آيت اللہ العظمی جوادی آملی نے دماوند شہر کے عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
جب ایک ملک کا مضبوط اور بنیادی مرکز ہوتا ہے نہ وہ کسی پر حملہ کرتا ہے اور نہ کسی کو حملہ کرنے دیتا ہے۔
اگر ایک ملک کے ایک گوشے میں ایک چھوٹا حادثہ رونما ہوجائے تو اسے [منطقی لحاظ سے] سالبہ کلیہ کے طور پر ملک پر کسی طرح سے بھی اثر انداز نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ ہم رسول اللہ (ص) اور امیرالمؤمنین(ع) کے پیروکار ہیں، ہمارے امام امیرالمؤمنین (ع) ہیں، وہی جو شجاعت اور بہادری کا نمونہ تھے اور خالی ہاتھ پیغمبر(ص) کے بستر پر سو جاتے تھے۔ ہمارے رسول(ص) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ ہیں جو اسی ماہ رمضان میں جب جنگ بدر ہوئی اور بہت سے خوف کے مارے کانپ رہے تھے، وہ اپنے قلیل لشکر کو لے کر کفار کے مد مقابل کھڑے ہوئے۔
۔۔ ہرگز داعش اور سلفی اور تکفیری کامیاب نہیں ہوا ہے اور کامیاب نہیں ہوسکے گا، کیونکہ ہمارے پیغمبر(ص) وہ ہیں جنہوں نے ہمیں شجاعت اور بہادری کی تربیت دی ہے۔ دفاع مقدس [آٹھ سالہ جنگ] بیہقی کا افسانہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے اور ہم مجاز نہیں ہیں کہ خوفزدہ ہوجائیں [اور ہمیں ڈرنے کی اجازت نہیں ہے]۔
۔۔ مرحوم محمد بن یعقوب الکلینی الکافی کی پانچویں جلد میں نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "مؤمن کے لئے کوئی بھی لذت موت کی لذت سے بالاتر نہیں ہے"، مرحوم کلینی نقل کرتے ہیں کہ پوری عمر میں انسان کے لئے موت سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں ہے اس لذت سے جب مؤمن موت کے بعد رسول اللہ، امیرالمؤمنین، فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین بن علی علیہم السلام کا دیدار کرتا ہے۔ (1) جو افراد جام شہادت نوش کرگئے، ہمیں کیا معلوم کہ وہ لذت کے کس مرحلے سے گذرے ہیں؟
۔۔ ماہ رمضان استغفار کا مہینہ ہے، یہ مہینہ اور اس کی نمازیں اور روزے "فکِّ رَہن" (2) کے لئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنے خطبے کے ضمن میں فرمایا:
إِنَّ أَنْفُسَكُمْ مَرْهُونَةٌ بِذُنُوبِكُمْ فَفُكُّوهَا بِاسْتِغْفَارِكُمْ" (3)
ترجمہ: یقینا تمہاری جانیں تمہارے گناہوں کے گروی ہیں، پس انہیں اپنے استغفار سے آزاد کرا دو۔
یعنی تم نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، تم مقروض ہو، مدیون ہو، مقروض شخص اپنے قرض کے مرہون ہے اور قرض ادا کرے گا تو آزاد ہوجائے گا قرض رہن اور گرو سے۔ تم قیدی ہو، ماہ رمضان میں استغفار کرو اور اپنے آپ کو آزاد کرا دو۔
ماہ رمضان بہترین موقع ہے اپنی آزادی کا بھی اپنے ملک کی آزادی کا بھی اور اپنے نظام حکومت کی آزادی کا بھی، ہر اندرونی اور بیرونی تسلط سے۔
خداوند متعال نے بھی ہم سے فرمایا: کہ اجنبی دشمن ہر روز مکر کرتا ہے، چال چلتا ہے:
وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىَ خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ"؛ (4)
ترجمہ: اور [اے میرے حبیب(ص)] آپ برابر ان کی ان کسی نہ کسی خائنانہ سازش اور بددیانتی سے واقف ہوجاتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں: نفوذ ناپذیری (Impermeability) اور دشمن کی دراندازی کا سدباب کرنا۔
چنانچہ جب ہم اتنے بیدار اور ہوشیار ہونگے تو ہمیں تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ موت ہمارے لئے فضیلت ہے، لہذا ہمیں اللہ کی بارگاہ میں عرض گذار ہونا چاہئے کہ ہمیں شہادت کی موت عطا کرکے جو سب سے اعلی پائے کی موت ہے۔ اور شہادت کی موت پانے والوں کے لئے:
طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ"؛ (5)
ترجمہ: ان کے لئے خوشحالی [اور بہشت برین کا شجرہ طوبی] ہے اور اچھا انجام۔
۔ امام زمانہ(عج) کے انتظار کے سلسلے میں امام حعفر صداق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ "انتظار کے وقت ہماری ذمہ داری کیا ہے؟" فرمایا: منتظر وہ شخص ہے جو ہردم تیار ہو چاہے ایک تیر ہی کی حد تک۔ [کہ اگر اس کے پاس اور کچھ نہیں ہے تو ایک تیر پھینکنے کے لئے تیار ہو]، جو شخص تیر و ترکش سے سروکار نہیں رکھتا، جو شخص جنگ اور جہاد کا قابل نہیں ہے، جو شخص رزم اور تیراندازی سے دور ہے وہ کیونکر منتظر ہوسکتا ہے؟ فرمایا: خواہ ایک تیر کی تک کیوں نہ ہو۔ ہمارے پاس اور کچھ نہ ہو سوائے اس دعا کے کہ: "اللہمّ عجل لولي الفرج"، اور ایک تیر۔۔۔ ایک ہاتھ میں گوہر [دعا] ہے اور دوسرے ہاتھ میں شمشیر، [ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور دوسرے میں قرآن] لہذا ہماری ذمہ داری ہے اور کسی سے بھی خائف نہیں ہیں۔