لکھنؤ ۱۱ اگست : ممبئی اور دوسرے شہروں کی طرز پر لکھنؤ میں خفیہ کلاسیز کے انعقاد سخت مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے مولانا سید کلب جواد نقوی نے کہاکہ دوسرے شہروں کی طرز پر اب لکھنؤ میں بھی کچھ نوجوانوں کو جمع کرکے خفیہ کلاسیز شروع ہوگئ ہیں۔ان کلاسیز میں جو تعلیم دی جاتی ہے اسکے لئے طلباء سے قسم لی جاتی ہے کہ وہاں دی جانے والی تعلیم کے سلسلے میں اپنے ماں باپ سے بھی نہیں بتائیں گے۔ان کلاسیز میں درس دینے والے اساتذہ کی کچھ کلپس سامنے آئی ہیں ۔ان کا بنیادی ہدف مرجعیت پر تنقید ،علماء کی مخالفت ،نوجوانوں کی فکر کو مسموم بنانا اور شیعیت کے بنیادی عقائد کے خلاف نوجوانوں کو تیارکرناہے ۔ایک کلپ میں درس دینے والا شخص مرجعیت کا مضحکہ اڑا رہاہے اور کلاس میں موجود نوجوان ہنس رہے ہیں۔یہ صورتحال تشویش ناک ہے ۔یہ لوگ پہلے نوجوانوں کے ذہنوں کو مرجعیت اور علماء دین کے خلاف آمادہ کرتے ہیں اسکے بعد کھل کر اپنے فکار و خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔نوجوانوں کا ہنسنا بتارہا ہے کہ کس طرح نوجوانوں کے ذہنوں میں
علماء حق،انقلاب اسلامی ایران اور مرجعیت کے خلاف زہر بھرا جارہاہے ۔
مولانا نے سخت مؤقف کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ جن محلوں میں یہ کلاسیز منعقد ہورہے ہیں وہاں رہنے والوں کی شرعی ذمہ داری ہے کہ ان کلاسیز میں دی جانے والی تعلیم پر نظر رکھیں۔ مولانا نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ان کلاسیز میں درس دینےوالے لوگ ممبئی یا دیگر شہروں سے ہوائی جہاز کے ذریعہ آتے ہیں اور درس دیکر واپس چلے جاتے ہیں۔آخر انکے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آرہاہے ؟جب ان سے سوال کیا جاتاہے کہ آپ کرتے کیا ہیں تو وہ بتاتے ہیں کہ ایک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ان کلاسیز کی سرپرستی ایک مولانا کررہے ہیں ۔وہ ایک بار میرے پاس میں آئے تھے تاکہ وہ ان کلاسیز کو لکھنؤ میں بھی منعقد کرسکیں۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ صرف مجھے اتنا بتادیں کہ ایک اسکول کا ٹیچر ان کلاسیز میں درس دینے کے لئے مہینہ میں کئ بار ہوائ جہاز کے ذریعہ آمدورفت کرتاہے جس کا خرچ بیس پچیس ہزار روپے ہوتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ایک اسکول ٹیچر اپنی جیب سے اتنا خرچ کرسکے ؟لہذا مؤمنین ہوشیار رہیں۔ان کلاسیز کو منعقد کرنے کے لئے پہلے ذہن سازی کی جاتی ہے اور بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں۔بکنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔جب تک علی الاعلان ان کے دروس منعقد نہ ہوں کسی بھی محلے میں انکے کلاسیز کو منعقد کرنے کی اجازت نہ دی جائے ۔اگر کوئ پیسہ لیکر اپنے گھر یا کسی جگہ کلاسیز کو منعقد کرواتاہے تو ان کلاسیز میںجاکر دیکھیں کہ وہ کیا تعلیم دے رہے ہیں۔مولانا نے کہاکہ جو کتابیں نصاب کے نام پر وہ دکھاتے ہیں در حقیقت ان کتابوں سے ایک لفظ بھی نہیں پڑھایا جاتا۔انکا مدرس اپنے نوٹس لیکر آتاہے اور انہی کی بنیاد پر تعلیم دیتاہے ۔لہذا ان کلاسیز سے ہوشیار رہیں اور اپنے بچوں پر بھی نظر رکھیں کہ کہیں وہ انکے جھانسہ میں نہ آجائیں۔