آجکل ہر طرف کرناٹک میں کانگریس کے ہاتھوں بی جے پی کی شرمناک شکست، مودی اور امیت شاہ پر جنوبی ہند کے عوام کی بے اعتمادی، گجرات سے گذشتہ 5 برسوں کے دوران زائد از 41 ہزار لڑکیوں و خواتین کی گمشدگی ( لاپتہ ہونے )، پلوامہ دہشت گردانہ حملہ اور اس میں سی آر پی ایف کے 40 جوانوں کی شہادت پر ستیہ پال ملک کے انکشافات، ان انکشافات کے ذریعہ مودی اور اجیت دول ( مشیر قومی سلامتی ) کے کپڑے اُتارنے کی کوشش، راہول گاندھی کی پارلیمانی رکنیت ختم کئے جانے اور انہیں سرکاری رہائش گاہ سے تخلیہ کروانے ، راہول گاندھی و مودی جی کے مجوزہ دورہ امریکہ اور مودی کے دورہ امریکہ سے ایک ماہ قبل ہی امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ کے ہاتھوں جاری کردہ رپورٹ میں ہندوستان میں مذہبی و لسانی اقلیتوں پر آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے مظالم، حکومت اور نفاذ قانون ایجنسیوں کی مجرمانہ خاموشی، اس کے عہدہ داروں کا تعصب و جانبداری، ہمارے ملک کی وزارت دفاع کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ ( ڈی آر ڈی ) کے ڈائرکٹر اور دفاعی سائنسداں پروفیسر پردیپ کرولکر کی پاکستان کیلئے جاسوسی کی پاداش میں گرفتاری اور جنتر منتر پر خاتون ریسلرس کے احتجاج کے چرچے ہیں۔ اپوزیشن ان تمام کو عوام کی نظروں کے سامنے رکھنے کی کوشش تو کررہی ہیں لیکن بلا شک و شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ پوری شدت کے ساتھ مذکورہ مسائل یا موضوعات کو عوام کے سامنے پیش کرے تو یقینا 2024 کے عام انتخابات میں مودی کی زیر قیادت بی جے پی کو شرمناک شکست ہوگی۔ بہر حال ہم نے سطورِ بالا میں جن اُمور ، جن مسائل کا احاطہ کیا ہے ان میں اشیائے ضروریہ بالخصوص بچوںکے دودھ ، اسٹیشنری آئٹمس، کھلونوں، ادویات، پٹرول و ڈیزل، دالوں، خوردنی تیلوں کی قیمتوںمیں اضافہ، بینکنگ خدمات کیلئے اضافی فیس کی وصولی، پیان کارڈ کو آدھار کارڈ سے لنک کرنے ہر شہری سے 1000 روپئے فیس کی وصولی، دوسری فیس کے نام پر اضافی رقومات کی زبردستی وصولی اور فرقہ پرست غنڈوں کو دی گئی ہر قسم کی چھوٹ کو بھی شامل کرلیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارا ملک جو 2014 سے پہلے تھا اب ویسا نہیں رہا۔ مودی جی نے اچھے دنوں کا وعدہ کرکے عوام اور ملک کو بُرے دنوں ، بُرے حالات سے دوچار کردیا، یہ ہمارا خیال نہیں بلکہ عوام کے من کی بات ہے۔ عوام اب صاف کہنے لگے ہیں کہ مودی جی ’’من کی بات‘‘ میں ایک سادھو سَنت کی طرح خیالات ظاہر کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہیں۔ وہ ملک اور عوام کو درپیش سنگین مسائل پر اپنا منہ کھولنے کچھ بولنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ آپ کو بتادیں کہ کوئی بھی شخص دو وجوہات کے باعث اپنا منہ نہیں کھولتا کچھ نہیں بولتا۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ جاہل ہو اور اسے کسی چیز کا پتہ نہیں، کسی مسئلہ کی اے بی سی سے واقف نہیں تو وہ کیسے بولے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مصلحتاً ، شرارتاً ، جان بوجھ کر اور ایک خصوصی حکمت عملی کے تحت خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ جہاں تک ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کا سوال ہے جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں ان کے بارے میں مشہور ہوگیا ہے کہ وہ جس موضوع جس مسئلہ پر بولنا چاہیئے اس پر نہیں بولتے اور جس مسئلہ پر نہیں بولنا چاہیئے اس پر بولنے لگتے ہیں، ایسا بولتے ہیں کہ رُکتے نہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں ایک اور بات مشہور ہے کہ وہ خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں کرتے ہیں۔ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ جیسا نعرہ بھی دیتے ہیں( یہ اور بات ہے کہ مودی جی کی حکومت کے بعض اقدامات اور ملک میں خواتین پر بڑھتے مظالم کے باعث یہ نعرہ کھوکھلا ثابت ہوچکا ہے )۔ناری شکتی پر الفاظ کے دریا بہادیتے ہیں اور جب کسی کی لُٹی پٹی بیٹی انصاف کیلئے فریاد کرتی ہے ، کسی شہید کی ماں حصولِ انصاف کیلئے قانون کا سہارا لیتی ہے، فرقہ پرست درندوں کے ہاتھوں شہید کسی شہید کی بیوی قاتلوں، ظالموں کے خلاف عدالتوں سے رجوع ہوتی ہے تو مودی جی بحیثیت وزیر اعظم اور بحیثیت ایک عوامی لیڈر اور سب سے بڑھ کر بحیثیت ایک انسان اس کی مدد کرنے کے بجائے قاتلوں، زانیوں ، فرقہ پرست درندوں کی عمر قید کی سزا ؤں کو معاف کردیتے ہیں۔
اُتر پردیش کے ہاتھرس میں جب ایک نوجوان دلت دوشیزہ کو اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے درندے اجتماعی طور پر اپنی ہوس کا نشانہ بناکر اسے انتہائی بے دردی سے قتل کرتے ہیں، اس دلخراش اور انسانیت سوز واقعہ پر بھی مودی جی کا منہ نہیں کُھلتا۔ذکیہ جعفری کے ساتھ انصاف کی جب بات آتی ہے تب بھی مودی جی کی زبان میں حرکت پیدا نہیں ہوتی۔ گجرات کی بیٹی بلقیس بانو کے ساتھ سخت ناانصافی ہوتی ہے اس کے زانیوں، اس کے افراد خاندان بشمول 3 سالہ شیرخوار بیٹی کے قاتلوں کو چھوڑدیا جاتا ہے تب بھی ان پر ایک مجرمانہ خاموشی ایسے چھا جاتی ہے جیسے احساس ندامت سے کوئی شخص اپنا سَر نہیں اُٹھاسکتا اور زمانے کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ ڈی آر ڈی او کا سائنسداں پردیپ کورولکر پاکستان کیلئے جاسوسی کرکے گرفتار ہوتا ہے تب بھی وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کے منہ بند ہوجاتے ہیں۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پردیپ کورولکر کا آر ایس ایس سے کیا تعلق تھا۔ حکومت ،مودی اور سنگھ کے تلوے چاٹنے میں مصروف گودی میڈیا بھی ملک سے غداری کرنے والے اس سائنسداں کی گرفتاری پر خاموش ہے۔ ایسا لگتا یہ کہ ان تمام کوجیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ پردیپ کورولکر سنگھ سے بہت زیادہ قربت رکھتا تھا اور وقت بہ وقت اس کی تقاریب میں شریک بھی ہوا کرتا تھا۔ مودی ہر سنگین مسئلہ پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ کیرالہ میں لاپتہ صرف 3 لڑکیوں پر جھوٹے اور فرضی واقعات کو لیکر تیار کردہ فلم ’’ دی کیرالہ اسٹوری ‘‘ ( اس فلم کے ٹپزر میں پہلے ڈائرکٹر ، پروڈیوسر اور فلم کی ہیروئن نے دعویٰ کیا تھا کہ 32 ہزار لڑکیوں نے کیرالہ میں اسلام قبول کیا اور پھر آئی ایس آئی ایس میں بھرتی ہوگئیں۔ ان کا مجرمانہ دعویٰ حقیقت سے بعید تھا جبکہ ساری دنیا سے داعش میں بھرتی کئے گئے لوگوں کی جملہ تعداد 40 ہزار بتائی جاتی ہے) کی وزیر اعظم نے تائید کرتے ہوئے کرناٹک اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران عوام کو اس فلم کے دیکھنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ این سی آر پی نے واضح طور پر اپنی رپورٹ میں یہ دل دہلادینے والا انکشاف کیا کہ پچھلے پانچ برسوں سے مودی جی کی آبائی ریاست گجرات سے زائد از 41 ہزار لڑکیاں اور خواتین لاپتہ ہیں( ہوسکتا ہے کہ انہیں اغواء کرکے بازار حُسن میں فروخت کردیا گیا یا پھر غلام بنادیا گیا ہے ) ۔ اس انکشاف پر مودی جی کو حرکت میں آنا چاہیئے تھا، انہیں تڑپ اور بھڑک جانا چاہیئے تھا لیکن مودی جی کی قوت برداشت کی ستائش کی جانی چاہیئے اس شرمناک افسوسناک بلکہ ناک کاٹنے والی اس خبر پر مودی جی نے آہ …! تک نہیں کہا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مودی جی خاموش رہنے کے کتنے عادی ہیں۔ ہاں ہم بات کررہے تھے پردیپ کورولکر کی، اس کے بارے میں آپ کو بتادیں کہ وہ ڈائرکٹر سسٹم انجینئرنگ لیباریٹری آف دی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹابلشمنٹ کے عہدہ پر فائز تھا۔وہ فوجی انجینئرنگ آلات (آلات حربی ، جنگی سازو سامان ) کے ڈیزائن کی تیاری ، میزائل لانچرس اور سب سونک کروزآلات کی تیاری سے بھی جُڑا ہوا تھا۔ مودی اور گودی ( میڈیا ) دونوں نے ملک کی سلامتی سے جُڑی اس خبر پر پوری طرح خاموشی اختیار کی جبکہ گودی میڈیا نے اس خبر کو بتایا بھی تو اس میں پاکستان کیلئے جاسوسی کرنے والے پردیپ کورولکر کی داڑھی والی تصویر دکھائی ، اس کا نام ظاہر نہیں کیا۔ اب اس کیس کو مہاراشٹرا اے ٹی ایس کے حوالے کیا گیا جبکہ این آئی اے جیسی قومی تحقیقاتی ایجنسی کو یہ تحقیقات تفویض کی جانی چاہیئے تھی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کورولکر کے خلاف قانون سرکاری راز 1923 کے تحت الزام عائد کیا گیا حالانکہ اس پر ملک سے غداری، بے وفائی اور بغاوت کے الزامات عائد کئے جانے چاہیئے تھے۔ اسے بچانے کیلئے بار بار یہی کہا جارہا ہے کہ اسے ہٹی ٹریپ کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا۔ اگر وہ محبِ وطن ہوتا ، غداروں سے اس کا تعلق نہیں ہوتا تو وہ کیسے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے جال میں پھنستا۔ اس سارے واقعہ پر مودی جی خاموش ہیں۔ ہندوتوا تنظیموں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ شیوسینا کے ترجمان ’ سامنا ‘ کے اداریہ میں بتایا گیا ہے کہ کورولکر دفاعی اُمور میں پالیسی سازی کیلئے بنائی گئی 10 سائنسدانوں کی کمیٹی کا رکن ہے۔ شیو سینا کے ترجمان ’ سامنا ‘ میں صاف صاف طور پر لکھا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے ہندوتوا تنظیموں خاص کر آر ایس ایس کی یہ کوشش رہی ہے کہ اہم عہدوں پر اپنے آدمیوں کو تعینات کیا جائے۔’ سامنا ‘ میں مودی اور گودی دونوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر پردیپ کورولکر کی جگہ کوئی شیخ، حُسین، ابراہیم ، سرفراز ہوتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ گودی میڈیا اور مودی جی سے لیکر مرکزی وزراء تمام کے تمام چیخنے اور چلانے لگتے لیکن اب سب خاموش ہیں۔ ’سامنا ‘ کے مطابق گذشتہ سات آٹھ برسوں سے سنگھ پریوار نے اپنے لوگوں کو دِفاع، سائینس ، آرٹ ، کلچر، قانون ،عدلیہ، انصاف اور انتظامیہ میں داخل کردیا ہے، تحقیقاتی ایجنسیوں کا بھی یہی حال ہے۔