مذہبی آزادی کے معاملے پر ہندوستان پھر امریکی نشانے پر
729
m.u.h
19/05/2022
0 0
تحریر: اسد مرزا
اپنی 2022 کی سالانہ رپورٹ میں، ریاستہائے متحدہ امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) نے سفارش کی ہے کہ ہندوستان کو 'خاص تشویش کا ملک یعنی Countries of Particular Concern -CPC قرار دیا جائے۔ یعنی مذہبی حوالے سے سب سے زیادہ خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی حکومتوں کے زمرے میں آزادی کے معیار پر پورا نہ اترنے والا ملک۔ رپورٹ نے مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزیوں کے ذمہ دار افراد اور اداروں اور ان کے اثاثوں کو منجمد کرنے یا ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا کر ان پر ''ٹارگٹڈ پابندیاں'' لگانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
USCIRF کیا ہے اور اس کی تشکیل کیسے کی جاتی ہے؟
USCIRF ایک آزاد ناوابستہ ادارہ ہے جسے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ، 1998 (IRFA) کے ذریعے تخلیق کیا گیا تھا، اس کا مینڈیٹ عالمی سطح پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی نگرانی اور امریکی صدر، سکریٹری آف اسٹیٹ، اور کانگریس کو پالیسی سفارشات دینے کی ذمہ داری ہے۔ یہ امریکی کانگریس کی طرف سے تخلیق کردہ ادارہ ہے نہ کہ کوئی این جی او یا ایڈوکیسی گروپ۔ اس کی قیادت نو جزوقتی کمشنرز کرتے ہیں، جنہیں صدر اور ایوان اور سینیٹ میں دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ذریعے مقرر کیا جاتا ہے۔
IRFA کے مطابق، کمشنروں کو ان معزز افراد میں سے منتخب کیا جاتا ہے جو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے معاملے سے متعلقہ شعبوں میں اپنے علم اور تجربے کے لیے مشہور ہیں، بشمول خارجہ امور، بیرون ملک براہ راست تجربہ، انسانی حقوق، اور بین الاقوامی قانون۔
’’خاص تشویش کا ملک‘‘ (CPC) کا کیا مطلب ہے؟
IRFA ہرسال USCIRF سے ان ممالک کی نشاندہی کرنے کا تقاضا کرتا ہے جو CPC کے زمرے میں آتے ہوں۔ IRFA کے مطابق، CPCs وہ ممالک ہوتے ہیں جن کی حکومتیں یا تو مذہبی آزادی کی ''خاص طور پر شدید خلاف ورزیوں'' میں ملوث ہیں یا اسے برداشت کرتی ہیں، یہ وہ پروگرام ہوتے ہیں جو ''مذہبی آزادی کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حق کی منظم، رواں اور سنگین خلاف ورزیوں'' کے طور پر پوری دنیا کو نظر آتے ہیں۔ USCIRF کا دوسرا زمرہ، کم سنگین خلاف ورزیوں کے لیے، خصوصی واچ لسٹ (SWL) تیار کرنا ہے جس میں وہ ملک شامل ہوتے ہیں جس میں مذہبی آزادی کے تعلق سے کم خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، لیکن پھر بھی وہ تشویش کا باعث ہیں۔
2022 کے لیے، 2021 میں مذہبی آزادی کی شرائط کی بنیاد پر، کل 15 ممالک کو سی پی سی کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں بھارت، پاکستان، برما، چین، اریٹیریا، ایران، شمالی کوریا، روس، سعودی عرب، تاجکستان، افغانستان، نائیجیریا، شام اور ویت نام شامل ہیں۔ SWL زمرے کے لیے نامزد ممالک میں الجزائر، کیوبا، نکاراگوا، آذربائیجان، وسطی افریقی جمہوریہ، مصر، انڈونیشیا، عراق، قازقستان، ملائیشیا، ترکی، اور ازبکستان شامل ہیں۔
USCIRF نے کیوں ہندوستان کو سی پی سی میں شامل کیا؟
USCIRF نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2021 میں، ''ہندوستان میں مذہبی آزادی کے حالات نمایاں طور پر خراب ہوئے ہیں۔''یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ''ہندوستانی حکومت نے اپنی پالیسیوں کی ترویج اور نفاذ کو بڑھایا ہے، جن میں ہندو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دینا بھی شامل ہے، جو مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو منفی طور پر متاثر کرتی ہیں۔'' رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا کہ ''حکومت نے منظم قانون سازی جاری رکھی ہے اور وہ نئے اور پرانے دونوں طرح کے قوانین کے استعمال کے ذریعے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف تبدیلیاں، قومی اور ریاستی دونوں سطحوں پر ہندوستان میں ہندو ریاست کا قیام اس کا نظریاتی وژن اور مشن صاف طور پر نظر آتا ہے۔
رپورٹ نے مذہبی ظلم و ستم اور تشدد کی دستاویز کرنے والوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (UAPA) کے استعمال پر روشنی ڈالتے ہوئے، مذہبی اور خیراتی این جی اوز کے ذریعہ ''لائسنس اور بین الاقوامی فنڈز کی وصولی کے خلاف رکاوٹیں'' پیدا کرنے کی تفصیل دی ہے اور مشاہدہ کیا کہ ''متعدد مرتبہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں اور ان کے محلوں، کاروبار، گھروں اور عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے۔ اس نے مذہب کی تبدیلی کے خلاف تازہ قانون سازی پر بھی تنقید کی، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ''قومی، ریاستی اور مقامی حکومتوں نے ہندوؤں کی عیسائیت یا اسلام میں تبدیلی پر شیطانی سازش کے طور پر حملہ کیا ہے۔'' ساتھ ہی رپورٹ نے ہندوستان کی عدلیہ کو بھی نہیں بخشا ہے اور اپنی رپورٹ میں 1984 کے سکھ مخالف فسادات اور 2002 کے مسلمان مخالف فسادات سے متعلق قانونی کیسوں کے ابھی تک چلنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور حیرت ظاہر کی ہے کہ آخر ہندوستان میں عدلیہ اقلیتوں سے متعلق معاملات پر اتنی سست روی سے کام کیوں کرتی ہے۔
کیا امریکی حکومت USCIRF کی سفارشات پر پابندِ عمل ہے؟
جی نہیں، عام طور پر سی پی سی زمرے کے لیے USCIRF بہت زیادہ ممالک کی فہرست تیار کرتا ہے، جب کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یا وزارتِ خارجہ ان تمام ممالک کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ USCIRF کا تعلق صرف مذہبی آزادی کی حالات کا جائزہ لینا ہے۔ جبکہ IRFA کی طرف سے خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مذہبی آزادی کے عنصر کو لازمی قرار دیا گیا ہے، سی پی سی کی فہرست پر فیصلہ کرنے سے پہلے وزارتِ خارجہ دیگر سفارتی، دوطرفہ اور تزویراتی خدشات کو بھی مدنظر رکھتی ہے۔ یہ لگاتار تیسرا سال ہے جب ہندوستان کو سی پی سی کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ہندوستان نے ماضی میں USCIRF کے وجود پر بھی سوال اٹھایا ہے اور 2020 میں، وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کمیشن کو ''خصوصی تشویش کی تنظیم'' قرار دیا تھا۔
ابھی تک تو عملی طورپر یہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے کہ امریکہ نے کبھی کسی ملک کے خلاف CPC کی بنیاد پر کوئی قدم اٹھایا ہو، اس کی ایک وجہ ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہ خراب کرنا بھی ہوسکتی ہے۔ ایسا ہی اب تک ہندوستان کے ساتھ بھی ہوتا آیا ہے۔ کیونکہ حالیہ عرصہ میں جس طریقے سے ہندوستان نے یوکرین جنگ پر امریکی موقف سے انحراف کیا ہے اور اقوامِ متحدہ میں روس کے خلاف امریکی حمایت یافتہ قرار دادوں کی توثیق سے انکار کیا ہے اس کا منفی اثر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر ضرور رونما ہوسکتا ہے۔ حالانکہ امریکہ نے کہا ہے کہ ہندوستان کو اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا پورا حق ہے لیکن اس کے باوجود امریکی وزیرِ خارجہ نے اپریل میں 2+2 ڈائیلاگ کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی ہندوستان کے حقوقِ انسانی کی خراب کارکردگی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس موقع پر ہندوستانی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر ہندوستان کی حمایت کرنے کے بجائے مکمل خاموشی اختیار کیے رہے۔
حالیہ رپورٹ میں ہندوستان کے علاوہ پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور برما کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ان ملکوں میں مذہبی آزادی، اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں، حقوقِ انسانی، عورتوں کے حقوق، عورتوں کی خواندگی اور دیگر حقوق پر حکومتی سطح کے اوپر کارروائیوں پر رپورٹ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اور یہ تمام ملک بھی CPC کی فہرست میں شامل ہیں۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ یہ رپورٹ کوئی بااثر کارروائی کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی تاہم اس کے ذریعے عالمی سطح پر مختلف ممالک کی ان منظم یا غیر منظم سازشوں یا حرکتوں کی نشاندہی ہوتی ہے جو کہ ایک جمہوری نظام میں نہیں ہونی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ کسی نہ کسی غیر محسوس طریقے سے ان ملکوں کی سرزنش بھی ہوتی ہے۔