ایک روشن بین با بصیرت بزرگ، ایک مجتہد، حوزہ علمیہ کے ایک استاد اور اسلامی انقلاب کے رہبر معظم اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) نے 40 سال محمدی اسلام اور امریکی اسلام کا نظریہ پیش کیا تو چالیس سال تک کروڑوں خرچ کرکے اس نظریئے کو جھٹلانے کی کوشش کی گئی لیکن یا للعجب، کہ امریکہ کی قیادت میں عرب اور مسلمان حکمران اکٹھے ہوئے، 250 ارب ڈالر کی لاگت کی ایک کانفرنس ہوئی، 150 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے سودے ہوئے، 500 ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے، ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحائف دیئے گئے، کیا یہ صرف اس لئے تھا کہ ثابت ہوجائے کہ امام کا نظریہ 100 فیصد درست تھا! امریکی اسلام کا باقاعدہ اعلان ہوا۔ امریکی اسلام یعنی پاکستانی اسلام، بنگلہ دیشی اسلامی، سعودی اسلام، عربی اسلام وغیرہ وغیرہ، امریکی اسلام کے لئے اٹھائے گئے اخراجات میں پاکستان کا حصہ بھی بہت بڑا تھا، اس ملک نے وہاں پیسے خرچ نہیں کئے بلکہ ایک جرنیل خرچ کیا، ایک آرمی چیف، جوہری ہتھیاروں کے مالک واحد اسلامی ملک کی افواج کا سابق سپہ سالار۔ سعودیوں نے اپنے راحیل شریف کو ایک نوکر کی اوقات خوب یاد دلا دی اور انہیں کفر و شرک و استکبار کے سرغنۂ اعظم جناب ڈونلڈ ٹرمپ ـ جس کی بہت سی نشانیاں دجال سے ملتی جلتی ہیں ـ کے شیطانی دورے کے لئے ایک ذیلی افسر کے طور پر حفاظتی منصوبہ تیار کرنے کا ٹاسک دیا اور جناب نے تندہی سے منصوبہ تیار کیا جس کو ایک سعودی جرنیل نے ان کے ہاتھ سے چھین کر امریکی سفارتخانے پہنچایا اور پھر واپس آکر منصوبہ ان کی میز پر پھینکتے ہوئے کہا: آپ کا منصوبہ منظور نہیں ہوا، اور پھر بڑے احترام سے ایک منصوبہ ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا: یہ منصوبہ امریکی سی آئی نے خود تیار کیا ہے اس پر عمل درآمد کرو!!! ویسے تو یہ راحیل صاحب کی طرف سے نوکری چھوڑ کر پاکستان واپس جانے کا بہترین موقع تھا لیکن انھوں نے پھر بھی ایک مطیع سپاہی اور ایک فرمانبردار نوکر کی طرح اپنا فریضہ تن من دہن سے سرانجام دیا لیکن اب کیا وہ آرہے ہیں پاکستان!!! انہیں آنا تو چاہئے لیکن اتنے بڑے ریالات سے دست کشی شاید آسان نہیں ہے اور پھر جو کچھ نہیں کرنا چاہئے تھا وہ تو کربیٹھے ہیں اگر غیرت جاگی تھی بھی اب تو دوبارہ سوئی ہوئی ہوگی مزید ریالات اور دورے کے بعد کے انعام و اکرام کی گولی لے کر! بہر صورت امریکی اسلام ابھر کر سامنے آیا ہے اور دفاع حرمین شریفین کے پاس بھی اب مزید کوئی جواز نہیں ہوگا سعودی پرستی کے لئے لیکن دکان بند کرنا بھی تو ایک مسئلہ ہے، ورنہ کس کو معلوم نہ تھا کہ سعودیوں نے گذشتہ سات سالوں کے دوران یہود و نصاری کے ساتھ اپنے تمام خفیہ روابط کو برملا کردیا تھا لیکن اس کے باوجود سرکار پاکستان بھی اور آل سعود کی خوشنودی کو اللہ کی خوشنودی پر مقدم رکھنے والی تکفیری تنظیمیں بھی، آل سعود کی مفت کی نمائندگی کرتے ہوئے حقائق کی پردہ پوشی کا فریضہ بطور احسن نبھاتی رہیں۔ گو کہ اس وقت مذکورہ سعودی پرستوں کے پاس سعودی نوازی کا کوئی جواز نہیں رہا اور ریاض میں بیٹھ کر کفر کے سرغنے نے یہودی ـ نصرانی ـ وہابی اتحاد کا باقاعدہ اعلان کیا اور اس کا نام عرب ـ اسلامی ـ امریکی اتحاد رکھا یعنی امریکی اسلام بالکل الگ تھلگ ہوکر ـ بغیر کسی اشتباہی مسئلے کے ـ علی الاعلان محمدی اسلام کے مد مقابل آکھڑا ہوا اور تمام عرب و مسلمان ممالک کے بادشاہ و صدور و سربراہان نے اس اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا لیکن اس کا ایک بہت اہم پہلو اور بھی ہے جو تکفیر کے دکانداروں کے لئے مزید الجھن کا سبب ہے۔ امریکی اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے سعودی بادشاہ اور اس کے بونے وزیروں نے ایک قوت کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان بھی کیا اور ہم سب کو یقین ہے کہ کفر و نفاق و یہودیت و نصرانیت اور وہابیت کا یہ منحوس اتحاد اپنے ہم مسلکوں کے خلاف ہرگز اعلان جنگ نہیں کرسکتا۔ یہودی ـ نصرانی لابی نے 9/11 کے واقعے میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے باقاعدہ اعلان کردیا تھا اور ہزاروں ارب ڈالر کا تاوان وصول کرنے کی باتیں ہورہی تھیں لیکن عظیم تر مقصد یعنی محمدی اسلام کو نقصان پہنچانا کئی ہزار ڈالر سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ اتحاد کے قیام کا مقصد ہی اس عظیم قوت کا مقابلہ کرنا تھا چنانچہ امریکی اسلام نے رازداری کو ہرگز ضروری نہیں سمجھا اور ولایت فقیہ کے نظام کے تحت چلنے والے ملک "اسلامی جمہوریہ ایران" کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کیا اور مسلمان ممالک کے سربراہان نے ـ جو سعودیوں کی کانفرنس ایک طرف سے امریکی موجودگی میں جذبات سے مغلوب ہوکر اور دوسری طرف سے سعودیوں کے ندی کی طرح بہائے جانے والے ریالات سے محظوظ ہوکر ـ خوشی خوشی امریکی اسلام کی سیاہ ترین تاریخی سند پر دستخط کردیئے، گوکہ ہمارے ملک کا سعودی نواز وزیر اعظم نواز شریف بھی وہاں موجود تھے اور اطلاعات کے مطابق انہیں کافی خفت اٹھانی پڑی بالکل راحیل خاں کی طرح، اور انہیں کسی نے بادشاہ کے قریب ہی نہیں آنے دیا ـ گوکہ ممکن ہے کہ ان کو خصوصی ملاقات میں الزایمر کے مارے بادشاہ کی پابوسی کا شرف عطا کیا گیا ہو ـ اور جناب نواز شریف نے بھی ـ سعودیوں کی بھارت نوازی کو یکسر فراموش کرکے ایران دشمنی کی اس سند کو اپنے لئے فخر کی دستاویز قرار دیا۔ ایک بہت اہم سوال: کیا اس سے پہلے یہ سارے ممالک امریکہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے دنیا بھر میں ایران کے خلاف برسرپیکار نہ تھے؟ کیا انھوں نے اس جنگ میں شکست کھائی؟ اگر ہاں تو کیوں؟ یا بالفاظ دیگر یہ سارے عرب ممالک امریکہ اور اسرائیل اور یورپ کی مدد سے ایران کے خلاف چالیس سالہ طویل جنگ میں اسے شکست کیوں نہیں دے سکے؟ اور اب انہیں ایران کے خلاف اتنا بڑا اتحاد بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا ایران سے عرب اور اسلامی ممالک کو کوئی خطرہ ہے؟ اگر عرب اور اسلامی ممالک کو ایران سے خطرہ ہے بھی تو امریکہ، اسرائیل اور یورپ ان کی مدد کے لئے کیوں ہردم تیار نظر آتے ہیں اور اپنی سرکردگی میں ایران کے خلاف اتحاد کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کرتے ہیں؟ ایک طرف سے عرب اور اسلامی ممالک اور دوسری طرف سے امریکہ اور یورپ کے درمیان کون سے ایسے مشترکہ مفادات ہیں جن کی بنا پر یہ سب مل کر ایران کے خلاف اتحاد کے قیام پر متفق ہوئے ہیں؟ یقینا کوئی بھی یہ ثابت نہيں کرسکتا کہ ایران کسی اسلامی یا عرب ملک کے لئے خطرہ ہے، جبکہ امریکہ ـ یورپ ـ اسرائیل یا یوں کہئے کہ یہودیت و نصرانیت ایران کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور ایران بھی ان کے اس تصور کو کبھی جھٹلاتا نہیں ہے، تو پھر عرب ـ اسلامی ـ امریکی اتحاد یا ادارہ بنام "امریکی اسلام" میں عربوں اور مسلمانوں کی شمولیت کا فائدہ کس کو پہنچے گا؟ کیا یہ اتحاد خالصتا یہود و نصاری کے مفاد کے لئے نہیں بنا؟ کیا ٹرمپ نے 150 ارب ڈالر کے ہتھیار بیچ کر اور 500 ڈالر کے تعاون کے معاہدوں پر دستخط کرکے اور سعودی بادشاہ سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحائف لے کر، کس ملک کے خزآنے کو سنبھالا دیا؟ کچھ سوالات ہتھیاروں کے بارے میں کیا آج تک دوسرے ممالک سے خریدے گئے ہتھیاروں کے سہارے کوئی ملک بڑی طاقت بن سکا ہے؟ کیا آل سعود کے عیش پرست حکمران کھربوں ڈالر کا اسلحہ خرید کر ایران کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں؟ جبکہ ایران تو کیا جہاں تک ہم نے دیکھا یمن کے پابرہنہ انقلابی نوجوانوں نے بھی آل سعود کے نئے سودوں سے خوف محسوس نہیں کیا ہے اور پھر ایران کی طرف سے بھی آل سعود کے ہاتھوں امریکی ہتھیاروں کی خریداری پر کوئی سنجیدہ تنقید یا تشویش، مجھ جیسوں کو دیکھنے کو نہیں ملی۔ بایں وجود یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکی معیشت کی نجات کے لئے عالم اسلام کو بازیچۂ اطفال بنانا اسلامی تعلیمات کا نتیجہ ہے؟ کیا سعودی تعلیمات اسلامی ہیں؟ کیا سعودی عرب کے قیام کا مقصد اسلام اور حرمین کی خدمت کرنا اور کرانا تھا جبکہ برطانوی وزارت خارجہ [سابقہ وزارت نوآبادیات] نے اسرائیل اور سعودی عرب کو ایک ہی زمانے میں قائم کیا تھا؟ ۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں کہ رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای عرب ـ اسلامی ـ امریکی اتحاد یا ادارہ بنام "امریکی اسلام" کے بارے میں کیا فرماتے ہیں: اُنس با قرآن" رہبر کا سالانہ پروگرام ہے جو ہر سال ماہ مبارک رمضان کے آغاز سے آخر تک تہران کی حسینیہ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) میں منعقد ہوتا ہے اور ملک کے بھر کے حفاظ اور قراء قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ آج ماہ مبارک رمضان سنہ 1338 ہجری کا پہلا دن تھا اور انس با قرآن کی محفل کی پہلی نشست منعقد ہوئی جس سے رہبر انقلاب نے مختصر سا خطاب کیا اور فرمایا: انھوں نے ٹرمپ کی قیادت میں نام نہاد عرب ـ اسلامی ـ امریکی کانفرنس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ٭ آج کچھ نالائق افراد کچھ اسلامی معاشروں کے مقدرات پر قابض ہوئے ہیں، سعودی حکومت کی مانند، جو بظاہر قرآن کے معتقد ہیں لیکن قرآن کے مندرجات و تعلیمات پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ "اشدّاء مع المؤمنین اور رحماء علی الکفار" ہیں [مؤمنین کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور کفار کے ساتھ بڑے ترس والے اور رحم والے ہیں]؛ وہ کفار کے ہم نشین اور ان کے ساتھ مانوس ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گویا بڑی رقوم دے کر اسلام کے دشمنوں کے خلوص اور محبت حاصل کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ وہ شیردہ [دودھ دینے والی] گائے کی مانند اس کا دودھ دوہتے ہیں اور جب اس گائے کے تھنوں میں دودھ نہ ہو تو اس کو ذبح کرتے ہیں۔ ٭ قرآن کے ساتھ انسیت بنی نوع انسان کو درپیش بےشمار سوالات کا صحیح جواب پانے کا وسیلہ ہے، اور جو معاشرہ اعلی اہداف کی طرف سفر کرتا ہے اس کو روابط، طرز سلوک، موقف کے انتخاب، دوستیوں اور دشمنیوں اور دنیاوی معاملات کے سلسلے میں ہزاروں سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن ان تمام سوالات کا جواب دیتا ہے۔ ٭ آج کی دنیا اور بنی نوع انسان کی بدبختیوں اور گمراہیوں کا سبب یہ ہے کہ ان سوالات کا انحرافی اور غلط جواب دیا جاتا ہے۔ خداوند متعال نے انسان کو آپس کے رابطے، محبت اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے خلق فرمایا ہے لیکن آج بدقسمتی سے دنیا کے ہر گوشے میں جنگ، بدامنی، خوف و ہراس اور گمراہی کا دور دورہ ہے۔ ٭ انسان کی نجات قرآنی ہدایت و راہنمائی کے مرہون منت ہے، لیکن آج اسلامی معاشرے دوسرے معاشروں کی مانند مشکلات سے دوچار ہیں اور نالائق افراد نے سعودی حکومت سمیت بعض حکومتوں میں اسلامی معاشرے کے مقدرات پر قبضہ کرلیا ہے۔ ٭ یہ صورت حال ایمان اور قرآنی حقائق سے دوری کا نتیجہ ہے، یہ لوگ بظاہر تو قرآن پر یقین اعتقاد رکھنے والے ہیں، اور حتی ہر سال قرآن کریم کے لاکھوں نسخے بھی شائع کرتے ہیں لیکن عمل میں وہ قرآن کے احکام و تعلیمات کر برعکس، کفار کے ساتھ زیادہ انسیت رھکتے ہیں اور وہ دولت جو انہیں اپنے عوام کے لئے خرچ کرنا چاہئے تھی، کفار اور عوام کے دشمنوں کے سپرد کررہے ہیں۔ ٭ بعض رجعت پسند ممالک کے حکام کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ رقوم اور اموال دے کر دشمنان اسلام کی محبت جیتی جاسکتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کہ امریکیوں نے خود بھی کہا وہ ان کا دودھ دوہتے ہیں اور جب ان کے تھنوں میں دودھ ناپید ہوگا تو انہیں ذبح کرتے ہیں۔ ٭ انھوں نے یمن اور بحرین میں ہونے والے دین دشمنی پر مبنی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کا وعدہ ہے کہ باطل نیست و نابود ہوگا، اور جو لوگ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے اقدامات کرتے ہیں وہ باطل ہیں اور باطل قطعی طور پر زوال اور سقوط کا شکار ہوگا البتہ ان کی نابودی کا وقت مؤمنین کے عمل پر منتحصر ہے اور اگر مؤمنین کی جماعت صحیح عمل کرے تو باطل کی نابودی جلد از جلد عمل میں آئے گی۔ ٭ مستقبل اسلام اور قرآن اور مؤمن نوجوانوں کے لئے ہے، خداوند متعال نے وعدہ دیا ہے کہ مستقبل مؤمنین اور اس کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لئے ہے، تاہم اگر اللہ کا یہ وعدہ نہ بھی ہوتا تب بھی ملت ایران کے چالیس سالہ تجربات کی روشنی میں یہ پیشنگوئی صحیح اور منطقی و معقول ہوتی۔ ٭ ایران میں پہلوی حکمران امریکیوں کے ساتھ بہت قریبی تعلقات میں جڑے ہوئے تھے اور ہمارے ملک میں ایک حکومت قائم تھی جس کو امریکی علی الاعلان خلیج فارس کا پولیس مین کا عنوان دیتے تھے لیکن ان تمام بین الاقوامی حمایتوں کے باوجود ملت ایران نے ایمان کی قوت اور جہاد و جانفشانی سے پہلوی حکومت کو سرنگون کیا اور اس کی جگہ اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیاد رکھی جو آج استکباری طاقتوں کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی۔ ٭ رہبر انقلاب نے مسلط کردہ جنگ میں ملت ایران کے تجربے اور کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملت ایران خالی ہاتھوں اس جنگ میں کامیاب ہوئی، جبکہ ابھی سیاسی اور بین الاقوامی مسائل میں نو وارد تھی لیکن دشمنوں کی سازش پر غالب آئی، ملت ایران چالیس سال کے عرصے سے ایک طاقتور مادی قوت کے مد مقابل کھڑی ہے جس نے اس کے خلاف تلوار کھینچ لی ہے، اور ہمارے تجربات ثابت کرتے ہیں کہ قوت کے ساتھ عزت مندانہ اور کامیاب پیشرفت کا راستہ قرآن کے ساتھ تعلق کا راستہ ہے۔ ٭ ملت ایران کا یہ قابل قدر اور قیمتی تجربہ محاذِ حق کی کامیابی کی اہم نشانی ہے کیونکہ قرآن کریم میں خداوند متعال نے فرمایا ہے کہ "وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"؛ [ترجمہ: اور کمزوری نہ دکھاؤ اور رنجیدہ نہ ہو اور تم برتر ہو اگر تم صاحب ایمان ہو؛ سورہ آل عمران، آیت 139] چنانچہ آپ ایمان کی راہ میں قوی، دوٹوک اور ثابت قدم رہیں، میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ملت کے تمام افراد بھی اور حکام بھی، دین کے اصولوں کو دو ٹوک انداز سے بیان کریں، دو ٹوک بیان ضروری ہے۔۔۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ ایک حکومت کو عالمی روابط رکھنا چاہئیں، لیکن یہ ضرورت اصولوں کے دوٹوک بیان سے متصادم نہیں ہے، یقینا عالمی سطح پر تعلقات بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور اصولوں کو بھی بیان کیا جاسکتا ہے، ترقی بھی کی جاسکتی ہے اور کامیابی بھی حاصل کی جاسکتی ہے؛ میدان عمل میں اترنا چاہئے اور اللہ پر توکل کرنا چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قطر کے حکمرانوں نے آل سعود کی صف میں کھڑے ہوکر برسوں تک شام و عراق کے نہتے عوام کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی لیکن اخوان المسلمین کے ساتھ اس کا تعلق، اس کے لئے بلائے جان بنا ہوا ہے جبکہ امریکی اسلام کے عنوان سے قائل نئے اتحاد نے اس کو اخوان اور حماس کے ساتھ تعلق کے خاتمے کا پابند بنایا ہے لیکن قطر کے حکام ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور انھوں نے اتحاد کے خلاف کچھ متنازعہ سا موقف اپنایا ہے جبکہ ایران کے صدر حسن روحانی سے بھی قطر کے امیر نے ٹیلی فونک گفتگو کی ہے، ترکی کے اخوانی صدر اردوگان نے کچھ عرصہ قبل قطر میں ایک فوجی اڈا قائم کیا ہے جبکہ العدیدہ کا فوجی اڈا امریکیوں کے ہاتھ میں ہے اور امریکی صدر امریکی اسلامی کا جھوٹا پیغمبر ہے اور اس کے دو بلا ارادہ حلیف یعنی آل سعود اور آل نہیان اس کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ گویا امریکی اسلام کا پہلا نشانہ ان کا کل حلیف "قطر" ہے جس کے ساتھ جنگ کے بادل رمضان المبارک میں دکھائی دینے لگے ہیں اور اب قطریوں کو بھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایران، شام اور عراق کے محاذ میں جاکر کھڑا ہونا چاہتا ہے، یا سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کی طرح 200 ارب ڈالر کا چیک لے کر ٹرمپ کی دلجوئی کے لئے واشنگٹن یاترا کو ترجیح دیتے ہیں، یا پھر ترکی کے ساتھ مل کر اپنے بچاؤ کا کوئی راستہ نکال دیتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ان کے پاس بہت زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔ بہرحال امریکی اسلام سعودی نوازوں کو مبارک ہو، اور محمدی اسلام کا واضح طور پر ابھر کر سامنے آنا، مسلمانوں کو مبارک ہو۔ ایک اہم بات: اس وقت جبکہ امریکی اسلام کے قیام پر سعودی دارالحکومت ریاض میں جشن کا سماں ہے، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے سعودی عرب کی کئی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کے بارے میں 2013 کے شائع شدہ کچھ نقشے چند روز قبل شائع کئے کہیں جو رہبر معظم کے اس قول کی غمازی کرتے ہیں کہ "یہ شیردہ گائے جب دودھ دینے کے قابل نہ رہے گی تو اس کو ذبح کیا جائے گا"۔