پیامبر اکرم (ص) کا ارشاد ہے کہ " بیشک شہادت امام حسین علیہ السلام کے پرتو میں مومنین کے دلوں میں ایک ایسی حرارت ہے جو کبھی سرد نہیں ہو گی" اور اسی طرح زیارت اربعین کی تاکید نیز بعض روایات کے مطابق اسیران شام کے دل دریدہ قافلے کی روز اربعین، کربلا آمد اور سر اقدس امام مظلوم ع کا روز اربعین اپنے جسد مبارک کے ساتھ ملحق ہونا تاریخی اسناد میں ثبت ہے جبکہ جابر ابن عبداللہ انصاری کو تاریخ زائرین اباعبدالله الحسین ع میں پہلے زائر کربلا کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے جنھوں نے روز اربعین یعنی چہلم کے دن قتیل عشق و حریت کے میناروں کی مزاروں پر پہنچ کر دلبستگان امام (ع) کی فہرست میں اپنا نام لکھوایا، مزید برآں شہادت شاہِ دین کے بعد اس خون ناحق یا با الفاظ دیگر خون خدا کی تاثیر نے انسانیت کی تھوڑی سی بھی رمق رکھنے والوں کو توبہ اور اتصال با حق کی نیت سے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا اور یہ تاثیر اربعین کے ایام میں دو سے چند ہوتی گئی یہاں تک کہ کتاب اربعین کے مصنف قاضی طباطبائی نے دعویٰ کیا ہے کہ آئمہ معصومین علیهم السلام کے ادوار میں ہی اربعین واک کا انعقاد شروع ہو چکا تھا نیز بنوامیہ اور بنوعباس کی سفاکیاں بھی عشق اربعین حسینی کے انعقاد میں رکاوٹ بننے میں ناکام رہیں حتی کہ تاریخ میں کئی بار ظالم بادشاہوں نے ضريح مبارک امام ع کو منہدم کر کے لوگوں کے دلوں سے حرارت حسینی نکالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن بری طرح ناکام رہے بلکہ نتیجے میں عشق حسینی کی حرارت مزید بڑھتی چلی گئی۔
اربعین واک(مشی) تاریخ کے نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی مشہور ڈکٹیٹر صدام لعین کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو گئی صدام نے اس واک کو روکنے کے لیے کئی ہتھکنڈے اپنائے لیکن ناکام رہا، مکتب عاشورا کے پروردہ متوالوں نے اپنے اعضاء کٹوا کر بھی اس پیادہ روی (مشی) کی عاشقانہ سنت کو قائم رکھا اور ایک دفع صدام ملعون کی طرف سے اربعین واک پر سخت پابندی تھی لیکن نجف اشرف کے علماء اور عوام نے ان سخت حالات میں بھی اپنا وظیفہ ادا کیا اور گولیوں کی بوچھاڑ میں کئی علماء و زائرین شہید و زخمی ہوئے نیز مشہور مجتہد علامہ سید باقر الحکیم کو عمر قید اور علامہ عابد عسکری و سید حسین فضل اللہ، صدام کے چنگل سے بچ کر بیرون ملک نکلنے میں ہو گئے جنہیں غائبانہ سزائے موت سنائی گئی لیکن اربعین واک کوئی نہ روک سکا بلکہ روکنے والے دو ظالم امریکہ اور صدام آپس میں ٹکرا کر واصل جہنم ہو گئے اور مشی آج بھی جاری ہے کرونا پابندیوں سے پہلے اس اربعین واک میں دنیا بھر سے عاشقان حسین ع کی جانانہ شرکت 3 کروڑ سے زائد تک جا پہنچی تھی اور آج یہ اربعین واک شھر شھر اور قریہ قریہ تک پیشقدمی کر چکی ہے درحقیقت یہ خون پاک سید الشهدا کی تاثیر ہے کہ جو اربعین جیسے خاص ایام آتے ہی پاک طینت افراد کو بے چین کر کے گلی کوچوں میں دھکیل دیتی ہے۔
آج اس دور میں اربعین واک دنیا کے سب سے بڑے اجتماع میں تبدیل ہو چکی ہے جسے مقام معظم رہبری نے تمدن اسلامی کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے یہ پیادہ روی درحقیقت اسلام و تشیع کی وہ طاقت ہے جس میں انسانیت کا شفاف چہرہ نکھر کر سامنے آتا ہے نیز یہی الھی رنگ ہے جسکا قرآن نے تذکرہ کیا ہے اور جو انسانی ہمدردیوں اور ایثار جیسی اعلی اقدار سے لبریز ہے اور اسی مشی اربعین کے تربیت یافتہ جوانوں نے داعش اور امریکہ کو شکست دے کر حرم حضرت زینب س اور کروڑوں بے گناہ مظلوموں کی جان کی حفاظت کی ہے اور انشاءاللہ حرارت حسینی سے لبریز یہ تحریک اپنا علم امام عصر عج کے ہاتھ میں تھما کر سرخرو ہو گی۔