-
احادیث معصومین علیہم السلام میں اسباب غیبت
- مذہبی
- گھر
احادیث معصومین علیہم السلام میں اسباب غیبت
3764
مولانا سید حیدر عباس رضوی
02/05/2018
0
0
آغاز کلام :
خدا وند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:’’یوم ندعوا کل اناس بامامھم‘‘(سورۂ اسراء ،آیت؍۷۱)یعنی’’روز قیامت ہم ہر شخص کو اس کے امام اور پیشوا کے ساتھ بلائیں گے‘‘۔رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس موضوع کواس طرح واضح فرمایا کہ ’’من مات ولم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃً جاھلیۃ‘‘(تفسیر ابن کبیر،ج؍۱،ص۵۱۷)یعنی’’جو مر جائے اور اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے‘‘۔انسانی ہدایت کے لئے پروردگار عالم نے ہدایت کا انتظام انبیاء ،رسل اور ائمہ کے ذریعہ کیا۔ابتداء آفرینش میں جب کوئی ہدایت لینے والا نہ تھا اس وقت بھی مالک حقیقی نے ابوالبشر جناب آدم ؑ کو ہادی بنا کر بھیجا اسی طرح کل جب کوئی ہدایت لینے والا نہ ہوگا خدا وند عالم حضرت مھدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو باقی رکھیگا۔قرآن کریم کی رو سے ہر دور اور ہر زمانہ میں ایک ہادی ورہنما کا ہونا ضروری ہے خواہ وہ لوگوں کے نظروں کے سامنے موجود ہو یا بر بنائے مصلحت خضرؑ و الیاسؑ وعیسیٰؑ کے مانند پردۂ غیب میں موجود ہو۔
اگر غور وفکر سے کام لیا جائے تو غیبت کا عقیدہ خود ایک ایسا عقیدہ ہے جس کا انکار کر کے مسلمان نہ مسلمان رہ سکتا ہے اور نہ ہی مومن ، مومن رہ سکتا ہے۔اس لئے کہ زنجیر مذہب کی پہلی کڑی کا نام ہے توحید اور وحدانیت پر ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک خدائے غیب کا اقرار نہ کر لیا جائے اورشاید یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم نے آغاز کلام ہی میں منکرین غیبت کو متنبہ کر دیا :’’ذالک الکتاب لا ریب فیہ ھدیً للمتقین اللذین یؤمنون بالغیب‘‘۔’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک وشبھہ کی گنجائش نہیں ،یہ متقین کے لئے ہدایت ہے اور متقین وہ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔نتیجہ یہ نکلا کہ بغیر غیب پر ایمان رکھکر تقویٰ سلامت نہیں رہ سکتا اور جب تقویٰ نہیں تو اسلام وایمان کیسا؟!
مذہب اسلام کے عقائد میں بہت سے ایسے ہیں جن پر ہمارا عقیدہ ہے۔وحدانیت کی منزل میں غائب خدا کا اقرار ،نبوت کی منزل میں غائب انبیاء کی شہادت اور قیامت کی منزل میں ایک اندیکھے تذکرہ پر ایمان۔ملائکہ غائب ہیں مگر مانتے ہیں،روح غائب ہے مگر مانتے ہیں،عقل غائب ہے مگر مانتے ہیں ،جنت غائب ہے مگر مانتے ہیں ،نعمتھای بہشت غائب ہیںمگر مانتے ہیں ،حوریں غائب ہیں مگر مانتے ہیں ،جہنم کے سانپ ،بچھو غائب ہیںمگر مانتے ہیں ،شعلہ ھای جہنم غائب ہیں مگر مانتے ہیں ،کوثر وسلسبیل غائب ہیں مگر مانتے ہیں ،حشر ونشر غائب ہیں مگر مانتے ہیں ،شیطان غائب ہے مگر مانتے ہیں ،دجال غائب ہے مگر مانتے ہیں ۔کیوں؟!اس لئے کہ اللہ ورسولؐ نے کہا۔اسی طرح امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت بھی تو اللہ ہی کے حکم سے ہوئی جس کی اطلاع رسول اللہ نے دی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’یخرج فی آخر الزمان رجل من ولدی اسمہ کاسمی وکنیتہ ککنیتی ،یملأ الارض عدلا ً کما ملئت جوراً فذالک ھو المھدی ‘ ‘(تذکرۃ الخواص،ص؍۳۲۵)’’آخر زمان میں میرے بیٹوں میں سے ایک ظاہر ہوگا ،جس کا نام میرے نام جیسا اور کنیت میری کنیت ہوگی اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیگا،وہ وہی مہدی ہے‘‘۔
یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اگر وارث نبی وعلی علیہما السلام حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت نہ مانی جائے تو یقینا تمام غیبتوں کے اقرار پر پانی پھر جائے گا ؎
گیا شیطا ن مارا ایک سجدے کے نہ کرنے سے
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا؟!
جس طرح شیطان نے لاکھوں برس اللہ کی عبادت کی ،چپہ چپہ میں اس کے سجدوں کے نشانات تھے لیکن صرف ایک سجدۂ آدمؑ سے اس کے انکار نے اسے مردود ِدرگاہ حق قرار دیا اسی طرح صرٖف امامؑ کی غیبت کا انکار تمام غیبتوں کے اقرار پر پانی پھیر دینے والا ثابت ہوگا۔
غیبت ووجود امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا عقیدہ تنہا شیعوںسے مخصوص نہیں بلکہ اہلسنت والجماعت کے بیشمار علماء و محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں اسے تسلیم کیا ہے۔چنانچہ ابودائود،ابن ماجہ،مولانا علی اکبر مودودی،سبط ابن جوزی،علامہ جامی،علامہ جلال الدین سیوطی وغیرہ نے اسے قبول کیا ہے۔سنن ابن دائود نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’مہدی مجھ سے ہوگا،اس کی پیشانی کشیدہ اور ناک بلند ہوگی،زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیگا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی‘‘۔(سنن ابی دائود،ج؍۴،کتاب المہدی،ح؍۴۲۸۵،ص؍۳۱۰)ابودائود اور ترمذی نے عبد اللہ بن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’اگر دنیا ایک دن بعد فنا ہونے والی ہو جب بھی خدا اسے اتنا طولانی کر دیگا کہ میری اولاد سے ایک شخص ظاہر ہوگا جس کا نام میرے نام پر اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا۔وہ زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھر دیگا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی‘‘۔(ایضاً،ح؍۴۲۸۲،ص؍۳۰۹؛سنن ترمذی،ج؍۴،کتاب الفتن،ب؍۵۲،ح؍۲۲۳۱،ص؍۴۳۸)
اس مختصر سے مقالہ میں ہم’’ احادیث معصومین علیہم السلام میں اسباب غیبت‘‘ بیان کرنے سے قبل خود غیبت صغریٰ اور کبریٰ بطور مختصر بیان کریں گے۔ اس امید کے ساتھ کہ منتظرین امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بہت جلد ظہور نور کے نور سے پرنور ہوں۔آمین بحق آل طٰہ ویٰس
غیبت صغریٰ وغیبت کبریٰ :امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے دو مرتبہ غیبت اختیار کی۔جب ۲۶۰ھ۔ق میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام شہید کر دئیے گئے تو پھر ۳۲۹ھ۔ق تک (تقریبا ً ۶۹؍سال)آپ نے مشیت وحکم خدا وندی کے تحت اولاً غیبت صغریٰ اختیار کی۔کیونکہ حفظ جان کا تقاضہ یہی غیبت تھا ورنہ دیگر ائمۂ اطہار علیہم السلام کی طرح آپ کو بھی شہدی کر دیا جاتا۔اس دوران اگر چہ آپ لوگوں کی نگاہوں سے غائب تھے مگر مومنین سے رابطہ مکمل طور پر منقطع نہ تھا بلکہ اس دور میں اپنے مخصوص نائبین(جنہیں نوّاب اربعہ کہا جاتا ہے)کے توسط سے لوگوں کے مسائل حل فرماتے تھے۔علیٰ الظاہر اس غیبت کا اہم ترین مقصد لوگوں کو غیبت کبریٰ کے لئے آمادہ کیا جانا شمار کیا جا سکتا ہے۔
چوتھے نائب خاص جناب ابوالحسن علی ابن محمد سمری کی وفات کے بعد آپ کی غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا اور یہ غیبت زمانۂ ظہور تک جاری وساری رہیگی۔اس دوران لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کی ذمہ داری ان فقہاء پر ہوگی جن کے صفات’’ کتاب الاحتجاج‘‘میں شیخ طبرسیؒنے امام علیہ السلام سے نقل فرمائے ہیں:یعنی ہر وہ فقیہ جو اپنے نفس کا مراقب،اپنے دین کا محافظ اور اپنے مولا کا فرمانبردار ہو۔جس فقیہ میں یہ صفات پائے جائیں تو عوام کو اسکی تقلید کرنی چاہئے۔اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس غیبت کبریٰ کے دور میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے رابطہ برقرار کرنے کے لئے ہمیںعلماء دین کے اجتہاد کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اعمال وافعال انجام دینے چاہئے۔
غیبت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے سیاسی ،اجتماعی اور ثقافتی اسباب:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ الٰہی نمائندوں کی رہبری کا اصل ہدف سلسلۂ بشریت کی ہر فرد کی ہدایت ہے اور ہدایت کا یہ عظیم فریضہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہے کہ جب لوگوں میں اس ہدایت کے حصول کی لیاقت وصلاحیت پائی جاتی ہو ۔اسی طرح اگر یہ مساعد حالات لوگوں میں نہ پائے جائیں تو ان کے درمیان ان الٰہی نمائندوں کا وجود عبث ثابت ہوگا۔
تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والا ادنیٰ سے ادنیٰ طالبعلم اس بات سے بخوبی واقف اور آگاہ ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے زمانہ سے بعد کے ائمہ اطہار علیہم السلام پر ہونے والی سختیاں اور محدودیتیں نیز شدائد و تکالیف روز بروز بڑھتی ہی چلی گئیں۔جس کے نتیجہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی فعالیتیں کم سے کمتر ہوگئیں اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور آشکار ہو گئی کہ لوگوں میں ہدایت کے حاصل کرنے کی استعداد نہ کے برابر ہو گئی ہے۔لہٰذا حکمت خداوندی کا تقاضہ تھا کہ آسمان امامت وولایت کا بارہواں اختر تابناک پس پردۂ غیبت چلا جائے یہاں تک کہ معاشرہ میں لوگوں کی آمادگی معرض وجود میں آجائے۔
اگر چہ غیبت امام ؑ کی اصل وجہ بیان کی جا چکی لیکن پھر بھی بعض اسباب غیبت یہاں قلمبند کئے جا رہے ہیں۔اسی جگہ یہ بیان کردینا مناسب ہوگا کہ تمام اسباب واسرار غیبت ہمارے لئے واضح نہیں ہیں۔
[الف]لوگوں کی آزمائش:
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پروردگار عالم کی ایک سنت لوگوں کو محل آزمائش وابتلا سے گزارنا ہے۔تا کہ صالح اور نیک بندے منتخب کئے جا سکیں ۔ہماری زندگی کا ہر آن،ہر لحظہ اور ایک ایک لمحہ امتحان و آزمائش ہے تا کہ ہم ایمان وصبر اور حکم خدا وندی کی بجا آوری کے ذریعہ منزل کمال تک پہنچ سکیں اور ہماری چھپی ہوئی صلاحیتیں اُجاگر ہو سکیں ۔غیبت امامؑ کے ذریعہ لوگوں کی آزمائش کا مطلب یہ ہے کہ جو ایمان میں ثابت قدم نہیں ہوتے ان کا باطن آشکار ہو جاتا ہے اور وہ شک وتردید میں مبتلا ہو جاتے ہیں نیز جن کے وجود میں ایمان راسخ ہو چکا ہوتا ہے وہ آنحضرتؑ کے ظہور کے انتظار میں شدائد،تکالیف اور مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں من جانب اللہ انہیں اجر وثواب کے ساتھ ساتھ بلندیٔ درجات بھی نصیب ہوتی ہوتی ہے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:’’جب میرا پانچواں فرزند غائب ہو جائے تو اپنے دین کی پاسداری کرنا،کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں بے دین بنا دے۔اس کی ایک غیبت ہوگی اس طرح کہ مومنین کا ایک گروہ اپنے عقیدے سے پلٹ جائے گا ۔خدا وند عالم غیبت کے ذریعہ اپنے بندوں کا امتحان لیگا۔۔۔‘‘۔(کتاب الغیبۃ،ص؍۹۲؛بحار الانوار،ج؍۵۱،ص؍۱۳)ائمہ معصومین علیہم السلام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غیبت کے ذریعہ ہونے والا امتحان، سخت ترین امتحانات میں سے ہوگا۔(کتاب الغیبۃ،ص؍۲۰۳)اس سختی کے دو رُخ بیان کئی جا سکتے ہیں:
[۱] مدت غیبت:
چونکہ غیبت کا زمانہ نہایت ہی طولانی ہوتا جائیگا اور لوگ شک وتردید کرنے لگیں گے،یہاں تک کہ بعض آپ کی ولادت کے منکر تو بعض دیگر آپ کی عمرمبارک کے بارے میں شک وشبہہ کرنے لگیں گے اور بعض امتحان شدہ ،با معرفت افراد کے علاوہ کوئی بھی آپ کی امامت کا قائل نہیں ہوگا۔پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مفصل حدیث میں اس بات کی جانب صراحتاً اشارہ فرماتے ہیں:’’ذالک الذی یغیب عن شیعتہ وألیائہ لا یثبت فیھا علیٰ القول بامامتہ الّا من امتحن اللہ قلبہ للایمان ‘‘یعنی’’وہ (مہدی )شیعوں اور اپنے پیروکاروں کی نگاہوں سے غائب ہو جائے گا اور بعض ان افراد کے علاوہ جن کے قلوب کا اللہ تعالیٰ نے ایمان کے لئے امتحان لے رکھا ہوگا کوئی دوسرا اس کی امامت کا معتقدوقائل نہیں رہ جائے گا‘‘۔(منتخب الاثر ،فصل؍۲،باب؍۲۸و۴۷؛نوید امن وامان،ح؍۴،ص؍۱۰۱)
[۲]شدائد ومشکلات:
زمانۂ غیبت میں پیش آنے والے شدائد ،مصائب اور مشکلات لوگوں کو ان کے عقیدے سے منحرف کر دیں گے ۔اس طرح کہ دینداری اور تحفظ ایمان خاصہ سخت اور دشوار ہو جائیگا اور لوگوں کو بعض ناگوار اور بڑے خطرات سے دچار ہونا پڑے گا۔جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:’’ان لصاحب ھذا الامر غیبۃ المتمسک فیھا بدینہ کالخارط للقُتَاد ثم قال:ھٰکذا بیدہ،ثم قال :ان لصاحب ھذا الامر غیبۃ فلیتق اللہ عبدَہ ولیتمسّک بدینہ‘‘(کمال الدین ،ج؍۲،ص؍۱۶،ح؍۳۴،ب؍۳۴؛منتخب الاثر،ف؍۲،ب؍۲۷،ج؍۱۰)یعنی ’’جو شخص غیبت کے زمانہ میں اپنے دین کا پابند رہنا چاہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے خاردار شاخ پر اسکے کانٹے صاف کرنے کی غرض سے ہاتھ مارے پھر امامؑ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے اسکی وضاحت فرمائی اور فرمایا:اس صاحب امر کی ایک غیبت ہے لہٰذا ہر بندۂ خدا تقویٰ اختیار کرے اور اس کے دین سے متمسک رہے‘‘۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:’’جب میرا پانچواں فرزند پس پردۂ غیبت چلا جائے تو اپنے دین کی حفاظت کرنا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں بے دین بنا دے۔میرے اس پانچویں فرزند کی غیبت ہوگی کچھ اس طرح کہ بعض مؤمنین اپنے عقیدہ سے منحرف ہو جائیں گے یقینا خداوند عالم غیبت کے ذریعہ اپنے بندوں کا امتحان لیگا‘‘۔(بحار الانوار،ج؍۵۱،ص؍۱۳)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:’’اما واللہ لاقتلن أنا وابنای ھذان ولیبعثن اللہ رجلاً من ولدی فی آخر الزمان یطالب بدمائنا ولا یغیبن عنھم تمییزاً لاھل الضلالۃ حتیٰ یقول الجاھل ماللہ فی آل محمد من حاجۃ‘‘۔(الغیبۃ،تحقیق علی اکبر غفاری،ص۱۴۱)’’خدا کی قسم!میں اور میرے یہ دونوں بیٹے(امام حسن وامام حسین علیہما السلام)شہید کر دئیے جائیں گے،خدا وند آخر زمانہ میں میرے بیٹوں میں سے ایک کو ہمارے قصاص کے لئے اٹھائے گا وہ کچھ مدت تک غیبت میں رہے گا تا کہ لوگ امتحان میں مبتلا ہوں اور گمراہ افراد کی شناخت کی جا سکے یہاں تک کہ بعض نادان افراد یہ کہنے لگیں گے کہ خدا وند عالم کو اب آل محمد (علیہم السلام) سے سروکار نہیں رہ گیا ہے‘‘۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:’’یہ امر(ظہور)تمہارے سامنے نہیںآئیگا مگر نامیدی کے بعد۔خدا کی قسم!یہ اس وقت تک ظاہر نہ ہوگاجب تک تم(مومن ومنافق)ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائو۔خدا کی قسم!یہ اس وقت تک ظاہر نہ ہوگا جب تک جسے بدقسمت(شقی)ہونا ہے وہ بدبخت اور شقی نہ ہو جائے اور جس کو سعید (خوش قسمت)ہونا ہے وہ خوش قسمت نہ ہو جائے ‘‘۔(کمال الدین،ج؍۲،ب؍۳۴،ص؍۱۵،ح؍۳۱)
ابن عباسؓسے روایت ہے کہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’اس(مہدی)کی غیبت کے زمانہ میں اس کی امامت کے عقیدے پر ثابت قدم رہنے والے سرخ سونے سے بھی زیادہ نایاب ہونگے ۔یہ سنکر جناب جابرؓ کھڑے ہو گئے اور عرض کی:یا رسول اللہ!آپ کی اولاد میں سے قائم کے لئے غیبت ہے؟آنحضرتؐ نے فرمایا:ہاں!میرے پروردگار کی قسم!ایسی غیبت جو ایمان کو خالص کر دے اور کفار کو محو کر دے۔اے جابر!یہ خدا کے امور میں سے ایک امر اور خدا کو رازوں میں سے ایک ایسارازہے جو بندوں کے اوپر پوشیدہ ہے لہٰذا اسمیں شک کرنے سے ڈرتے رہنا کیونکہ خدا وند عالم کے کاموں میں شک کرنا یقینا کفر ہے‘‘۔(ایضاً،ج؍۱،ب؍۲۶،ص؍۴۰۴،ح؍۷)
عبد الرحمان بن سلیط کی روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:’’ہمارے درمیان سے بارہ مہدی ہونگے جن میں سب سے پہلے امیر المومنین علیہ ا لسلام اورآخری میرا نواں فرزند ہے وہ امام قائم ہے جو حق کے ساتھ قیام کریگا ۔جس کے ذریعہ خدا وند عالم مردہ زمین کو زندگی عطا کریگا اور اس کے ذریعہ دین کو ظاہر کریگا اور ہر دین پر کامیابی عطا کریگا۔اگر چہ مشرکین کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔اس کے لئے ایک ایسی غیبت ہے جس میں کچھ لوگ دین سے منحرف ہوکر مرتد ہو جائیں گے اور کچھ لوگ اپنے دین پر باقی رہکر مشکلات کا شکار ہونگے ان سے کہا جائے گا:اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ وعدہ(قائم کا ظہور) کب پورا ہوگا؟یاد رکھو!ان کی غیبت میں مشکلات اور دشمنوں کی تکذیب پر صبر کرنے والا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رکاب میں آپ کے سامنے جہاد کرنے والوں کی طرح ہے‘‘۔(ایضاً،ج؍۱،ب؍۳۰،ص؍۴۳۴،ح؍۳)
نوٹ: اس امتحان کے بارے میں بہت سی حدیثیں موجود ہیں ۔مزید مطالعہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں:الغیبۃ،کمال الدین،منتخب الاثر و۔۔۔
[ب]قتل ہونے کا خوف:
خدا وند عالم نے غیبت کے ذریعہ بارہویں امام ؑ کو قتل ہونے سے محفوظ رکھا کیونکہ(جیسا کہ اشارہ کیا جا چکا)اگر امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اسی وقت سے لوگوں کے سامنے آجاتے تو آپ کو قتل کر دیا جاتا اسی بنا پر یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر معینہ مدت سے قبل آپ پردۂ غیبت سے باہر آجائیں تو بھی آپ کی جان کو خطرہ لاحق ہوگا جس کے نتیجہ میں آپ کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوگی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی جناب زرارہؓ فرماتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:’’امام منتظر کے لئے قیام سے قبل ایک غیبت ہے ۔میں نے عرض کی:کس لئے؟فرمایا:اس لئے کہ اسے جان کا خطرہ ہے‘‘۔(الغیبۃ،ص؍۲۰۳؛منتخب الاثر،ص؍۲۹۹؛اصول کافی،ج؍۱،ص۳۳۷)
تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد ظالم وجابر حکمران آپکے قتل کے در پَے تھے لہٰذا حضرت نے اپنی جان کی حفاظت کے لئے بعض تدابیر تلاش کی تھیں جن میں سے بعض بطور مختصر یہاں تحریر کی جا رہی ہیں:
[۱]امام بعض مخصوص افراد کے علاوہ ہر ایک سے ملاقات نہیں فرماتے تھے۔
[۲]جب کوئی شخص آپ خدمت میں حاضرہوتا تو اسے خاص تاکید فرماتے کہ اس راز کو فاش نہ کرنا اور شیعوں سے بتانے میں کمال احتیاط برتنا۔
[۳]آپ کو آپ کے مخصوص نام (محمد)سے نہیں بلکہ بعض دیگر اسماء جیسے قائم،غریم،حجت،ناحیہ،صاحب الزمان وغیرہ سے مخاطب کیا جاتا تھا۔(الغیبۃ،ص؍۳۶۳؛بحار الانوار،ج؍۵۱،ص؍۳۵۱،ح؍۳)
[۴]آپ حکومت کے کارندوں سے مخفی ہو جایا کرتے تھے۔
[۵]حضرت اپنا مکان ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کرتے رہتے تھے تا کہ کوئی شک کی نگاہ سے آپ کو نہ دیکھے۔
[۶]آپ اپنے وکلاء یا سفراء سے مخفیانہ طور پر اس طرح ملاقات فرماتے کہ کسی کو اس کی اطلاع نہ ہو پاتی تھی ۔
[۷]آپ اپنی وکالت اس شخص کو عطا فرماتے جو آپ کی بنسبت نہایت مخلص ہو اس حد تک کہ آپ کے خصوصیات یا مکان کی اطلاع کسی کو نہ دے۔ اسی لئے ملتا ہے کہ جب ابو سہل نوبختی سے کہا گیا کہ کیوں امام کی نیابت خاصہ حسین بن روح کے سپرد کی گئی نہ کہ آپ کے؟!توجواب دیا:’’۔۔۔کیونکہ وہ ایسے ہیں کہ اگر امام ؑ انکی عبا کے نیچے بھی ہوں اور ان کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے کہ ان کے اوپر سے عبا ہٹا لیں تو بھی ہرگز ایسا نہیں کر سکتے‘‘۔(الغیبۃ،ص؍۳۹۱؛بحار الانوار،ج؍۵۱،ص؍۳۵۸،ح؍۶)
حقیقت امر یہ ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو اپنے قتل کا خوف نہیں،بلکہ آپ کااپنی جان کی حفاظت کرنے کا اصل مقصد پرچم ہدایت کی سربلندی کے ساتھ ساتھ اس رشتۂ ہدایت کا بقا واتصال تھا جو پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصل تھا۔
[ج]ستمگروں کی بیعت سے نجات:
بارہویں امام ؑ نے کسی بھی باطل حکومت کو حتیٰ تقیہ کے طور پر بھی قبول نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔آپ کو کسی بھی حاکم وحکومت کے سامنے تقیہ کرنے کا حکم نہیں ملا اور آپ کسی بھی حکومت وسلطنت کے ماتحت نہ تو رہے ہیں ،نہ ہی رہیں گے ۔کیونکہ آپ نے حکم خداوندی کی بجا آوری میں ذرا سا بھی تأمل نہیں فرمایا۔مختصراً یہ بیان کیا جاسکتاہے کہ غیبت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ظہور کا وقت آنے سے قبل اور ظہور کرنے کے لئے مامور ہونے سے پہلے آپ اپنے آباء واجداد کے مانند اپنے دور کے حاکموں کی بیعت کرنے پر مجبور نہ ہونگے۔اسی لئے جب آپ ظاہر ہونگے تو آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی اور آپ نے خدا کے علاوہ کسی کی حکومت کو قبول نہ کیا ہوگا۔
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا:’’۔۔۔اما علمتم انّہ ما منا احد الّا ویقع فی عنقہ بیعۃ لطاغیۃ زمانہ الا القائم الذی یصلی روح اللہ عیسیٰ ابن مریم خلفہ فان اللہ عزّ وجلّ یخفی ولادتہ ویغیب شخصہ لأن لا یکون لأحد فی عنقہ غیبۃ اذا خرج‘‘۔(یوم الخلاص،ص؍۱۸۷،کمال الدین،ص؍۳۱۵؛بحار الانوار،ج؍۵۱،ص؍۱۳۲،ح؍۱)’’کیا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے زمانہ کے کسی ظالم وجابرکے تحت حکومت نہ رہا ہو سوائے قائم (آل محمدؐ)کے ،جس کی اقتدا میں حضرت عیسیٰ روح اللہ ابن مریم نماز پڑھیں گے، خدا وند عالم اس کی ولادت کو مخفی رکھے گااور خود اس کی ذات کو لوگوں کی نگاہوں سے دور رکھیگا تا کہ ہنگام ظہور اس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو ‘‘۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:’’القائم منا یخفی علیٰ الناس ولادتہ حتیٰ یقول لم یولد بعد لیخرج حین یخرجولیس لأحد فی عنقہ بیعۃ‘‘۔(بحار الانوار،ج؍۵۱،ص۱۳۵)’’ہمارے قائم کی ولادت عام لوگوں سے مخفی ہوگی یہاں تک کہ بعض یہ کہیں گے:وہ ابھی پیدا نہیں ہوا ہے ؛جب وہ ظہور کریگا اس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی‘‘۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا:’’یقوم القائم ولیس لأحد فی عنقہ عھد ولا عقد ولا بیعۃ‘‘۔(الغیبۃ،ص؍۸۹)’’جب قائم قیام کریگا تو اس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:’’صاحب ھذا الامر تغیب ولادتہ عن ھذا الخلق لئلّا یکون لأحد بیعۃ اذا خرج ،ویصلح اللہ عزّوجلّ أمرہ فی لیلۃ ‘‘۔(بحار الانوار،ج؍۵۲،ص؍۹۶)’’صاحب امر کی ولادت ان مخلوقات سے مخفی ہوگی تا کہ جب وہ ظہور کرے تو اس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو اور اللہ تعالیٰ ان کے امر کی ایک رات میں اصلاح فرمائے گا‘‘۔
حسن ابن فضال ؓ کہتے ہیں:امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:’’کأنی بالشیعۃ عنہ فقد انھم الرابع من ولدی یطلبون المرعیٰ فلا یجدونہ،قلت:ولم ذلک یابن رسول اللہ؟قال:لأن امامھم یغیب عنھم،فقلت:ولم؟قال:لئلّا یکون لأحد فی عنقہ بیعۃ اذا قام بالسیف ‘‘۔(کمال الدین،ص؍۴۸۰)’’گویا میں اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ میرے تیسرے بیٹے(امام حسن عسکری علیہ السلام )کی شہادت کے وقت اپنے امام (مہدی)کو جگہ جگہ تلاش کر رہے ہیں لیکن وہ اسے نہیں پائیں گے‘‘۔میں نے عرض کی:کیوں غیبت اختیار کریں گے؟آپ نے فرمایا:’’تا کہ جب تلوار لیکر قیام کرے تو اس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو‘‘۔
اسی طرح امام ؑ کی جانب سے ایک توقیع اسحاق بن یعقوبؓ کے لئے محمد بن عثمان بن سعید عمری کے توسط سے صادر ہوئی۔حضرت نے اس توقیع میں فرمایا:’’وأما علۃ ما وقع من الغیبۃ فان اللہ عزّ وجلّ یقول:’یا ایھا اللذین آمنوا لا تسئلوا عن اشیاء ما تبدلکم تسوکم‘انہ لم یکن لأحد من آبائی علیھم السلام الّا وقد وضعت فی عنقہ بیعۃ لطاغیۃ زمانہ وانی اخرج حین اخرج ولا بیعۃ لأحد من الطواغیت فی عنقی ‘‘۔(سورۂ مائدہ ؍۱۰۱؛الاحتجاج،ج؍۲،ص؍۴۷۱)’’رہا یہ سوال کہ کیوں غیبت واقع ہوئی؟!تو خدا وند عالم نے فرمایا:’ایمان والو!ان چیزوں کے بارے میںسوال نہ کرو جو تم پر ظاہر ہو جائیںتو تمہیںبری لگیں ‘میرے تمام آباء واجداد نے تقیہ کیا اور انہوں نے اپنے زمانہ کے طاغوت اور ظالم وجابر حکمرانوں کی بیعت کی، لیکن میں پس پردۂ غیبت آگیا ہوں تا کہ کسی ظالم وستمگر کی بیعت میری گردن پر نہ رہے (اور ظہور کے وقت مکمل آزادی کے ساتھ قیام کروں)‘‘۔
[د]لوگوں کا اپنے نفوس پر ظلم وستم:
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام روی زمین پر وجود امام ؑ کے ضروری ہونے کو بیان کرتے ہوئے حجت الٰہی کی غیبت نیز اس کی علت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: ’’واعلموا ان الارض لا تخلوا من حجۃ اللہ ولکن اللہ سیعمی خلقہ عنھا بظلمھم وجورھم واسرافھم علیٰ انفسھم۔۔۔‘‘۔(کمال الدین ،ص؍۱۱۲و۱۱۳،ح؍۸)’’اے لوگو!جان لو کہ زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہوگی،لیکن پروردگار عالم لوگوں کو ظلم وستم کے ارتکاب اسی طر ح (ان کی) اپنے بارے میں انجام دی جانے والی زیادہ روی کے نتیجہ میں،عنقریب اپنی حجت (امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کے دیدار سے انہیں محروم کر دیگا‘‘۔
[ھ]اولاد حضرت علی علیہ السلام پر ظلم وستم کا نتیجہ:
حضرت علی علیہ السلام غیبت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس سے مربوط حادثات وواقعات کو جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لئے پیش آنے والے حادثات وواقعات سے مشابہ قرار دیتے ہوئے وضاحت فرماتے ہیں کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کی حیرانی وسرگردانی قومِ موسیٰ علیہ السلام کی حیرانی وسرگردانی سے سخت تر ودشوارتر ہو جائے گی۔آپ اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میرے فرزندوں پر تمہارے ذریعہ ہونے والے ظلم وستم کے نتیجہ میں تمہیں مشکلات کا سامنا کرناپڑیگا‘‘۔(بشارۃ الاسلام،ص؍۶۳)
یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ امام علی علیہ السلام کی اس وضاحت کے باوجود لوگ دنیا کی زرق وبرق میں اتنا ڈوب چکے تھے کہ آنحضرت کی شہادت کے بعد انہوں نے امام حسن وامام حسین علیہما السلام پر ظلم وستم کیا نیز شہید کر ڈالا ۔اتنا ہی نہیں بلکہ بعد کے ائمہ اطہار علیہم السلام کو بھی مسموم کیا ۔نتیجۃً جب ان کا یہ کام خدا وند عالم کی آخری حجت تک پہنچا تو پروردگار عالم نے اپنے بندوں کی تمام تر نا شکری سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنے آخری نمائندے کو پس پردۂ غیبت بھیج دیا تا کہ لوگوں کی ہدایت اور دنیا وی نظام کی حفاظت باقی رہ سکے۔
[و]علامات ہدایت کی بقا:
جیسا کہ گذشتہ سبب میں اشارہ کیا جا چکا کہ خدا وند عالم نے جب لوگوں کی امام معصوم اور حجت الٰہی کی نا فرمانی اور ناشکری دیکھی تو پرچم ہدایت کی سربلندی وبقا کے لئے بعض اعلیٰ مصلحتوں کے خاطر آخری امام علیہ السلام کو پردۂ غیبت میں بھیج دیا تا کہ دنیاوی نظام کی حفاظت کے ساتھ ساتھ رحمت وفیضِ الٰہی آپ کے وجود مبارک کے ذریعہ عام لوگوں تک پہنچتا رہے اور لوگو ں کی ہدایت کا راستہ صراط مستقیم پر گامزن ہونے کے لئے ہموار رہے ۔
عبد اللہ ابن مسعود جناب ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:’’دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک میرے اہلبیت سے مہدی نامی شخص لوگوں پر حکومت نہ کرے‘‘۔(بحار الانوار،ج؍۵۱،ص؍۷۵؛اثبات الھداۃ،ج؍۷،ص؍۹)
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’اللھم بلیٰ!لا تخلوا الأرض من قائمِِ للہ بحجۃ:امّا ظاھراًمشھوراً أو خائفاً مغموراً لئلّا تبطل حجج اللہ وبیّناتہ ۔۔۔‘‘۔(نہج البلاغہ،کلمات قصار؍۱۴۷)’’۔۔۔ہاں!مگر زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو یا خائف وپنہاںتا کہ اللہ کی دلیلیںاور نشان مٹنے نہ پائیں۔۔۔‘‘۔
ابن حجر ہیثمی تحریر فرماتے ہیں:’’وفی احادیث الحثّ علیٰ التمسک بأھل البیت اشارۃ الیٰ عدم انقطاع متاھّل منھم للتمسک بہ الیٰ یوم القیامۃ،کما انّ الکتاب العزیز کذالک ولھذا کانوا اماناً لأھل ا لأرض۔۔۔‘‘۔(صواعق محرقہ،ص؍۱۴۹)’’وہ احادیث جو لوگوں کو عترت ِنبیؐ سے تمسک اختیار کرنے پر(مثلاً حدیث ثقلین)وادار کرتی ہیں وہ اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ صبح قیامت تک زمین ،اہلبیت علیہم السلام کی کسی نیک فرد سے خالی نہیں ہو سکتی تا کہ لوگ اس سے متمسک رہیں ،جیسا کہ کتاب عزیز(قرآن کریم)بھی اسی طرح ہے ،لہٰذا یہ اہل زمین کے لئے امن وامان کا سبب قرار پائیں گے‘‘۔
ابو حمزہ فرماتے ہیں:میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا:کیا زمین بغیر امام کے باقی رہے گی؟حضرت نے فرمایا:’’لو بقیت الارض بغیر امام لساخت‘‘۔(اصول کافی،ج؍۱،ص؍۱۷۹،ح؍۱۰)’’اگر زمین بغیر امام کے ہو جائے تو وہ یقینا تباہ وبرناد ہو جائے گی‘‘۔
[ز]ہر کسی کا حکومت کرنا اور سبھی پر اتمام حجت :
امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کا ایک سبب یہ بھی بیان ہو اہے کہ تمام مدعیان حق و عدالت اپنی قدرت وحکومت کا سکہ چلا لیں (اور ان پر اتمام حجت ہو جائے )تا کہ جب امام زمانہ ؑ کی ولایت وحکومت کے وقت کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اگر حکومت کی باگڈور ہمارے ہاتھوں میں ہوتی تو ہم ایسے ہی عدالت برپا کرتے۔
امام جعفر صادق علیہ السلا م نے فرمایا:’’ان دولتنا آخر الدول ولم یبق اھل بیت لھم دولۃ الّا ملکوا قبلنا لأن لا یقولوا اذا رأو سیرتنا :اذا ملکنا سرنا بمثل سیرۃ ھٰؤلاء وھو قول اللہ تعالیٰ:والعاقبۃ للمتقین‘‘۔(الارشاد،ص؍۷۰۶؛سورۂ اعراف؍۱۲۸)’’ہماری حکومت تمام حکومتو ں میں آخری ہوگی ،اہلبیتِ نبیؐمیں سے ایک فرد بھی نہیں بچے گا مگر یہ کہ سب حکومت کر چکے ہونگے۔تا کہ جب انکی نگاہ ہمار سیرت پر پڑے تو یہ نہ کہیں کہ اگر حکومت کر رہے ہوتے تو ہم بھی ایسا ہی کرتے اور یہ خدا وند عالم کا وہی فرمان ہے :’اور انجام کار بہر حال صاحبان تقویٰ کے لئے ہے‘۔‘‘
[ح]حکمت ورازِخداوندی:
ہم سبھی جانتے ہیں کہ خدا وند عالم ’’حکیم ‘‘ہے اور حکیم اسے کہا جاتا ہے جو کسی بھی کام کو بغیر دلیل کے انجام نہ دیتا ہو۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے سبحان نے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت اپنے راز،حکمت اور دلیل کی بنا پر قرار دی ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک حکمت یہ ہے کہ ذات باریٔ تعالیٰ نے امام زمانہؑ کے بعض مخصوص اصحاب و انصارانکے نام ونسب کے ساتھ معین کئے ہیں جن کا ذکر امیر المؤمنین حضرت علی اور امام جعفر صادق علیہما السلام نے کیا ہے۔لہٰذا
انکا وجود بھی ضروری ہے ۔ممکن ہے (بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا)اس کے علاوہ بعض اور بھی دلیلیں و حکمتیں ہوں جو ہم سے پوشیدہ ہیں۔پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کو ایک الٰہی راز سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یا جابر!انہ ذا لأمر من اللہ وسرّ من سرّ اللہ مطوی عن عبادہ‘‘۔(بحار الانوار،ج؍۵۱،ص؍۷۳)’’اے جابر!یہ ایک امر خداوندی اور الٰہی راز ہے جوبندوں پر پوشیدہ ہے ‘‘۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:’’ان لصاحبہ ذا الأمر غیبۃ لابد منھا یرتاب فیھا کل مبطل فقلت:ولم؟جعلت فداک،قال:لأمر لم یؤذن لنا فی کشفہ لکم ،فما وجہ الحکمۃ فی غیبتہ؟قال:وجہ الحکمۃ فی غیبتہ وجہ الحکمۃ من تقدمہ من حجج اللہ تعالیٰ ذکرہ ان وجہ الحکمۃ فی ذلک لا ینکشف الا بعد ظھورہ کما لا ینکشف وجہ الحکمۃ فی ما اتاہ الخضر من خرق السفینۃ وقتل الغلام واقامۃ الجدار لموسیٰ الیٰ وقت افتراقہ‘‘۔(کمال الدین،ج؍۲،ص؍۴۸۲،ح؍۱۱)’’امام جعفر صادق علیہ السلام اس غیبت کے بھی گذشتہ حجج خدا کی غیبتوں کے مانند شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس غیبت کا فلسفہ بھی امام کے ظہور کے بعد واضح و آشکار ہوگا،بالکل اسی طرح جیسے جناب خضرؑ نے بعض افعال( مثلاً کشتی میں سوراخ ،بچہ کا قتل اورجناب موسیٰؑ کے ہمراہ دیوار تعمیر کرنا) انجام دئیے اورآپ کے یہ تمام امور جناب موسیٰؑ کو اس وقت پتہ چلے جب یہ دونوں آپس میں جدا ہو جانا چاہتے تھے ‘‘۔
[ط]کافر کے صلب سے مومن اور مومن کے صلب سے کافر کی پیدائش:
اس سبب کا ذکر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ۔اس طرح کہ جب حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف قیام فرمائیں گے تو آپ کا قیام شمشیر کے ہمراہ ہوگا۔جس کے نتیجہ میں کفار واصل جہنم ہونگے اور اس بات کا امکان بہر حال پایا جاتا ہے کہ ان کے اصلاب میں کوئی بندۂ مؤمن ہو ۔اب اگر کافر مارا جائے وہ مومن بھی قتل ہوگا جو اس کے صلب میں ہے جبکہ اس کا قتل صحیح نہیں ہے۔اسی طرح ممکن ہے کہ بعض مومنین کے اصلاب میں کفار ہوں جبکہ انکا خاتمہ ہونا چاہئے ،لہٰذا ان کافروں کو مومنین کے اصلاب سے نکلنا چاہئے ۔ایسی صورت میں حضرت کا ظہور محقق ہوگا۔مختصر یہ کہ کفار کی پشتوں(نسلوں)میں مومنین کی پیدائش اور مومنین کی نسلوں میں کفار کی پیدائش ایک ایسی اہم چیز ہے جس کے لئے ظہورکو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے اور ایسے ہی موقع پر ظہور ہو جب کفار کے اصلاب میں کوئی امانت باقی نہ رہ جائے۔سورۂ روم کی آیت نمبر ۱۹ ؍اسی معنی کی متضمن ہے جس میں مالک حقیقی نے ارشاد فرمایا:’’یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی‘‘۔اب چونکہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا قیام تلوار کے ساتھ ہوگا اور کوئی ایک کافر وفاجر آپ سے نجات نہ پائے گا لہٰذا آپ کے لئے ایک غیبت درکار ہے جو اتنی طولانی ہو کہ تمام مومنین کافروں کے صلبوں سے باہر نکل آئیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا:کیوں امیر المومنین علیہ السلام اپنے دشمنوں سے جنگ کی ابتدا نہیں فرماتے تھے؟آپ نے جواب دیا:’’قرآن کریم کی ایک آیت اس عمل کے انجام دینے میں مانع قرار پائی ‘‘۔پھر سوال ہوا:کون سی آیت؟امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:’’لو تزیّلوا لعذّبنا الذین کفروا منھم عذاباً الیما‘‘۔(سورۂ فتح؍۲۵)’’اگر یہ لوگ الگ(مومن وکافر) ہو جاتے تو ہم کفار کو دردناک عذاب میں مبتلا کر دیتے‘‘۔دریافت کیا گیا:’تزیلوا‘کے معنی ومفہوم کیا ہیں؟حضرت نے فرمایا:’’ بعض کفار کے صلبوں میںمومنین کی امانتیں‘‘۔
اسی طرح حضرت قائم ؑاس وقت تک ظہور نہ فرمائیں گے جب تک خدا کی امانتیں ظاہر نہ ہو جائیں اور جب وہ ساری امانتیں سامنے آجائیں گی تو تمام دشمنان خدا کا پتہ چل جائے گا اور آپ ان کو قتل کر ڈالیں گے‘‘۔(علل الشرائع،ص۱۴۷؛کمال الدین،ص؍۶۴۱)
نوٹ:اگرکسی شخص کے ذہن میں یہ ابہام پید اہو کہ کافر کے صلب میں مومن اور مومن کے صلب میں کافر؟!یہ کیسے ممکن؟تو اس کے جواب میں بہت سارے شواہد تاریخ سے پیش کئے جا سکتے ہیں۔جیسے حجاج جیسے سفاک وجلاد اور دشمن اہلبیت اطہار علیہم السلام کی نسل میں جناب حسین بن احمد بن حجاج جیسے نامور شاعر،توانا خطیب،محب اہلبیتؑ اور ان کے شیعہ پیدا ہوئے۔جو ابن الحجاج کے نام سے مشہور ہیں۔آپ نے اہلبیت علیہم السلام کی مدح میں ایسے لا جواب قصیدے اور دشمنان آل نبیؐ کی مذمت میں ایسے اشعار کہے جنہیں آج بھی سنہری لفظوں میں تحریر کیا جانا چاہئے۔آپ کے معروف ومشہور قصیدہ کا مطلع یہ ہے ؎
یا صاحب القبۃ البیضاء علیٰ النجف
من زار قبرک واستشفیٰ لدیہ شفیٰ
’’اے بلند مقام پر درخشاں قبہ کے مالک جو شخص آپ کی قبر کی زیارت کرے اور اس سے شفا طلب کرے اس نے شفا حاصل کر لی ہے‘‘۔
یا پھر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے قاتل سندی بن شاہک کی اولاد میں مشہور شاعر اور عربی ادب کے درخشاں ستارے جناب کشاجم۔جو کہ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کی امامت کے حقیقت جلوہ کی تاثیر کی بنا پر تمام عمر انہیں کی حمد وثنا میں گزارتے رہے۔(نوید امن وامان ،ص؍۱۴۴)
[ی]امام زمانہ ؑ کے یاور ومددگار کا نہ ہونا:
ہر دور اور ہر زمانہ کے انبیاء وائمۂ اطہار علیہم السلام کے ناصر ویاور اور معین ومددگار ہوا کرتے تھے۔یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بھی ناصر ویاور تھے گر چہ خود آپ کا بیٹا آپ کا مخالف تھا۔خلاصۃً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر زمانہ میں حجت خدا کے لئے ناصر ویاور کی ضرورت ہے البتہ ان افراد کو اس زمانہ کی ضروریات کے مطابق ہونا چاہئے یعنی شرائط زمانی ومکانی کا اہم کردارہوا کرتا ہے۔تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام حسن عسکری علیہ ا لسلام کی شہادت کے بعد امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے ناصرین ویاوران بحدّمطلوب موجود نہ تھے لہٰذا یہ غیبت سبب بنی کہ آپ کے واقعی ناصرین ،نصرت امام سے دریغ نہ کریں۔ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے پر کرنے والے ساحل امید،منجی عالم بشریت حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو قیام کے وقت یقینا ناصر ین ومددگار کی ضرورت
ہوگی کیونکہ کوئی بھی قیام افراد کے حضور کے بغیر کامیابی وکامرانی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔
جیسا کہ ائمہ اطہار علیہم السلام نے فرمایا:’’خدا وند عالم نے امام حسین علیہ السلام میں امت مسلمہ کے لئے گشائش رکھی تھی ،چونکہ لوگوں نے آپ کی نصرت نہ کی لہٰذا اس امت کے امر کی گشائش مؤخر ہو گئی‘‘۔اسی طرح امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:’’اگر میری مدد کرنے والے ہوتے تو ہرگز معاویہ سے میں صلح نہ کرتا ‘‘۔اسی طرح تقریباً تمام ائمۂ اطہار کو اپنے لئے ناصر ویاور ِ واقعی نہ ہونے کا شکوہ تھا۔
جیسا کہ اشارہ ہوا کہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانہ میں شیعہ منتشر تھے اور ان میں کسی قسم کا انسجام نہیں پایاجاتا تھا ۔حکومت وقت کی جانب سے ان پر خاص پابندیاں تھیں ۔یہاں تک کہ امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام نے انہیں پابندیوں اور سختیوں کے نتیجہ میں سامرا میں تقیہ وقید وبند کی زندگی بسر کی۔اگر چہ امام حسن عسکری علیہ السلام کو سامرا بلانے کا مقصد یہ تھا کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت نہ ہونے پائے اور وقتاً فوقتاً حکومت عباسی کے کارندے امام عسکری علیہ السلام کے گھر کی تلاشی بھی لیتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ یہ بچہ پیدا ہو اور ظلم وستم کا بازار ٹھنڈا ہو لہٰذا خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مانند اس بچہ کو بھی دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا ۔بقول شاعر ؎
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
بہر حال!ان باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ناصر ویاور کا فقدان، امام زمانہ عجل ا للہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے غیبت کا سبب بنا اور ایسی صورت میں غیبت سے بہتر کوئی اور راہ حل نہیں تھا کیونکہ آپ کی جان کو خطرہ بھی لاحق رہتا تھا۔
[ک]امام معصوم علیہ السلام کی ارزش و اہمیت کا ادراک:
تمام ائمۂ اطہار علیہم السلام کے زمانہ میں دو طرح کے افراد تھے یعنی ائمہؑ کے مطیع وفرمانبردار اور دشمن ونافرمان۔ان معصومین علیہم السلام کے گرد جمع ہونے والوں میں سے بھی بعض حب دنیا،جاہ وجلال اور عہدہ ومنصب کی لالچ میں رہا کرتے تھے جبکہ انہیں مخلص،فداکار اور خدا ترس افراد کی ضرورت تھی۔دوسرے یہ کہ ہر دور میں امام معصوم کے حضور کی بنا پر لوگ ان کے وجود کی اہمیت کو فراموش کر بیٹھے تھے۔ساتھ ہی امامت کو سادی نگاہ سے دیکھتے تھے۔وہ اس چیز سے بے خبر تھے کہ ایک امام معصوم کی اپنے دور میں کیا ارزش واہمیت ہوا کرتی ہے؟!لہٰذا اگر ہر دور میں امام کا وجود لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہوتا تو وہ انکی ناقدری کرتے۔شاید اسی لئے
پروردگار عالم نے امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو پس پردۂ غیبت قرار دیا تا کہ آپ کے ظہور تک لوگ اپنے آپ کو امام کی نصرت کے لئے آمادہ کر سکیں۔
حسن ختام:
احادیث معصومین علیہم السلام کی روشنی میں یہ مقالہ اس امید کے ساتھ اپنے وقت کے امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب ظلم واستبداد کا خاتمہ ہوگا اور اپنے جد کے پرچمِ ہدایت کو اٹھائے،کمر میں ذوالفقار حیدری حمائل کئے وارث حسینؑ ،منتقم خون کربلا،معزّالاولیاء،مذل الاعداء،یوسف زہرا ؑ پردۂ غیب سے ظاہر ہوگا۔
خدایا !جلد از جلد غیبت کے بادلوں اور رکاوٹوں کو ہٹا دے تا کہ ہم خورشید زہرا ؑسے کسب فیض اور اپنے قلوب کو ان کے نورانی وجود سے منور کر سکیں۔آمین
منابع ومآخذ :
[۱]قرآن مجید
[۲]نہج البلاغہ
[۳]ابن بابویہ،ابوجعفر محمد بن علی صدوقؒ،کمال الدین و تمام النعمۃ:تصحیح و تعلیق :شیخ حسین اعلمی،مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات،بیروت،لبنان ۱۴۱۲ھ۔ق
[۴]ایضاً،الامالی شیخ صدوقؒ
[۵]ابن جوزی،ابوالمظفر یوسف بن قزاوغلی بن عبد اللہ بغدادی سبط ابی الفرج عبد الرحمان حنفی،تذکرۃ خواص الامۃ فی خواص الائمۃ،منشورات مطبعۃ حیدریۃ،نجف اشرف،۱۳۸۳شمسی
[۶]ابن صباغ،علی ابن محمد،الفصول المھمۃ فی معرفۃ احوال الأئمۃ،دار الاضواء،انتشارات اعلمی،۱۳۶۷ شمسی
[۷]ابن حجر ہیثمی،الصواعق المحرقۃ،تقدیم وتعلیق:عبد اللطیف،مکتبۃ القاہرۃ،مصر،۱۳۱۲ ھ۔ق
[۸]اربلی،علی بن عیسیٰ،کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ،ج؍۲مکتبۃ بنی ھاشم،تبریز،ایران،۱۳۸۱ شمسی
[۹]ایمانی،مہدی فقیہ،الامام المہدی عند اھل السنۃ،مکتبۃ الامام امیر المومنینؑ،اصفھان،ایران چاپ دوم،۱۴۰۲ھ۔ق
[۱۰]الھامی،دائود،سیری در تاریخ تشیع،انتشارات مکتب اسلام،۱۳۷۵ شمسی
[۱۱]پور سید آقایی و۔۔۔،درسنامہ تاریخ عصر غیبت،مرکز جہانی علوم اسلامی،قم،ایران،۱۳۷۹ شمسی
[۱۲]پیشوایی،مہدی،سیرۂ پیشوایان،نشر مؤسسہ تعلیماتی وتحقیقاتی امام صادق علیہ السلام ،قم،ایران،۱۳۷۲ شمسی
[۱۳]جعفریان،رسول،حیات فکری وسیاسی امامان شیعہ،مرکز جہانی علوم اسلامی،قم،ایران،۱۳۷۶ شمسی
[۱۴]حسین،جاسم،تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم ،ترجمہ:دکتر سید محمد تقی آیت اللہی،انتشارات امیر کبیر،تھران ،ایران،۱۳۷۶ شمسی
[۱۵]حکیمی،محمد رضا،خورشید مغرب،دفتر نشر فرھنگ اسلامی،تھران،چاپ شانزدھم،۱۳۷۹ شمسی
[۱۶]رضوانی،علی اصغر،غیبت صغریٰ،انتشارات مسجد مقدس جمکران،قم،ایران،چاپ اول،۱۳۸۵ شمسی
[۱۷]ایضاً،غیبت کبریٰ
[۱۸]سلیمان،خدا مراد،فرھنگ نامۂ مھدویت،مرکز تخصصی مہدویت،قم،چاپ اول،۱۳۸۳شمسی
[۱۹]شیرازی،سید صادق،المہدی فی القرآن،بیروت،۱۳۹۸ھ۔ق
[۲۰]شیرازی،ناصر مکارم،حکومت جھانی مھدی علیہ السلام،انتشارات نشر جوان،قم،ایران،چاپ دوم،۱۳۸۰ شمسی
[۲۱]طبرسی،ابو علی فضل بن حسن ،اعلام الوریٰ باعلام الھدیٰ،آل البیت،قم،ایران،۱۴۱۷ ھ۔ق
[۲۲]طبرسی،احمد بن علی،الاحتجاج،انتشارات اسوہ،قم،ایران،۱۳۷۴ شمسی
[۲۳]طوسی،محمد بن حسن،الغیبۃ،مصحح:طہ رانی،عبد اللہ،مؤ سسۃ المعارف الاسلامیۃ،بیروت،لبنان
[۲۴]غفار زادہ،علی،پژوھشی پیرامون زندگی نواب خاص امام زمانؑ،انتشارات نبوغ،قم،ایران،۱۳۷۵شمسی
[۲۵]قرشی،باقر شریف،حیاۃ الامام المھدیؑ،مطبعۃ امیر دار المولف،۱۴۱۷ھ۔ق
[۲۶]کامل سلیمان،یوم الخلاص فی ظل القائم المھدیؑ،دار الکتاب اللبنانی،بیروت،لبنان،چاپ سوم،۱۹۸۲ء
[۲۷]کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،تحقیق:علی اکبر غفاری،مطبعۃ حیدری،نجف اشرف،چاپ دوم،۱۳۸۴شمسی
[۲۸]گفتمان مھدویت،بوستان کتاب،قم،ایران،۱۳۸۵ شمسی
[۲۹]گلپائگانی،لطف اللہ صافی،امامت ومھدویت،دفتر انتشارات اسلامی،جامعہ مدرسین ،قم،ایران،چاپ سوم،۱۳۷۲ شمسی
[۳۰]مجلسی،محمد باقر،بحار الانوار،مؤسسۃ الوفاء،بیروت ،لبنان،چاپ دوم،۱۴۰۲ ھ۔ق
[۳۱]محمد صدر،فلسفۂ غیبت صغریٰ،ترجمہ:محمد ایمانی،مرکز انتشارات دار التبلیغ،چاپ اول
[۳۲]مفید،محمد بن محمد،الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علیٰ العباد،ترجمہ:رسولی ،ہاشم،دفتر نشر فرھنگ اسلامی،۱۳۷۸شمسی
[۳۳]موسوی،سید فخر الدین،سوال از امام مہدیؑ در روایات،انتشارات محدث،قم،ایران،چاپ اول،۱۳۸۳ شمسی
[۳۴]نعمانی،محمد بن ابراہیم،کتاب الغیبۃ،ترجمہ:فہری زنجانی،سید احمد،دار الکتب الاسلامیۃ،تہران،ایران،چاپ پنجم،۱۳۶۳شمسی