شیعہ و سنی منابع پر مکمل تسلط رکھنے والے علامہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی عظیم شخصیت کے مالک تھے:مولانا سید حیدر عباس رضوی
M.U.H
27/10/2019
بھوپال کے ایرانی امام باڑے میں سلسلہ ٔ مجالس۸؍ربیع الاول تک جاری رہے گا
بھوپال :تفسیر قرآن مجید نیزتاریخ اسلام و تاریخ تشیع پر قلمی خدمات انجام دینے والے محقق کبیر علامہ سید جعفر مرتضیٰ عاملیؒ کی رحلت یقینا ایک بڑا علمی خسارہ ہے۔حوزہ ہائے علمیہ میں تاریخی مباحث کو حیات نو عطا کرنے والوں میں علامہ مرحوم کا نام سرفہرست نظر آتا ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا سید حیدر عباس رضوی نے جبل عامل کی علمی تاریخ پر روشنی ڈالی نیز اضافہ کیا کہ آپ کی ولادت ۲۵؍صفر ۱۳۶۴ہجری میں شہر بیروت سے تقریباً سو کلیموٹر کے فاصلہ پر واع عیتا الجبل نامی گاؤں میں ہوئی۔آپ کا سلسلہ نسب امام سجاد علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔
مولانا سید حیدر عباس نے علامہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں بتایا کہ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے پدر بزرگوار سے حاصل کی ۔پھر آپ ۱۳۸۲ ہجری قمری میں تحصیل علم کی غرض سے حوزۂ علمیہ نجف اشرف کا رخ کرتے ہیں جہاں آپ نے مدرسۂ آیۃ اللہ بروجردیؒ میں سکونت اختیار کی۔چند برس برجستہ علماء سے کسب فیض کے بعد آپ نے ۱۳۸۸ ہجری میں شہر مقدس قم کا رخ کیا۔جہاں آپ نے آیات عظام زنجانی،فانی،حائری اور آملی وغیرہ سے کسب فیض کیا۔تعلیمی مراحل کو طے کر لینے کے بعد آپ نے باقاعدہ شیعی تاریخ اور شیعی اعتقادات کے سلسلہ میں تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا۔علامہ مرحوم کی وہ صفت جو انہیں دیگر محققین سے ممتاز بناتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو شیعہ و سنی دونوں منابع پر مکمل تسلط حاصل تھا اور اس سلسلہ میں آپ بنا کسی تعصب کا شکار ہوئے علمی خدمات انجام دیتے رہے۔وہابیت کے باطل افکار کی تردید میں آ پ نے عام وخاص دونوں منابع سے استفادہ کیا اسی لئے آج تک آپ کے قلمی خدمات پر باطل خیموں کی جانب سے کوئی رد دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔
سیرت اہلبیت علیہم السلام کے سلسلہ میں آپ کے قلمی شاہکار ’’الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم‘‘(۳۵؍جلد)اور ’’الصحیح من سیرۃ الامام علی‘‘(۵۳؍جلد) خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔مولانا سید حیدر عباس نے بھوپال کے ایرانی امام بارگاہ میں خمسۂ مجالس سے خطاب کے دوران بڑی تعداد میں موجود مومنین اور مومنات کے درمیان آپ کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے اضافہ کیا کہ ۱۹۹۳ ء میں آپ تقریباً ۲۵؍برس قم میں گزارنے کے بعد اپنے وطن واپس چلے گئے جہاں مختلف علمی،تحقیقی اور تربیتی خدمات سرانجام دئیے۔آپ کے ذریعہ بیروت میں ریسرچ سینٹر کے قیام نیز جوانوں کے سلسلہ میں مختلف نشستوں اور بیروت میں مدرسۂ علمیہ کی بنیاد جیسے خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔علامہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی ؒ نے اپنے بعد کے لئے ایک بڑی تعداد میں محققین کی تربیت کی جو آپ کے بعد اس مشن کو آگے بڑھائیں گے اور یہی کمال ہے۔مولانا سید حیدر عباس نے بیان کیا کہ آج دنیا کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں سرجن چند برس بعد اپنے کو اس ہنر سے دور کر لیتا ہے اور خود نئی نسل کی تربیت میں کوشاں ہو جاتا ہے تا کہ علمی کاروان بڑھتا رہے۔ہمارے وہ بزرگ جو ایک عرصۂ دراز سے سوز خوانی و مرثیہ خوانی وغیرہ کے ذریعہ خدمتِ عزا میں مصروف رہتے ہیں انہیں اپنے بعد والی نسل کو یہ ہنر سکھانا چاہئے اور جوانوں کو موقع زیادہ سے زیادہ دینا چاہئے تا کہ تہذیب عزا کے ساتھ مراسم عزا نئی نسل تک پہنچتی رہے۔
قابل ذکر ہے کہ اول محرم سے تا ہنوز بھوپال کے ایرانی امام باڑے میں مجالس کا سلسلہ جاری ہے جس سے خطاب کرنے کے لئے ہندوستان کے ممتاز علماء وواعظین اور افاضل تشریف لا چکے ہیں ۔ان دنوں مولانا سید حیدر عباس رضوی’’واقعۂ عاشورا میں سیرت پیغمبر اعظم کی جلوہ نمائی‘‘جیسے اہم موضوع پر خطاب کر رہے ہیں ۔رسول اعظم اور امام حسن مجتبیٰ کی شب شہادت مجلس سے خطاب کے دوران مولانا موصوف نے تاریخ شناس،تاریخ نویس علامہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی ؒ کی اس کتاب کا بھی تذکرہ کیا جو آپ نے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں تحریر فرمائی ہے۔سینکڑوں کی تعداد میں موجود عزاداروں نے علامہ مرحوم کے لئے سورۂ فاتحہ کی قرائت کی۔علامہ عاملیؒ گذشتہ روز اس دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر گئے ۔اپنے علمی آثار کے سائے میں آپ تا دیر یاد کئے جاتے رہیں گے۔قارئین کرام سے بھی اس عالم جلیل کے علو درجات کی خاطر ایصال ثواب کی درخواست ہے۔