سیدِ مقاومت، شہید سیدِ حسن نصراللّٰہ، ایک نام ہے جس نے حیاتِ سیاسی و عسکری اور فکری محاذ پر نہ صرف لبنان بلکہ پورے عرب و اسلامی دنیا میں اپنی چھاپ چھوڑی۔ ان کی زندگی ایک کٹھن راہ تھی — ظلم و جبر کے سامنے پہلو نہ ٹکانے، مظلوم کی آواز بن جانے اور مقاومت کے علم کو بلند کرنے کا عہد۔ آج، ان کی شہادت کے بعد، اس عظیم انسان کی یادوں کو نئے سرے سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسلیں اُن کی راہ سے روشنی حاصل کریں۔
سیدِ حسن عبدالکریم نصراللّٰہ کی ولادت ۳۱ اگست ۱۹۶۰ء کو بیروت کے مضافاتی علاقہ برجِ حمّود یا از بعض مصادر بَزُوریہ میں ہوئی۔
آپ اپنے والد عبدالکریم نصراللّٰہ کے گھر پیدا ہوئے، جو پھل و سبزی کی خرید و فروخت کے کام سے گزر بسر کرتے تھے۔ اس خاندان میں آپ نویں نمبر پر تھے، اور آپ کے بچپن کا زمانہ بہت معمولی وسائل میں گزرا۔
ابتدائی تعلیم آپ نے النجاح اور سان الفیل اسکولوں سے حاصل کی، جہاں آپ ایک ایسے تعلیمی ماحول میں رہے جہاں عیسائی طلبہ کی اکثریت تھی۔ اس دور میں آپ نے دینی اور دنیاوی مطالعے کی بنیاد رکھی۔
۱۹۷۵ میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی، جو پورے ملک کو ہلا کر رکھ گئی۔ اس وقت آپ تقریباً پندرہ سال کے تھے۔ جنگ کی آندھی نے آپ کے خاندان کو مجبور کیا کہ وہ بیروت چھوڑ کر آبائی علاقہ بازوریہ واپس لوٹ جائیں، جہاں آپ نے مدارس میں تعلیم جاری رکھی۔
آپ نے بعد ازاں بعلبک کے شیعہ مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی۔ نیز، نجف اشرف جانے کی راہ اختیار کی — جہاں آپ نے اپنے علمی سفر کو آگے بڑھایا۔ نجف میں آپ کی ملاقات عالمِ ربانی آیت اللہ محمد باقر الصدر کی علمی شخصیت سے ہوئی، اور یہ تعلق آپ کی فکری بنیادیں مزید مضبوط کرنے کا باعث بنا۔
وہاں آپ نے دینی، فقهی اور مکتبِ اہل بیت علیہ السلام کی وہ بنیادیں حاصل کیں جو بعد میں آپ کے گفتار و کردار میں نمایاں ہوئیں۔
۱۹۷۸–۷۹ کی گردش کے بعد آپ ایران یا عراق سے واپس لبنان آئے، اور سیاست و مقاومت کی راہ پر قدم اٹھایا۔
ابتدائی دور میں آپ نے امَل تحریک میں شمولیت اختیار کی، جو شعیہ برادری کی ایک قدیم تحریک تھی۔ وہاں آپ نے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیا، اور بازوریہ کے علاقے میں آپ کا نام امَل تحریک کا نمائندہ بن کر مشہور ہوا۔
لیکن ۱۹۸۲ کی اسرائیلی جارحیت نے لبنان کو تہہ و بالا کر دیا، اور سیاست و مزاحمت کی شکلیں بدل گئیں۔ امَل تحریک کے اندر اختلافات نے اسے دو دھارے میں تقسیم کیا — ایک وہ جو سیاسی راہ اختیار کرنا چاہتا تھا، اور دوسرا وہ جو مسلح مقاومت کو بنیاد بنانا چاہتا تھا۔
اس مواقع پر آپ نے مزاحمتی رُخ کو اپنایا۔ آپ کی دوستی اور تعلق سید عباس موسوی کے ساتھ استوار ہوا، جنہوں نے حزب اللہ کی تنظیمِ بنیاد میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے اس تحریک کے اندر مرکزی ذمہ داریاں اٹھائیں اور مزاحمت کے میدان میں قدم جمایا۔
آپ حزب اللہ کی سپریم کونسل کے رکن بنے، اور بیروت محاذ پر سرگرمی کا حصہ بنے۔ حزب اللہ نے صرف ایک عسکری تنظیم نہ بننے کا عزم رکھا، بلکہ ایک سیاسی، سماجی اور ثقافتی تحریک کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔
۱۹۹۲ میں، جب اسرائیلی فورسز نے آپ کے پیشرو سید عباس موسوی کو ہوائی حملے میں شہید کردیا، تب آپ نے اُس مقام کو قبول کیا اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے، جب آپ کی عمر تقریباً ۳۵ برس تھی۔
آپ کی قیادت نے حزب اللہ کو وسیع تر عمق عطا کی۔ آپ نے اس کی عسکری صلاحیت کو منظم کیا، راکٹ سسٹمز، ریموٹ آپریشنز اور جدید حربی ڈھانچے کو متعارف کرایا۔
سن ۲۰۰۰ وہ لمحہ تھا جسے لبنان نے مقاومت کی فتح کا نشانی بنایا — جنوبی لبنان نیرووں سے پاک ہوا، اور حزب اللہ کو ایک تاریخی وقار ملا۔ یہ طویل عرصے کی مزاحمت کا نتیجہ تھا کہ قابض صہیونی قوتوں نے ان علاقوں سے اپنی فوجیں نکال لیں۔
۲۰۰۶ کی جنگ، جو تیس تری دنوں پر محیط تھی، ایک سنگِ میل تھی۔ اس جنگ نے حزب اللہ کی عسکری قوت، عوامی حمایت اور مقاومت کے تصور کو ایک نئی جہت دی۔ آپ نے خطاب میں مغربی طاقتوں، اسرائیلی حملوں اور ظلم کے سامنے نہ جھکنے والا موقف اظہار کیا اور عوام کو متحد کیا۔
جنگ کی شدت، شہروں پر بمباری، شہداء کا مسلسل سلسلہ، مگر آپ کا خطاب نہ رکا اور آپ نے قوم کو تسلی دی کہ فتح دور نہیں۔ آپ نے کہا:
“اگر تم بیروت پر حملہ کرو گے، تو مقاومت تل ابیب پر حملہ کرے گی”
یہ وہ جذبہ تھا جو عوام کے دلوں کو جِلا بخش گیا، اور مقاومت کے تصور کو صرف نظریے سے عمل میں تبدیل کرنے کی قوت دی۔
علاوہ ازیں، آپ نے سیاسی سطح پر بھی حرکت کی — لبنان کی متنوع جماعتوں کے مابین مفاہمت کی کوشش، انتخابی سیاست، بین الاقوامی توازن کی کوشش، اور داخلی سیاست میں حزب اللہ کو ایک نمایاں قوت کی حیثیت دلانا شامل ہے۔
آپ نے مشرقِ وسطٰی کی کشیدگیوں کا ادراک کیا اور مقاومت کے محور کو وسیع کیا: فلسطین، شام، یمن اور دیگر محاذوں پر آپ نے نظریاتی و عملی یکجہتی کی وکالت کی۔ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کے بعد، جب غزہ نے فتح کی تحریک کو زندہ کیا، آپ نے حزب اللہ کو فوراً اسرائیل کی طرف فلسطین پر مظالم کا جواب دینے کے لیے متحرک ہونے کا اعلان کیا۔
۲۷ ستمبر ۲۰۲۴ کی شام ایک تلخ اور غیر متوقع سانحہ بن گئی۔ اسرائیلی فضائی حملے نے حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر مار کیا، اور اس حملے میں سیدِ مقاومت شہید ہوگئے۔ حزب اللہ نے خود اس شہادت کی تصدیق کی، اور بعد ازاں عالمی میڈیا نے خبر شائع کی۔
ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ وہ آپریشن روم کے اندر موجود تھے، جہاں بمباری نے آپ کی جان لے لی — ممکنہ طور پر زہریلے دھوئیں یا ملبے کے منہدم اثر سے موت واقع ہوئی۔
ان کی شہادت نے لبنان اور پورے خطے میں غم و صدمے کی لہر دوڑا دی۔ حزب اللہ نے ابتدا میں انہیں خفیہ مقام پر دفن کیا، تاکہ دشمن حملوں سے بچا جا سکے۔ بعد میں ایک عظیم الشان جنازہ تقریب کا انعقاد ہوا، جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
۲۳ فروری ۲۰۲۵ کو بیروت میں وہ بزرگ جنازہ منعقد ہوا جسے لاکھوں افراد نے زندہ مثال بنا دیا۔ بعض رپورٹوں کے مطابق جنازے میں ۴۵۰,۰۰۰ سے لیکر ایک لاکھ چالیس ہزار تک افراد نے شرکت کی۔
ل
اس واقعے نے حزب اللہ کی قیادت میں خالی پن ڈال دیا، مگر آپ کے ارشادات، خطابات اور فکری بنیادوں نے خلا کو پر کرنے کا بیک وقت راستہ رکھا۔
سیدِ مقاومت کی اس دنیا سے جانے کے بعد، وہ ایک شہید کی طرح سامنے آئے — ایک ایسی شخصیت جو ماضی کی کہانی نہیں رہی بلکہ آنے والی نسلوں کا استعارہ بن گئی۔ ان کا نام ایک تحریک، جذبہ اور فکر کی علامت ہے۔
ان کی سب سے بڑی میراث یہ ہے کہ انہوں نے مقاومت کو ایک نظریے سے زیادہ ایک عملی راہ بنا ڈالی۔ ظلم کے سامنے گھٹنے ٹیکنا ان کے نزدیک نہ تھا۔ انہوں نے یہ بتا دیا کہ انسانی عزت کی خاطر جُھکنا نہیں بلکہ لڑنا لازمی ہے۔
آپ نے شہداء کی راہ کو عزت بخشی، مجاہدین کو آفاق دیا، اور ایک نسل کو خواب دکھایا کہ ایک بہتر، منصفانہ دنیا ممکن ہے۔ آپ کی وہ تقریریں، آپ کا اندازِ بیان اور آپ کی بصیرت آج بھی فریقین کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ چراغِ ہدایت ہیں، وہ راہبرِ مجاہدین ہیں، وہ شہیدِ اعظم ہیں۔ ان کا خون، ان کے ارشادات اور ان کی شجاعت آج بھی ظلم و ستم کی تاریکیوں میں روشنی بانٹتی ہے۔
وہ فرزندِ حسین علیہ السلام کی تربیت کا ثمر تھے، وہ ابوالفضل العباس علیہ السلام کی صدائیں تھے، اور آج وہ شہید ہیں — مگر ان کی شہادت نے انہیں فنا نہیں کیا بلکہ امر کر دیا