مجلس علماء ہند کے وفد نے مظفرپور کے حالات کا جائزہ لیا،مولانا اور انکے ساتھیوں کی گرفتاری اور لاٹھی چارج کے خلاف پریس
کانفرنس کو بھی کیا خطاب
لکھنؤ ۳۱ جولائ : مظفر پور بہار میں وقف بچائو تحریک چلارہے مولانا محمد کاظم شبیب اور انکے ساتھی نمازیوں پر انتظامیہ کی بربریت و لاٹھی چارج کے بعد مولانا کی گرفتاری کے خلاف اور حالات کا جائزہ لینے کے لئے مجلس علماء ہند کا وفد مظفرپور گیا تھا ۔مظفرپور میں علماء کے وفد نے متاثرین سے ملاقات کی اور واقعہ کی تفصیلی معلومات حاصل کیں ۔یہ وفد مولانا سید کلب جواد نقوی کی قیادت میں مظفر پور جارہا تھا مگر ریلوے اسٹیشن پر اچانک مولانا سید کلب جواد نقوی کی طبیعت بگڑنے کے بعد یہ وفد مولانا کی غیر موجودگی میں ہی مظفر پور پہونچا تھا ۔حالات کا جائزہ لینے کے بعد علماء نے بتایا کہ حالات تشویش ناک ہیں اور مولانا کاظم شبیب پر جیل میں بھی سختی برتی جارہی ہے ۔مولانا سے کسی کوآسانی سے ملنے بھی نہیں دیا جارہاہے ۔علماء نے خدشہ ظاہرکیاہے کہ کہیں وقف مافیا مولانا کی جان کو کوئی نقصان نہ پہونچائیں اس لئے حکومت کو چاہئے کہ موجودہ ڈی ایم کو ہٹاکر نیا ڈی ایم منتخب کیا جائے کیونکہ موجودہ ڈی ایم وقف مافیائوں کے ساتھ ملا ہواہے ۔
مولانا سید کلب جواد نقوی نے بذریعہ فون متاثرین سے بات کی اور کہاکہ ہم گرفتار کئے گئےافراد کی رہائی کے لئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔اگر مولانا اور انکے ساتھیوں کو جلد ہی رہا نہیں کیا گیا تو علماء بڑے پیمانے پر تحریک شروع کرین گے ۔مولانا سید کلب جوادنقوی نے ضلع انتظامیہ کی بربریت اور تشدد آمیز رویہ کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ جس طرح اترپردیش میں سماجوادی سرکار نے وقف مافیائوں کے ساتھ مل کر روزہ داروں پر لاٹھی چارج کی تھی اسی طرح بہار پولس نے نمازیوں باالخصوص خواتین پر لاٹھی چارج کی ہے ۔پولس کا یہ ظالمانہ رویہ قابل مذمت ہے ۔مولانا نے بہار سرکار سے مطالبہ کیاہے کہ مولانا اور انکے ساتھیوں کو جلد از جلد رہا کیا جائے اور واقعہ کی پوری جانچ کرانے کے بعد مجرم پولس والوں پر کارائ کی جائے ۔
علماء نے مظفر پورمیںوقف خوروں اور ضلع انتطامیہ کی ملی بھگت اور وقف املاک پر جاری ناجائز قبضوں اور انتظامیہ کی جانبدارانہ کاروائی کے خلاف پریس کانفرنس کو بھی خطاب کیا ۔علماء نے کہاکہ مقامی انتظامیہ نے وقف خوروں کا ساتھ دیاہے اور چیرمین کی بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔علماء نے کہاکہ جس طرح پولس نے خواتین کو جان بوجھ کر زدوکوب کیاہے وہ قابل مذمت ہے ۔پولس کا یہ ظالمانہ رویہ بتاتا ہے کہ کس طرح وقف خوروں کے اشارے پر جانبدارانہ کاروائی کی گئی ۔علماء نے کہاکہ عورتوں ،بچوں اور بزرگوں پر انتطامیہ نے بے رحمی کے ساتھ لاٹھی چارج کیا اور مولانا کاظم شبیب پر جان لیوا حملہ کیا گیا ۔جو لوگ مولانا کا ظم شبیب کو غلط بتارہے ہیں وہ واضح کریں کہ آخرپرامن احتجاج کے اختتام کے بعد پولس نے مولانا کو گھر میں زبردستی گھس کر کیوں مارا اور انکی ناموس کی بے حرمتی کی گئی ۔علماء نے بتایا کہ جس وقت مولانا کے گھر کا جائزہ لیا گیا تو ہم نے دیکھاکہ پولس نے مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کی ہے ۔حد یہ ہے کہ قرآن کریم اور تفسیر کی کتابوں کی بھی توہین کی گئی ہے ۔علماء نے کہاکہ اس پوری کاروائی میں ضلع مجسٹریٹ وقف خوروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے لہذا انکی برخاستگی لازمی ہے ۔
علماء نے پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مظفر پور انتظامیہ سن لےکہ اگرمولانا کو جلدرہا نہیں کیا گیا تو ہم بڑے پیمانے پر تحریک شروع کرینگے ۔علماء نے کہاکہ پولس نے قانون کی آڑ میں وقف مافیائوں کی مدد کی ہے اور وقف بچائو تحریک چلانے والے علماء اور نمازیوں پر جان لیوا حملہ کیا کیونکہ وقف بچائو تحریک کے چلتے وقف مافیا اوقاف کی املاک کو بیچ نہیں پارہے تھے ۔مجلس علماء ہند کے اس وفد میں مولانا رضا حیدرقمی ،مولانا رضا حسین ،مولانا عقیل عباس،مولانا منہال حسین ،مولانا علمدار حسین ،مولانا تنویر عبا س اکبرپوری،مولانا صفدر حسین جونپوری،مولانا مراد رضا پٹنہ،مولانا سید ضمیر حیدر کراری الہ آباد،مولاناظفرامام ،مولانا تہذیب الحسن رانچی،مولانا محمد محسن فیض آباد،مولانا ممتاز جعفر ،مولانا منور حسن،مولاناقمر الحسن ،مولانا نذر علی ،مولانا اطہر عباس کلکتہ،مولانا شکیل احمد ،مولانا علی محمد،مولانا ذکی حسن کلکتہ سے،مولانا اختر حسن گلزار،مولانا حسن عباس،مولانا کونین علی مظفرپور سے ،مولانا بھاگلپور سے مولانا سید اصغر رضا،چندن پٹی سے مولانا محمد ابراہیم اور دیگر علماء بھی شامل رہے ۔