حجت کبریاء، وارث انبیاء، فرزند مصطفیٰؐ، دلبند علی مرتضیٰؑ، نور چشم فاطمہ زہرا ؑ، جانشین حسن مجتبیٰؑ ، مصباح الہدیٰ ، سید الشہداء، فاتح کربلا حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حق مدحت کی ادائیگی عام بشر کے بس سے باہر ہے، کیوں کہ آپؑ علی الاعلیٰ خدا کے عبد اور اس کے ولی امام علی علیہ السلام کے وارث ہیں کہ جنہوں نے فرمایا ‘‘ ولا یرقی الیہ الطیر’’ یعنی کسی کا طائر فکر ان کی رفیع مرتبہ کا ادراک نہیں کر سکتا۔ اس اقیانوس معرفت کا ادراک کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ بغیر محمد و آل محمد علیہم السلام کے اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت ممکن نہیں ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : ‘‘الأوصياء هم أبواب الله عز وجل التي يؤتى منها ولولاهم ما عرف الله عز وجل وبهم احتج الله تبارك وتعالى على خلقه.’’ اوصیاء ابواب الہی ہیں جن کے ذریعہ خدا تک رسائی ہوتی ہے اگر اوصیاء نہ ہوتے تو اللہ کی معرفت ممکن نہیں تھی اور اللہ انہیں کے ذریعہ لوگوں پر حجت قائم کرے گا۔ (الکافی، جلد۱، صفحہ ۱۹۳)
اسی طرح اگر ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے اپنی معرفت نہ کرائی ہوتی تو کوئی آپؑ کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ معرفت آل اللہ میں جہاں قرآن کی آیات ہیں ، معصومین علیہم السلام کی احادیث ہیں وہیں معرفت کا ایک اہم ذریعہ معصومین علیہم السلام سے مروی زیارتیں ہیں ۔ انہیں زیارتوں میں سے ایک زیارت اربعین ہے۔
شیخ الطائفہ جناب شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘کتاب التہذیب’’ اور ‘‘مصباح المتہجد’’میں، جناب سید بن طاووس رحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘اقبال الاعمال’’ میں ، محمد بن جعفر مشہدی رحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘المزار الکبیر’’ میں ، جناب کفعمی رحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘المصباح’’ میں اس زیارت کی سند اور متن نقل فرمایا ہے۔ اسی طرح جناب علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے جناب شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے روز جب دن تھوڑا نکل آئے تو یہ زیارت پڑھو۔
امام حسین علیہ السلام کی زیارت اربعین دوسری زیارتوں کی طرح ‘‘سلام ’’ سے شروع ہو رہی ہے جس کے ذریعہ زائر امام حسین علیہ السلام سے تولیٰ کا اعلان کرتا ہے۔ زائر امام حسین علیہ السلام کو مختلف القاب سے سلام کرتا ہے کہ جن میں سے ہر لقب پر توجہ عاشق کو معشوق سے اور نزدیک لاتی ہے ۔ ہر لقب معرفت حسینی کا بحر ذخار ہے۔
زیارت کا آغاز ‘‘السلام علی ولی اللہ و حبیبہ ’’ یعنی سلام ہو اللہ کے ولی اور حبیب پر ۔
"ولایت" اللہ تبارک و تعالیٰ سے مخصوص ہے اور اللہ جب کسی پر اپنا سایہ ولایت کرتا ہے تو اسے ظلمت سے نکال کر نور میں داخل کر دیتا ہے۔ ‘‘اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ’’ (سورہ بقرہ، آیت 257) اللہ صاحبانِ ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔
وہ عادل پردرگار اپنےجس بندے میں لیاقت پاتا ہے اس پر یہ لطف کرتا ہے اور اسے تاج ولایت عطا کرتا ہے۔ ‘‘إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ’’ (سورہ مائدہ ، آیت 55) ایمان والو! بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ خاصہ اور عامہ کے مفسرین کا ماننا ہے کہ یہ آیت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ۔ اور اس آیت سے نہ صرف امیرالمومنین علیہ السلام بلکہ بارہ اماموں کی ولایت و امامت ثابت ہوتی ہے۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام بارہ اماموں میں تیسرے امام ہیں اور بارہ اولیاء میں تیسرے ولی ہیں لہذا آپؑ بھی اہل ایمان پر اسی طرح ولایت اور اختیار رکھتے ہیں جس طرح آپ سے پہلے امیرالمومنین علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کو ولایت اور اختیار حاصل تھا۔
اللہ تعالیٰ حدیث قدسی میں فرماتا ہے:‘‘ مَنْ أَهَانَ لِي وَلِيّاً فَقَدْ أَرْصَدَ لِمُحَارَبَتِي’’ جس نے میرے ولی کی توہین کی اس نے مجھ سے جنگ کا اعلان کیا۔ (کافی، جلد3، صفحہ 352)
دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:‘‘ وَ اِعْلَمْ أَنَّهُ مَنْ أَخَافَ لِي وَلِيّاً فَقَدْ بَارَزَنِي بِالْمُحَارَبَةِ ثُمَّ أَنَا اَلثَّائِرُ لَهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ’’ اور جان لو کہ جس نے بھی میرے ولی کو خوف زدہ کیا اس نے مجھے جنگ کی دعوت دی اور میں قیامت کے دن اس سے انتقام لوں گا۔ (مجموعہ ورام۔ جلد 1، صفحہ 143)
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘‘مَنْ أَذَلَّ لِي وَلِيّاً فَقَدْ أَرْصَدَ لِي بِالْمُحَارَبَةِ’’ جس نے میرے ولی کی ذلت و توہین کی کوشش کی اس نے مجھ سے جنگ کا اعلان کیا۔ (امالی شیخ طوسیؒ، جلد 1، صفحہ 195)
جس طرح ولی خدا کی توہین اور دشمنی اللہ کے غضب کا سبب ہے اسی طرح ولی خدا سے محبت اللہ کی رضا کا باعث ہے۔ امام حسین علیہ السلام ولی خدا ہیں ، جو بھی ان سے محبت کرے گا، انہیں اپنا ولی و مولا سمجھے گا اللہ اس سے راضی ہو گا اور وہ اللہ کا محبوب بندہ ہوگا۔ لیکن اگر کسی نے امام حسین علیہ السلام سے دشمنی کی تو گویا اس نے اللہ سے دشمنی کی اور خدا سے اعلان جنگ کیا ۔ اب اسی سے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں، ظالموں اور دشمنوں کی بھی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ سب اللہ کے دشمن تھے اور اللہ قیامت میں ان سے انتقام لے گا۔
‘‘و حبیبہ’’ امام حسین علیہ السلام اللہ کے حبیب ہیں ۔ ‘‘حبیب اللہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب ہے اور ‘‘خلیل اللہ’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام کالقب ہے۔ ان دونوں القاب کا معنیٰ ہے کہ جس کے دل میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی محبت نہ ہو ، حبیب اللہ کا مرتبہ خلیل اللہ سے بلند ہے۔ امام حسین علیہ السلام کو امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس زیارت نامہ میں حبیب اللہ اور خلیل اللہ کے لقب سے یاد کیا ، جس سے آپؑ کی وراثت انبیاء بھی ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی نظر صرف خدا پر تھی ، یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے عاشور کا دن ڈھلتا جا رہا تھا اور آپؑ قربانیوں پر قربانیاں پیش کرتے جا رہے تھے آپؑ کا چہرہ مبارک نورانی تر ہوتا جا رہا تھا۔
‘‘ونجیبہ’’ امام حسین علیہ السلام نجیب اللہ ہیں ۔ نجیب اس شخص کو کہتے ہیں جس کا حسب و نسب ارفع و اعلیٰ ہو۔ نجیب انسان کی خصوصیات میں ہے کہ وہ غلطیوں کو جلدی معاف کر دیتا ہے، دل میں کینہ نہیں رکھتا، لوگوں کے ساتھ احترام سے پیش آتا ہے، وہ قابل اعتماد ہوتا ہے ، ریا کاری اور دکھاوے سے پرہیز کرتا ہے، چاپلوسی نہیں کرتا ، جھوٹ نہیں بولتا، وسوسوں پر کنٹرول رکھتاہے اور اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔
‘‘صَفِی اللهِ وَ ابْنِ صَفِیهِ’’ صفی یعنی خالص، منفرد، منتخب، صاف، پاک ، روشن یعنی جو دنیا طلبی، ریاکاری اور دیگر اخلاقی بیماریوں سے محفوظ ہو۔ صفی اللہ خلیفہ اول ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کا لقب ہے۔ جن کو اللہ نے مسجود ملائکہ قرار دیا اور ان کو سجدہ نہ کرنے کے جرم میں شیطان کو اپنی بارگاہ سے مردود بنا دیا۔
یہ گواہیاں زائر حسینی کے ایمان و یقین کو ثابت کرتی ہیں ۔ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کے بیان کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپؑ کے خصوصیات بیان فرمائے۔ جیسے امام حسین علیہ السلام نے شہادت کے ذریعہ الہی کرامت حاصل کی، اللہ نے آپؑ کو مخصوص سعادت عنائت کی، طیب و طاہر ولادت کے ذریعہ آپؑ کا انتخاب کیا اللہ نے آپؑ کو سرداروں میں سے ایک سردار، رہبروں میں ایک رہبر ، حق کے پاسبانوں میں سے ایک پاسبان بنایا، آپؑ کو انبیاء کی میراث عطا کی اور اپنے اوصیاء میں سے ایک وصی جو اس کے بندوں پر اسکی حجت ہو قرار دیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کے بعد آپؑ کی مذکورہ خصوصیات کو بیان فرمایا تا کہ زائر کے ذہن نشین رہے کہ وہ کس بارگاہ میں حاضر ہوا ہے اور اسے یقین ہو جائے کہ راہ خدا میں قتل خاتمہ نہیں بلکہ سعادت اور کرامت ہے۔ اللہ نے آپؑ کو میراث انبیاء عطا کیا یعنی تمام انبیاء کا وارث بنایا تو ہر نبی کی امت پر آپؑ کی اطاعت فرض ہے اگر چہ صرف امت ہی نہیں بلکہ تمام بندوں پر آپؑ کی اطاعت فرض ہے کیوں کہ اللہ نے آپ کو تمام بندوں پر اپنی حجت قرار دیا ہے۔
بعدہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد بیان فرمایا تا کہ زائر کے پیش نظر رہے کہ آقا نے کیوں اتنی عظیم قربانیاں پیش کیں اور وہ مقصد امت کی ہدایت، نجات اور بیداری ہے اور آپؑ نے اس سلسلہ میں لوگوں کو اس طرح دعوت دی کہ سب پر حجت تمام ہو جائے اور کسی کے پاس کوئی بہانہ نہ رہ جائے۔ کبھی کبھی جہالت ، گمراہی اور جاہلانہ اور گمراہ کن رسم و رواج کے خاتمہ کے لئے خون کی ضرورت ہوتی ہے امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے باوفا ساتھیوں اور دل کے ٹکڑوں کا خون پیش کیا تا کہ اللہ کے بندے جہالت اور حیرت انگیز گمراہی سے نکل سکیں۔ کیوں کہ بنی امیہ نے چالیس سال تک اہل شام کو جہالت میں رکھا اور اہل عراق کو دھمکی اور لالچ کے ذریعہ گمراہ بنایا، ضرورت تھی کہ ایک عظیم قیام ہو جو بنی امیہ کی اس چالیس سالہ مکاریوں اور سازشوں کا چالیسواں کرے۔
اس کے بعد معلم بشریت مربی انسانیت امام جعفر صادق علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی بھی حقیقت بیان کر دی کہ وہ کون تھے۔ انکو دنیا نے دھوکہ دیا تھا، انھوں نے اپنی آخرت کا سودا کیا تھا، وہ خواہشات نفسانی کے اسیر تھے، انھوں نے اللہ ، رسولؐ اور امامؑ کو ناراض کیا ، ان بدبختوں اور نامرادوں نے تفرقہ بازوں ، منافقوں اور سنگین گناہوں کا بوجھ اٹھانے والوں اور جہنمیوں کی پیروی کی۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے جہاں قاتلان حسینؑ کی حقیقت واضح فرمائی وہیں بالترتیب گمراہی کے مراحل بھی بتا دئیے تاکہ رہتی دنیا تک راہ ہدایت و سعادت کے راہی متوجہ رہیں ۔ گمراہی کی پہلی منزل دنیا کا دھوکہ ہے، اس کے بعد آخر ت کا سودا ہے، پھر نفسانی آرزو کی تکمیل میں کوشش ہے، اس کے بعد اللہ ، رسول اور امامؑ کی ناراضگی ہے۔۔۔۔۔۔۔ انسان محتاط رہے۔
امام حسین علیہ السلام نے ان گمراہوں سے صبر کے ساتھ جہاد کیا ،یہاں تک آپؑ کا خون بہہ گیا اور حرمت پامال ہوئی ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا جہاد اور صبر ساتھ ساتھ تھا اور آپؑ نے راہ خدا میں ہر مصیبت پر صبر کیا۔ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ جہاد صبر کا دامن چھوڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ صبر کے ساتھ حقوق کے لئے جنگ کرنے کا نام ہے۔
اس کے بعد قاتلوں پر لعنت اور ان پر تبریٰ ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی واضح ہو جائے کہ موجودہ حالات میں تبریٰ بھی کبھی کبھی متعہ جیسا ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس طرح متعہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں رائج تھا، آپؐ کے بعد پہلے دور حکومت میں بھی رائج تھا ، دوسرے دور حکومت کے ابتدائی دور میں بھی رائج تھا ، مطلب اسے نہ اللہ نے حرام کیا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حرام کیا اور نہ ہی جناب ابوبکر نے حرام قرار دیا۔ لیکن اس کے بعد جو حرام ہوا تو پھر غیر تو غیر اپنوں نے بھی بعض اوقات حقارت و پستی سے اس کا ذکر کیا ۔ اسی طرح تبریٰ یعنی اللہ ، رسولؐ اور اہلبیتؑ کے دشمنوں پر لعنت اور ان سے اظہار بیزاری ہے ۔ اس کو تبلیغ کے مقابلہ میں لاکر کھڑا کر دیا گیا کہ جو مبلغ ہو گا وہ تبریٰ سے دور ہو گا جب کہ محال ہے کہ جو اسلام کا مبلغ ہو وہ دشمنان اسلام سے اظہار بیزاری نہ کرے چاہے وہ دشمن ماضی کے ہوں یا حال کے۔
اسکے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے خاندان رسالت سے آپؑ کے تعلق اور سعادتمند زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان لوگوں سے اظہار بیزاری کی تعلیم دی جنہوں نے اگرچہ آپ کو قتل نہیں کیا، وہ کربلا میں نہیں تھے، کربلا میں انھوں نے کوئی ظلم نہیں کیا لیکن انہیں جب آپؑ کی شہادت اور مظلومیت کی خبر ملی تو وہ غمگین نہیں ہوئے بلکہ اس سے راضی تھے۔ روایت میں ہے جو جس جرم سے راضی ہوتا ہے وہ اس میں شریک ہوتا ہے لہذا جو قتل حسین علیہ السلام سے راضی تھے ، ہیں یا رہیں گے وہ قاتلوں کی فہرست میں شامل ہیں اور ان سے بھی اسی طرح اظہار بیزاری لازم ہے جس طرح قاتلوں اور ظالموں سے ضروری ہے۔
پھر امام جعفر صادق علیہ السلام نے امامت اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ان کے سلسلہ میں مومنین کی تین اہم ذمہ داریوں ایمان، تسلیم اور تبعیت کو بیان کیا کہ جس کے ذریعہ مومن دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گا اور اس کے بعد موقف واضح کرتے ہوئے فرمایا‘‘فَمَعَكمْ مَعَكمْ لا مَعَ عَدُوِّكمْ’’ یعنی ائے سید الشہداء! ہم آپؑ کے ساتھ ہیں ، آپؑ کے دشمن کے ساتھ نہیں ہیں اور موقف کی وضاحت کے بعد آخری سلام کیا ۔
خدا ہمیں با معرفت اور زیارت کی توفیق عطا فرمائے۔