تحریر:ذاکر شام غریباں عمدۃ العلماء آیۃ اللہ سید کلب حسین صاحب قبلہ طاب ثراہ
جب ہجری سنہ بدلتا ہے، جب ماہ ذی الحجہ کی آخری تاریخ میں خنجر غم بن کر ہلال نوشب اول محرم میں فلک پر ضوفگن ہوتا ہے۔ جب ہر سچے شیعہ کے گھر میں ماتم کی صف بچھتی ہے۔لباس غم زیب جسم ہوتا ہے۔ ہر زن و مرد ہمہ تن مرقع غم بن کر اہل بیت ؑ رسولؐ کی محبت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جنت کے فدائی اصحاب حسین ؑ کی طرح مظلوم پرجان فدا کرنے کی تمنا میں بے چین ہونے والے کہیں علمدار لشکر حسین ؑ کی یادگار میں علم نصب کرتے ہیں کہیں زیارت قبر حسین ؑ کے مشتاق، بانس، کاغذ،لکڑی یا چاندی سونے سے شبیہ روضہ شہید کربلا بنا کے اصل سے دوررہ کر بھی شبیہ کودیکھ کر ثواب زیارت حاصل کرتے ہیں۔ذکر حسین ؑ کو ہر اس انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو دل نشین اور جاذب نظر ہو۔ عالم کے ہر اس انسان کے واسطے جذبات انگیز ہو، جس کے قلب کے کسی گوشہ میںبھی مظلوم سے ہمدردی کی لہریں پوشیدہ ہوں۔
انھیں افکارکا اظہارکہیں روضہ خوانی کہیں کتاب خوانی، کہیں واقعہ خوانی اور کہیں نثر خوانی، مرثیہ اور سوز کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اب آخر میں موعظہ کے نام سے بلندی کی آخری منزل تک پہونچا۔ مذکورۂ بالا بہت سے انداز وہ ہیںجواب متروک ہیںاورشاید سیکڑوں آدمیوں کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ مجلس غم میں ان کے پیش کرنے کا طریقہ کیا تھا اپنی معلومات کی حدتک میں یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہوں کہ طرزموعظہ عام ہونے سے پہلے ہر انداز ذاکری صرف فضائل و مصائب معصومین ؑ تک منحصر تھاجس میں مناظرہ کی نمکینی ذوق سماعت بڑھانے کے واسطے لازمی سمجھی جاتی تھی۔
مگر تقریباً ایک صدی کے اندر اندر جب سے موعظہ رفتہ رفتہ ذاکری کے مختلف طرز نظر انداز کرنے لگا۔ اس وقت سے مختلف موضوع حاضرین بزم کی سماعت تک پہنچنے لگے۔(مگرقلت کے ساتھ)کثرت ایسے ہی مضامین، رعایات لفظی، خطابیات، نکات شاعرانہ کی تھی اور ہے۔ جو صلوٰۃ کے فلک شکن نعروںسے واعظ کے کلام کو عام پسند ہونے کی سند دے دیں۔ واہ واہ کے لالچ میں سننے والوں کو یہ بھی سمجھا دیا جاتا ہے کہ صرف محبت آل محمدؐ نجات کے واسطے کافی ہے۔ یہ بھی کہہ دیا جاتاہے کہ ایک اشک غم تمام جہنم کی آگ گل کر دے گا۔
ایک مجلس ماتم میں بیٹھ جانا جنت کا مستحق بنا دے گا مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ بشرطہا وشروطہا یہ چیزیں صرف اسی وقت پروانۂ جنت بنتی ہیں جب ان کے ساتھ ایمان ہو، وحدت ہو، رسالت، امامت، معاد، خدا کی عدالت اور تمام اصول دین کے صدق دل سے اقرار کے ساتھ۔ فروع دین، نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ، خمس اور احکام حرام و حلال پر بھی عمل ہو۔ نماز کے واسطے سنی وشیعہ کا اتفاق ہے کہ اگر یہ عبادت قبول نہ ہوگی تو ہر عمل خیر رد ہوجائے گا۔ روزہ کے واسطے یہ اہمیت ہے کہ مومن ہو۔ بڑے سے بڑا عزادار حسین ؑ ہو،لیکن ماہ رمضان میںتیس دن بلاعذر شرعی حاکم شرع کی تنبیہ کے بعد بھی روزہ نہ رکھے تو اگر حکومت شرعی پرسرکار ہو تو اس مومن کو قتل کردو۔ حج جس پر واجب ہواوروہ امکان کے بعد بھی حج نہ کرے تو وہ آخر وقت یہودی یعنی کافر ہوکر مرے گا۔ زکوٰۃمومن کا حق ہے جو زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کو خدا ہرگز معاف نہ کرے گا،جب تک وہ مومن معاف نہ کریں جن کا حق اس نے ادا نہیںکیا۔
خمس حق سادات و امام ؑ ہے اور یقینا واجب ہونے کے بعد اپنے ہی مال میں تصرف کرنے والے بھی غاصب حق سادات اور غاصب حق امام ہیں۔ جس کے معاف کرنے سے ائمہ ؑ نے انکار فرمادیا ہے۔ جو چیزیں شرع نے حرام کی ہیں ان میں بعض ایسی بھی ہیں جن کے واسطے قرآن نے نص صریح کردی ہے کہ اگر ان کا کوئی ارتکاب کرے تو چاہے وہ مومن ہو،چاہے وہ مسلم ہو، دوستدار اہل بیت ؑ ہو یا عزادار حسین ؑمگر اس کی جزا جہنم کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتی۔ جیسے قتل مومن، زنا ٔ محصنہ کی سزا یہ ہے کہ سنگسار کرکے مارڈالا جائے۔
’’اور انہیں سب چیزوں کی تعلیم غرض شہادت حسین ؑ تھی۔‘‘
اگر ہمارے سید و سردارؑ کی شہادت صرف اس غرض سے ہوتی کہ رونے والا کوئی بھی ہو سیدھا جنت میں جائے۔ مجلس حسین ؑ میں بیٹھنے والا کسی مذہب کا پابند ہومگر وہ نجات کا مستحق ہے۔ دوستدار اہل بیت ؑ جیسا بھی بدکار اورتارک عبادات ہو مگر وہ ناجی ہے۔ تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ امام حسین ؑ نے اپنے نانا کادین بچانے کے واسطے کربلا کی محیرالعقول فداکاری دنیا کے سامنے پیش کی۔ نانا نے وحدت، رسالت، معاد، صفات الٰہی،نماز، روزہ، حج وغیرہ ہر شے کی تعلیم دی اور بغیر اس علم و عمل کے جنت بھی مل جانا مشکل بتا دیا مگر امام حسین ؑ نے معاذ اللہ مثل عقیدۂ نصاریٰ، امت کے گناہوں کا فدیہ بن کر امت کو عام اجازت دے دی کہ کوئی عمل خیر نہ کرنا، کسی بدکاری سے پرہیز نہ کرنا، بس صرف میری عزاداری کرنا اور جنت تمہاری ہے۔
لا واللہ ہرگز امام حسین ؑ کی یہ تعلیم نہ تھی۔ ان کی شہادت کی غرض صرف حفاظت اسلام تھی، تعلیمات رسولؐ کی بقا تھی،لوگوں کو گمراہی سے بچا کر اصول و فروع کے صحیح راستوں پر لگانا غرض حقیقی تھی۔
ایک زمانے میں اس ہندوستان میں جو کبھی جنت نشان کہا جاتا تھا، اور اب جہنم کی تصویر ہے۔ جہاں اقتصادی تکلیفوں، لوٹ مار، عام رعایا کی بداخلاقیوں، قانون شکنیوں، حکام کی ناانصافیوں، حکومت کی غفلتوں اور بدانتظامیوں کی کڑواہٹ،گرانی کی شدت، ڈاکہ زنی، قتل وغارت، انسانی خون کی ارزانی اور پھر فرقہ پرست جماعتوں کی تبلیغی کوششوں نے ہر انسان کی زندگی موت سے بدتر بنا رکھی ہے۔ اگر ہم اپنے مذہب کوبچا سکتے ہیںتو صرف عزاداری کی بدولت مگر نہ اس صورت سے کہ نوحہ کو نوحہ کی حد سے نکال کر مدح کی نظم بنا دیں، اور اس پر ماتم کریں مصرع یہ ہو کہ علی ؑ نے خیبر فتح کرلیا اور ہم اس پر ماتم کررہے ہیں۔ نہ اس صورت سے ہم صرف شق القمر اور رجعت شمس میں باریک بینیاں کریں نہ اس صورت سے کہ سوزخوانی میں بڑے بڑے گویّوں کو مات کردیں۔ نہ اس صورت سے کہ منبرکو تبرا بازی سے بھر کر خود اپنے ہی افراد کو مجلس سے اٹھ جانے پرمجبور کردیں بلکہ اگر اس دور میں اسلام کو بچا سکتے ہیں تو صرف یہ بتا کر کہ حسین ؑ وحدت کے کتنے زبردست معتقد تھے، منازل شہادت کی وہ عظیم الشان سختیاں جن کو دنیاکاکوئی بشر برداشت نہ کر سکا صرف اس جذبے میں طے کرگئے کہ میرے خالق کا یہی حکم ہے، ہر وہ مصیبت جو انسان کے تحمل سے باہر تھی بڑی ہنسی خوشی سے صرف اس لئے انگیز کرلی کہ میرا اللہ اسی میں راضی ہے، رسولؐ کی صداقت کا ثبوت امام حسین ؑ نے ہر اس عبادت کو کربلا میں ادا کرکے دیا جن کی تعلیم خاتم النبیین ؐ نے دی تھی۔ اورجس کو اس مظلوم اور دیگر معصومین ؑ کے علاوہ کوئی کربلا کے سے حالات میں ادا نہ کرسکا، یعنی واجبات تو واجبات مستحبات بھی ترک نہ کئے جن کا تذکرہ اشاروں کنایوں میںکردینے سے بعض حضرات غالی شیعوں کی نظروں میں قابل لعن وطعن ہوگئے۔ مذہبی امور میںیک جہتی،اتحاد، خلوص،نیت، صبر،جنت و نار، حساب و کتاب، ثواب وعقاب، ہرچیز میں یقین و ایمان کی وہ منزل امام حسین ؑ واصحاب حسین ؑ نے پیش کی جس سے زائد مستحکم ایمان کسی عام انسان میں ہونا ناممکن ہے۔
آج ہندوستان میں یقیناہماری جان و مال اتنے خطرہ میں نہیں ہے جتنا ایمان خطرے میں ہے۔ اس وجہ سے کہ حکومت کامسلک لادینی ہے تو رعایا میں لامذہبیت کا اثر آنا ضروری ہے اور اس وجہ سے کہ حکومت کا مسلک لادینی سہی مگر اکثر و بیشتر ارکان حکومت کسی نہ کسی مذہب کے جذبات سے یقینا متاثر ہیں۔ جن کا اظہار کبھی نہ کبھی اورکسی نہ کسی پیرائے میں ہوجانا ناگزیر ہے اوراس لئے کہ ایک طرف بہائی مشن دوسری طرف شدھی کے فدائی مذہب بدلوا دینے پر تیار ہیں۔ اوراس میں ذرا سا بھی جھوٹ نہیں کہ گڑگائوں کے علاقہ میں بنگال کے دور افتادہ دیہات میں صوبہ ممبئی وغیرہ کے قریات میں بہت سے مسلمان اپنا دین بدل چکے ہیں۔ اور اس لئے کہ نام کے مسلمان اور محض خاندانی شیعہ یوں تعلیم نسواں کے فدائی بن گئے ہیں کہ ان کو نہ زناکاری عام ہوجانے کی شرم ہے،نہ بے پردگی کی غیرت ہے۔ نہ اغوا کے عام واقعات دیکھ کر آنکھیں کھلتی ہیں،نہ عورتوں کے غیر مذاہب کے ساتھ سول میرج کرلینے سے کان پر جوں رینگتی ہے،بالکل سچ ہے_________ الحیاء مع الایمان (اگر ایمان ہو تو شرم و حیاء بھی ہوتی ہے) اگر ایمان نہیں تو شرم و حیاکا خدا حافظ، اس کلیہ کے مطابق یہ کہنا ناگزیر ہے کہ جو بے حیائی برداشت کرنے پر خوشی خوشی آمادہ ہیں ان کا ایمان یقینا کمزور ہے۔ آپ یادرکھیں کہ بچوں کی ابتدائی اور گھریلو تربیت و تعلیم بہت زائد ہماری عورتوں کی ممنون احسان ہے۔ اوراس وجہ سے یہ قول مشہور ہے کہ ایمانداری کی زائد بقا عورتوں کے دم سے ہے،لہٰذا جب عورتیں ہی دنیوی تعلیم حاصل کرکے غیر مذاہب سے سول میرج کرکے ایمان و اسلام سے باہر ہو جائیں گی۔ تو بڑی حد تک ایمان اور اس کے ساتھ عزاداری بھی ختم ہوجائے گی، اس لئے اس زمانے میں عزاداری امام حسین ؑ میں وہ انداز اختیار کئے جانا لازم ہیں جن سے غیر مذاہب متاثر ہوں یا نہ ہوں لیکن کم از کم ہمارے ہم مذہبوں میں تعلیمات حسینی پر عمل کرنے اور ان کے نقش پا پر چلنے کا شوق پیدا ہو۔ ہماری عورتوں میں اہل بیت ؑ حسین ؑ کی طرح ایمان اور عبادت اور اطاعت خالق کا جذبہ پید اہو۔
ہماری عورتوں اور مردوں کو سمجھنا چاہئے کہ اگر ہم پر فاقہ گزر جائے، اگر ہم فقر کی حالت میں ہوں، اگر ہم کو کہیں ملازمت نہ ملے، اگر دنیا ہم کو ذلیل نگاہوں سے دیکھے جو کچھ بھی ہم پر مصیبت آئے تو ہر مصیبت کے بعد بھی ہماری تکلیفیں اسرائے اہل بیت ؑ کی تکلیفوں سے زائد کبھی برابر نہیں ہوسکتیں۔ توکیا ان مصائب پر معاذ اللہ عورات بنی ہاشم نے اپنا دین چھوڑ دیا۔ کیا عبادات الٰہی سے غافل ہوگئیں،کیا اپنی بے پردگی کو بطیب خاطر منظور کرلیا۔
جناب سکینہ ؑ جن کا سن تین یا سات برس کا تھا۔ جوان عورتوں کی حد میں نہ تھیں۔ مگر دربار یزید میں گریاں تھیں۔ یزید کے سوال پر آپ نے جواب دیا کہ وہ عورت کیوں کر نہ روئے جس کے منہ ڈھانکنے کو ذرا سا کپڑا بھی میسر نہ ہو کہ نامحرموں سے منہ چھپاسکے۔ سبق لیں شاہزادی کے ان الفاظ سے وہ جو کہتے ہیں کہ شریعت میں منہ کا پردہ لازم ہی نہیںہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری شاہزادی منہ کھلا ہونے کا شکوہ نہ کرتیں اور یزید بھی جواب دے سکتا تھا کہ منہ کھلا ہے تو غم کیوں ہے شریعت میں تو منہ کا پردہ لازم ہی نہیں ہے۔
تو کیا جناب سکینہؑ کے ان بہتے ہوئے آنسوئوں کے بعد وہ عورتیں اہل بیتؑ رسولؐ کی سچی چاہنے والی کہی جاسکتی ہیں جو بے پردہ گھومیں، سنیما جائیں، ہوٹلوں میں اغیار کے ساتھ گل چھرّے اڑائیں اور آخر اغوا اور سول میرج کے عذاب میں پھنسیں،اور کیا وہ مرد سچے حسین ؑ کے شیعہ ہوسکتے ہیں جو ان تمام بے حیائیوں کو بہ خوشی برداشت کریں، نہ خدا کو پہچانیں،نہ رسولؐ کو مانیں، نہ نماز پڑھیں نہ روزہ رکھیں نہ عذاب و ثواب کی فکر کریں۔ اور کیا وہ دولت مند سچے مومن کہے جاسکتے ہیں جو فروع دین کے ہر جز سے آزاد ہوں نہ حج کریں، نہ خمس دیں، نہ زکوۃ ادا کریں اور پھر دوست دار اہل بیت ؑ ہونے کے مدعی ہوں۔
’’ایں خیال است و محال ست وجنون‘‘