لکھنو۲۴ جولائ: علمی اور ادبی دنیا کے انتہائی قدآور شخصیت ، عالمی شہرت یافتہ محقق ، مدون، مترجم ، ناقد اور صاحب طرز افسانہ نگار پروفیسر نیّر مسعود اس دارے فانی سے کوچ کر گئے۔ وہ تقریباً 81 برس کے تھے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے اپنی آبائی حویلی’’ ادبستان‘‘ میں آخری سانس لی۔ پروفیسر نیر مسعود کے انتقال کی خبر سے علمی ادبی اور مذہبی حلقوں میں گہرا غم چھا گیاہے، پروفیسر نیر مسعود کی پیدائش اپنے والدپروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کی حویلی ادبستان میں۱۲؍ نومبر ۱۹۳۶ء میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم لکھنؤ کے گردھاری سنگھ کالج میں ہوئی۔ الہٰ آباد یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی سےا علیٰ تعلیم کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اردو انگریزی اور فارسی ادبیات پر قدرت رکھنے والے پروفیسرنیر مسعود لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ فارسی صدر شعبہ کی حیثیت سے طویل عرصے تک اپنی خدمات انجام دیں اور اپنی عالمی شخصیت سے اساتذہ اور طلباء میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔ 16 نومبر 1996ء سبکدوش ہوئے۔ ان کی تقریباً تیس سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آئیں اور 300 سے زیادہ تحقیقی تنقیدی مضامین لکھے ۔ رجب علی بیگ سرور اور میر انیس پر ان کا قابل قدر کام ہے۔ اودھ کے نواب واجد علی شاہ پر ان کی کتاب نے واجد علی شاہ کے کردار کو تعصب کی بدلیوں سے باہر نکال کر روشن کیا ۔ ’سیمیا‘’ عطر کافور‘ ’طائوس چمن کی مینا ‘اور’ گنجفہ‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ان کے افسانے اپنے اندر ایک طلسمی اور پر اسرار فضا کا احساس کراتے ہیں۔ جس میں قاری پوری طرح کھو جاتاہے۔ پروفیسر نیر مسعود کی نثر سادہ وسلیس ہونے کے ساتھ ساتھ شگفتہ بھی تھی ان کے افسانوں پر ترسیل کی ناکامی کے الزام بھی لگے ۔ لیکن وہ اپنی روش پر قائم رہے۔ پروفیسر نیر مسعود اپنے اسلوب کے خود موجد بھی تھے اور خاتم بھی ۔ نیر مسعود دیگر خصوصیات کے ساتھ ہی اپنے نادر اسلوب کے لئے بھی ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔
پروفیسرنیر مسعودکو 2001ء ساہتیہ اکادمی دہلی کے قومی انعام سے نوازا گیا اور 2007ء گراںقدر سرسوتی سمان سے سرفراز کیا گیا۔ علاوہ بریں حکومت ہند نے پروفیسر نیر مسعود کو ان کی گراں مایہ عالمی خدمات کے اعتراف میں پدم شری اعزاز تفویض کیا ۔ ان کے افسانوں کے انگریزی ترجمے ’’ The Essence of Comphortsnake Catcher‘‘ کے نام سے معروف مترجم محمد عمر میمن نے کئے انگریزی کے علاوہ نیر مسعود کے افسانوں کے تراجم فرانسیسی ، اسپینی ، ہندی ، فینی، اور دیگر زبانوںمیں بھی ہوئے۔ خود مرحوم نے کئی ملکوں کے کئی اہم مصنفین تخلیقات کے تراجم کئے۔ جن میں جرمن افسانہ نگار کافکا کی کہانیوں کا ترجما بڑی اہمت کا حامی ہے۔
ان کی تدفین کربلا منشی فضل حسین میں سوگواروں کی موجودگی میں ہوئی۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ تین بیٹیاں اور اک بیٹا تمثال مسعود ہے۔ پروفیسر نیر مسعود کے انتقال کی خبر عام ہوتے ہی دنیائے علم ادب میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ ہر شخص مبہوت ہے۔ ہر چہرہ غم زدہ ہے۔ ڈاکٹر کلب صادق، پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر انیس اشفاق، داکٹر صبیحہ انور ۔ ڈاکٹر احمد عباس ردولوی، ڈاکٹر زیبا محمود ، ڈاکٹرریشماں پروین، ڈاکٹر عباس رضا نیر، سید رضا حیدر، شاہ نواز قریشی، داکٹر طارق قمر، انور جلال پوری، شکیل صدیقی، سمیت علمی اور ادبی نیز مذہبی شخصیات نے پروفیسر نیر مسعود کے انتقال کو علم و ادب کی دنیا کا ایک بڑا خسارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردو فارسی اور علوم مشرقہ کا ایک بڑا ستون گر گیاہے۔ بے شک موت برحق ہے اور اس کی گرفت میں ہر نفس کو ایک نہ ایک دن آنا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ہماری ادبی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ پروفیسر نیر مسعود بھی ادبی تاریخ میںہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔مولانا سید کلب جوادنقوی نے بھی نیر مسعود کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ۔مولانانے کہاکہ نیر مسعود شہر لکھنؤ کی آبرو تھے ۔انکا علمی و ادبی کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔