سید نجیب الحسن زیدی
وہ ۱۳ جمادی الثانی کی تاریخ جس میں بہ روایتے جناب ام البنین علیہا السلام نے انتقال فرمایا اور اس دن کو اسلامی دنیا خاص کر جمہوری اسلامی ایران میں ماوں کی عظمت و تکریم اور راہ حق میں میں اپنی جا ن کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا کی زوجات کو خراج عقیدت کے طور پر منایا جاتا ہے
آپکے والدگرامی ابوالمجْل حزّام بن خالد قبیلہ بنی کلاب سےتعلق رکھتے تحےجبکہ آپ کی مادر گرامی کا نام تاریخ میں لیلی یا ثمامہ بنت سہیل بن عامر بن مالک کے طور پر ذکر ہوا ہے ۔آپکے سلسلہ سے ملتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کی رحلت کے بعد خود انہی کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے جب آپ نے اپنے لئے شریکہ انتخاب کو تلاش کرنا چاہا تو اپنے بھائی عقیل سے جو نسب شناسی میں مشہور تھے، ایک نجیب الطرفین ، شریف خاندان کے بارے میں مشورہ کیا تو جناب عقیل نے آپکا نام تجویز کیاکرتے ہوئے کہا عربوں میں بنی کلاب کے مردوں جیسا کوئی دلیر مرد نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسطرح حضرت علی(ع) نے آپ سے شادی کی۔جسکے نتیجہ میں پروردگار نے آپکو نام عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان کی صورت میں چار بیٹے عطا کئے یوں تو آپکا نام فاطمہ بنت حزام تھا لیکن ان بیٹوں کی بنیاد پر آپکو ام البنین خطاب کیا گیا ۔آپ کے یہ چاروں بیٹے کربلا میں اپنے بھائی اور امام وقت، حضرت سید الشہدا (ع) کے رکاب میں شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے
جب آپکو اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے برجستہ کہا : "اے کاش میرے بیٹے اور جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے میرے حسین(ع) پر فدا جاتے اور وہ{ سید الشہداء علیہ السلام }زندہ ہوتے" ۔ آپ کو شعر گوئی پر بھی عبور حاصل تھا اوراسی لئے آپکو صاحب فضل شاعر جانا جاتا تھا۔ چنانچہ آپ نے حضرت عباس علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنی تو ایک مرثیہ پڑھے جسکے کچھ اشعار کا مفہوم یہ ہے
" اے وہ جس نے عباس{ع} کو دشمن پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا ہے جو دشمن کا تعاقب کر رہا تھا۔ سنا گیا ہے کہ میرے بیٹے کے ہاتھ جدا ہوگئے تھے اور اس کے سر پر گرز مارا گیا تھا۔ ائے میرے لعل اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو کوئی تیرے نزدیک نہیں آسکتا"۔
ہمارا کروڑوں درود و سلام ہو اس ماں پر جس نے اپنے چار بیٹے راہ خدا میں قربان کر دئیے جن میں ایک بیٹا علمدار کربلا جیسا بھی تھا جسے قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا لیکن اسکے باوجود اس ماں کی آرزو یہ تھی کہ اسکا سب کچھ چھن جاتا لیکن امام وقت پر آنچ نہ آتی ۔سلام ہو اس ماں پر جس نے ایسے بیٹے کی تربیت کی جس کے کٹے ہاتھ جنرل قاسم سلیمانی کے ہاتھوں کی شکل میں نمایاں ہو کر دین کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں سے نبرد آزما ہیں ۔
شک نہیں کہ ہماری مائیں بہنیں اگر جناب ام البین جیسی خواتین کی زندگی کو اپنا نمونہ عمل بنا لیں تو سماج و معاشرہ کے حوالے ایسے بچوں کو تربیت کر کے پیش کر سکتی ہیں جو ہماری طرف بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کے ہاتھ کاٹ سکیں لیکن اس کے لئیے ضروری ہے کہ ہماری خواتین پہلے مرحلہ میں اپنے دور کے تقاضوں سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہوں اور تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ محض دنیاوی تعلیم ،بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ علم دین سے بھی آشنا ہوں کہ ایسے بچوں کی تربیت کی جا سکے جو ہر محاذ پر اپنے ہمارے سماج کے رکھوالے ہوں چاہیں وہ علمی محاذ ہو سماجی یا پھر معیشتی و ثقافتی ۔
ایسے میں جناب ام البنین کا آفاقی کردار ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ اگر ہم دینی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے اپنی زندگی کو آگے بڑھائیں تو عباس تو نہیں سیرت ابو الفضل العباس پر چلنے والے ان غلاموں کو ضرور معاشرہ کے حوالے کر سکتی ہیں جو پرچم دار کربلا تو نہیں لیکن فکر کربلا کا پرچم ضرور اٹھائے گا ۔
ہمارا سلام ہو ان ماوں پر جو جناب ام البین جیسی عظیم ماں کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنے گود کے پالوں کو سجا کر اس میدان کارزار میں بھیج رہی ہیں جو آج شام حق و باطل کی پہچان کا ذریعہ بنا ہے ،جسکا سرا ۶ ہجری کے معرکہ کربلا سے جڑا ہے
یقینا چاہے جمہوری اسلامی کے شہدا ہوں ، یا افغانستان کے فاطمیون و سرزمین پاکستان کے زینبیوں ، چاہے وہ حزب اللہ کے فداکار و جانباز سپاہی ہوں یا حشد الشعبی کے جیالے سب کے سب اگر باطل کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور باطل پرست طاغوتی طاقتوں کے ماتھوں پر پسینہ کے قطرے ہیں کہ ان حق پر مر مٹنے والوں نے معرکہ کا رنگ ہی بدل کر رکھ دیا ہے ، جنکے سامنے نہ توپ و ٹینک کے آگ اگلتے دہانے کام آ رہے ہیں نہ میزائلیں اور جنگی طیارے انکے عزم و حوصلہ کو پسپا کر نے میں کامیاب ہیں تو یہ نتیجہ ہے ان ماوں کی تربیت کا جنہوں نے اپنے بچوں کو علمدار کربلا ع کی شجاعت کی داستانیں سنا سنا کر یوں بڑا کیا ہے کہ وہ بھوکے پپاسے مظلمومیت کے ساتھ اپنے وطن سے کوسوں دور فرات حق پر قبضہ جمائے ہیں سلام ہو ان ما وں پر جنہوں نے پرچم عباس کی چھاوں میں اپنےشیروں کو یزیدیت کو پسپا کرنے کی تلقین پر مشتمل لوریاں کچھ اس طرح سنائیں کہ فکر یزیدیت کو کہیں اماں نہیں ہے جہاں یہ سر اٹھارتی ہیں وہیں کنیزان ام البین کے شیر پہنچ جاتے ہیں ۔
پروردگار ان تمام ماوں کا سایہ مجاہدین راہ حق پر قائم رکھے جو دشمنان دین سے مقابلہ کے لئے سب کچھ چھوڑ کر نکل پڑے ہیں انکے پاس اگر کچھ ہے تو ماں کی دعائیں اور بس ۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)