لشکر حسینی کے علمبردار ابوالفضل عباس کی زندگی عالم اسلام کے لئے مثالی نمونہ ہے: مولانا کلب جواد نقوی
M.U.H
19/09/2018
۱۹؍ستمبر لکھنؤ : ۸؍محرم الحرام ،عشرہ ایام عزا کی خاص تاریخوں میں ایک اہم تاریخ ہے،چونکہ یہ تاریخ لشکر حسینی کے علمبردار حضرت عباس علیہ السلام سے منسوب ہے۔ جناب عباس علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے تھے ۔ ان کی ماں کا نام فاطمہ کلابیہ تھا ، جن کا تعلق خاندان بنی کلاب سے تھا۔ قبیلہ بنی کلاب کا شمار عرب کے قبائل میں سب سے شجاع تریں قبیلوں میں ہوتا تھا۔ جب جناب رسول خدا( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی جناب فاطمہ صلواۃ اللہ علیھا کا انتقال ہوگیا،تو مولائے کائنات نے اپنے بھائی عقیل سے یہ کہا کہ آپ عرب کے سب سے شجاع ترین خاندان سےتعلق رکھنے والی کسی خاتون کا انتخاب فرمائیں جس میں عقد کرنا چاہتا ہوں ۔ چونکہ جناب عقیل کا شمار نساب عرب میں ہوتا تھا ۔لہذا انکی تجویز کے مطابق مولائے کائانت نے قبیلہ بنی کلا ب کی ایک معززترین خاتون سے عقد فرمایا ۔جب فاطمہ کلابی کی شادی ہوگی تو وہ اسی گھر میں تشریف لائیں جن میں جوانان جنت کے سردار حسنین کریمین رہتے تھے۔ فاطمہ کلابی نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ مجھے فاطمہ کہہ کر مخاطب نہ کیا کریں ۔چونکہ حسنین علیھم السلام کو یہ نام سن کر اپنی ماں کی یاد آنے لگتی ہے۔ میں اس گھر میں خاتون جنت کی کنیز کی حیثیت سے رہنا چاہتی ہوں ،ایسی عظیم المرتبت خاتون کے بطن سے جناب عباس جیسے فرزند پیدا ہوئے ۔جس کے بعد فاطمہ کلابیہ کو ’’ام البنین‘‘ کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ ام البنین نے اپنے بچے کی پرورش اس انداز سے کی جس کی مثال اس کائنات میں ممکن نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عباس علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے بھائی ہونے کے باوجود حسنین کریمین کو آقا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی انھیں اپنا آقا ہی کہا۔ روایت کے مطابق جناب عباس علیہ السلام جناب فاطمہ الزھرا صلواۃ اللہ علیھا کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے تھے اس کے باوجود انھیں فرزند زہرا کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پورے عرب میں ان کی شجاعت مشہور تھی جس کی بنیاد پر انھیں ثانی حیدر کرار لقب ملا۔
پوری دنیا میں ہونے والی عزاداری کے عشرہ محرم کی آٹھویں تاریخ حضرت عباس علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہے ۔آج کے دن تمام عزادار مولاعباس علیہ السلام کے سلسلے سے ان کا سوگ مناتے ہیں ،اور ان کی عظیم خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں۔تاریخ انسانیت میں ہمارے معاشرتی رشتوں میں سب اہم رشتہ ایک بھائی سے دوسرے بھائی کا رشتہ ہوتا ہے۔اس تناظر میں ایک بھائی ہونے کی وجہ سے جیسا کردار جناب عباس علیہ السلام نے ادا کیا تاریخ انسانیت میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
لکھنؤ شہر میں برپا ہونے والی مجالس میں آج صبح سے حضرت عباس علیہ السلام کا تذکرہ لوگوں کے ورد زباں رہا،اور فضاؤں میں یاعباس کی صداگونجتی رہی۔شہر میں مجالس کو خطاب کررہے علما و ذاکرین نے اپنے منتخب موضوعات کے مطابق قمربنی ہاشم جناب عباس علیہ السلام کے فضائل و مصائب بیان کئے۔شہر کے مرکزی عاشور خانہ غفرانمأب میں عشرہ محرم کی آٹھویں مجلس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا کلب جواد نقوی نے ،مختلف حوالوں سے جناب عباس علیہ السلام کی زندگی کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔مجلس کے ابتدائی مرحلے میں مولانا کلب جواد نقوی نے قرآن کا سب سے اہم ترین سورہ جسے سورہ فاتحہ کہا جاتا ہے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ اس سورے کو سبع مثانی یعنی(سات آیتوں والا سورہ )بھی کہا جاتاہے۔اس لئے کہ قرآن کا یہ واحد ایسا سورہ ہے جس میں بسم اللہ کو بھی اس سورہ کا جز قرار دیا گیا ہے۔ جس تذکرہ خود قرآن مجید میں آیا ہے۔ لیکن بعض مفسرین اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ مولانا نے اس آیت کے قرآنی مباحث کے تحت جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی آل اطہار کا تذکرہ بھی ا آیات اور احادیث کے تناظر میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔
مولانا کلب جواد نقوی نے آج کی مجلس میں حضرت عباس علیہ السلام کا مصائب تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے۔یہ کہا کہ لشکر حسین کے علمبردار حضرت عباس علیہ السلام نے اپنی وفاداری اور استقامت کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی مثال رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔سکینہ بنت الحسین اور جناب سکینہ یعنی چچا اور بھتیجی کی محبت دنیا کے لئے ایک مثالی نمونہ ہے۔مجلس کے بعد علم حضرت عباس علیہ السلام برآمد ہوا ،عزاداروں کی کثیر تعداد نے سینہ زنی و آہ بکا کے ساتھ علم حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت کی۔