آیہ ’’یَااَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنـْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ۔ غدیر کے موقع پر نازل ہوئی۔
حافظ ابن مردویہ، ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ آیہ ’’بلغ‘‘ غدیر خم کے موقع پر نازل ہوئی۔ دوسری روایت عبداللہ بن مسعود سے کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں: ’’کنا نقرء فی عہد رسول اللّہ یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک ان علیا ولی المومنین وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ۔
(شوکانی فی فتح القدیر در منثور، ج۲ص۲۹۸)
ابواسحاق ثعلبی اپنی تفسیر ’’کشف البیان‘‘ میں امام محمد باقرؑ سے روایت کرتے ہیں : ’’ان معناھا بلغ ماانزل الیک من ربک فی فضل علی بن ابی طالب۔ فلما نزلت اخذ رسول اللّہ بید علی فقال من کنت مولاہٗ فعلی مولاہٗ۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول پہنچا دیجئے وہ بات کہ جو علی بن ابی طالب ؑکی فضیلت میں نازل ہوئی ہے۔ تو جب یہ آیت نازل ہوئی رسولؐ نے علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : من کنت مولاہٗ فعلی مولاہٗ۔
حافظ ابوالقاسم ابن عساکر شافعی، ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں: آیۃ بلغ نزلت یوم غدیر خم فی علی بن ابی طالب۔(در منثور، ج۲ص۲۹۸) آیہ بلغ غدیر خم کے دن بھی علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی۔
فخر الدین رازی تفسیر کبیر، ج ص۶۶۳: العاشر، نزلت الایۃ فی فضل علی ولما نزلت ھذہ الایۃ اخذ بیدہ وقال من کنت مولاہ فعلی مولاہٗ اللہم وال من والاہٗ وعاد من عاداہ۔ فلقی عمررضی اللّہ عنہ وقال ہنیئاً لک یابن ابی طالب اصبحت مولائی ومولیٰ کل مومن ومومنۃ۔ وھو قول ابن عباس وبراء بن عازب ومحمد بن علی۔
دسویں وجہ یہ ہے کہ آیت نازل ہوئی ہے امیرالمومنین کی فضیلت کے بارے میں۔ اور جب یہ نازل ہوئی تو رسالت مآبؐ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا۔ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔ اے اللہ تو اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھے اور تو اس کو دشمن رکھ جو علی سے دشمنی رکھے۔ تو عمر نے حضرت علی ؑ سے ملاقات کی اور کہا مبارک ہو اے ابوطالب کے فرزند تم میرے اور ہر مومن ومومنہ کے مولا قرار پاگئے۔ یہ ابن عباس، براء بن عازب، اور محمد بن علی (امام محمد باقرؑ) کا قول ہے۔
شیخ الاسلام ابواسحاق حموینی اپنی کتاب فرائد السمطین میں اپنے مشائخ ثلاثہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
سید علی ہمدانی مودۃ القربیٰ میں براء بن عازب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے واقعہ غدیر بیان کرنے کے بعد کہا : وفیہ نزلت، یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک۔ اسی واقعہ کے بارے میں آیہ بلغ نازل ہوئی۔ ہم نے صرف چند کتابوں پر اکتفا کی ہے علامہ امینی نے تیس حوالے علماء اہلسنت کی کتابوں کے پیش کئے ہیں کہ آیۂ بلغ غدیر کے موقع پر نازل ہوئی۔
(اگر زیادہ تحقیق مطلوب ہے تو ’’الغدیر‘‘ ج،ا ص۲۱۴-۲۳۰ ملاحظہ ہو)
آیہ : الیوم اکملت۔۔۔۔۔۔کا نزول غدیر کے دن
حافظ بن مردویہ اصفہانی ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ آیہ الیوم اکملت غدیر کے دن امیرالمومنین کے بارے میں نازل ہوئی۔ پھر ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ۱۸؍ذی الحجہ کا دن تھا۔
(تفسیر ابن کثیر، ج۲ص۱۴)
سیوطی نے در منثور جلد ۲صفحہ ۲۵۹ میں ابوسعید خدری سے روایت کی ہے کہ غدیر خم کے موقع پر جب رسولؐ نے اعلان ولایت علی کیا تو آیہ ’’الیَومُ اکمَلْتُ لَکُم دینکُم۔‘‘ نازل ہوئی۔
ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ ۱۸؍ذی الحجہ غدیر خم کے موقعہ پر جب رسولؐ نے علی ؑکے بارے میں ’’من کُنت مولاہ‘‘ فرمایا توآیہ ’’الیوم اکملت لکم دینکم۔‘‘ نازل ہوئی۔
(الاتفاق، ج۱ص۳۱)
خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد۸صفحہ۲۹۰ پر دو طریقوں سے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جو ۱۸؍ذی الحجہ کو روزہ رکھے اس کو ساٹھ روزوں کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی یوم غدیر خم ہے جس میں رسالت مآبؐ نے علی ؑ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا: الست اولیٰ بالمومنین من انفسھم۔(ترجمہ: کیا میں مومنین کے نفسوں پر اولیت نہیں رکھتا) سب نے کہا: بلیٰ رسول اللّہ۔ تو رسول اللہ نے فرمایا: من کُنت مولاہ فعلی مولاہ۔ عمر خطاب نے مبارکباد دی۔ بخ بخ یا بن ابی طالب اصبحت مولائی ومولیٰ کل مومن۔ (ترجمہ: مبارکباد ہو مبارک ہو اے ابوطالب کے بیٹے تم میرے اور تمام مومنین کے مولا قرار پائے) تو اللہ نے آیہ: الیوم اکملتُ لکم دینکم۔ نازل فرمائی۔
علامہ امینی نے سولہ معتبر ومشہور علماء اہلسنت کا ذکر مع حوالہ کتب کے فرمایا ہے۔ جنھوں نے ’’الیوم اکملتُ لکم دینکم‘‘ کا نزول غدیر کے موقع پر تحریر کیا ہے۔
آیۂ اکمال دین کے غدیرکے دن نزول کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ تفسیر رازی، جلد ۲صفحہ۵۲۹ پر لکھا ہے کہ علماء آثار کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ یہ آیہ ’’الیوم اکملت لکم دینکم۔‘‘ کے نزول کے بعد رسالت مآبؐ اکیاسی، بیاسی دن زندہ رہے۔ امتاع مقریزی، صفحہ ۵۴۸، تاریخ ابن کثیر، جلد۶صفحہ۳۳۲ وغیرہ میں بھی یہی ہے۔ تواگر یوم غدیر اور ۱۲؍ربیع الاول، یوم وفات رسالت مآبؐ کو شمار سے نکال دیا جائے تو صرف ایک دن کی بھول چوک قرار پاتی ہے۔ لیکن اگر آیۂ کریمہ کے نزول کو عرفہ کے دن قرار دیا جائے (جیسا کہ بعض اہلسنت کا خیال ہے) تو یوم وفات میں زیادہ فرق قرار پاتا ہے۔
عیدغدیر یوم عید
البیرونی نے اپنی کتاب ’’الاٰثارالباقیۃ فی القرون الخالیہ‘‘ صفحہ۳۳۴ پر یوم غدیر کے لئے لکھا ہے: ’’مما استعملہ اہل الاسلام من الاعیاد۔‘‘ اہل اسلام نے اس کو عید کا دن قرار دیا ہے۔
ابن طلحہ شافعی نے مطالب السئول صفحہ۵۳ پر عیدغدیر کے دن ولایت امیرالمومنین کے اعلان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : وصار ذالک الیوم عید اوموسما لکونہ وقتا لض فیہ رسول اللّہ بھذہ المنزلۃ العلیہ وشرفہ بہا دون الناس کلھم۔ یہ دن عید کا اور مسرّت کا دن قرار پایا کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن رسالت مآبؐ نے حضرت علی ؑکو اس بلند مرتبہ اور شرف سے نوازا جو اُن کے علاوہ کسی کو بھی حاصل نہ ہوا۔
امیرالمومنین کو مبارکبادیاں
روضۃ الصفا، جزء دوم کی جلد اول صفحہ۱۷۲ حدیث غدیر کے ذکر کے بعد ہے۔ ثم جلس رسول اللّہ فی خیمۃ تخص بہ وامر امیرالمومنین ان یجلس فی خیمۃ اخری وامر اطباق الناس بان یھنئو علیا فی خیمتہ ولما فرغ الناس من التھئنہ لہ امررسول اللّہ امہات المومنین بان یسرن الیہ وبھئنہٗ وففعلن وممن ھناہٗ من الصحابہ عمر بن خطاب فقال ھیئنا لک اصبحت مولایا ومولا جمیع المومنین والمومنات۔
اعلان ولایت کے بعد رسالت مآبؐ اپنے مخصوص خیمہ میں تشریف لے گئے اور امیرالمومنین کو حکم دیا کہ دوسرے خیمہ میں تشریف رکھیں اور ہر طبقہ کے لوگوں کو حکم دیا کہ علی ؑ کو مبارکباد دیں جب سب مبارکباد دے چکے تو امہات المومنین کو حکم دیا کہ وہ بھی مبارکباد دیں۔ مبارکباد دینے والوں میں عمر بن خطاب بھی تھے۔ جنھوں نے کہا مبارک ہو کہ آپ میرے اور تمام مومنین کے مولا ہوگئے۔
تاریخ حبیب السیر جزء سوم کی پہلی جلد صفحہ۱۴۴ پر امیرالمومنین کا مخصوص خیمہ میں تشریف رکھنا رسولؐ کا تمام صحابہ کو مبارکباد کا حکم دینا خلیفہ ثانی کے نام کی تصریح کے ساتھ اور امہات المومنین کا مبارکباد دینا یہ سب روضۃ الصفا کے مطابق ہے۔
امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند کی جلد۴ صفحہ۲۸۱ پر براء بن عازب سے واقعہ غدیر روایت کرتے ہوئے کہا ہے : فلقیہ عمر بعد ذالک فقال ھنیئا لک یابن ابی طالب اصبحت وامسیت مولیٰ کل مومن ومومنہ۔ اس کے بعد عمر نے ملاقات کی اور کہا اے ابوطالب کے بیٹے مبارک ہو تم میرے اور ہر مومن ومومنہ کے مولیٰ قرار پاگئے۔
حافظ ابوجعفر محمد بن جریر طبری اپنی تفسیر جلد۳ صفحہ۴۲۸ پر حدیث غدیر کے ذکر کے بعد لکھا ہے: فلقیہ عمر فقال ھنیئا لک یابن ابی طالب اصبحت مولائی ومولا کل مومن ومومنۃ وھو قول ابن عباس وبراء بن عازب ومحمدؐ بن علیؑ۔
ابن حجر عسقلانی نے صواعق محرقہ صفحہ۲۶ پر دارقطنی بغدادی سے نقل کیا ہے کہ واقعہ غدیر کے بعد عمر اور ابوبکر نے علی سے کہا: امسیت یابن ابی طالب مولیٰ کلّ مُومِنْ ومُومِنَہ۔
صرف چند حوالے دئے گئے ہیں اگر تفصیل دیکھنا ہو تو ’’الغدیر‘‘ جلد ۱صفحہ۲۶۹ تا ۲۸۳ ملاحظہ ہو۔
مذکورہ بالا حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ شیعوں کی کتب احادیث میں واقعہ غدیر کی تفصیل تحریر ہے تقریباً وہ سب اہلسنت کی کتابوں میں موجود ہے۔
مولیٰ کے معنی
نعمانی صاحب نے تحریر کیا ہے ’’مولا کے معنی غلام کے بھی ہیں آقا کے بھی ہیں آزاد کردہ غلام کے بھی ہیں حلیف کے بھی ہیں۔ دوست اور محبوب کے بھی ہیں۔ رسول اللہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میں جس کا محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہیں۔‘‘ لیکن مذکورۂ بالا روایات کی روشنی میں یہ معنی کس طرح سمجھ میں آسکتے ہیں۔ جب لفظ کئی معنوں میں مشترک ہو تو وہی معنی مراد لئے جاسکتے ہیں جس کے قرائن ہوں۔ اتنے بڑے مجمع کو اس قدر سخت گرمی میں تپتے ہوئے ریگستان میں روکنا کہ لوگ پیروں کے نیچے کپڑے رکھے ہوں۔ پالان شتر کا منبر بنوا کر خطبہ کہنا، اپنی خدمات کا اقرار لینا، اس کے بعد علی ؑکے لئے بس اتنی سی بات کہنا جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں!! حالانکہ قرآن کی آیات پہلے سے اعلان کرچکی تھیں۔ انما المومنون اخوۃ۔ (مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں) اصبحتم بنعمتہ اخوانا۔(اللہ کی نعمت کی بنا پر ایک دوسرے کے بھائی ہوگئے) الف بین قلوبہم۔ (اللہ نے مومنین کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت قرار دی) صحابہ کے متعلق آپ کو یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ اتنی آیات کے باوجود رسول کے بھائی اور داماد سے دل میں کدورت رکھتے ہوںگے اور اگر بقول آپ کے کچھ کے دلوں میں کدورت تھی بھی تو ان کو بلاکر سمجھا دینا چاہئے تھا اس سب اہتمام کی کیا ضرورت تھی۔ پھر اہلسنت کی کتب کے منقولہ حوالہ جات کی بنا پر اس میں خصوصی مبارکباد اور دو دوآیتوں ’’بلغ ماانزل الیک‘‘، ’’الیوم اکملت لکم دینکم۔‘‘ کے نزول کاکیا موقع تھا؟ اور یہ اعلان بھی رسالت مآبؐ اپنی وفات سے تقریباً اسّی دن پہلے فرما رہے ہیں۔
کیا قرائن حالیہ ومقالیہ سے مولا کے معنی اولیٰ بالتصرف کے معین نہیں ہوجاتے۔ جب کہ قرآن مجید نے رسالت مآبؐ کے لئے ’’اولیٰ‘‘ کو اولیٰ بالتصرف ہی کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم۔ (مومنین کے نفسوں کے معاملہ میں نبی کو زیادہ حق حاصل ہے) اور اگر ہم دل رکھنے کو مولانا کے بیان کردہ معنی صحیح تسلیم کرلیں تو کیا اس انداز اعلان سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ صرف چند لوگوں کے دلوں میں کدورت وملال دور کرنے کی بات نہ تھی بلکہ اندر اندر علی ؑ کے خلاف مخالفت کی بڑی زبردست لہر چل رہی تھی جس سے رسولؐ کی وفات کے بعد(جس میں صرف تقریباً ۸۰ دن باقی تھے) کوئی زبردست نقصان پہنچ سکتا تھا۔ رسالت مآبؐ نے اس سازش کا توڑ کرنے یا کم از کم اتمام حجّت کے لئے اتنے بڑے مجمع کو اتنے سخت موسم میں روک کر یہ بات بتا دینا چاہی کہ علی کی دوستی میری دوستی اور علی کی دشمنی میری دشمنی ہے۔ تاکہ زبان سے محمدؐرسول اللہ کہنے والے اب تو عداوتِ علی سے باز آجائیں اور ’’اللّھُم وَالِ مَنْ والاہ وعَاد منْ عَاداہ۔‘‘ (اے اللہ تو اس کو دوست رکھ جو علی ؑ کو دوست رکھے، اس کو دشمن رکھ جو علی ؑ کو دشمن رکھے) کی دعا کے ذریعہ یہ اعلان بھی کردیا کہ مسلمانو! یہ محبوب رب العالمین کی دعا ہے کہ جو بارگاہ ربوبیت سے رد نہیں ہوسکتی۔ اب سمجھ لو کہ جس نے علی ؑسے دشمنی کی اس نے اللہ تعالیٰ سے دشمنی کی اور جس نے علی ؑ سے محبت نباہ دی وہ اللہ کی محبت کا بھی حق دار ہوگیا۔ کاش نعمانی صاحب اسی حد تک آجائیں جو خود ان کے بیان کردہ معنوں کا نتیجہ ہے تو پھر ان میں اور شیعوں میں بہت کم فاصلہ رہ جائے گا۔