حامیۃ الرسول ،عقیلۃ الاسلام حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا
633
m.u.h
11/04/2022
0 0
تحریر:مولانا سید حسین اختر رضوی اعظمی
اسلام کی مایہ ناز خاتون محسنہ اسلام ، غم گسار رسالت ، مادر خاتون جنت ، شریک کار رسالت، ملیکۃ العرب ،ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا جیسےکردار کی حامل کوئي دوسری خاتون نہیں ،آپ تاریخ نسواں میں زوجیت رسول کی منزل میں بے مثل اور عظیم کردار رکھتی تھیں، عالی ہمت، بلند کردار،اعلی نسب ، شریف خاندان کسی اور زوجہ رسول کا نہیں،آپ کی شخصیت ، فدا کاری،قربانی ، حمایت رسالت اور آپ کی ذات اقدس کے دیگر پہلوؤں پر مسلسل اہل قلم نے لکھا ہے اور لکھتے رہیں گے۔ آپ بے شمار خیر و برکت کا ملجاو ماوی تھیں اور حدیث قدسی میں پروردگار عالم نے آپ کو" مبارکہ " کےلقب سے نوازا ہے۔ (1)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے بہترین زوجہ حضرت خدیجہ الکبری سلام اللہ علیہا یعنی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی مادر گرامی ہیں، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ہی وہ پہلی خاتون ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائیں ، نماز پڑھی اور اسلام میں وحی ونبوت کی احادیث کی راوی تھیں، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہترین مونس و غمخوار اور قوی ترین مددگار تھیں آپ نے اسلام کی شدید سختیوں اور پریشانیوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی و تشفی دی اور اپنا مال خرچ کرنے میں دریغ نہیں کیا اور آپ کو جو قدرت اور شہرت حاصل تھی اس کے ذریعے اپنے شوہر کی ہر طرح سے مدد کی لہذا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپکو بہت زیادہ چاہتے اور عزیز رکھتے تھے ۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ان صفات کے ساتھ آسمان میں چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح ہیں اور ان کے وجود سے تمام عورتوں کی آنکھیں روشن تھیں،اسلامی تمام فرقوں کے اعتراف کی بنیاد پر اسلام کی ترقی کا ایک رکن حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے کاندھوں پر تھا اسی وجہ سے آپ کو "ام المومنین " کا خطاب ملا ۔آپ اس قدر سچی او رباکردار خاتون تھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو "صدیقہ " کے لقب سے نوازا اور جبرئيل امین سے خطاب کرکے فرمایا:کہ ھذہ صدیقۃ امتی"یہ میری امت کی صدیقہ ہیں۔ اور محدث کبیر شیخ کلینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ صدیقہ کے معنی عصمت کے مقام سے بہرہ مند ہونا ہے۔(2)
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا، پروردگار عالم سے ہمیشہ راضی و خوشنود رہتی تھیں اسی لئے آپ کو " راضیہ" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے یعنی ایسی ذات جو اپنا سر فرمان الہی کے آگےخم کردے اور جو کچھ خدا نے اس کے لئے مقرر کیا ہو اس پر راضی رہے ۔ فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: پروردگار عالم نے دنیا کے دس لوگوں کو دس خصلتیں عطا کی ہیں :حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ حواسلام اللہ علیہا کو توبہ ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ سارہ سلاماللہعلیہاکو خوبصورتی، حضرت ایوب علیہ السلام کی شریکہ حیات کو اپنی محافظت کرنے کی طاقت، فرعون کی بیوی آسیہ سلاماللہعلیہاکو احترام و حرمت ، حضرت یوسف کی بیوی زلیخا کو حکمت، حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیوی کو عقل، حضرت موسی علیہ السلام کی مادرگرامی کو گھر میں صبر کرنا ، حضرت عیسی علیہ السلام کی ماں کا انتخاب،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریکہ حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو مقام رضا و خوشنودی اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ حضرت فاطمہ زہراسلاماللہعلیہاکو علم ۔ (3)جی ہاں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو پروردگار عالم نے " رضا و خوشنودی "جیسی عظیم خصلت سے نوازا تھا اور جو راضیہ ہوتی ہیں وہ قرآن کریم کی رو سے " مرضیہ" بھی ہوں گي۔(4)
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاکی شخصیت اور مقام و مرتبہ اس قدر بلند و بالا ہےجسے کسی معمولی معیار پر نہیں پرکھا جاسکتا ہے ان کی منزلت اس قدر بلند ہے کہ بار بار خداوند عالم نے جبرئیل امین کے ذریعےآپ کو سلام کہلوایا اور آپ کو بہت عظیم ثواب کا وعدہ دیا ہے ایسا عظیم ثواب جو آج تک کسی گذشتہ صحابی کو نہیں ملا ہے اور کوئي بھی آپ کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا ہےچاہے وہ گذشتگان میں سے ہوں یا آپ کے زمانے والے ہوں یا اصحاب رسول ہوں۔(5)
حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا کے لئے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی طرح آسمانی دسترخوان نازل ہوتا تھا جیسا کہ علامہ بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ جبرئیل، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئے اور ایک بہشتی ظرف میں بہشت کاکھانا لائے اورعرض کیا: اے رسول خدا ! یہ دسترخوان خداوند عالم کی طرف سے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لئے ہے اور ان کو میرا سلام کہئے گا اور ان کو خوش خبری دیجئے گا کہ آپ کے لئے بہشت میں ایسا محل ہے جس میں کوئی شور اور سختی نہیں ہے ۔(6)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو جو برتری اور فوقیت حاصل تھی اس کی جناب عائشہ نے بھی وضاحت فرمائی ہے :صحیح بخاری میں منقول ہے کہ جناب عائشہ کہتی ہیںکہ میں نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ کسی عورت سے رشک نہیں کیا کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو بہت زیادہ یاد کرتے تھے اور ان پر درود و سلام بھیجتے تھے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول قریش کی بوڑھی عورتوں میں سے ایک بوڑھی عورت کو آپ اس قدر کیوں یاد کرتے ہیں ، جبکہ ان کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کی کوئی نشانی بھی باقی نہیں ہے اور خداوندعالم نے آپ کو ان سے بہتر زوجہ بھی نصیب کیا ہے ۔جب میں نے یہ بات کہی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ اس طرح متغیر ہوگیا جس طرح نزول وحی کے وقت متغیر ہوجاتاتھا آپ نے فرمایا : نہیں ! ہرگز ! خداوندعالم نے مجھے ان سے بہتر زوجہ نہیں دی ہے ، جس وقت لوگ میرا انکار کررہے تھے وہ ایمان لائیں، جس وقت لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے، اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی ، جس وقت لوگ مجھے اپنے پاس سے ہٹا رہے تھے اس وقت انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور خداوندعالم نے مجھے ان سے ایک بیٹی عطا کی جب کہ دوسری ازواج سے مجھے محروم کیا ۔ (7)
اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہت سی روایات میں ذکر ہوا ہے کہ خدیجہ جنت کی عورتوں میں سب سے بہتر اور اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں،جدید فکر، کمال طلبی، آگاہی ، ایمان ، شجاعت ، سخاوت، انفاق ، محبت، حسن سلوک ، عفت، تقوی اور مجاہدت یہ تمام بہترین صفتیں اس بات کا باعث بنیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا صرف قریش کی عورتوں کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام عورتوں کی سید و سردار بن جائیں۔مورخ شہیر مناوی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: جنت کی سب سے سب سے بہترین عورتیں اور عالمین کی تمام عورتوں کی سردار چار عورتیں ہیں : خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد ،مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم ۔(8)
مفسر قرآن کریم ابن عباس کہتے ہیں: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چار لکیریں کھینچیں اور پھر مجھ سے پوچھا جانتے ہیں یہ لکیریں کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیا: خدا اور اس کے رسول ہم سے دانا تر ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا:جنت کی بہترین عورتیں مريم بنت عمران، خديجہ بنت خويلد، فاطمہ بنت محمداور آسيہ بنت مزاحم زوجہ فرعون ہیں۔(9)
خاتم الانبیاء رحمۃ للعالمین ، نور مجسم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ترسٹھ سالہ حیات طیبہ میں اگرچہ اپنوں اور اغیار کی طرف سے بہت سی مصیبتیں، مشکلات، پریشانیاں، مصائب، رکاوٹیں اور سنگینیاں دیکھیں اور برداشت کیں لیکن ان میں غالب اکثریت پر حزن و ملال اور دکھ و اضطراب نہیں فرمایا بلکہ ہنسی خوشی اور اسلام کی ترویج و وسعت کا ہدف سامنے رکھتے ہوئے قبول فرماتے رہے۔ مگرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں دو پریشانیاں ایسی آئیں جو آپ کو ناقابل تلافی صدمے سے دوچار کرگئیں اور ان مصیبتوں کے اثرات تادم آخر موجود رہے اور وہ مصیبتیں اپنے سرپرست و مربی چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام اور اپنی شریکہ حیات اور مشکل ترین اوقات کی مونس و ہمدم حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا کی وفات حسرت آیات ہے۔ حضرت خدیجہ طاہرہ سلام اللہ علیہانے بعثت کے دسویں سال دس رمضان المبارک کو وفات پائی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آنکھیں بندکرلیں اور کفار مکہ کی آنکھیں روشن ہوگئیں، مرسل اعظم کے گھر کے چراغ کو موت کی آندھی نے گل کردیا اور کافروں کے گھروں میں گھی کے چراغ جل گئے اور وہ گود نہ رہی جس میں رحمۃ للعالمین کو آرام ملتا تھا ، وہ سایہ محبت و الفت نہ رہا جہاں پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سکون نصیب ہوتاتھا ، وہ رفیقہ حیات نہ رہی جس کی چشم محبت فرش راہ ہوا کرتی تھی وہ پناہ گاہ نہ رہی جس نے پیغمبر اسلام کو پناہ دی تھی اور وہ مونس و غمگسار نہ رہی جس کے صائب مشورے دافع مشکلات ہوتے تھے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے جسماطہر کو اپنے ہاتھوں سے مکہ مکرمہ کے ابوطالب نامی قبرستان میں سپرد خاک کیا۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بےحد غمزدہ کیا اور اس سال کو " عام الحزن " یعنی غم کا سال قرار دیا،حدیث موثق میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جب حضرت خدیجہ سلام اللہعلیہا دنیا سے رخصت ہوگئیں تو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نےاپنے والد گرامیسے پوچھا اے بابا میری والدہ کہاں ہیں ؟ اس وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اورعرض کیا: اے رسول خدا آپکے پروردگار کا حکم ہے کہ فاطمہ کو میرا سلام کہیں اور ان سے کہہ دیں کہ تمہاری والدہ سونے اور سرخ یاقوت سے بنے ہوئے گھر میں ہیں اور ان کا گھر آسیہ اور مریم بنت عمران کے گھر کے درمیان میں واقع ہے۔ جب رسول خدا صی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خداوند عالم کا یہ پیغام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دیا تو جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا نے کہا: خداوندعالم عیب و نقص سے سالم ہے اور سلام اسی کی طرف سے ہے اور سلام اسی کی طرف ہی پلٹ کرجاتا ہے۔(10)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا سب سے تلخ حادثہ حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا کی جانسوز رحلت تھی کیونکہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی ذات اقدس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی درخشاں زندگي سنوارنے اور اسلام کے ارتقاء کا مہمترین عامل تھی اگر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا ساتھ پیغمبر اسلام کے لئے عظیم تاثیر کا باعث نہ ہوتا تو آپ کی رحلت پیغمبر اسلام کے لئے ایسے ناقابل توصیف غم و اندوہ کا سبب نہ ہوتی اور آپ کی رحلت پیغمبر اسلام کے لئے بیتابی کا باعث نہ ہوتی اور اس سال کو " عام الحزن" یعنی غم و الم کا سال قرار نہ دیتے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد جب تک زندہ رہے ان کی عظمت کو یاد کیا کرتے تھےاور ان کے غم میں آنسو بہایا کرتے تھے۔
حضرت خدیجہ طاہرہ سلام اللہ علیہا پر آدمیت و انسانیت کو نازہے اس لئے کہ آپ نے انسانیت کی اعلی قدروں کی نگہداشت اس وقت کی جب آدمیت ذبح ہورہی تھی بےشک حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا پر ہر شریف بیٹی، اطاعت گزار بیوی اور مقدس ماں کو ناز ہے کیونکہ آپ نے ہر دور میں عورت کی شرم و حیا، غیرت و خودداری اور پیار و محبت کے جوہر کا تحفظ کیا ہے اور آغوش نبی اس بات پر فخرکررہی ہے کہ اے عرب کی شہزادی اگر آپ نہ ہوتیں تو مجھے زینت نہ ملتی اور خدیجہ طاہرہ سلام اللہ علیہا پر شیخ البطحاء حضرت ابوطالب علیہ السلام کو بھی ناز ہے کیونکہ شہزادی عرب نے ان کی خواہش کے مطابق زندگي بسر کرکے ان کے اعتماد کو بحال رکھا بلکہ اس میں اضافہ کیا اور اپنی پوری زندگی کو اللہ کی مرضی کا آئینہ بنا دیا۔
ہمارا لاکھوں سلام ہو عظیم المرتبت شہزادی خدیجہ طاہرہ پر ، ہمارا سلام ہو آل محمدعلیہم السلام کی ان شکستہ قبروں پر جو جنت البقیع اور جنت المعلی میں زیر آسمان کھلی پڑی ہیں ، ہمارا سلام ہو مکہ مکرمہ کی حجون جنت المعلی کی ٹوٹی ہوئی قبر میں آرام کرنے والی شہزادی عرب و اسلام حامیۃ الرسول ، عقیلۃ الاسلام ، ام المومنین حضرت خدیجہ طاہر ہ سلام اللہ علیہا پر، اے شہزادی اپنے گنہگار غلام کا سلام عاجزانہ قبول کیجئے اور ناشران علوم آل محمد علیہم السلام کی فہرست میں اس کا بھی نامل شامل کرکے توفیقات کثیرہ سےدامن مراد کو بھر دیجئے آمین ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔کحلالبصرفیسیرۃسیدالبشر،شیخعباسقمی،ص 70
2۔تاریخمدینہدمشق،ج 74ص 87 ،البدایۃوالنہایۃج 2 ص 62،اصولکافیج 1 ص 459
3۔مناقبآلابیطالبج 3 ص 103 ،بحارالانوارج 43 ص 134
4۔سورہفجرآیت 27 (يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلي في عِبادي وَ ادْخُلي جَنَّتي)
5۔صحیحبخاریج 6 ص 122،کتابالتوحیدج 13 ص 473،الاصابہفیتمیزالصحابہج 8 ص 101،کنزالعمالج 13 ص 692،کشقالغمہفیمعرفۃالائمہج 1 ص 508،بحارالانوارج 16 ص 8 ،سفینۃالبحارج1 ص 28 ،حامیۃالرسولص 15
6۔صحيحبخاريحديث 3821،سیراعلامالنبلاءج 2 ص 113،بحارالانوارج 18 ص 385،تفسیرعیاشیج 3 ص 35
7۔صحيحبخاريحديث 3821،اسدالغابہج 5 ص 438 ،حامیۃالرسولص 62
8۔شرحنہجالبلاغہابنابیالحدیدج 10 ص 266،مناقبآلابیطالبج 3 ص 322 صحیحمسلم،بابفَضَائِلِخَدِيجَةَأُمِّالْمُؤْمِنِينَ،الاستیعابفیمعرفۃالاصحابج 2 ص 720 ،بحارالانوارج 13 ص 162 ،کشفالغمہفیمعرفۃالائمہج 2 ص 71
9۔بحارالانوارج 13 ص 162 ،کشفالغمہفیمعرفۃالائمہج 2 ص 71
10۔حامیۃالرسولص 231،بحارالانوارج 16 ص 1 وج 43 ص 27 ،الامالیص 175،صحیحبخاریج 2 ص 277 ،کشفالغمہفیمعرفۃالائمہج 1 ص 508 ،الخرائجوالجرائحج 2 ص 529