قرآن واہلبیت سے واقعی تمسک ہی ہماری نجات کا ذریعہ:مولانا سید حیدر عباس
M.U.H
22/05/2018
ردولی شریف میں’’ ایک شام قرآن کے نام‘‘ سے عظیم بزم قرآنی کا انعقاد
ردولی(فیض آباد):ماہ رمضان قرآن کریم کی بہار کا موسم ہے۔یوں تو پوری دنیا میں ان دنوں فرزندان توحید، عبادت اور تلاوت نیز دعا ومناجات میں مصروف ہیں لیکن نبی اعظم کے فرمان کی روشنی میں اہل ردولی نے قرآن پاک اور اہلبیت اطہار کا تذکرہ ایک ساتھ کر کے اپنی گذشتہ شام کویادگار شام میں تبدیل کر لیا۔
تاج ٹینٹ ہائوس کے مالک ذیشان حیدر تاجؔ پچھلے برس سے اس روحانی پروگرام کا اہتمام نہایت خوش اسلوبی اور خوش سلیقگی سے کرتے ہیںجس کا عنوان ہے’’ایک شام قرآن کے نام‘‘۔گذشتہ شب بعد نماز مغرب ردولی کی شان مسجد ارشادیہ کے وسیع وعریض صحن میں دیدہ زیب انتظامات کے ساتھ عظیم الشان جلسۂ قرآنی کا انعقاد ہوا جس میں قرآن کریم کے ساتھ محمد وآل محمد علیہم السلام کا تذکرہ کیا گیا۔
پروگرام کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر بستی کے معزز اور باوقار افراد نے وقت کی پابندی کے ساتھ خود کو مسجد میں پہنچایا تا کہ نور ایمان میں اضافہ کا سامان فراہم ہوسکے۔
مولانا سید محمد زماں رضوی نے بہترین انداز میں سورۂ مبارکہ یاسین اور سورۂ رحمٰن کی دلنشین انداز میں تلاوت کی۔قابل ذکر ہے کہ اس دوران مومنین بالخصوص جوان طبقہ قرآن کریم کی تلاوت کرتا نظر آیا۔اس کے بعد مولانا سید حیدر عباس رضوی(فاضل قم)نے جناب مولانا شفیعؔ بھیکپوری کی قرآن کریم کے سلسلہ میں کہی گئی معرکۃ الآراء نظم سے گفتگو کا آغاز کیا۔مولانا نے سورۂ یونس کی آیت نمبر ۵۷ کو سرنامۂ سخن قرار دیتے ہوئے قرآن کریم کے اوصاف کا تذکرہ کیا۔
مولانا سید حیدر عباس نے اپنے مخصوص انداز میں آیات وروایات اور تاریخ وسیرت کی روشنی میں قرآن کریم کی عظمت وفضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے اضافہ کیا کہ ہمیں خود کو قرآن کریم سے مانوس کرنا ہوگا۔افسوس یہ کہ آج یہ عظیم کتاب زندوں کے بجائے مُردوں سے مخصوص سمجھی جانے لگی ہے۔جبکہ احادیث کی روشنی میں گناہوں کا کفارہ ،گھروں کی نورانیت کا ذریعہ یہی تلاوت قرآن پاک ہے۔حدیث میں آیا ہے کہ جس گھر میں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے وہ گھر آسمان والوں کے لئے ویسے ہی چمکتا ہے جیسے اہل زمین کے لئے ستارے۔مولانا نے حدیث کی روشنی میں وضاحت کی کہ جو قوم قرآن کریم سے واقعی متمسک ہوتی ہے وہ وقت کے ظالم وجابر سے ہرگز خوف نہیں کھاتی۔جس کی بہترین مثال ایران اور حزب اللہ کے جوان ہیں جنہوں نے خود کو قرآنی بنا کر وقت کے طاغوت کا سر غرور نیچا کردیا ہے۔جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ یقیناً قرآن واہلبیت سے واقعی تمسک ہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔
مولانا نے اہل ردولی اور قرب وجوار سے آنے والے مومنین بالخصوص جوانوں سے خطاب کے درمیان تاکید کی کہ اگر قرآن پڑھنا نہیں آتا تو قرآن دیکھ لیا کیجئے،قرآن کی تلاوت سن لیا کیجئے کیونکہ قرآن دیکھنا اور سننا بھی عبادت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں جابجا عبادت وتلاوت قابل دید ہے لیکن قرآن واہلبیت کے تئیں اظہار محبت کے لئے اس قسم کے پروگرامز کافی اہمیت کے حامل ہیں۔