبھی بھی اس غیر ذمہ دارافواہ اور عوام کو مشتعل کرنے والے بیان سے اپنا داغدار دامن دھو پائیں گے؟ کیا صغریٰ بیگم سنی وقف ہے؟ کیا متولی اسرار حسین سنی ہیں؟ اتنی غیر ذمہ دارانہ حرکت جس میں مولانا اور ان کے ساتھیوں کو تباہ و برباد کیا ، یہ سوچی سمجھی سازش تھی، جس میں ہوم سکیریٹری ، شیعہ وقف بورڈ، سارے کریمنلس ، لینڈمافیا، مظفر پور انتظامیہ برابر کے شریک ہیں۔ کیا یہ سوال وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار صاحب اپنے ہوم سکریٹری سے پوچھ سکیں گے ؟ شیعہ وقف کے تحفظ کی مہم کو شیعہ سنی، ہندو مسلم رنگ دینے میں ارباب انصاب خود فیصلہ کریں کہ عامر سبحانی، ویویک کمار، دھرمیندر کمار، شیعہ وقف بورڈ کا ہاتھ ہے یا مولانا کا ؟ کیا اس سنگین مسئلے کے لیے جو کسی قسم کے بھی برے حالات میں تبدیل ہو سکتاہے ، ہائی لیول CBI, SITیا Judicial انکوائری نہیں ہونی چاہیے یا ان باتوں کو ہوا میں اڑا دینا چاہیے؟ ارے مولانا تو صرف شیعہ وقف کے املاک کے بات کرتے آئے ہیںانہیں کیا مطلب سنی وقف سے یا دوسری مذہبی جائیداد سے ؟ کیا سنی عالم دین یا کوئی ہندو پیشوا اپنے مذہبی املاک کے تحفظ کے لیے سوال اٹھائے تو یہی رنگ دینا مناسب ہوگا؟ بہت بڑا ظلم ہوا ہے اور ہم سب کے لیے ایک اہم لمحہ فکریہ ہے ۔ اس سوال کا جواب ہمارے وزیر اعلیٰ نتیش کمار صاحب ، ہوم سیکریٹری عامر سبحانی اور اس وقت کے ڈی۔ایم، ایس۔ ایس۔ پی۔ سبھوں کو کہیں نہ کہیں دینا پڑے یا نہ پڑے اپنے ضمیر کو ضرور دینا پڑے گا۔
(8) کیا ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سزا مولانا کو سنانی چاہیے ، گرفتا مولانا کو کیا جانا چاہیے یا ان سبھی لوگوں کو جو صغریٰ بیگم کو سنی وقف بتاکر شیعہ سنی دنگہ بھڑکانے کی کوشش کی، ہندو مسلمان جیسے گندے الزامات لگائے اور مولانا کے ساتھیوں پر ظلم کا جواز ڈھونڈھا؟ آج جو لوگ حکوت میں ہیں ، انکے پاس طاقت ہے ، جو چاہیں کریں، آنے والی نسلیں ان سے یہ سارے سوالات پوچھیں گے اور لعنتوں کا ایک سلسلہ ہوگا۔
(9) آئیے تھوڑی دیر کے لیے بفرض محال تسلیم کر لیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوا ، مولانا ایسی سزا کے حقدار تھے بلکہ ان کو اس صفحہ ہستی پر رہنے کا حق بھی نہیں ہے۔ کیا بچوں ، عورتوں، ضعیفوں پر تشدد جائز تھا ؟ حکومت بہار مکمل خاموش تماشائی رہی۔ کہیں کسی گوشے سے کوئی مذمت کا نہ بیان آیا نہ پیغام۔ افسوس صد افسوس۔
(10) او ر اخیر میں ، بہت حساس سوال، کیا حکومت کسی دینی پیشوا پر جس کی امامت میں ہزاروں لوگ نمازیں ادا کرتے ہیں، ایسا حملہ تصور کر سکتی ہے؟ ایسا حملہ خونخوار کریمنلس اور بڑے بڑے آتنک وادیوں یر بھی نہیں کیا جاتا۔ کیا یہ صرف اسی لیے ممکن نہیں ہوا کہ مولانا اقلیت در اقلیت کے مذہبی پیشوا ہیں۔ کیا یہ بزدلی اور کم ظرفی نہیں ہے؟ ہندوستان کے حب الوطن عوام ہونے کے ناطے ہم سبھوں کے سر جھکے ہیںاور دل غم سے بھرے ہیں۔ اپنی ملک کی سمجھدار عوام کے جذبے انصاف پر یقین رکھتے ہوئے بہت افسوس کے ساتھ اس اہم مسئلے کی طرف نشاندہی کرنی پڑ رہی ہے ۔ بڑے افسوس کے ساتھ بتانا پڑھ رہا ہے کہ آج تک ہندوستان کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔ یہ شرمناک واقعات دوسرے ممالک میں نہیں دیکھنے کو آتے ہیں، حکومت بہار نے ملکِ ہندوستان کو رسوا و شرمسار کیا ہے۔
بہر حال سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے۔
حکومت بہار نے جن شرمناک حرکتوں کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ بھی شیعہ وقف بورڈ کے بدعنوان عہدیداروں، لینڈمافیا اور کریمنلس کے ناجائز مفاد کے تحفظ کے لیے شاید آنے والی نسلیں اسے کبھی معاف نہ کریں ۔ کل جو تاریخ لکھی جائے گی ، انہیں ہمیشہ شرمشار کرتی رہے گی۔
لہذا اس بربریت ، ظلم و تشدد کی مذمت کے لیے جو آج سے ایک سال قبل پیش آیا، ملک بھر کے شیعہ افراد ، ساکن مظفرپور ہندوستان، صاحبان عدل و انصاف ، ہمدردان غرباء و مساکین یومِ سیاہ منا رہے ہیں۔ ہمارے دل غم و اندوہ سے لبریز ہیں۔ مجرم و ظالم اب بھی دلیر ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ مولانا پر جھوٹے FIR ہو جھوٹے کیس، بہتان و الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر نازیبا توہین آمیز الفاظ و کلمات سے مولانا پر مستقل حملے کیے جارہے ہیں۔ مولانا کے ہمدردان کو مشتعل کرنے کی لگاتارکوشش جاری ہے، حکومت و انتظامیہ خاموش تماشائی ہے۔