امام ہشتمؑ کے علمی شاہکار آج بھی نمایاں نظر آتے ہیں:مولانا سید حیدر عباس رضوی
M.U.H
06/08/2018
لکھنؤ 5 اگست:ساتویں امام حضرت موسی کاظم علیہ السلام کثیر الاولاد تھے جن میں آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام اور کریمۂ اہلبیت حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام اپنی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی طرح کوثر ہیں۔ ایک نے اپنے وجودسے مدینہ کو کوثر میں تبدیل کیا تو دوسری نے قم المقدسہ کو۔
گذشتہ شب مذکورہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا سید حیدر عباس رضوی نے کثیر تعداد میں موجود عزاداروں کے درمیان اضافہ کیا کہ آیۃ اللہ العظمیٰ روح اللہ موسوی خمینیؒ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام کی زیارت اور آپ سے توسل کا نتیجہ قرار دیا۔سچ ہے کہ اگرظرف وجودی میں وسعت ہوگی تو ان مقدس ہستیوں کے طفیل وہ ملے گا جس کا عام انسان تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔
کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کے بعض ممتاز فضائل کی جانب اشارہ کرنے کے بعد مولانا حیدر عباس نے بیان کیا کہ امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں قرآن کریم خصوصیت کے ساتھ جلوہ افروز نظر آتا ہے۔مولا رضا علیہ السلام تین دنوں میں ایک قرآن پاک ختم کر لیا کرتے تھے۔آپ مناظرہ کے ہنگام آیات احکام بیان کرتے اور تفسیر سے متعلق شبہات کا مدلل جواب دیتے۔امام عالیمقام نے الٰہی کتاب قرآن حکیم کی بعض آیات کے مصادیق معیین فرمائے مثال کے طور پر سورۂ انعام کی آیت اولٰئک الذین ھدیٰ اللہ فبھداھم اقتدہ کا مصداق آل نبی کو قرار دیا۔آپ کے علمی شاہکار(مسند الرضا،مکاتیب الرضا،عیون اخبار الرضااور فقہ الرضا) آج بھی نمایاں نظرآتے ہیں ۔
عالم آل محمد امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے متعدد فضائل روایات کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے مولانا نے شاہ عبدالعظیم حسنی کی اس روایت کو پیش کیا جس میں آپ نے امام محمد تقی علیہ السلام سے سوال کیا کہ امکانات محدود ہیں ایسے میں کربلائے معلی کی زیارت کو جائوں یا آپ کے پدر بزرگوار کی؟مولا امام جواد نے جواب دیا کہ میرے بابا کی زیارت کے لئے سفر کرو کیونکہ کربلا تو سبھی جاتے ہیں لیکن مشہد میں میرے پدر گرامی کی زیارت کے لئے خاص چاہنے والے ہی سفر کرتے ہیں۔
مولا کو امام ضامن کیوں کہا جاتا ہے اس پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے مولانا سید حیدر عباس نے بیان کیا کہ قابل توجہ بات یہ کہ حکومت بظاہر مامون کی تھی لیکن سکہ امام کے نام کا چل رہا تھا۔جسے امام کے چاہنے والے بطور تبرک اپنے پاس رکھتے اور جب کوئی عزیز سفر کا قصد کرتا تو اس سکہ کو اسکے ساتھ بغرض حفاظت رکھ دیتے جس کا سلسلہ آج بھی خصوصیت کے ساتھ بر صغیر میں امام ضامن کی شکل میںجاری وساری ہے۔
اسی طرح جب آپ سفر پر تھے ایک ہرنی نے خود کو آپ کے قدموں میں گرا دیا کہ شکاری میرا شکار کرنا چاہتا ہے میرے بچے بھوکے ہیں کچھ مہلت دلا دیجئے۔امام رضا علیہ السلام نے ضمانت لی۔اسلام وہ مکتب جس میں انسانوں ہی کی طرح جانوروں کے حقوق کی پاسبانی کا حکم دیا گیا ہے۔ملتا ہے روایات میں کہ نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرنا چاہتے ہیں دور سے ایک بلّی للچائی نگاہوں سے پانی دیکھتی ہے پیغمبر نے پانی اس بے زبان جانور کو دے دیا اور بعد میں وضو کر نماز ادا کی۔امن و امان کا گہوارہ کہا جاتا ہے ملک ہندوستان کو۔ لیکن بعض شر پسند عناصر جانور کے نام پر ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔
مجلس کا اختتام مصائب پر ہوا جس کے بعد نمناک آنکھوں کے ساتھ شبیہ تابوت برآمد ہوا۔قابل ذکر کہ اس مجلس کا انعقاد خادم امام رضا کمیٹی(مفتی گنج،لکھنؤٌ) کی جانب سے ہوا ۔جس میںمنتظرؔ جونپوری، عزادار عزمیؔ وغیرہ نے پیش خوانی فرمائی۔نظامت کے فرائض فضلؔ فتحپوری نے انجام دئیے اور نوحہ خوانی شہباز علی (ممبئی )نے کی۔