اس حقیقت سےکسی طرح بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نبی اکرمؐ نے اپنی ۶۳ سالہ حیات برکت میں جس طرح کے آزار و اذیت کا نشانہ بن کر انسانیت کو پستی اور ذلت سے نجات دی تھی اس کے نتیجہ میں آپ کی آل پاک ع کو امت مسلمہ کے سرکا تاج ہوچائیے تھا لیکن افسوس نبی اکرمؐ کی وفات کے فوراً بعد آپ کی اکلوتی دختر حضرت فاطمہ زہراؐ جنہیں نبی اکرمؐ نے اپنا جزء قرار دیا تھا جن کی تعظیم کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ جاتے تھے، جنہیں ام ابیہا کے لقب سے نوازا تھا، امت مسلمہ نے انہیں نہ صرف یہ کہ احترام نہیں دیا بلکہ انہیں یکسر نظر انداز کردیا ، شہزادی کونینؐ ان کے شوہر نامدار، مدافع اسلام، علی مرتضیٰؑ اور ان کے دونوں شہزادوں کے ساتھ امت مسلمہ نے جو برتاؤ کیا وہ تاریخ اسلام کے جگر کا ناسور ہے۔
نبی اکرم کی وفات کے بعد دروازہ پر آگ اور لکڑیوں کا اکٹھا ہونا، پہلوئے مبارک کا شکستہ کیا جانا ۱۸؍برس کے سن پر عصا کے سہارے چلنا ۷۵یا۹۵ دن مسلسل گریہ کرنا وہ مصائب و آلام ہیں جن پر ہر درد مند دل قیامت تک آنسو بہاتا رہے گا لیکن ان سب سے عظیم مصیبت اس دریگانہ کی یادگار قبر مطہر کا معلوم نہ ہونا ہے۔ امت مسلمہ کےنام نہاد سربراہوں کے مظالم سے تنگ آکر آپ نے تنہائی میں جنازہ اٹھانے کی وصیت فرمائی تھی جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھ گیا اور قبر مطہر مصلحت الٰہی کے پردہ میں گم ہوگئی جس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ دنیا کے مظالم کا سلسلہ رکنے والانہیں تھا۔ شاید قدرت کو معلوم تھا کہ ایسا دور بھی آئے گا جب ظلم و ستم کی انتہا ہوگی جہاں قبریں بھی ظالموں کے ظلم سے محفوظ نہ رہیں گی۔ جیسا کہ وہابی دہشت گردوں نے ۱۳۴۴ھ میں جنت البقیع کے قبے منہدم کر کے اس نئے ظلم و ستم کی بنا ڈالی اور پھر داعشی دہشت گردوں نے حجر بن عدی کی قبر مبارک کو کھود کر اس ظلم و ستم کی عمارت میں آخر ی کیل ٹھونک دی جس سے کم از کم قبر زہراؐ پر مصلحت الٰہی کے پردہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ کسی امر مقدس کی حفاظت کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اپنی مصلحتوں کے پردہ میں چھپا لیتا ہے۔ وہ چاہے شہیدہ شہزادی کونینؐ کی قبر مطہر ہو یا ان کے لال زمانہ کے امامؑ کی حیات بابرکت۔ آج قبر زہراؐ کی گمشدگی آپ کے عقیدتمندوں کے لئے ایک ناقابل تحمل درد کا احساس ہے ۔ کاش دریگانہ نبوت کی قبر مطہر پر ایک عالیشان روضہ تعمیر ہوتا اور خاندان رسول و آل رسولؐ سے عقیدت رکھنے والے پروانہ وار اس کے گرد چکر لگا کر عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتے اور اپنا دامن مراد بھرتے لیکن فسق و فجور اور کفر نفاق نے اسلام کے نام پر یہ گوہر گرانبہا ہماری نگاہوں سے اوجھل کردیا اور بقیع کے روضے مسمار کرکے فرزندان زہرا کی قبروں کو ویران کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی آج مایوسی غربت اور بے کسی جنت البقیع کی داستان الم کو بیان کرتے ہوئے قبر زہراؐ کی گمشدگی کا مرثیہ پڑھ رہی ہے۔ اور ظالموں سے انتقام لینے والے غیب میں موجود امام کی بارگاہ میں استغاثہ کر رہی ہے ۔ مولاآپ آئیں ہماری مایوسیوں کی شام ہو مقامات مقدسہ خاص طور پر مکہ مدینہ کی رونقیں واپس آئیں جنت البقیع پر عالیشان روضے تعمیر ہوں اور قبر صدیقہ طاہرہ جو پوری صالح امت اسلامیہ کا گوہر گمشدہ ہے اسے واپس مل جائے ، ظلم و ستم کی شام ہو مظلومیت کو اس کا حق مل جائے، اور پوری دنیا میں امن و امان قائم ہو۔
ج*قبروں پر تعمیر کاشرعی حکم*
پیغمبر اسلامؐ کے دور سے لے کر ابن تیمیہ (متوفی ۷۰۸ھ) اور اس کے شاگرد ابن قیم (متوفی ۷۵۱ھ)تک تقریباً سات سو پچاس برس ہو گئے تھے اور اس پوری مدت میں مسلمانوں کے درمیان ان کے شرعی مسائل میں قبروں پر عمارت تعمیر کرنے کے نام پر کسی طرح کا اختلاف، جھگڑا، بحث اور جذبات کو بھڑکانے یا انہیں نظرانداز کرنے کی بات نہیں تھی یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے اپنے دور میں قبروں پر عمارت تعمیر کرنے کے عدم جواز کا فتویٰ دے دیا۔
اس نے یہ اعلان کیا کہ ائمہ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبروں پر روضے تعمیر کرنا جائز نہیں ہے اور انہیں مسجد قرار دینا یا وہاں نماز ادا کرنا شرعی نہیں ہے اس کے بعد ابن قیم جوزی کا دور آیا۔ اس نے اس سےبھی آگے بیان دیا اور کہا کہ قبروں پر جو روضے بنے ہیں ان کا گرانا واجب ہے اور ان کے گرانے اور انہیں ختم کرنے پر قدرت حاصل ہوجانے کے بعد ایک دن کے لئے بھی ان کا باقی رکھنا جائز نہیں ہے۔
اس کے بعد محمد ابن عبد الوہاب (متوفی ۱۲۰۶ھ)آیا اور اس نے مذہب و فقہ میں سختی اور زبردستی کو داخل کیا جس کی بنیاد دوسروں کو کافر ثابت کرنے، ان پر شرک کا الزام لگا کر ان کا خون مباح سمجھنےاور ان کی آل و اولاد نیز ہر اس شخص کے لئے جو ان کی نظر میں تکفیر کے اسباب میں سے کسی سبب کا مرتکب ہو اسکےلیے اسیر کرنے سے لے کر قتل کرنے تک کی سزائیں معین کیں۔ یہاں تک کہ اس نے یہ سزائیں ان افراد تک کے لئے بھی معین کیں جو دوسروں کو کافر قرار دینے کے نظرئیے میں ذرہ برابر بھی اس کی مخالفت کرتے ہوں۔
درعیہ کے حاکم سعود کی حمایت نے محمد ابن عبد الوہاب کے افکار و نظریات کی نشر و اشاعت اور اس کی اتبدائی قدرت کو ہماہنگ کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں اس نے مختلف مناطق پر حملہ کرکے اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کی۔
اس وقت سے لے کر آج تک قبروں پر روضے تعمیر کرنے کا مسئلہ وہابیوں کی جانب سے تمام مسلمانوں پر طنز و تشنیع کا سب سے نمایاں اور اہم سبب بناہوا ہے۔ قبروں پر عمارتوں کی تعمیر کے نظریہ کی مخالفت کو ایسی تلوار قرار دیا گیا جو کفراور شرک کا اتہام ثابت کرنے کے لئے استعمال ہو۔ ا س کے نتیجے میں مسلمانوں میں شدید اختلاف پیدا ہوا اور اتحاد اسلامی جیسی عظیم نعمت خطرہ میں پڑ گئی۔
اس مسئلہ کی اہمیت اور اس سلسلہ میں شدید حساسیت کی بنا پر ضرورت محسوس ہوئی کہ اس موضوع کا مختلف اعتبارات سے مطالعہ کیا جائے اور پھر اس سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔ اس بحث سے ہمارا مقصد صرف حقیقت کو بیان کرنا ہے تاکہ مسلمانوں میں آپسی اختلافات اور اس کے سنگین نتائج کے خطرہ کو کم کرکے ان میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کی جائے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے غلط نتائج سے بچا جائے اور ان کی دیرینہ عظمت و شوکت کو واپس لایا جائے۔