مجد د مذہب امامیہ حضرت دلدار علی غفرانمآب علیہ الرحمہ کی مجلس ایصال ثواب کا انعقاد،بڑی تعداد میں علماء،طلباء و مؤمنین نے شرکت کی
لکھنؤ ۷ اپریل : ہندوستان کےاولین مجہتد اور مجدد مذہب امامیہ حضرت دلدار علی غفرانمآب علیہ الرحمہ کی برسی کے موقع پر آج حسینیہ غفرانمآب ؒ میں ایک مجلس عزا کا انعقاد عمل میں آیا۔مجلس سے قبل حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفرانمآب ؒ کے طلباء و اساتذہ نے حضرت دلدار علی غفرانمآب ؒ کی قبر پر فاتحہ خوانی کی ۔اسکے بعد تلاوت کلام پاک سے مجلس کا آغاز ہوا۔تلاوت کے بعد حوزہ علمیہ غفرانمآب کے طلباء نے حضرت دلدار علی غفرانمآب ؒ کی زندگی پر جامع مقالات پیش کئے ۔
اسکے بعد مولانا سیدکلب جواد نقوی نے مجلس کو خطاب کیا۔مجلس کو خطاب کرتے ہوئے امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی نے کہاکہ آیت اللہ حضرت دلدار علی غفرانمآب وہ پہلے عالم اور مجتہد تھے جو تحصیل علم کے لئے عراق تشریف لے گئے ۔یہ وہ عہد تھا کہ جب سفری وسائل کی کمی تھی اور ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرنا مشکل اور خطرناک تھا مگر سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے حضرت دلدار علی غفرانمآب ؒ عراق پہونچے جہاں انہوں نے اس وقت کے اہم علماء اور مراجع سے کسب فیض کیا ۔عراق سے پیدل سفر کرکے ایران تشریف لے گئے اور نامور علماء اور فقہاء سے فیضیاب ہوئے ۔تحصیل علم کے بعد سند اجتہاد لیکر ہندوستان واپس تشریف لائے اور جہالت کے اندھیروں کوعلم کے نور سے دورکیا۔مولانانے کہاکہ ابن خلدون جیسا دانشور عالم بشریت کے مطالعہ کے بعد لکھتاہے کہ کسی بھی خاندان میں کمالات،مراتب،صفات اور عزتیں تین نسلوں سے زیادہ نہیں رہتیں ۔یہ تاریخ بشریت کی حقیقت ہے مگر اس کلیہ کو خاندان رسالتؑ نے توڑا ۔اس خاندان میں پہلامحمد ؐ تھا اور آخری بھی محمد تھا ۔علم و فضل اور کمال و عزت میں یکساں ہیں۔رسول خداؐ کے بعد اس خاندان میں ایک کے بعد ایک آفتاب طلوع ہوتا رہا ہے اور بشریت آج تک فیضیاب ہورہی ہے ۔
مولانانے کہاکہ حضرت دلدار علی غفرانماب ؒ نے نوابین اودھ کو مذہب کی طرف ایسی ترغیب دی کہ آج لکھنؤ میں ہر طرف عبادت گاہیں نظر آتی ہیں ۔اگر نوابین چاہتے تو تاج محل اور لال قلعہ جیسی عمارتیں بنوادیتے مگر انہوں نے عالیشان مقبرے اور مضبوط قلعہ تعمیر نہیں کرائے بلکہ دنیا کےعالیشان عزاخانہ اور مسجدیں تعمیر کرائیں ۔انہیں عبادت گاہوں میں انکی قبریں موجود ہیں۔مولانانے کہاکہ آج جو عزاداری ہورہی ہے وہ بھی غفرانمآب علیہ الرحمہ کی مرہون منت ہے ۔نماز جماعت اور نماز جمعہ انہوں نے پہلی بار قائم کیا ۔ان سے پہلے لکھنؤ میں نماز پنجگانہ بھی قائم نہیں ہوتی تھی مگر انہوں نے نماز جماعت کے ساتھ نمازجمعہ بھی قائم کی ۔مولانانے کہاکہ عراق کے بعد لکھنؤ میں دوسرا حوزہ علمیہ قائم کیا گیا ۔قم ایرن میں لکھنؤ کے بعد حوزہ علمیہ قائم ہواہے مگر لکھنؤ کا حوزہ علمیہ عراق کے بعد دوسرا اور ہندوستان کا پہلا حوزہ علمیہ تھا ۔اس حوزہ علمیہ میں ہندوستان کے بزرگ علماء و فقہاء نے تعلیم حاصل کی اور اس حوزہ علمیہ سے اجازۂ اجتہاد بھی دیا جاتھا ۔ہندوستان کے تمام مراجع و فقہاء اسی حوزہ علمیہ کے پڑھے ہوئے تھے ۔اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نجف کے بعد لکھنؤ کو مرکزیت حاصل تھی ۔مولانانے کہاکہ ہندوستان کے تمام علماء باالواسطہ یا بلاواسطہ حضرت غفرانمآب ؒ کے شاگرد ہوتے ہیں ۔
مولانا نے آخر مجلس میں مصائب آل محمد ؑ بیان کئے اور غفرانمآب علیہ الرحمہ کے اٰیصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرائی ۔
مجلس میں بڑی تعداد میں علماء،طلباء اور مؤمنین شہر نے شرکت کی ۔جن میں مولانا رضا حسین ،مولانا رضا حیدر،مولانا نثار احمد زین پوری،مولانا اعجاز حیدر،مولانا سراج حسین ،مولانا اصطفیٰ رضا،مولانا فیروز حسین ،مولانا منظر علی عارفی،مولانا منظر عباس،مولانا نذر حسین،مولانا عقیل عباس،مولانا قمر الحسن ،ڈاکٹر حیدر مہدی،اور دیگر علماء نے شرکت کی ۔یہ مجلس امام باڑہ غفرانمآب کی طرف سے منعقد کی گئی تھی ۔