لکھنؤ میں جوش و خروش کے ساتھ فرزندان توحید نے نماز عیدالاضحیٰ ادا کی،مولانا کلب جواد نقوی نےکہاآج بھی حضرت ابراہیم ؑو اسماعیلؑ کی یادیں اللہ نے زندہ رکھی ہیں
M.U.H
22/08/2018
لکھنؤ ۲۲ اگست: عیدالاضحیٰ کے پرمسرت موقع پر اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں فرزندان توحید نے جوش و خروش کے ساتھ قربانی کا فریضہ انجام دیا اور مختلف مساجد میں نماز عیدالاضحیٰ ادا کی۔شہر کی تاریخی جامع مسجد ’’مسجد آصفی‘‘ میں امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی نے نماز عیدالاضحی ادا کرائی ۔نماز ٹھیک گیارہ بجے شروع ہوئی ۔مسجد نمازیوں سے چھلک رہی تھی۔مسجد کےباہر حوض کے قریب اور ’’بڑے امام باڑے‘‘ کی سیڑھیوں تک نمازی نماز ادا کرنے کے لئے شدید گرمی کی پرواہ کئے بغیر موجود رہے ۔ٹیلہ والی مسجد پر مولانا عبدالمنان واعظی نے نماز یوں کی امامت کے فرائض انجام دیے ۔وہیں عیدگاہ عیش باغ میں مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے نماز عید الاضحیٰ اداکرائی ۔شہر میں وحدت المسلمین کو فروغ دینے کے لئے شاہ نجف کے امام باڑہ میں شیعہ و سنی مسلمانوں نے ایک ساتھ نماز عید اداکی ۔وہیں کیرالہ میں سیلاب زدگان کی امدد رسانی کے لئے بڑے امام باڑہ کےباہر اور آصفی مسجد میں ’’مخاطب فائونڈیشن‘‘ کے زیر اہتمام بلاتفریق مذہب و ملت افراد نے شریک ہوکر کیمپ لگایا تاکہ امدادی رقم کو کیرالہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے بھیجا جاسکے ۔اس موقع پر ’’مخاطب فائونڈیشن‘‘ کے تمام اراکین شدید گرمی میں کیمپ پر موجود رہے ۔مولانا سید کلب جواد نقوی نے بھی نماز کے بعد ’’مخاطب فائونڈیشن‘‘ کی اس اقدام کا خیر مقدم کیا اور بلاتفریق مذہب وملت سیلاب زدگان کے لئے کمک کرنے کی اپیل کی۔
نماز کے بعدمولانا سید کلب جواد نقوی نے خطبہ نماز عیدالاضحیٰ دیتے ہوئے حضرت ابراہیم کی قربانی کی عظمت قرآن کی آیتوں کی روشنی میں بیان کی ۔مولانانے نمازیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھاکہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں،انہوں نے اپنا خواب اپنے فرزند حضرت اسماعیل جو اس وقت کم سن تھے،بیان کیا۔بیٹے جواب دیاکہ بابا آپ اپنے خواب پر عمل کیجیے ۔حضرت ابراہیم کی عمر اس وقت سو سال ہوچکی تھی ۔باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے منیٰ کا رخ کیا اور بیٹے کی گردن پر چھری رکھدی ۔حضرت اسماعیل نے اپنے باپ سے کہاکہ بابا میرے ہاتھ پائوں کھول دیجیے اسکے بعد ذبیح کیجیے ،مولانا نے کہاکہ ہاتھ پائوں کھلوانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا تاکہ مؤرخ یہ نہ لکھ سکے کہ حضرت ابراہیم بیٹے کو انکی مرضی کے خلاف جبریہ ذبح کررہے تھے ۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ نبیؑ بھلے ہی کم سن ہو مگر نبوت کم سن نہیں ہوتی ۔اسی طرح معصوم بوڑھا ہوسکتاہے مگر عصمت بوڑھی نہیں ہوتی ۔حضرت ابراہیم نے اپنے خواب پر عمل کرتے ہوئے بیٹے کو ذبح کرنا چاہا مگر عین وقت پر چھری کے نیچے دنبہ آگیا اور چھری دنبہ کی گردن پر چل گئی ۔مولانانے کہاکہ آج بھی حج میں اللہ نے حضرت ابراہیم و اسماعیل کی یادیں زندہ رکھی ہیں تاکہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ جو اللہ کے لئے جیتے ہیں انکی یادگاریں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔خطبہ کے آخر میں مولانا نے ملک میں امن و سلامتی کے لئے دعاکرائی ۔مولانانے حضرت ابراہیم کی دعا جس کا تذکرہ قرآن نے کیاہے کہ ’’اے اللہ مجھے اپنا مسلمان قراردے‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت ابراہیم تو مسلمان تھے ہی پھر وہ یہ دعا کیوں مانگ رہے تھے ۔مولانانے کہاکہ مسلمان ہونا الگ ہے اور اللہ کا مسلمان ہونا الگ بات ہے ۔آج بعض مسلمان دنیا کے حصول کے لئے اپنے دین اور عقیدہ کا سودا کررہے ہیں مگر جو اللہ کا مسلمان ہوتاہے وہ استقلال اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔مولانانے عالمی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ایران پر امریکی پابندیوں کی بھی سخت مذمت کی ۔مولانانے کہاکہ میں کچھ دن پہلے ایران میں تھا ۔امریکی پابندیوں کی وجہ سے گرانی شباب پر ہے مگر ایرانی عوام جانتی ہے کہ امریکہ اقتصادی پابندیاں عائدکرکے انکے سر کو جھکانا چاہتا ہے لہذا وہ جواں مردی اور صبر کے ساتھ امریکی پابندیوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔مولانانے حکومت ہند کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں اپنے ملک سے بھی یہی امید ہے کہ وہ امریکہ کے دبائو میں ایران سے دیرینہ تعلقات ختم نہیں کرے گا ۔ہمارے ملک کو امریکہ کی دوستی سے بچنا چاہیے کیونکہ امریکہ نے کبھی کسی دوست کے ساتھ وفا نہیں کی ۔آخر کلام میں مولانانے ہندوستان میں امن و سلامتی کے لئے دعا کی ۔