19 رمضان 40 ہجری کو ابن ملجم کی زہر آلودہ تلوار سے زخمی ہو کر 21 رمضان کو امیر المومنین علیہ السلام اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔
اسلام کا ستون، اللہ کے شیر، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زور بازو امام المتقین مولائے مولا علی علیہ السلام کوفے کے بے آسرا یتیموں کو روتا چھوڑ کر 21 ارمضان 40 ہجری کو اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔
آپ کی پوری زندگی فقط خوشنودی خدا اور اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بسر ہوئی۔
عدالت ہو کہ شجاعت، عبادت ہو یا فہم و فراست، سخاوت ہو یا طہارت، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ پوری کائینات میں مولا علی علیہ السلام کا کوئی جواب نہیں۔
آپ کی عبادت کائنات میں شہرہ آفاق تھی، آپ کی ایک کیفیت یہ تھی کہ وضو شروع کرتے تھے تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا، کہ رب العالمین کی بارگاہ میں حاضری دینا ہے۔
نماز ادا کرتے ہوئے لرزتے رہتے تھے کہ میں اس کی بارگاہ میں کھڑا ہوں جو روزِ قیامت کا مالک ہے جس کا سارا ملک اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور کسی کا کوئی اختیار نہیں اور مال و اولاد میں سے کوئی کام آنے والا نہیں ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کہتے ہیں کہ ہمیں اس امت میں پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےبعدکوئیایساشخصنظرنہیںآتاجوعلیبنابیطالب علیہ السلامسےبڑھ کر عابد و زاہد ہو۔
مولائے کائینات علی بن ابی طالب علیہ السلام کو دنیا اور اس کی رونقوں اور لذتوں سے کوئی غرض نہیں تھی، لہٰذا دنیا میں جو کام بھی ہوتا تھا محض رضائے الٰہی کی خاطر ہوتا تھا اور آپ جو کام بھی کرتے محض ثواب و مرضات خداوندی کے لئے ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کی عبادت خلوص پر مبنی ہوتی اور اگر آپ کو میدان جنگ میں تیر لگ جاتا تو وہ تیر اس وقت نکالا جاتا جب آپ نماز کی حالت میں ہوتے اور اس وقت آپ کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ تیر نکالا جارہا ہے، اس لئے کہ نماز میں فنا فی اللہ ہو کر جمالِ حق کے منشاء ہونے میں مستغرق اور ماسوی اللہ سے بالکل بے خبر ہوتے تھے۔
بقول مفسرین سورہ فتح کی آیت 29، آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے:
تَرَایھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِی وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ
تو ان کو دیکھے گا کہ (اللہ کے سامنے) جھکے سربسجود ہیں، خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے خواستگار ہیں، کثرتِ سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشانات پڑے ہوئے ہیں۔
کتاب مناقب ابن شہر آشوب میں کتاب روضۃ الواعظین سے نیشابوری کی روایت کے مطابق کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اتری:
اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنآءَ اللَّیْلِ سَاجِداً وَّقَاءِماً یَّحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہ
کیا جو شخص رات کے اوقات میں سجدہ کر کے اور کھڑے ہو کر خدا کی عبادت کرتا ہو اور آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کا امید وار ہو ۔۔۔(ناشکرے کافر کے برابر ہو سکتا ہے؟)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی سورۃ فاطر کی آیت 32 مولا علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی تھی کہ ان میں سے کچھ لوگ خدا کے اختیار سے نیکیوں میں اوروں سے گوئے سبقت لے گئے ہیں۔
خدا وندِ عالم سورہ مائدہ کی آیت 55 میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّمَا وَلِیُّکمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃ وَہُمْ رَاکِعُونَ‘‘
تمہارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہلِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مولا علی علیہ السلام نے مسجدِ نبوی میں سائل کو حالتِ رکوع میں انگشتری عطا فرمائی تھی۔
ضرار بن ضمرہ ضبابی جو امیرالمومنین ؑ کے خواص میں سے تھے فرماتے ہیں کہ:
خدا کی قسم ! علی ؑ یقین کامل کے مالک تھے ، ہر لحاظ سے قوی، حق بات کہتے تھے، عدل پر مبنی فیصلے کیا کرتے تھے، آپ کے وجود سے علم کے سوتے پھوٹتے تھے تمام وجود سے حکمت کے موتی جھڑتے تھے، دنیا اور اس کی زرق برق سے وحشت کرتے تھے اوررات کی تاریکی اور اس کی وحشت سے مانوس تھے، خوفِ خدا میں ان کی آنکھوں سے مسلسل اشک رواں تھے، طویل فکر کے مالک تھے، ہاتھوں کو مل کر اپنے آپ کو ملامت کرتے تھے اور اپنے رب سے مناجات کرتے تھے، موٹا کپڑا پہنتے تھے اور روکھی سوکھی روٹی پر گزارہ کیا کرتے تھے ، خدا کی قسم وہ ہمارے درمیان خود ہم جیسے تھے، جب ہم ان کے پاس جاتے تو وہ ہمیں اپنے نزدیک بٹھاتے ، جب ان سے سوال کرتے تو اس کا جواب عنایت فرماتے، باوجودیکہ محفل میں ہمیں ان کا قرب حاصل ہوتا اور ہم ان کے ہم نشین ہوتے مگر ان کا رعب اور ہیبت اس قدر تھی کہ ہمیں بات کرنے کی جرأت نہیں ہوپاتی تھی، ان کی عظمت اس قدر تھی کہ ہم ان کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے، جب وہ مسکراتے تو معلوم ہوتا کہ ان کے لبوں کے ساتھ موتی جڑے ہوئے ہیں، متدین افراد کی عزت کرتے تھے اور فقراء و مساکین کے ساتھ محبت کیا کرتے تھے، نہ تو کوئی طاقتور انسان اپنے باطل دعویٰ میں ان سے اپنے حق میں فیصلے کی توقع رکھ سکتا تھا اور نہ ہی کوئی کمزور شخص ان کے عدل سے ناامید ہوتا تھا۔
ایک شاعر نے مولا علی علیہ السلام کی شان بیان کرتے ہو جو شعر لکھے ان کا ترجمہ ہے کہ:
میدانِ جنگ میں دشمن کے گروہوں کو منتشر کرنے والے اور گردنوں کے مارنے والے بت شکن اور مشکل کشا علی علیہ السلام، وہ محرابِ عبادت میں عابد و زاہد ، رکوع اور سجود کو رات کی تاریکیوں میں بجالاتے ہیں، دوپہر کی شخصیت گرمیوں میں روزے سے ہوتے ہیں اور اگر روزے کی افطاری کے وقت دروازے پر سائل آجاتا ہے تو کھانا اسے دے کر خود بھوکے سو جاتے ہں۔
عظمت کے اسی مینارے کو ڈھانے کے لئے ابن ملجم سن40 ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آ کر بیٹھ گیا۔
حضرت علی علیہ السلام سجدہ میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ پر تلوار کا وار کیا۔
آپ کے سر سے خون جاری ہوا آپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئی۔ اس حالت میں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا،” فزت و رب الکعبه “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی،”ہم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ہے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک سے تمہیں دوباره اٹھائیں گے “۔
حضرت علی علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔
انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی، ” میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور وصیت کرتا ہوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ہمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رہو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو، نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمہارے دین کا ستون ہے“۔
آپ کے رحم و کرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لایا گیا، اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا۔
اپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام و امام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کر دوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہرگز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بیچینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔
آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئی حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیز و تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف میں دفن کیا جہاں ہر سال کروڑوں مومنین و مومنات زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔