امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی نظر میں سیاست کا مفہوم اور ہمارا معاشرہ
397
m.u.h
15/09/2023
0 0
تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ذات ایک ایسی ذات ہے جو حسن خلق، اخلاق حسنہ، حلم و بردباری اور جود و سخا و کرم جیسے ان بلند اخلاقی کمالات کے لئے جانی جاتی ہے جن سے آج کل ہمارے معاشرے کا دامن روز بروز خالی ہوتا جا رہا ہے ۔
معاشرہ میں روز بروز انسانی اقدار کا کمزور پڑنا، قدروں کی پامالی، انسانی شرف کے معیار کا روز بروز گرنا ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اس عظیم شخصیت کے دروازہ کرم پر چلیں جس کے علم و فضل کی روشنی میں ایک بہترین سماج کو تشکیل دیا جا سکتا ہے، جس کی تدبیر و سیاست کی روشنی میں، سیاست کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے معاشرہ کو بہترین تدبیر کے ساتھ لیکر چلا جا سکتا ہے وہ بھی اس انداز میں معاشرہ نہ صرف یہ کہ ہمیشہ مضبوط و پائیدار رہے اور ترقی کی طرف مسلسل بڑھتا رہے بلکہ زوال پذیر مادیت کے طوفان کا شکار بھی نہ ہو۔
جہاں آج سیاست کا مفہوم دوسروں کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرنا ہے وہیں امام مجتبٰی علیہ السلام سیاست کو بندگان خدا اور خدا کے حقوق کی رعایت سے تعبیر فرماتے ہیں؛ آپ فرماتے ہیں، "سیاست یہ ہے کہ تمہیں اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق دکھائی دیں، زندوں اور مردوں کے حقوق کی پہچان رہے، اللہ کا حق تم پر یہ ہے کہ جسکا اس نے تم سے مطالبہ کیا ہے، وہ کرو اور ہر اس چیز سے بچو جس سے اس نے تمہیں روکا ہے، اور زندوں کے حقوق یہ ہیں کہ تم اپنے بھائیوں کے مقابل اپنے وظیفہ و اپنی ذمہ داری پر عمل کرو ، ۔۔۔ لیکن مردوں کے حقوق یہ ہیں کہ تم انہیں نیکیوں کے ساتھ یاد کرو انکی برائیوں کا تذکرہ نہ کرو انکی برائیوں سے چشم پوشی کرو کہ خدا انکا حساب لینے والا ہے"۔
شک نہیں کہ معاشرہ میں اگر یہ سیاست نافذ ہو جائے اور ایک دوسرے کو گرانے کی ذلیل کرنے کی باتیں نہ ہوں، اسکی اور اُسکی پارٹی کے جھگڑوں میں آپسی رنجشوں کو بڑھاوا نہ ہو اور لوگ یہ دیکھیں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے اور ہر ایک اپنی ذمہ داری پر عمل کرے تو ایک اچھا معاشرہ سامنے آ سکتا ہے۔
امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نے جو سیاست کا مفہوم بیان کیا ہے اس کے پیش نظر ہمیں اپنا ایک محاسبہ کرنا ہوگا۔ کیا ہم نے اپنے ساتھ جینے والوں کے حقوق کو ادا کر دیا ہے یا نہیں،یا بالکل مردوں کی طرح چھوڑ دیا ہے اور محض ہمیں اپنی کرسی کی فکر ہے وہ جیسے ہاتھ آ جائے ہمیں اقتدار کی فکر ہے بس وہ ہاتھ سے نہ نکلے ، چاہے دین پامال کر کے چاہے بندگان خدا کے حقوق کو پامال کر کے بس ہمیں اقتدار کے زینہ کو طے کرنا ہے ۔
سوچیں اور غور کریں
کیا ہم اپنے مرنے والوں کو نیکی سے یاد کرتے ہیں یا مرنے کے بعد بھی انکا کچا چٹھا کھولنے پر محض اس لئے تلے ہیں کہ ہمیں اسی میں مزہ آتا ہے کہ گڑے مردے اکھاڑیں جائیں ؟ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اور خاص کر ماہ مبارک رمضان کی اس نورانی فضا میں تو ہمارے لئے اور بھی ضروری ہے کہ ہم ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کریں ۔
اپنے اخلاق و کردار کو اگر ہم امام مجتبٰی علیہ السلام جیسا نہیں بنا سکتے تو کم از کم ان سے قریب تو لا سکتے ہیں، ایسا اخلاق تو پیش کر سکتے ہیں جس میں اخلاق حسنی کی پرچھائیاں ہوں۔
ایسا اخلاق جہاں خوف خدا ہو، ایسا اخلاق جہاں دوسروں کا درد ہو، ایسا اخلاق جس میں سچائی ہو، صداقت ہو، امانت ہو، شرافت ہو، ایسا اخلاق جس میں کم از کم ایک مہینہ ہم جھوٹ، فریب و بہتان سے خود کو دور رکھنے میں کامیاب رہیں ، ایسا اخلاق جس میں ہمارے وجود کے اندر وسعت نظر پیدا ہو جائے اور ہم تنگ نظری کا شکار ہو کر معمولی معمولی باتوں میں ایک دوسرے سے الجھ نہ بیٹھیں، وہ حسنی اخلاق جس میں ہم اپنے سے بڑوں کی عزت کریں، نرم و لطیف لب و لہجہ میں گفتگو کریں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں، ایسا اخلاق جس میں کسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دی جائے سچے بن کر رہیں اپنے امام علیہ السلام کی طرح جنہیں زمانہ صداقت و سچائی سے پہچانتا ہے، ایسا اخلاق جہاں ہم دوسروں کو معاف کرنا سیکھ جائیں، کسی کی بات کو دل میں رکھ کر اسے کینہ نہ بننے دیں، ایسا اخلاق جہاں ہم غریبوں کے لئے ویسے ہی تڑپیں جیسے امام حسن علیہ السلام تڑپتے تھے، ایسا اخلاق کہ اگر اس مہینہ میں کسی نے ہم سے کوئی سوال کیا ہے، ہم سے اپنی کسی مشکل کا ذکر کیا ہے، تو کوشش کریں کہ خاموشی کے ساتھ ویسے ہی حل کریں جیسے امام مجتبٰی علیہ السلام نے کی تھی۔ اپنے مومن بھائیوں کی حاجت روائی ہمیں بوجھ نہ لگے بلکہ انکی مشکل کو حل کرتے ہوئے ہمیں خوشی ہو کہ خدا نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا۔
ایسا اخلاق جہاں ہم دوسروں کا درد رکھیں، اور مظلوموں کا ساتھ دینے کا جذبہ اپنے وجود کے اندر رکھیں اور دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمانوں پر، انسانیت پر ظلم ہو رہا ہے اسکے مقابل کھڑے ہوں کم از کم آواز بلند کریں، آواز اٹھائیں فلسطین کے مظلوموں کے لئے، یمن کے محروموں کے لئے، بحرین کے بےبس لوگوں کے لئے ہ جو امت مسلمہ کی بےحسی کی بنیاد پر شدید ترین پابندیوں قتل و وحشت و خوف کے سایہ میں ماہ مبارک رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو ان کے پاس حسرت کھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، انکی نگاہیں ہمیں ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں کہ ہمارے وہ بھائی کہاں ہیں جو نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں اور جنکے آئمہ کی تعلیمات انسانیت کی نجات ہیں، ظلم کے خلاف آواز ہیں، مظلوموں کا تعاون و انکا ساتھ ہیں،
ہمارے لئے ضروری ہے ساری دنیا کے محروموں اورمظلوموں کے ساتھ ایک نظر ہندوستان میں مزدور و ضعیف طبقے کی مشکلات کے حل کے لئے کوشش کریں خاص کر ان مسلمانوں کے لئے جنہیں ظلم و ستم کے خلاف بولنے اور احتجاج کرنے کی بنا پر عدالتی تعزیرات کا سامنا ہے ۔ان دینی بھائیوں کے حق میں بولنے کی ضرورت ہے جن پر جھوٹے کیس درج کر کے انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے ساتھ ہی لاک ڈاون کی سختیوں میں کرونا جیسی بیماری کے خوف کے سایہ میں ان لوگوں کی امداد ہمارا فرض ہے جو اس بھوک کی خطرناک مار کو جھیل رہے ہیں
آج امام مجتبٰی علیہ السلام کی سیرت انکی زندگی ہم سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اپنی روش زندگی پر ایک نظر ثانی کریں اور اپنی زندگی کو انکی زندگی کے ساتھ ٹیلی کریں دیکھیں کہ انکی زندگی میں کیا تھا ہماری میں کیا ہے؟ وہ کہاں کھڑے تھے ہم کہاں ہیں؟ وہ سچائی و صداقت کو کتنی اہمیت دیتے تھے ہم کتنی دیتے ہیں؟ عبادت و بندگی کا معیار انکے یہاں کیا تھا ہمارے یہاں کیا ہے؟ غریبوں اور ناداروں کی مدد انہوں نے کتنی کی ہم نے کتنی کی، انکا طریقہ کار کیا تھا ہمارا کیا ہے، انکی نظر میں سیاست کیا تھی، ہم سیاست کو کیا سمجتھے ہیں؟ یقینا اگر امام مجتبٰی علیہ السلام کے تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے کے خدوخال سنوارنے کی کوشش کریں تو ایسا معاشرہ نکھر کر سامنے آ سکتا ہے جو مطلوب پروردگار ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ۔ قال الحسن بن عليّ(ع): « هي[السياسة] أن ترعي حقوق الله و حقوق الأحياء و حقوق الأموات، فأما حقوق الله. فاداء ما طلب، و الإجتناب عما نهي، و اما حقوق الأحياء: فهي ان تقوم بواجبك نحو اخوانك، و لا تتأخر عن خدمة أمتك، و ان تخلص لولي الأمر ما أخلص لأمّة و أن ترفع عقيدتك في وجهه اذا ما حاد عن الطريق السوي و امّا حقوق الأموات، فهي أن تذكر خيراتهم و تتغاضي عن ساوئهم، فانّ لهم ربّاً يُحاسبهم»
تنبيه الخواطر و نزهة النواظر(مجموعه ورّام)ج 2ص 301؛ القرشي(ره)، باقر شريف، حياة الإمام الحسن بن علي(ع) ج1 ص 340