حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت 13 رجب سنہ 30 عام الفیل کو خانہ کعبہ میں ہوئی آپؑ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے علم و ولایت کے وارث ہیں ۔ آپ ؑ نے بچپن ہی سے آغوش پیغمبر میں پرورش پائی شب ہجرت بستر رسول پر سو کر نبی اکرم ﷺ پر فدا ہونے کا عملی مظاہرہ کیا اور مدینے میں بھی غزوہ تبوک کے علاوہ رسول اکرام ﷺ کی تمام غزواۃ میں شرکت کرکے اپنے ایمانی کمالات کے جوہر دکھا کر پیغمبر اسلام ﷺ کے دست راست ثابت ہوئے ۔
عالمی اردوخبررساں ادارے”نیوز نور” پیغمبر اسلام کے علم و ولایت کے وارث امیر المومنین شاہ ولایت کی شہادت کی مناسبت سے‘‘امام علی (علیہ السلام) قرآن اور سنت کی روشنی میں ’’ کے عنوان سے ایک مقالہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔
حضرت علی(علیہ السلام) قرآن اور سنت کی روشنی میں:
امام علی علیہ السلام قرآن کی نظرمیں
حضرت علی علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نازل ہوئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلام ؐ کے بعد آپ ؑ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ ؑ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ ؑ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں (۱)جو آپ ؑ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔ یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیں آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :
۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔
۲۔وہ آیات جو آپ ؑ اور آپ ؑ کے اہل بیت ؑ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔
۳۔وہ آیات جو آپ ؑ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔
۴۔وہ آیات جو آپ ؑ کی شان اور آپ ؑ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔
ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں : آپ ؑ کی شان میں نازل ہونے والی آیات آپ ؑ کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ہیں :
۱۔اللہ کا ارشاد ہے :” إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ “۔(۲)’’آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے ‘‘۔طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:’’اناالمنذرولکل قوم ھاد ‘‘،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’انت الہادي بک یھتدي المھتدون بعدي‘‘۔(۳)’’آپ ہا دی ہیں اور میرے بعد ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پا ئیں گے ‘‘۔
۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے :” وَتَعِيهَا أُذُنٌ وَاعِيةٌ ” (۴)۔’’تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت بنائیں اور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں‘‘۔امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ فرمایا:’’سألتُ رَبِّیْ اَن یَجْعَلَھَااذُنُکَ یاعلیُّ،فماسمعتُ مِنْ رسُولِ اللّٰہِ (ص) شَیْئاًفنَسِیْتُہُ‘‘(۵)۔’’میں نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ وہ کان تمہارا ہے لہٰذا میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ سے جو کچھ سنا ہے اسے کبھی نہیں بھولا‘‘۔
۳۔خداوند عالم کا فرمان ہے :” الَّذِينَ ينْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيهِمْ وَلَا هُمْ يحْزَنُونَ”۔(۶)’’جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں خا مو شی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انھیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ حزن و ملال ‘‘۔امام ؑ کے پاس چار درہم تھے جن میں سے آپ ؑ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا ،ایک درہم دن میں ،ایک درہم مخفی طور پر اور ایک درہم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے آپ ؑ سے فرمایا : آپ ؑ نے ایساکیوں کیا ہے؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدۂ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ہوں اسی لئے میں نے ایسا کیا ‘‘اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی۔(۷)
۴۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے :” إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيرُ الْبَرِيةِ “۔(۸) ’’اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بہترین خلائق ہیں ‘‘۔ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی علیہ السلام وہاں پر تشریف لائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا:’’وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الْفَاءِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘‘۔’’خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں‘‘۔اسی موقع پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کہا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں۔(9)
۵۔خداوند عالم کا فرمان ہے :” فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ”۔(۱۰) ’’اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو‘‘۔طبری نے جابر جعفی سے نقل کیا ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو حضرت علی ؑ نے فرمایا :’’ہم اہل ذکر ہیں ‘‘۔(11)
۶۔خداوند عالم کا فرمان ہے :” يا أَيهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ(المائدة/67)
(۱۲) ’’اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گو یا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ‘‘۔جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) حجۃ الوداع سے واپس تشریف لا رہے تھے تو غدیر خم کے میدان میں یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپؐ کو اپنے بعد حضرت علی ؑ کواپنا جانشین معین کرنے کا حکم دیا گیا اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ و جا نشین معین فرمایااور آپ ؑ نے اپنا مشہور قول ارشاد فرمایا :” مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ. اللهمَّ والِ مَنْ والاهُ و عادِ مَنْ عاداهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ واخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ” جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی بھی مو لا ہیں خدا یا جو اسے دو ست رکھے تو اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر ‘‘ ۔عمر نے کھڑے ہو کر کہا :مبارک ہو اے علی بن ابی طالب آپ ؑ آج میرے اورہر مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے ہیں ‘ (۱۳)
۷۔خداوند عالم کا ارشاد ہے :”الْيوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا”(المائدة/3)۔ ’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کا مل کردیاہے اوراپنی نعمتوں کو تمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے‘‘۔یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ھ کواس وقت نازل ہو ئی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ ) نے اپنے بعد کیلئے حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ معین فرمایااور آنحضرت نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فرمایا : ’’اللّٰہ اکبر علیٰ اِکمالِ الدِّین،وَاِتْمَامِ النِّعْمَۃِ،ورضِیَ الرَّبِّ بِرِسَالَتِي وَالْوِلایَۃِ لِعَلِيْ بنِ اَبِیْ طَالِب‘‘۔(۱۴)’’اللہ سب سے بڑا ہے دین کا مل ہو گیا ،نعمتیں تمام ہو گئیں ،اور پروردگار میری رسالت اور علی بن ابی طالب ؑ کی ولایت سے راضی ہو گیا.
جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے روایت ہے :میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ مسجد میں نمازظہر پڑھ رہا تھا تو ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا :خدا یا گواہ رہنا کہ میں نے مسجد رسول میں آکر سوال کیا لیکن مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا ، حضرت علی ؑ نے رکوع کی حالت میں اپنے داہنے ہاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیاسائل نے آگے بڑھ کر نبی ؑ کے سامنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال لی ،اس وقت رسولؐ اسلام نے فرمایا :خدایا !میرے بھا ئی مو سیٰ ؑ نے تجھ سے یوں سوال کیا :” قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَيسِّرْ لِي أَمْرِي،وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي،يفْقَهُوا قَوْلِي، وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي،هَارُونَ أَخِي، اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي، وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي” (۱۵) ’’خدایا ! میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ،اورمیرے اہل میں سے میرا وزیر قرار دے ،ہارون کو جو میرا بھا ئی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے ‘‘تونے قرآن ناطق میں نازل کیا :”سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا ” (۱۶) ’’ ہم تمہارے بازؤوں کو تمہارے بھا ئی سے مضبوط کر دیں گے ،اور تمہارے لئے ایسا غلبہ قراردیں گے کہ یہ لوگ تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے ‘‘۔’’خدایا میں تیرا نبی محمد اور تیرا منتخب کردہ ہوں میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ،میرے اہل میں سے علی ؑ کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کردے”۔
جناب ابوذر کا کہنا ہے :خدا کی قسم یہ کلمات ابھی ختم نہیں ہونے پائے تھے کہ جبرئیل خدا کا یہ پیغام لیکر نازل ہوئے ،اے رسول پڑھئے :” إِنَّمَا وَلِيكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ” (۱۷)اس روایت نے عام ولایت کو اللہ ،رسول اسلام اور امیر المو منین ؑ میں محصور کر دیا ہے ،آیت میں صیغۂ جمع تعظیم و تکریم کے لئے آیا ہے ،جو جملۂ اسمیہ کی طرف مضاف ہوا ہے اور اس کولفظ اِنَّما کے ذریعہ محصور کردیا ہے ،حالانکہ ان کے لئے عمومی ولایت کی تا کید کی گئی ہے اور حسان بن ثابت نے اس آیت کے امام ؑ کی شان میں نازل ہونے کو یوں نظم کیا ہے :مَن ذَابِخَاتِمِہِ تَصَدَّقَ رَاکِعاً وَأَسَرَّھَافِيْ نَفْسِہِ اِسْرارا۔(۱۸)’’علی ؑ اس ذات کا نام ہے جس نے حالت رکوع میں زکات دی اور یہ صدقہ آپ ؑ نے نہایت مخفیانہ انداز میں دیا‘‘۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام روایات کی رو شنی میں
صحاح اور سنن جیسے مصادر امام کے متعلق نبی سے مروی روایات سے پُر ہیں جو اسلامی عدالت کے قائد و رہبر امام کے فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کے مقام کو بلند کرتی ہیں ۔
احادیث کی کثرت اور راویوں کے درمیان اُ ن کی شہرت میں غور کرنے والا پیغمبر اسلام ؐ کے اس بلند مقصد سے آگاہ ہو سکتا ہے جو امام ؑ کی مرکزیت اور ان کے خلیفہ معصوم ہونے کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ نبوت ہمیشہ کے لئے باقی رہے اور وہ امت کی مشکلات حل کر سکے ،اُ ن کے امور کی اصلاح کر سکے اور اُن کو ایسے راستہ پر چلائے جس میں کسی طرح کی گمرا ہی کا امکان نہ ہو نیز امت مسلمہ پوری دنیا کے لئے نمونۂ عمل بن سکے ۔بہر حال جب ہم امام کی فضیلت کے سلسلہ میں روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روایات کا ایک گروہ آپ کی ذات سے مخصوص ہے ،روایات کا دوسرا طائفہ اہل بیت ؑ کے فضائل پر مشتمل ہے جس میں لازمی طور آپ بھی شامل ہیں چونکہ آپ ؑ عترت کے سید و آقا ہیں اور ان کے علم کے منارے ہیں ہم اس سلسلہ میں ذیل میں چند روایات پیش کرتے ہیں :پہلا دستہ یہ روایات تعظیم و تکریم کی متعددصورتوں پر مشتمل ہیں اور امام فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں،ملاحظہ کیجئے:نبی کے نزدیک آپ ؑ کا مقام و مرتبہ امام ؑ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول (ص) کے نزدیک تھے ،ان میں سب سے زیادہ رسول ؐ سے قربت رکھتے تھے ،آپ ابو سبطین ،رسول (ص) کے شہر علم کا دروازہ ،آپ رسول ؐسے سب سے زیادہ اخلاص رکھتے تھے ،احادیث کی ایک بڑی تعداد رسول اسلام (ص)سے نقل کی گئی ہے جو آپ ؑ کی محبت و مودت کی گہرا ئی پر دلالت کرتی ہے اس میں سے کچھ احادیث مندرجہ ذیل ہیں :۱۔امام نفس نبی (ص)آیۂ مباہلہ میں صاف طور پر یہ بات واضح ہے کہ بیشک امام نفس نبی ہیں ،ہم گذشتہ بحثوں میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں اور یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ نبی اکرم (ص) نے خود یہ اعلان فرمادیا تھا کہ امام ؑ ان کے نفس ہیں منجملہ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ کیجئے :
عثمان کے سوتیلے بھا ئی ولید بن عقبہ نے نبی اکرم (ص) کو خبر دی کہ بنی ولیعہ اسلام سے مرتد ہو گیا ہے ،تو نبی اکرم (ص) نے غضبناک ہو کر فرمایا :’’لَیَنْتَھِیَنَّ بَنُوْوَلِیْعَۃَ اَوْلَاَبْعَثَنَّ اِلَیْھِمْ رَجُلاً کَنَفْسِیْ،یَقْتُلُ مَقَاتِلَھُمْ وَیَسْبِیْ ذَرَارِیْھِمْ وَھُوَ ھٰذا‘‘،’’بنو ولیعہ میرے پاس آتے یا میں ان کی طرف اپنے جیسا ایک شخص بھیجوں جو ان کے جنگجوؤں کوقتل کرے اور ان کے اسراء کولے کر آئے اور وہ یہ ہے‘‘،اس کے بعد امام ؑ کے کندھے پر اپنا دست مبارک رکھا ۔(۱۹)عمرو بن عاص سے روایت ہے :جب میں غزوۂ ذات سلاسل سے واپس آیا تو میں یہ گمان کر تا تھا کہ رسول ؐمجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ،میں نے عرض کیا :یارسول اللہ (ص) آپ ؑ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کو ن ہے ؟آپ نے چندلوگوں کاتذکرہ کیا۔میں نے عرض کیا: یارسول اللہ (ص) علی کہاں ہیں ؟تو رسول اللہ ؐنے اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا :’’اِنَّ ھٰذایَسْأَلُنِيْ عن النفسِ‘‘،(۲۰)’’بیشک یہ میرے نفس کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ‘‘۔
۲۔امام ؑ نبی (ص) کے بھا ئی نبی اکرم (ص) نے اصحاب کے سامنے اعلان فرمایا کہ امام علی ؑ آپ کے بھا ئی ہیں ،اس سلسلہ میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں چند روایات پیش کر تے ہیں :ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ہے :رسول اسلام (ص) نے اصحاب کے ما بین صیغۂ اخوّت پڑھا ،تو علی ؑ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ ؑ نے عرض کیا :یارسو ل ؐاللہ آپ ؑ نے اصحاب کے درمیان صیغۂ اخوت پڑھاہے لیکن میرے اور کسی اور شخص کے درمیان صیغۂ اخوت نہیں پڑھا ہے؟تورسول اللہ ؐنے
حضرت علی ؑ سے فرمایا:” اَنْتَ اَخِيْ فَيْ الدَّنْیَاوَالآخِرَة” ۔(۲۱)’’آپ ؑ میرے دنیا اور آخرت میں بھا ئی ہیں ‘‘۔امام ؑ کے لئے نبی کا صرف اس دنیامیں بھا ئی ہونا کا فی نہیں ہے بلکہ اس کا تسلسل تو آخرت تک ہے جس کی کو ئی حد نہیں ہے ۔
انس بن مالک سے روایت ہے : رسول اسلا م (صلی اللہ علیہ وآلہ) منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ دینے کے بعد ارشاد فرمایا :’’علی بن ابی طالب ؑ کہاں ہیں ؟‘‘،تو فوراً علی ؑ یوں گویا ہوئے :میں یہاں ہوںیارسول اللہ ؐ ، رسول ؐاللہ نے علی ؑ کو اپنے سینہ سے لگایا اور آپ ؑ کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی جگہ کا بوسہ لیا اور بلند آواز میں فرمایا :’’اے مسلمانو!یہ میرے بھا ئی ،چچا زاد بھائی اور میرے داماد ہیں ،یہ میرا گوشت اور خون ہیں ،یہ ابوسبطین حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں‘‘(۲۲)ابن عمر سے روایت ہے :میں نے حجۃ الوداع میں اس وقت رسول اللہ (ص) کو یہ فرماتے سنا ہے: جب آپ ناقہ پر سوار تھے ،تو آپ ؑ نے علی ؑ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ فرمایا :’’خدایا گواہ رہنا ۔ خدایا میں نے پہنچادیا کہ یہ میرے بھا ئی ،چچا زاد بھا ئی ،میرے داماد اورمیرے دونوں فرزندوں کے باپ ہیں۔خدایا ! جو ان سے دشمنی کرے اس کواوندھے منھ جہنم میں ڈال دے ‘‘(۲۳)۔
نبی اور علی ؑ ایک شجرۂ طیبہ سے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے یہ اعلان فرمایا کہ میں اور علی ؑ ایک شجرہ سے ہیں، اس سلسلہ میں متعدد احادیث بیان ہو ئی ہیں ہم ذیل میں بعض احادیث پیش کرتے ہیں :جابر بن عبداللہ سے روایت ہے :میں نے رسول اللہ (ص) کو علی ؑ سے یہ فرماتے سنا ہے : ’’اے علی لوگ مختلف شجروں سے ہیں اور میں اور تم ایک ہی شجرہ سے ہیں اس کے بعد رسول اللہ ؐ نے اس آیت کی تلاوت فرما ئی :(وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُصِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاءٍ وَاحِد)(۲۴)۔’’اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کھجوریں ہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ہی پا نی سے سینچے جاتے ہیں‘‘۔
رسول ؐاللہ کا فرمان ہے : ’’میں اور علی ؑ ایک ہی شجرہ سے ہیں اور لوگ مختلف شجروں سے ہیں ‘‘(۲۵)۔یہ شجرہ کتنا بلند و بالا ہے اس درخت کا کیا کہنا جس سے سرور کا ئنات انسانی تہذیب کے قائد نبی اکرم (ص)اور آپؐ کے شہر علم کا دروازہ امام امیر المو منین ؑ وجود میں آئے یہ وہ مبارک شجرہ ہے جس کی جڑ زمین میں ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے یہ وہ درخت ہے جس کی ہر نسل نے ہر دور میں لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔
۴۔امام نبی (ص) کے وزیر نبی اکرم (ص) نے متعدد احادیث میں اس بات کی تاکید فر ما ئی ہے کہ امام میرے وزیر ہیں ۔
اسماء بنت عمیس سے روایت ہے کہ میں نے نبی ؐ کو یہ فرماتے سنا ہے :خدایا ! میں وہی کہہ رہا ہوں جو میرے بھا ئی مو سیٰ نے کہا تھا : ’’خدایا ! میرے اہل میں سے میرا وزیر قرار دے ،علی ؑ کو جو میرا بھا ئی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے ،تاکہ ہم تیری بہت زیادہ تسبیح کرسکیں ،تیرا بہت زیادہ ذکر کرسکیں ، یقیناتوہمارے حالات سے بہتر با خبر ہے ‘‘(۲۶)۔
۵۔امام ؑ نبی (ص) کے خلیفہ نبی اکرم (ص) نے دعوت اسلام کے آغاز ہی میں یہ اعلان فرمادیا تھا کہ میرے بعد حضرت علی ؑ میرے خلیفہ ہیں ،یہ اعلان اس وقت کیا تھا جب قریش کے خاندان اسلام سے سختی سے پیش آرہے تھے ،اور آپ ؐ نے اپنی دعوت کے اختتام میں قریش سے فرمایا:’’اب یہ (یعنی علی ؑ ) تمہارے درمیان میرے بھا ئی ،وصی اور خلیفہ ہیں ،ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ‘‘(۲۷)۔رسولؐ اللہ نے اپنے بعد امام ؑ کی خلافت کو اسلام کی دعوت سے متصل فرمایا ،اس کے بعد بت پرستی اور شرک کے بارے میں پر رو شنی ڈالی ،مزید یہ کہ اس مطلب کے سلسلہ میں متعدد اخبار و روایات ہیں جن میں نبی اکرم ؐ نے اپنے بعد امام کی خلافت کا اعلان فرمایاان میں سے ہم کچھ احادیث ذیل میں پیش کررہے ہیں :
رسول اللہ (ص) کا فرمان ہے :’’اے علی ؑ !تم میرے بعد اس امت کے خلیفہ ہو ‘‘(۲۸)۔رسول اللہ (ص) کا فرمان ہے :’’علی بن ابی طالب تم میں سب سے پہلے اسلام لائے ،تم میں سب سے زیادہ عالم ہیں اور میرے بعد امام اور خلیفہ ہیں ‘‘۔(۲)
۶۔ امام ؑ کی نبیؐ سے نسبت، ہارون کی موسیٰ سے نسبت کے مانند ہےنبی اکرم (ص) سے ایک ہی مضمون اور ایک ہی نتیجہ کی متعدد احادیث نقل ہو ئی ہیں کہ آپ ؐ نے علی ؑ سے فرمایا :’’تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی ۔‘‘اس سلسلہ میں کچھ احادیث ملاحظہ فرما ئیں :آنحضرت ؐ نے حضرت علی ؑ کیلئے فرمایا ہے : ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا ‘‘۔(۳۰)سعید بن مسیب نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے انھوں نے اپنے والد سعد سے نقل کیا ہے : رسول اللہ (ص) نے علی ؑ کیلئے فرمایا ہے :’’ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے نسبت تھی مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا ‘‘،سعید کا کہنا ہے :میں نے بذات خود یہ حدیث بیان کر نا چاہی اور میں نے ان سے ملاقات کی اور وہ حدیث بیان کی جو مجھ سے عامر نے بیان کی تھی اس نے کہا :میں نے سنا ہے ۔میں نے پوچھا :کیا تم نے سنا ہے ؟!اس نے اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں دے کر کہا :ہاں ،اگر میں نے یہ بات نہ سنی ہو تو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں ‘‘۔(۳۱)
۷۔امام شہر علم نبی (ص)کا دروازہ نبی اکر م ؐنے امام کی عظمت و منزلت کا قصیدہ پڑھتے ہوئے ان کو اپنے شہر علم کا دروازہ قرار دیا ،یہ حدیث متعدد طریقوں سے بیان ہو ئی ہے ،قطعی السند ہے اور نبی اکرم (ص)سے متعدد مو قعوں پر نقل کی گئی ہے :
جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے :میں نے حضرت رسول خدا (ص) کو حدیبیہ کے دن علی کے دست مبارک کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے یہ فرماتے سنا ہے :’’یہ نیک و صالح افراد کے امیر، فاسق و فاجر کو قتل کرنے والے ہیں ،جو ان کی مدد کرے اس کی مدد کرنے والے ،جو ان کو رسوا کرے اس کو ذلیل کرنے والے ہیں ‘‘آپ ؐ نے آواز کھینچ کر فرمایا :’’میں شہر علم ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں جو گھر میں آنا چاہے اس کو چاہئے کہ وہ دروازے سے آئے ‘‘۔(۳۲)
ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) کافرمان ہے :’’ میں شہر علم ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں جو شہرمیں آنا چاہے اس کو چا ہئے کہ وہ دروازے سے آئے ‘‘(۳۳)۔رسول اللہ (ص) کا ،فرمان ہے :’’علی میرے علم کا دروازہ ہیں ،میں جو کچھ امت کیلئے لیکر آیا ہوں اس کو میرے بعد امت تک پہنچانے والے ہیں ،اُن کی محبت ایمان ہے ،ان سے بغض رکھنا نفاق ہے اور اُن کے چہرے پر نظر کرنا رافت ’’مہربانی ‘‘ ہے ‘(۳۴)۔بیشک امام شہر علم نبی ؐ کا دروازہ ہیں ، امام سے جو دینی باتیں،احکام شریعت ،محاسن اخلاق اور آداب حسنہ نقل ہوئے ہیں ان کو امام نے نبی ؐ سے اکرم (ص) سے حاصل کیا ہے ۔نبی اکرم (ص) نے اپنے بعد علم کے ایسے سر چشمے چھوڑے ہیں جن کے ذریعہ زندگی حکمت اور رونق کے ساتھ آگے بڑھتی ہے ،پیغمبر نے ان کو امام کے سپرد فرمایا تاکہ آپ ؐکی امت اُن سے سیراب ہو تی رہے لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ قریش کے امام سے بغض و کینہ رکھنے والوں نے اِن نور کے دروازوں کو بند کر دیا ،امت کو ان سے فیضیاب ہونے سے محروم کردیا اور زندگی کی گم گشتہ راہوں میں تنہا چھوڑدیا ۔
۸۔امام ؑ ،انبیاء کے مشابہ نبی اکرم (ص) نے اپنے اصحاب کے معاشرہ میں فرمایا :’’اگر تم آدم کو ان کے علم ،نوح کو ان کے ہم و غم ،ابراہیم کو اُن کے خُلق ،موسیٰ کو اُن کی مناجات ،عیسیٰ کو ان کی سنت اور محمد ؐ کو ان کے اعتدال اور حلم میں دیکھنا چا ہوتو اِن کو دیکھو ‘‘جب لوگوں نے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا تو وہ امیر المو منین ؑ تھے ۔شاعر کبیر ابو عبد اللہ مفجع نے اپنے قصیدہ میں امام ؑ کے ماثورہ مناقب کو یوں نظم کیا ہے :ایّھا اللَّا ئمی لِحُبِّی علِیّاًقُم ذَمیماً الیٰ الجَحِیْمِ خَزِیّاًأّ بِخَیْرِ الاَنَام عَرَّضْتَ لَازِلْتَ مَذُوداً عَنِ الھُدیٰ وَ غَوِیّا،أشبِہ الانبیاء طِفلاً وزولا ًوَفطِیماًورَاضِعاً وَغَذِیّاً کَانَ فِیْ علمہِ کَآدَمَ اِذْ عُلِّمَ شَر حَ الاسْمَاءِ والمکنِیّا وَکَنُوحٍ نَجَامِنَ الھُلْکِ یَوماً فِیْ مَسِیْرٍاِذِ اعتَلَاالجودِیّاً)36(’’حُبِّ علی ؑ کی خاطر میری ملامت کرنے والے جا ذلت و خواری کے ساتھ دوزخ میں جل جا۔کیا تونے اپنے عمل کے ذریعہ بہترین انسان یعنی علی ؑ پر تشنیع کرنا چا ہی ہے ،خدا کرے کہ تو ہمیشہ ہدایت سے دور رہے ۔علی ؑ بچپن ،جوا نی ،شیر خوارگی غرض ہر حال میں انبیاء سے مشابہ تھے ۔علی ؑ علم میں آدم ؑ کے مانند تھے چنانچہ آپ ؑ نے اسماء نیزمخفی امورکی تعلیم دی ۔آپ ؑ نوح ؑ کی طرح تھے جو کوہ جودی پر پہنچنے سے غرق ہونے سے محفوظ رہے ‘‘۔
۹۔ علی ؑ کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے نبی اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا ہے کہ علی ؑ کی محبت ایمان اور تقویٰ ہے اوراُن سے بغض رکھنا نفاق اور معصیت ہے، اس سلسلہ میں بعض ماثورہ اقوال درج ذیل ہیں :حضرت علی ؑ سے روایت ہے : ’’اس خدا کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا میرے سلسلہ میں نبی امی نے یہ عہد لیا ہے کہ مجھ سے مو من کے علاوہ اور کو ئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے علاوہ اور کو ئی بغض نہیں رکھے گا ‘‘(۳۷)۔مساور حمیری نے اپنی ماں سے روایت کی ہے :وہ ام سلمہ کے پاس گئی تو اُن کو یہ کہتے سنا: رسول ؐاللہ (ص) کا ، فرمان ہے :علی ؑ سے منافق محبت نہیں کرے گا اور مومن بغض نہیں رکھے گا ‘‘(۳۸)۔ابن عباس سے روایت ہے : رسول اللہ (ص) نے حضرت علی ؑ کے چہرہ کی طرف رُخ کرتے ہوئے فرمایا : مو من کے علاوہ تجھ سے کو ئی محبت نہیں کرے گا ،اور منافق کے علاوہ اور کو ئی بغض نہیں کرے گا ، جس نے تجھ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ،جس نے تجھ سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض کیا ،میرا دوست اللہ کا دوست ہے ،میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور اس پر وائے ہو جو تجھے میرے بعد غضبناک کرے ‘ ‘ ۔(۳۹)
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی ؑ کے لئے فرمایا :آپ ؑ کی محبت ایمان ہے ،آپ ؑ سے بغض رکھنا نفاق ہے ،جنت میں سب سے پہلے آپ ؑ سے محبت کرنے والا داخل ہوگا اور دوزخ میں سب سے پہلے آپ سے بغض رکھنے والا داخل ہو گا ‘‘(۴۰)۔یہ حدیث اصحاب میں مشہور ہو گئی ،اور وہ اسی حدیث کے معیار پر جو علی ؑ سے محبت کرتا تھا اس کو مومن اور جو علی ؑ سے بغض رکھتا تھا اسے منافق کہتے تھے ،جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کہتے ہیں : ہم منافقین کواللہ اوراس کے رسول کی تکذیب ،نماز سے رو گردانی اور علی بن ابی طالب ؑ سے بغض و نفاق رکھنے سے پہچان لیا کرتے تھے ‘‘۔(۴۱)صحابی کبیر جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے :ہم منافقین کو علی ؑ سے بغض رکھنے کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں پہچانتے تھے (۴۲)۔
حوالہ جات:
۱: تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔
۲: سورۂ رعد، آیت ۷۔
۳: تفسیر طبری ،جلد ۱۳،صفحہ ۷۲۔اور تفسیر رازی میں بھی تقریباً یہی مطلب درج ہے ۔کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۷ ۔ تفسیر حقائق، صفحہ ۴۲۔مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔
۴: سورۂ حاقہ، آیت ۱۲۔
۵: کنزالعمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۰۸۔اسباب النزولِ واحدی، صفحہ ۳۲۹۔تفسیر طبری، جلد ۲۹،صفحہ ۳۵۔
۶: سورۂ بقرہ ،آیت ۲۷۴۔
۷: اسد الغابہ، جلد ۴،صفحہ ۲۵،صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۸۔اسباب النزول مؤلف واحدی، صفحہ ۶۴۔
۸: سورۂ بینہ، آیت ۷۔
۹: در المنثور ’’اسی آیت کی تفسیر میں ‘‘جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹۔تفسیر طبری، جلد ۳۰،صفحہ ۱۷۔صواعق المحرقہ ،صفحہ ۹۶۔
۱۰: سورۂ نحل، آیت ۴۳۔
۱۱: تفسیر طبری ،جلد ۸ ،صفحہ ۱۴۵۔ ۲۔سورۂ مائدہ ،آیت ۶۷۔
۱۲: ا سباب النزول، صفحہ ۱۵۰۔تاریخ بغداد، جلد ۸،صفحہ ۲۹۰۔تفسیر رازی، جلد ۴،صفحہ ۴۰۱۔در منثور، جلد ۶،صفحہ ۱۱۷۔
۱۳: سورۂ مائدہ ،آیت ۳
۱۴: دلائل الصدق ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۲۔
۱۵: سورۂ طہ، آیت ۲۵۔۳۲۔
۱۶: سورۂ قصص، آیت ۳۵۔
۱۷: تفسیر رازی ،جلد ۱۲،صفحہ ۲۶،نورالابصار ،صفحہ ۱۷۰۔تفسیر طبری، جلد ۶،صفحہ ۱۸۶۔
۱۸: در منثور، جلد ۳،صفحہ ۱۰۶۔کشاف، جلد ۱،صفحہ ۶۹۲۔ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۱۰۲۔مجمع الزوائد ،جلد ۷،صفحہ ۱۷۔کنز العمال، جلد ۷صفحہ ۳۰۵۔
۱۹: مجمع الزوائد، جلد ۷،صفحہ ۱۱۰،ولید اپنی بات کے ذریعہ بنی ولیعہ کی تردید کر رہا تھا اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی :( یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ۔)سورۂ حجرات، آیت ۶۔’’ایمان والو اگر کو ئی فاسق کو ئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک نا واقفیت میں پہنچ جاؤ ۔
۲۰: کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔
۲۱: صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۲۹۹۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۱۴۔
۲۲: ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۹۲۔
۲۳: کنز العمال ،جلد ۳،صفحہ ۶۱۔
۲۴: سورۂ رعد ،آیت ۴۔
۲۵: کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔
۲۶: الریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۱۶۳۔
۲۷: تاریخ طبری، جلد ۲،صفحہ ۱۲۷۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۲۔تاریخ ابو الفدا،جلد ۱،صفحہ ۱۱۶۔مسند احمد، جلد ۱،صفحہ ۳۳۱۔ کنزالعمال، جلد ۶،صفحہ ۳۹۹۔
۲۸: مراجعات، صفحہ ۲۰۸۔
۲۹: مراجعات، صفحہ۲۰۹۔
۳۰: مسند ابو داؤد، جلد ۱ ،صفحہ ۲۹۔حلیۃ الاولیاء، جلد ۷،صفحہ ۱۹۵۔مشکل الآثار، جلد ۲،صفحہ ۳۰۹۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۱، صفحہ ۱۸۲۔تاریخ بغداد، جلد ۱۱،صفحہ ۴۳۲۔خصائص النسائی ،صفحہ ۱۶۔
۳۱: اسد الغابہ ،جلد ۴،صفحہ ۲۶،خصائص النسائی ،صفحہ ۱۵۔ صحیح مسلم ،کتاب فضائل الاصحاب، جلد ۷صفحہ ۱۲۰۔ سکَکَ(دونوں کاف پر فتحہ) الصمم واستکّت مسامعہ :اذا صمّ۔
۳۲: تاریخ بغداد، جلد ۲،صفحہ ۳۷۷۔
۳۳: کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۴۰۱۔
۳۴: کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۶۔صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۳۔
۳۵: الزول :یعنی جوان۔
۳۶: معجم الادباء، جلد ۱۷،صفحہ ۲۰۰۔
۳۷: صحیح ترمذی، جلد ۲، صفحہ ۳۰۱۔صحیح ابن ماجہ ، صفحہ ۱۲۔تاریخ بغداد، جلد ۲، صفحہ ۲۵۵۔حلیۃ الاولیاء ، جلد ۴، صفحہ ۱۸۵۔
۳۸: صحیح ترمذی ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۹۔
۳۹: مجمع الزوائد ، جلد ۹، صفحہ ۱۳۳۔
۴۰: نور الابصار شبلنجی ، صفحہ ۷۲۔
۴۱: مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔
۴۲: استیعاب، جلد ۲، صفحہ ۴۶۴۔