سید نجیب الحسن زیدی
گھر میں سناٹا چھایا ہو اتھا بچے اور شوہر باہر گئے ہوئے تھے وہ تنہا تھی اور اپنے حجرے میں بند اپنے رب سے ملاقا ت کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر رہی تھی۔ اور اپنے مالک کی تسبیح و تہلیل میں مصروف تھی اس کے پردہ ذہن پر ماضی کے واقعات یکے بعد دیگر آتے جارہے تھے۔
اس کے بابا جب سے اس دنیا سے گئے تھے دنیا اس سے دشمنی پر اتر آئی تھی ابھی بابا کی وفا ت کو چند ہی دن گزرے تھے کہ اس نے دیکھا اس کا شوہر اس کا ہمدم اس کامونس نہ جانے کن سوچوں میں گم سر جھکائے گھر کے کونے میں بیٹھا ہے وہ قریب گئی۔
علی! نظریں اٹھاؤمیری طرف دیکھو۔
علی ! دیکھویہ کون ہے
علی یہ وہی ہے جس کو پاکر تم نے سجدۂ شکر ادا کیا تھا ۔
علی یہ وہی تو ہے جس سے تم سب کچھ بیان کر دیا کرتے تھے
علی ! یہ وہی ہے جس کو دیکھ کر تم اپنا درد اپنا الم بھول جایا کرتے تھے مگر آج تمھیں کیا ہوگیا ہے
تم اپنے غم کو مجھ سے نہیں بتاؤ گے تو پھرکس سے کہوگے ؟
علی نے اپنی آنکھوں میں اتر آنے والے آنسوؤں کو اپنے اندر پیتے ہوئے نظریں اٹھائیں... لرزتی پلکوں تھرتھراتے وجود کے ساتھ اپنی شریکۂ حیات کی طرف دیکھا
آنکھوں میں یاس و امید کے نہ جانے کتنے چھوٹے چھوٹے دیئے روشن تھے
علی ان کو اسی طرح روشن دیکھنا چاہتے تھے سو جلدی سے اپنی نظریں جھکا لیں علی نہیں چاہتے تھے کہ ان کی جان سے زیادہ عزیز رفیقہ حیات اس سے زیادہ دکھ جھیلے بس اتنا کہا پارۂ قلب رسول!
اور آنسووں کی ایک لڑی فاتح خیبر کے رخساروں پر ڈھلکتی چلی گءی شاید علی کے یہ قطرہ ھای اشک زبان بے زبانی سے فریاد کر رہے ہوں ۔۔۔ اءے دختر رسول علی کو معاف کرنا کہ تیرے رخسار پرطمانچہ لگا میں کچھ نہ کر سکا ،تیرے بازوؤں پر تازیانے مارے گئے مگر مجھ سے کچھ نہ ہو سکا۔ تیری پسلیاں ٹوٹ گئیں مگر میں کچھ نہ کرسکا ، میں کیا کروں جب تیرے اوپر یہ مظالم ہو رہے تھے تو میرے گلے میں رسی کا پھندا تھا میرے ہاتھ بندھے تھے۔ ۔۔۔ اپنے آنسءوں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوءے علی بلک بلک کر رو دیءے ۔ بس اتنا ہی کہااے مادرِ حسنین ! مجھے معاف کردو اور فرط غم سے علی نڈھال ہو گءے... اور وہ اس فولاد پیکر کو دیکھتی رہی جو اندر ہی اندر کرچی کرچی ہو چکا تھا۔ یہ تو ماضی کی ایک تصویر تھی جو پردہ ذہن پر آکراسےدرد کی کربناک اذیتوں میں تڑپتا چھوڑ کر چلی گٔ تھی پھر نہ جانے کتنی ہی تصویر یں اس کے ذہن پرآتی رہیں اور وہ اندرونی در د سے تڑپتی رہی۔ اور پھر دھیرے دھیرے ماضی کی یادوں کے دریچے بند ہونے لگے اب اس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی روح نکلنے ہی والی ہو اس نے اشارے سے خادمہ کو قریب بلایا اور کہا اب میں چند لمحوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتی جب میرے بچے آئیں تو پہلے ان کو کھانا کھلادینا پانی پلادینا اور اس کے بعد میرے بارے میں کچھ بتانا اور علی ... نہ جانے وہ کیا کہنا چاہتی تھی کہ اس کی آواز نے ہونٹوں تک آتے آتے دم توڑ دیا اور اس کے تارہائے انفاس ٹوٹ گئے۔۔۔ اب وہ اس قید خانے سے رہا ہو کر اپنے بابا کے پاس جا چکی تھی۔
٭٭٭٭٭
ننھےننھے بچے اپنے چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ گھر میں آتے ہی دونوں نے ہم صدا ہو کر آواز دی اماں ... اماں ہم آگئے... اماں ! ہمارے سلام کا جواب کیوں نہیں دیتیں بچے ابھی اماں کو تلاش ہی کررہے تھے کہ گھر کی خادمہ قریب آئی دونوں کے سروں پر ہاتھ رکھا دونوں کو پیار کیا اور اپنی آغوش میں لیکر صحن خانہ میں آئی اورکہا بچو! پہلے کھانا کھالوپھر اماں سے بعد میں مل لینا بچوں نے یک صدا ہوکر کہا اسما! کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ ہم نے اپنی ماں کے بغیر کھانا کھایاہو اسما ء جب تک ہم اماں کی آغوش میں نہ جائیںگے کھانا نہیں کھا سکتے اسما ء جو ابتک ضبط کا باندھ باندھے بچوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ مل رہی تھی اب اپنے آپ کو نہ روک سکی اور رو پڑی ہچکیوں او رٹپکتے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسماء نے جو کچھ کہا اس کوسن کر بچوں نے بس یہی کہا اماں!!! ننھے ننھے بچوںکی آواز ہوا کے دوش پر بلند ہو کر نہ جانے کتنی دور تک گئی... مگر ہاں پھر ایسا لگا جیسے ہر اک چیز گریہ کررہی ہو ۔ درودیوار رورہے ہوں آسمان آنسوبہا رہا ہو زمین ہچکیاں لے رہی ہو... ہر طرف سے بس ایک ہی آواز آرہی تھی ماں! ماں!ماں! ایسا لگ رہا جیسے تھا ان بچوں کے ساتھ کائنات کا ذرہ ذرہ رو رہا ہوایسامحسوس ہورہا تھا جیسے ان بچوں کی نہیں کائنات کی ماں اس دنیا سے چلی گٔہو۔ اور ایسا ہی تھا... کچھ ایسا ہی توتھا کہ وہ ان بچوںہی کی نہیں ہم سب کی ماں تھی ہماری خلقت اسی کے وجود کی رہین منت تھی بلکہ پوری کائنات اسی کے طفیل میں خلق کی گئی وہ محورِ کائنات تھی وہ نقطۂ پرکارحیات عالم تھی۔ وہ فاطمہۖ تھی۔ حقیقی معنی میں وہ ایک ماں تھی۔