مصائب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ،بزبان حضرت آیت اللہ جوادی آملی
54
M.U.H
05/12/2024
0 0
ترجمہ:مولانا سید حمید الحسن زیدی
حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے حضرت صدیقہ کبریٰ (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے مصائب میں فرمایا:
حضرت امیر المومنین علیہ السلام جب گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا اپنی جان کا نذرانہ اپنے جان کے خالق و مالک کے سپرد کر چکی ہیں اور ایک تحریری وصیت بھی موجود ہے۔ اگرچہ آپ پہلے زبانی طور پر وصیت بھی فرماچکی تھیں کہ "مجھے رات کے وقت غسل دینا اور رات کے وقت ہی دفن کرنا ۔ میں چاہتی ہوں کہ جن لوگوں نے میرے ساتھ ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا اور میرا اور آپ کا حق غصب کیا، میری تجہیز و تکفین میں شریک نہ ہوں۔"
آپ کی تحریری وصیت اس طرح تھی
"یا علی... حَنِّطْنی وَ غَسِّلْنی وَ کفِّنّی باللیل۔"(1)
اے علی مجھے غسل حنوط اور کفن و دفن رات میں کرنا
بے شک وہ رسول اللہ کی بیٹی تھیں اور گیارہ ائمہ کی ماں تھیں، لیکن ہمارے گریہ کی اصل وجہ اورہمارے غم والم کا اصلی سبب یہ ہے کہ اُن کے عظیم مرتبہ کو اسلامی معاشرے تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔
مرحوم کلینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) پر جبرئیل نازل ہوتے اور کائنات کے اسرار و معارف بیان کرتے، اور علی بن ابی طالب (علیہ السلام) ان کو تحریر فرماتے۔(2)
یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر یہ دروازہ مسلمانوں کے لیے کھلا رہتا، تو بہت سے علوم واضح ہو جاتے۔ امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے بھی فرمایا کہ جبرئیل ہر نبی پر نازل نہیں ہوتے تھے بلکہ صرف اولوالعزم انبیاء پر نازل ہوتے تھے۔
اس کے باوجود جبرئیل حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) پر نازل ہو کر معارف الٰہی بیان کر رہے تھے، اور حضرت علی (علیہ السلام) انہیں تحریر فرما رہے تھے، جو بعد میں "مصحفِ فاطمہ" کے نام سے مشہور ہوا۔
ائمہ (علیہم السلام) کبھی کبھی غیبی خبروں کو بیان کرتےتھے اور فرماتے تھے کہ یہ مصحفِ جدہ میں درج ہے۔(3)
ہمارا گریہ اس بات پر ہے کہ علوم و معارف کے اس دروازے کو بند کر دیا گیا۔ حالانکہ بہت سے معارف ہم تک پہنچے ہیں مگر وہ لوگ دنیاوی چیزوں جیسے "فدک" کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔
حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"مَا أَصْنَعُ بِفَدَک وَ غَیرِ فَدَک" (4)
میں فدک یا غیر فدک کا کیا کرتا
فدک ہمارے پاس تھا، یہ رسول اللہ کی بیٹی کی ملکیت تھی، لیکن چند غاصبوں نے اسے چھین لیا۔
ہماری اصل تکلیف یہ ہے کہ اللہ کے جو راز ہمیں عطا کیے گئے تھے، وہ ہم عوام تک پہنچانا چاہتے تھے، مگر ان لوگوں نے ان نعمتوں کو غصب کر کے امت کو گمراہی میں مبتلا کر دیا۔
اسی لیے حضرت صدیقہ کبریٰ (سلام اللہ علیہا) نے زبانی اور تحریری طور پر وصیت فرمائی کہ وہ لوگ جو میرے ساتھ ظلم کر چکے ہیں، میرے جنازے میں شرکت نہ کریں۔
حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو غسل دیا، اور اپنے بچوں حسن، حسین، زینب اور ام کلثوم سے فرمایا:
"ہَلُمّوا تَزوّدوا مِن أُمّکم"(5)
آؤ اور اپنی ماں سے آخری وداع کرو، اور اپنی بقیہ زندگی کے لئے ان کی عظیم یادوں کی زادِ راہ لے لو۔
یہ زاد و توشہ صرف اہلِ بیت (علیہم السلام) کے لیے نہیں ہی بلکہ ہم سب کے لیے بھی بہترین ایک وسیلہ نجات ہے۔ان کی تدفین ہوئی، لیکن اب تک یہ واضح نہیں کہ ان کی پاکیزہ قبر کہاں ہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تدفین فرما رہے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنادرد دل بھی بیان کر رہے ہیں۔
آپ فرما رہے تھے یا رسول اللہ! آپ کی یہ بیٹی جو آپ کے حضور میں پہونچ رہی ہے، اس نے مجھ سے یہ نہیں بتایا کہ در و دیوار کے درمیان اس پر کیا گزری۔ "فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ"؛ آپ ان کے مہربان بابا ہیں اور آپ کا احترام بہت زیادہ کرتی ہیں، آپ ان سے پوچھیں، "فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ"۔
میں نے کوئی کوتاہی نہیں کی اور اس سے زیادہ میرے بس میں نہیں تھا۔ "سَتُنَبِّئُک ابْنَتُک"؛ آپ کی بیٹی آپ کو سارے حالات بتائے گی۔
مجھے رسی سے جکڑ کر اور ہاتھوں کو باندھ کر مسجد لے جایا گیا۔ آپ کی بیٹی یہ بتائے گی۔ "سَتُنَبِّئُک ابْنَتُک ... فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ"۔(6)
صلّی اللہ علیک یا بنت رسول اللہ! "السلام علیکم یا أهل بیت النبوّة و معدنَ الرسالة و مختَلَفَ الملائکة و مهبِطَ الوحی ... و رحمة الله و برکاته"۔(7)