مجدد الشریعہ آیة اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفرانمآب کے اعزاز میں عالمی کانفرس
M.U.H
30/10/2020
مؤسسِ مکتبِ فقہی و کلامی لکھنؤ مجدد الشریعہ آیة اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفرانمآب پر قم ایران میں«بنیاد فرهنگی امامت» کے توسط سے آیت الله علیدوست کی موجودگی میں عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔
اس کانفرنس کے آغاز میں آیت الله علیدوست نے اخباریت کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا اور کہا: اخباریت اپنے تمام سازوسامان کے ساتھ مکمل پیکج نہیں ہے بلکہ مختلف شکلوں کے ساتھ ایک طرز عمل ہے جس نے مختلف مقامات پر مختلف علامات ظاہر کی ہیں جنہیں پانچ ادوار میں تقسیم کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا۔
انہوں نے کہا: چوتھے دور میں،اخباریت مختلف ساز و سامان کے ساتھ ایک پیکیج بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، تقلید کے خلاف جدوجہد، اجتہاد کا وجوب عینی ہونا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو مجتہد بننا چاہئے، فقہائے کرام کے بالمقابل بلا تکلف اٹھ کھڑے ہونا یہ سب چوتھے دور کی اخباریت کے لوازمات نظر آتے ہیں۔
جامعہ مدرسین کے رکن نے کہا :آج ہم اخباریت کے پانچویں سلسلے کا سامنا کر رہے ہیں جس میں تقلید کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں وہ اصول کی کتاب بھی لکھتے ہیں اور یہ فقہ کے علاوہ کے میدانوں میں بھی سرگرم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: "یہ سچ ہے کہ اخباریوں نے فقہاء پر حملہ کیا ہے ، لیکن انہوں نے بہت ساری خدمات انجام دی ہیں۔ انھوں نے پہلے اور دوسرے ادوار میں اور شیخ کلینی کے زمانے میں اور چوتھے ادوار میں اور علامہ مجلسی کے وقت میں بہت سی نمایاں خدمات انجام دیں ہیں۔
اس کے بعد حجت الاسلام والمسلمین مولانا سیدکلب جواد نقوی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کہا: حقیقت یہ ہے کہ اسلام عقل اور علم پر مبنی ہے لہذا، قرآن نے علم اور عالم کا تذکرہ کیا ہے، اور ائمه اطهار علیه السلام نے علم پر زور دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: معاشرے کی قیادت کے لئے ائمه علیهم السلام کے نائبین بھی ہمیشہ علم کے معیار سے پہچنوائے گئے ہیں، اور انکا انتخاب علم و تقوی کی بنیادوں پر ہوا ہے۔
ہندوستان کے شیعہ علماء کی کونسل کے سکریٹری جنرل نے بیان کیا: انہیں علماء میں سے ایک سید دلدارعلی غفران مآب متولد سال ۱۱۶۶ ہیں، جو ہندوستان کے نصیر آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے قدیمی ہندوستان کی قیادت و رہبری و رہنمائی فرمائی جس میں سری لنکا، بنگال، نیپال اور ممکنہ طور پر ہندوستان کا سرحدی خطہ بھی شامل تھا جو افغانستان تک پہنچتا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی: علامه غفران مآب نے ہندوستان کے بعد دینی علوم کے مطالعہ اور علوم دینیہ کی تحصیل کے لئے عراق اور ایران کا سفر شروع کیا، جہاں انہوں نے آیت الله وحید بهبهانی و سید مهدی بحرالعلوم جیسے عظیم علماء سے کسب فیض کرتے ہوئے اجازۂ اجتہاد حاصل کیا۔
حجت الاسلام والمسلمین مولانا سیدکلب جواد نقوی نے کہا: ہندوستان واپس آنے کے بعد انہوں نے عظیم علمی کارنامے انجام دیئے جو شیعہ مدارس کے لئے انکی علمی میراث کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
انہوں نے بیان کیا: میر حامد حسین مرحوم کے بھائی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ کوئی ایسا جو بدعات کو ختم اور مذہبی روایات و سنت کو زندہ کرنے والا ہوا ہے تو وہ مرحوم غفرانمآب علیہ الرحمہ ہیں۔ شیعہ علمائے ہند کی کونسل کے سکریٹری جنرل نے بیان کیا: ان کا ایک اور نمایاں کارنامہ برصغیر میں اخباریت کا مقابلہ کرنا ہے، جس کے لیے انہوں نے «اساس الاصول» کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔
انہوں نے مزید کہا:برصغیر پاک و ہند میں پہلی نماز جماعت علامہ غفران مآب کے توسط سے ادا کی گئی، جو 13 رجب کو پیغمبر اعظم(ص) کی تأسی میں ظہرین کی نماز تھی کیوں کہ مدینے کی پہلی نماز جماعت جو انہوں نے ادا کی تھی وہ ظہرین کی نماز تھی؛اسی طرح مستند حوالوں اور متعدد منقولات کے مطابق ہندوستان میں سب سے پہلی نماز جمعہ بھی آپ جناب کی ہی امامت میں ادا کی گئی۔
حجت الاسلام والمسلمین مولانا سیدکلب جواد نقوی نے آخر میں کہا: ایسی شخصیات کے لئے بہت ساری کانفرنسیں اور سیمینار منعقد ہونی چاہئیں تاکہ ان کا علم و فضل سب کے سامنے آئے۔
اس کانفرنس کے تیسرے اسپیکر کی حیثیت سے حجت الاسلام والمسلمین مهدی اسفندیاری نے کہا: پروگرام کی بنیاد بہت سال پہلے رکھی جاچکی تھی اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ استاد بزرگوار آیت الله میلانی کتاب«عبقات الانوار» پر حق حیات رکھتے ہیں کیونکہ اگر ان کی کوششیں اور زحمتیں نہ ہوتی تو شاید «عبقات الانوار» کو ہم اس قدر نہ پہچان پاتے۔
انہوں نے مزید کہا: لیکن بات یہ ہے کہ «عبقات الانوار» و «ردود کتاب تحفه» کے بعد پروگرام آہستہ آہستہ بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ حجت الاسلام والمسلمین سبحانی کے زیر نگرانی کام کے دائرہ کار کو وسعت ملی اور آج ہم مدرسۂ لکھنؤ کے عظیم اَعلام و شخصیات اور انکے آثار کے احیاء کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
بنیاد فرهنگی امامت کے شعبۂ احیاء کے ڈائریکٹر نے کہا: ایک اور پروجیکٹ شیعہ مذہبی کلام کے طریقۂ کار کی شناخت کا ہے، جس کا ایک منصوبہ ڈاکٹر سبحانی کی نگرانی میں تیار کیا جارہا ہے۔
کانفرنس کے علمی سکریٹری نے کہا:آیة اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفرانمآب کے سب سے اہم آثار میں سے ایک جسے ہم نے اپنے ایجنڈے میں شامل کیا تھا وہ کتاب «عماد الاسلام» یا «مرآت العقول» جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کتاب شیعہ کلامی کتاب میں سب سے بڑی کتاب ہے۔
حجت الاسلام مولانا سیدعاکف زیدی نے کانفرنس میں کہا: علامه غفران مآب کی خدمات کے بارے میں جو کچھ جانا جاتا ہے وہ کئی حصوں پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک ہندوستان میں نماز جمعہ کا انعقاد، اخباریت کا مقابلہ کرنا ، حوزۂ نجف کی حمایت کرنا ، بہت سے طلباء کی تربیت اور شیعہ عدلیہ کا قیام ہے۔
انہوں نے مزید کہا: علامه غفران مآب کے زیر اہتمام جمعہ کی نماز جو منعقد ہوئی وہ اس گھٹن اور خاموشی و وحشت کے خلاف مقابلہ تھا جو ہند کے شیعوں پر مسلط کردی گئی تھی۔ لیکن 18 ویں صدی کے آخر میں، جب ایک شیعہ حکومت کے وجود اور تشکیل کے لئے فضا فراہم تھی، تو پھر سکوت کو ایک انحراف سمجھا جاتا اس لیے علامه غفران مآب انحراف کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسکا مقابلہ کیا۔
حجت الاسلام مولانا سیدعاکف زیدی نے بیان کیا: اس خاندان نے 13 ویں اور 14 ویں صدی میں برصغیر پاک و ہند میں شیعہ فکر پر مبنی اسلامی تہذیب کی تعمیر کے لئے بہت سی شاندار کوششیں کیں۔
اس کانفرنس کا تیسرا حصہ آثار و خدمات علامه غفران مآب کے عنوان سے حجج اسلام والمسلمین محمدتقی سبحانی، محمدحسین مختاری و سیدمصطفی حسین نقوی (اسیف جایسی) کی موجودگی جاری رہا۔
اس موقع پر اسیف جائسی نے کہا: میں نے 60 صفحات پر مشتمل ایک مضمون اس کانفرنس کے لیے تحریر کیا ہے، جسمیں سے کچھ حصے بیان کیے دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا: آیت الله دلدارعلی غفران مآب ایک مصنف، ایک محقق اور ایک محدث تھے،علماء و نواب اودھ نے ان کی وفات کے بعد انکے اعلیٰ کردار کے مدّ نظر غفرانمآب کا لقب مستحسن سمجھا،وہ ہندوستان کے موضع نصیر آباد دار العلوم جائس میں پیدا ہوئے، اور اپنی علمی اور تبلیغی زندگی کے دوران بابائے فلسفہ،علامہ، اور مجدّدالشریعه کے خطابات حاصل رہے۔
حجت الاسلام والمسلمین سید مصطفی حسین نقوی نے نشاندہی کی کہ: غفرانمآب،سلطان العلماء،سید العلماء، مفتی محمد قلی شاگرد غفرانمآب،علامہ سید محمد فیض آبادی شاگرد غفرانمآب،علامہ مفتی محمد عباس شاگرد سید العلماء،علامہ اعجاز حسین برادر علامہ میر حامد حسین اور شاگرد خلاصة العلماء و ممتاز العلماء و سید العلماء اور تمام مکتب فقہی و کلامی غفرانمآب کے نمایاں ترجمانوں کے بیانات کے مطابق ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بارغفرانمآب نے اپنی تحریک دیندار و بیداری کے تحت سادات و مؤمنین کو شیعیت کی جانب لاکر شیعوں کو ایک قوم و ملت کی صورت میں پیش کرکے سارے عبادات و اعمال رسول خیر الانام(ص) و اہلبیت کرام(ع) کے طریقے پر انجام دلوائے، افسوس کہ برّ صغیر کا یہ خورشید علم و عمل ۱۹ رجب ۱۲۰۰ ہجری کو اس جگہ پر غروب ہوا جسے آسمان چھوتا دکھائی دیتا ہے، سورج غروب آفتاب کے بعد کچھ حصے پر ہی محیط ہوتا ہے، لیکن حضرت غفران مآب غروب کے بعد بھی تمام لوگوں پر تابندہ و روشن و منور رہے، آپ نے اپنے جدوجہد و اجتہاد کے ذریعے برصغیر پاک و ہند میں شیعت کی طرف لوگوں کو راغب کیا، انکی جدوجہد مختلف علمی اور عملی شعبوں میں نمایاں رہی ہے، جس کی وجہ سے ہی انکا خاندان «خاندان اجتہاد» کے نام سے جانا جاتا ہے،آپ کا علمی ورثہ تمام شیعوں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے سرچشمۂ فیض ہے۔
انہوں نے مزید کہا: آپ سے پہلے کے علماء یا تو تقیہ میں تھے یا صوفی خیالات رکھتے تھے، لیکن آپ کی علمی اور تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ہی یہ خیالات برصغیر میں بڑے پیمانے پر ختم ہوگئے۔
نور ہدایت فاؤنڈیشن کے سکریٹری اور ماہنامہ شعاع عمل کے مدیر اسیف جائسی نے کہا: غفرانمآب علیہ الرحمہ سے لے کر اب تک خداوند متعال کی مدد اور اہلبیت کرام علیہم السلام کی تایید سے بر صغیر میں دبستان خاندان اجتہاد کے علمی و عملی کارناموں پر تحقیقی کام تسلسل سے ہوتا رہا جسمیں امامیہ مشن لکھنؤ کے بعد نور ہدایت فاؤنڈیشن کا اہم کردار ہے اس مؤسسہ نے ۲۰۰۰ عیسوی میں تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کے مدّ نظر احیائے تراث کا کام لکھنؤ سے چل کر ہند و پاک سے ہوتا ہوا ایران تک آگیا اور اب عراق میں بھی یہ کا شروع ہوچکا ہے۔
حجت الاسلام مولانا سید محمد ابو الفضل لکھنوی نے اسیف جائسی کے بیانات کی فارسی ترجمانی بنحو احسن انجام دی۔
حجت الاسلام والمسلمین محمدحسین مختاری نے بھی اس تقریب میں بیان کیا: «خاندان اجتہاد» اور مرحوم غفران مآب اسی آیت مبارکہ کے مصادیق میں سے ہیں جسمیں ارشاد ہے: عالم ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کی اصل ثابت اور اسکی شاخ آسمان میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: طرازِ اوّل کے علماء اور عمدہ اور بلند پایہ قسم کی کتابیں «خاندان علامه غفران مآب» میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ 35 سال کی عمر میں، قم اور نجف کے علمائے کرام کے ساتھ اپنی شاگردی کا دورانیہ گزارنے کے بعد وہ شمالی ہندوستان واپس آئے اور وہاں ماہ رجب میں جمعہ کی پہلی نماز جمعہ ادا کروائی۔
حجت الاسلام والمسلمین دکتر محمدتقی سبحانی نے اجلاس کے اختتام پر کہا: شیعہ تہذیب کی تعمیر کا خیال کچھ قدیم یادگاروں کی طرح ہے جو کچھ دوری سے نظر آتی رہتی ہے، لیکن جب آثار قدیمہ کے ماہرین آس پاس کی زمینیں کھودتے ہیں تو ایک پورا کا پورا شہر زمین کے نیچے ملتا ہے؛ آج ہم جس قدر آگے بڑھتے ہیں ، اتنا ہی ہمیں «مدرسۂ لکھنؤ» کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی: مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ «صاحب معالم» کو کسی بھی طرح سے اخباری نہیں سمجھا جاسکتا ہے، اور جو معززین انکے اخباری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں اسے علمی حلقوں میں درست علمی حوالوں سے اسے ثابت کرنا ہوگا۔
اطلاع دہندگان: اراکین و کارکنان و متعلقینِ مکتبِ فقہی و کلامی غفرانمآب و برِّ صغیر لکھنؤ انڈیا۔