حجۃ الاسلام مولانا سید کلب جواد نقوی
ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک، اسلام دشمن طاقتیں اسلام پر حملہ آور رہی ہیں۔ اس میں کبھی اسلحوں کا استعمال کیا گیا اور کبھی زبان وقلم کا۔ لیکن زمانہ حال میں سائنسی ایجادات کی وجہ سے یہ حملے زیادہ خطرناک اور وسیع صورت اختیار کرگئے ہیں۔ ایسے اسلحے ہیں کہ لاکھوں انسانوں کو چند سکنڈوں میں موت کی نیند سلادیں اور ذرائع ابلاغ کا نظام اتنا پھیل گیا ہے کہ چند منٹوں میں کسی بھی غلط اور زہریلے بیان سے کروڑوں کے ذہن مسموم کئے جاسکتے ہیں۔
جہاں اور بہت سے اسلامی احکام پر اعتراضات کی بوچھار ہے، وہاں اسلام میں پردے کے نظام کو خاص طور سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پردے کے مسئلے پر ہمارا چند گروہوں سے سامنا ہے۔ کچھ تو وہ غیرمسلم ہیں جو اسلام کے کھلے ہوئے دشمن ہیں اور ان کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا ہے، وہ سرے سے ہی پردے کے مخالف ہیں اور اس کو وحشت، بربریت، خلاف انسانیت اور خواتین پر ظلم گردانتے ہیں اور براہ راست دین اسلام پر حملہ آور ہیں۔ کچھ وہ ہیں، کہ ہیں تو مسلمان مگر مغرب زدہ ہیں اگرچہ پردے کی یکسر مخالفت کی ہمت نہیں ہے مگر مغرب کے نقّادوں کو مطمئن کرنے کی کوشش میں کہتے ہیں کہ پردہ صرف نظر کا ہے اور پردے سے مراد صرف شرم وحیا ہے تاکہ قدامت پرستی اور تنگ نظری کے الزام سے اپنے کو بچائیں اور انہیں کھلے دل ودماغ کا اور ترقی پسند ہونے کا سرٹیفکیٹ مل جائے۔ معترضین میں ایک طبقہ وہ ہے جو صرف نام سے مسلمان ہے۔ ایسے لوگ مذہب سے بالکل بے بہرہ ہیں، خواہشات نفسانی کے بندے اور ہوس کے غلام ہیں۔ دل لطف نظارہ کا شیدا ہے اور فردوس گوش کے ساتھ ساتھ جنت نگاہ کی تلاش ہے۔ پردے کو ملّائوں کی گڑھنت کہتے ہیں اور دلی تمنّا ہے کہ عورتیں صرف بے پردہ ہی نہیں بلکہ کم سے کم لباس کے ساتھ گھروں سے باہر آجائیں۔
ہم سب سے پہلے قرآن مجید کے ذریعہ گفتگو کریںگے کہ قرآن مجید نے پردے کا کیا معیار پیش کیا ہے کیونکہ احکام اسلامی کا اولین مصدر اور سرچشمہ کلام الٰہی ہے۔ قرآن مجید میں رب حمید کا ارشاد ہے: ’’قل للمؤمنین یغُضّوا مَن ابصارہم‘‘ [اے رسولؐ مومنین سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی آنکھیں جھکائے رکھا کریں] آیۂ کریمہ مطلق ہے یعنی اس میں کوئی قید نہیں کہ کسی خاص وقت پر آنکھیں جھکا لیا کریں یاہر وقت آنکھیں موندے رہا کریں۔ کسی خاص چیز کے دیکھنے کی مخالفت ہے یا ہر چیز پر دیکھنے کی روک ہے؟ کسی بات کی تخصیص نہیں ہے۔ مگر ہر انسان کی عقل حکم کرے گی کہ یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی شئی پر نگاہ نہ ڈالیں اور کوئی شئی دیکھا ہی نہ کریں۔ اگر ایسا حکم ہوتا تو پھر اللہ نے آنکھیں عطا ہی کیوں کیں؟ قوت بصارت دی ہی کیوں۔ وہ کون سی شئی ہے جسے نہ دیکھنے کے واسطے آنکھیں جھکا لینے کا حکم ہے اس کا بہترین فیصلہ شان نزول کرے گی۔شان نزول آیت کی یہ تھی کہ ایک مرتبہ انصار میں سے ایک شخص کسی راستے سے گذر رہا تھا سامنے سے ایک جوان اور حسین عورت آتی ہوئی دکھائی دی۔ حسن کی کشش نے مجبور کیا اور یہ دیکھنے میں محو ہوگیا یہاں تک کہ وہ پاس سے گذر گئی مگر تب بھی اس کی طبیعت سیر نہیں ہوئی۔ یہ دیکھتا بھی جاتا تھا اور اپنی منزل کی طرف قدم بھی بڑھاتا جاتا تھا۔ چند قدم آگے بڑھا اور ایک دیوار سے ٹکرا گیا جس میں شیشہ لگا ہوا تھا اور اس کا چہرہ زخمی ہوگیا۔ اب ہوش آیا تو دیکھا پورا لباس خون سے تر ہے۔ اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا پورا واقعہ بیان کیا اور شکایت کی کہ حضورؐ یہ عورتیں بے پردہ گھومتی ہیں اور کشش حسن مجبور کردیتی ہے دیکھنے پر، اسی سے آج میری یہ گت ہوئی۔ اس وقت یہ آیت اتری: ’’قل للمومنین یغضوا من ابصارہم‘‘ تو اب مطلب صاف ہوا کہ کس چیز کے دیکھنے کی ممانعت ہے۔ آیۂ کریمہ سے نتیجہ نکلا کہ مردوں کا عورتوں پر نظر کرنا حرام ہے۔ قرآن مجید کی آیت یوں بھی حکم دے سکتی تھی کہ مومنین عورتوں کو نہ دیکھا کریں لیکن انتہائی اہتمام یہ کیا گیا کہ نظریں جھکا لیا کریں تاکہ اصل رویت کی حرمت اس قدر اہم ہوجائے کہ جو مقدمہ عدم رویت کا اسی کو واجب کردیا گیا۔ اور محض اسی حکم پر اکتفا نہیں کی بلکہ عورتوں کے واسطے ارشاد ہوا: ’’قُل للمؤمنات یغضضن ابصارھن‘‘ (سورۂ نور) [اے رسولؐ عورتوں سے بھی کہہ دیں کہ (ان پر مردوں کا دیکھنا حرام ہے اور) اپنی آنکھیں جھکائے رکھیں۔] آپ نے دیکھا کہ قرآن مجید کا انتہائی انتظام ادھر مردوں کو حکم کہ عورتوں کو نہ دیکھیں اُدھر عورتوں کو حکم کہ مردوں کو نہ دیکھیں۔ ایک ہی کلمہ دونوں کے واسطے ہے۔ تو اب اس حکم کے بعد عقل بتاتی ہے کہ ایک مزید حکم کی ضرورت ہے کہ جس کے بعد دقتیں نہ ہوں بلکہ آسانی ہو کام نہ بگڑے بلکہ بن جائے اور عسروحرج لازم نہ آئے۔ جب مجلسوں میں محفلوں میں، راستوں میں، دوکانوں میں، مدرسوں میں، اسکولوں اور کالجوں میں دونوں ہی موجود ہیں، عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی اور حکم قرآنی کی پابندی کہ نگاہیں بالکل جھکائے رکھنا ہیں تو سوال یہ ہے کہ آگے کا راستہ کیسے نظر آئے؟ وہاں ایک شخص انصاری کا چہرہ بے پردگی کی وجہ سے زخمی ہواتھا، یہاں پتہ نہیں کتنے لوگ پردہ کی وجہ سے زخمی ہوجائیںگے۔ ساتھ ہی ساتھ شیطان کا وسوسہ بھی اور حسن کی حشر سامانیاں بھی، لہٰذا نگاہ اٹھ ہی جائے گی۔ ادھر نظر سے نظر لڑی، ادھر فساد کا سامان مہیا ہوگیا۔ ایک نگاہ کے لڑنے سے کتنے فساد پیدا ہوجائیںگے۔ اس لئے پردہ کا حکم ہوا تاکہ مستحکم دیواریں حائل رہیں اور نقاب کے حصار کھنچے رہیں۔ آیت کی روک الگ ہو، حرمت کی دیوار علاحدہ ہو پھر غض بصر کا حکم بھی ہو اور نقاب کے پردے بھی پڑے رہیں۔ جب مردو عورت دونوں کو نگاہ کرنے سے منع کیا گیا ہے تو ضروری ہوا کہ کسی ایک کو پردے میں رکھا جائے تاکہ آیت پر عمل آسان ہوجائے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کس کو پردے میں رکھا جائے، عورتوں کو یا مردوں کو؟ فوراً عقل کا مقتضا ہوگا کہ پردہ عورتوں کے لئے بہتر اور آسان تر ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ جو کشش عورتوں میں ہوتی ہے وہ مردوں میں نہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عورتیں فطرتاً شرمیلی ہوتی ہیں اور حیا سے اپنی نگاہوں کو عموماً جھکائے رکھتی ہیں (مگر یہ کہ غیرفطری ماحول کی عادی ہوجائیں) اب آیۂ کریمہ آگے بڑھتی ہے اور حکم ہوتا ہے: ’’ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظہر‘‘ [اے رسولؐ ایمان لانے والی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ بدکاریوں سے اپنی حفاظت کریں اور اپنی کوئی زینت کسی مرد کے سامنے ظاہر نہ کریں مگر یہ کہ اتفاقاً ظاہر ہوجائیں] اتنا ہی کہنا کافی تھا مگر آیت نے اور تاکید کردی ’’ولیضربنّ بخمرھن علی جیوبھن‘‘ [اپنی اوڑھنیاں اس قدر لٹکائیں کہ سینے تک پہنچ جائیں۔] اچھا بس، اب تو آیت ختم ہوجاتی۔ مگر نہیں، تاکید پر تاکید اور حکم پر حکم ’’ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن۔۔۔۔۔‘‘ [اور اپنی زینتوں کو ہرگز ظاہر نہ کریں البتہ صرف اپنے شوہروں کے سامنے۔] اسی طرح باپ، خسر اور اپنی اولاد اور شوہر کی اولاد، اپنے بھائی یا بھانجے اور بھتیجے، ان سب کے سامنے زینتوں کے ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ صرف جسم ہی نہیں بلکہ جو چیزیں جسم کی زینت ہیں، ان کے واسطے بھی ممانعت ہے کہ کسی غیرمرد کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ آیت میں پوری تفصیل ہے جو قرآن مجید میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مگر آیت کی زبان یہاں بھی نہیں رکتی ہے بلکہ ارشاد ہوتا ہے: ’’ولا یضربن بارجلہنّ‘‘ [اور راستہ چلتے میں اپنے پیر زمین پر مار کر نہ چلیں (کہ جو زینتیں ان کی چھپی ہوئی ہیں ان کا پتہ چل جائے)۔] یہ ہے غیرت الٰہیہ اور یہ ہے انتہائی تعلیم حجاب کہ اگر عورت زیور پہنے ہوئے ہو تو وہ زیور مردوں کو دکھانا کیسا، اس زیور کی آواز بھی نہ سنائی دے۔ جس خالق کو یہ گوارا نہیں کہ عورت کے زیور کی آواز مرد سنیں، وہ کب گوارا کرے گا کہ زیور دکھائے جائیں اور جب زیور کا بے پردہ ہونا گوارا نہیں، تو وہ کب گوارا کرے گا کہ وہ ہاتھ پیر دکھائے جائیں جن میں زیور ہیں اور جو ہاتھوں اور پیروں کا ظاہر ہونا جائز نہ رکھے تو وہ اس کی کب اجازت دے گا کہ منھ دکھائے جائیں۔ اس آیت کے بعد اب ضرورت تو نہیں ہے کہ کوئی اور آیت پیش کی جائے۔ صاحبان ایمان اور انصاف کے لئے اس آیت ہی میں وہ زبردست ذخیرہ موجود ہے جو پردہ کی عظمت کو روزروشن اور آفتاب نصف النہار کی طرح عیاں کردیتا ہے مگر مسئلہ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے انشاء اللہ اگلے حصوںمیں مزید عقلی اور نقلی دلائل پیش ہوںگے۔وما علینا الا البلاغ
(ماخوذ از روزنامہ راشٹریہ سہارا (اردو)۲۶؍فروری۲۰۱۰ء)
(۲)
آج یوروپ والے دعویدار ہیں کہ انہوں نے خواتین کو گھروں کی قید وبند سے آزادی دلائی اور ان کے حقوق کی حفاظت کی، لیکن اگر ہم یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم پر اس دعوے کی حقیقت کھل جائے گی۔ درحقیقت جس وقت یورپ میں تیزی سے ’’ صنعت کاری‘‘ ہونے لگا اور کثرت سے کارخانے کھلنے لگے تو مزدوروں کی مزدوری میں اضافہ ہونے لگا اور مزدوروں نے تنخواہوں میں اضافے کے لئے ہڑتالیں شروع کردیں۔ ایسے وقت میں کارخانہ مالکوں اور سرمایہ داروں نے نقلی ریفارمرس کے ذریعہ عورتوں کی آزادی کا نعرہ بلند کردیا اور زور شور سے مطالبہ شروع ہوا کہ عورتوں کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے اور گھروں میں ان کو قید کرکے مرد ان پر ظلم کررہے ہیں، اس طرح سے عورتوں کو کارخانوں میں لایا گیا اور مردوں سے آدھی مزدوری پر انہیں کام پر رکھا گیا۔ عورتوں کی آزادی کا نعرہ محض ایک دھوکہ تھا اور مقصد صرف کارخانوں میں ان کا استحصال تھا۔
گذشتہ مضمون میں، میں نے قرآن مجید کی پردہ سے متعلق ایک آیت کریمہ کا تذکرہ کیا تھا۔ آج دوسری آیت پیش کررہا ہوں۔ سورہ احزاب آیت۵۹ (ترجمہ) اے نبیؐ تم اپنی ازواج، اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، اس سے ان کی شناخت ہوجائے گی اور وہ اذیت سے بچ جائیںگی۔ اس آیت کریمہ کے نزول کا سبب یہ ہے کہ پردہ کا حکم آنے سے قبل مثل زمانہ جاہلیت کے، تمام عورتیں خواہ کسی کی بہو بیٹیاں ہوں یا کنیزیں اور پست کردار عورتیں، سب ایک طرح سے منھ کھول کر نکلا کرتی تھیں۔ آوارہ اور بدمعاش لوگوں کی یہ عادت تھی کہ وہ کنیزوں اور پست عورتوں کو چھیڑتے تھے اور ان سے فحش مذاق کرتے تھے، اسی میں کبھی کبھی عالی مرتبت اور شریف خواتین بھی ان کا شکار بن جاتی تھیں۔ لوگوں نے اس بات کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہاری عورتیں چادروں کو اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں۔ اس طرح سے شریف اور محترم عورتوں کا طرزلباس کنیزوں اور خراب قسم کی عورتوں سے ممتاز ہوجائے گا اور وہ اوباشوں کی اذیت سے بچ جائیںگی۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ساری عورتیں پست ہوتی ہیں، مگر اتنا ضرور کہوںگا کہ انہوں نے شرافت اور عزت کی وہ نشانی چھوڑ دی جس کی قرآن نے تاکید کی ہے، لہٰذا اگر غیرمہذب لوگ ان سے گستاخی کریں تو یہ بھی اتنی ہی قصوروار ہیں جتنے کہ وہ اوباش لوگ۔
پردے کے مخالف زورشور سے پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ پردہ عورت کی توہین ہے اور کیونکہ اسلام نے عورت کو کمتر سمجھا ہے، اس لئے اسے پردے میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہوتی ہے تو جو اسلام کی انتہائی باعظمت خواتین ہیں جن کو امت کی مائیں کہا گیا ہے، جو ازواج رسولؐ ہیں، وہ پردے کی قید سے آزاد ہوتیں، مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پردے کا حکم زیادہ سخت ہے۔ ’’اے ازواج نبیؐ تم اپنے گھروں میں رہا کرو‘‘ مسلمانوں سے تاکید ہے کہ جب تم رسول اکرمؐ کی بیویوں سے کچھ مانگو تو پردے کی آڑ سے سوال کرو۔ آپ انصاف کی نظر سے پردے کا اہتمام ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے چادریں اوڑھنے کا حکم ہوا۔ پھر نقاب ڈالنے کا حکم ہوا، پھر گھر میں بیٹھنے کا حکم ہوا، پھر مسلمانوں کو حکم کہ اس کے بعد اگر کچھ مانگو تو پردے کی آڑ سے۔ اگر پردہ سبب توہین ہوتا تو جن خواتین کی عظمت اتنی تھی کہ وہ امت کی مائیں قرار دی جارہی ہیں، ان پر پردے کی اتنی پابندی نہ ہوتی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پردہ عورت کی توہین کے لئے نہیں تعظیم کے لئے ہے۔
مردوں سے میل جول کیسا، مردوں کی محفلوں میں جانا کیسا، مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا کیسا؟ رسول اللہ کا ارشاد ہے، (ترجمہ:) ’’جو شخص اللہ پر اور یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ کبھی ایسے مقام پر نہیں سوئے گا، جہاں اس کی سانس کی آواز نامحرم عورت کے کانوں تک جائے۔ حضرت علیؓ کا ارشاد ہے: ’’اے کوفہ کے مردو! تمہاری غیرت کو کیا ہوگیا ہے کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں اس طرح چلتی ہیں کہ نامحرموں سے ان کے شانے مس ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ حضرت علیؑ نے عورتوں سے خطاب نہیں کیا ہے، بلکہ مردوں کی غیرت کو للکارا ہے۔ یعنی اگر عورتیں بازاروں میں آئیں تو مردوں کی غیرت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
اسلام نے عورتوں کو پردے میں رکھ کر ان کی عزت ووقار کو معراج بخشی ہے۔ اسلام کا پیغام ہے کہ عورتیں ماہتاب عفت ہیں، ان کو آفتاب کی روشنی میں لاکر بے نور نہ بنائو، وہ آفتاب عصمت ہیں ان کو ایسے راستوں پر نہ چلائو کہ انہیں گہن لگ جائے۔ وہ بے نظیر پھول ہیں ان کو نقابوں میں رکھ کر ہوسناک نگاہوں کی گرمی سے بچائو تاکہ وہ کمہلا نہ جائیں۔ وہ بے نظیر جواہرات ہیں، ان کو گھر کے خزانوں میں حفاظت سے رکھو۔ عورتوں کے واسطے زینت ہے پردہ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن حوروں کی مدح پردے سے نہ کرتا۔ جنت وہ مقام ہے جہاں نہ آوارگی ہے اور نہ بدنگاہی۔ سردی نہیں کہ پھول سوکھیں، گرمی نہیں کہ کلیاں مرجھائیں تو پھر حوروں کے واسطے پردے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر معلوم ہوتا ہے کہ حسن کا جوہر ہے کہ نقاب میں ہو اور موتی کی حفاظت اسی میں ہے کہ صدف میں ہو اور موتی کی آب وتاب اسی میں ہے کہ چادر آب میں ہو لہٰذا حوروں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ’’جنت میں وہ پاکدامن حوریں ہیں جو کسی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتیں اور وہ حوریں جن کی زوجہ ہوںگی، ان سے پہلے نہ کسی جن نے انہیں ہاتھ لگایا ہوگا نہ کسی انسان نے۔‘‘
اگرمردوں کی بزم میں جانا، ان سے ہاتھ ملانا اور ان کی طرف نگاہیں اٹھانا عیب نہ ہوتا تو اللہ کبھی حوروں کی اس طرح مدح نہ کرتا کہ نہ کسی کی طرف دیکھتی ہیں، نہ کسی کا ہاتھ ان سے مس ہوا ہے بہتر تھا کہ خدا یوں تعریف فرماتا کہ بڑی پڑھی لکھی ہیں، بڑی اچھی مقرر ہیں، کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ کوئی بزم ایسی نہیں جس کی صدر نہ ہوں۔ دنیا جن باتوں کو عورت کا حسن جانتی ہے، ان کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ ان کے شرم وحیا اور پردے کا تذکرہ ’’حور مقصورات فی الخیام‘‘ یہ حوریں پردے کے اندر رہتی ہیں تو اب سمجھئے کہ جب جنت جیسے پاک وپاکیزہ ماحول میں حوروں کا زیور پردہ ہے تو یہ دنیا جہاں قدم قدم پر بدکاروں کا خوف ہے، بدنگاہوں کا ڈر ہے، وہاں پر پردہ کتنا ضروری قرار پائے گا۔
(ماخوذ از ماہنامہ شعاع عمل لکھنؤ اُردو و ہندی، ناشر نور ہدایت فائونڈیشن امام باڑہ غفران مآب ، مولانا کلب حسین روڈ، چوک ، لکھنؤ ۔۳ (یوپی) انڈیا)