پیشکش: مؤسسه تحقيقاتي حضرت وليّ عصر عج
ترجمہ:مولانا سیدحیدر عباس دانش
امام حسین علیہ السلام کے لئے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گریہ:
حضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیحد الفت ومحبت سے نا جانے کتنے افراد متعجب ہوئے اور آج بھی محو حیرت ہیں ۔آج بھی یہ لوگ خود سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ آخر کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسہ کا اتنا بوسہ لیا کرتے تھے؟کیوں انہیں اپنی آغوش میں لے کر مہر ومحبت فرماتے تھے؟کیا اس کی وجہ صرف عطوفت تھی اور مثلا ً ایک نانا ہونے کے اعتبار سے اپنے جذبات کا اظہار فرماتے تھے؟یا یہ کہ اس کے پس پردہ کوئی اور حکمت وراز پوشیدہ ہے؟
پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں اس سوال کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے ۔مندرجہ ذیل سطور میں بطور اختصار چند نمونے قابل مشاہدہ ہیں :
۱:رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے بیٹے حسین کی ولادت کے ابتدائی دنوں میں گریہ:
مستدرک الصحیحین ، تاریخ ابن عساکر اور مقتل خوارزمی کے علاوہ دیگر کتب میں ام فضل بنت حارث سے یوں نقل ہوا ہے :
ام فضل بنت حارث نےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ی دیتے ہوئے فرمایا:یا رسول اللہ!گذشتہ شب میں نے ایک برا خواب دیکھا ۔ حضرت نے فرمایا:کیا خواب دیکھا؟عرض کی:برا خواب تھا ۔کچھ اس طرح کی گویا آپ نے اپنے بدن کا ایک ٹکڑا قطع کیا اور اسے میری آغوش میں رکھا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:بہتر ہے ۔فاطمہ۔انشاء اللہ۔ایک بیٹے کو جنم دے گی جسے تمہاری آغوش میں قرار دے گی۔کچھ عرصہ کے بعد فاطمہ نے حسین کو جنم دیا اور اسی طرح جیسے پیغمبر نے فرمایا تھا میری آغوش میں قرارپایا۔یہاں تک کہ ایک دن میں حضرت کی خدمت میں پہنچی اور حسین کو آنحضرت کی آغوش میں دیا ؛حضرت نے مجھے دیکھا اور آپ کی آنکھیں اشک آلود ہو گئیں ۔میں نے عرض کی:اے نبی خدا!ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا ہواہے؟حضرت نے فرمایا:جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نےمیرے پاس آکر مجھے یہ خبر دی کہ عنقریب میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی۔میں نے عرض کی:اسی حسین کو؟فرمایا:ہاں!اور یہ اس سرزمین(کربلا) کی کچھ سرخ خاک ہے۔
حاکم نیشاپوری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
یہ حدیث شیخین (بخاری ومسلم)کے نزدیک صحت کے شرائط رکھتی ہے لیکن ان دونوں نے اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے۔
مستدرك الصحيحين، ج 3، ص 176 و با اختصار در ص 179 ـ تاريخ شام در شرح حال امام حسين عليه السلام: ص 183 رقم 232 ـ مجمع الزوائد، ج 9، ص 179 ـ مقتل خوارزمي، ج 1، ص 159 و در ص 162 با لفظ ديگر ـ تاريخ ابن كثير، ج 6، ص 230 و با اشاره در ج 8، ص 199 ـ أمالى السجرى، ص 188. و مراجعه شود به: الفصول المهمه ابن صباغ مالكى، ص 154 و الروض النضير، ج 1، ص 89، و الصواعق، ص 115، و كنز العمال چاپ قديم، ج 6، ص 223، و الخصائص الكبرى، ج 2، ص 125.
۲:رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا اپنے بیٹے حسین کے ایک سال مکمل کرنے پر گریہ:
خوارزمی اپنے مقتل میں تحریر کرتے ہیں :
جب امام حسین علیہ السلام ایک سال کے مکمل ہوئے،بارہ ملائکہ خون آلود صورت اور بال وپر پریشان کئے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئے ،اور آنحضرت کو حسین علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے حادثات کی خبر سنائی۔
مقتل الحسين، ج 1، ص 163۔
اگر چہ مذکورہ روایت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صراحت نہیں پائی جاتی لیکن آنحضرت کا گریہ باقی دیگر روایات سے قطعی اور یقینی ہے۔
۳: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا اپنے بیٹے حسین کے دو سال مکمل کرنے پر گریہ:
ابن عباس سے روایت ہوئی ہے :جب حسین علیہ السلام دو سال کے مکمل ہوئے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سفر پر تھے ،راستہ میں ہی آپ نے توقف فرمایا اور کلمہ استرجاع کی تلاوت فرمائی {انا للہ وانا الیہ راجعون}اور آپ کی آنکھوں سے اشک جارہ ہو گیا،حضرت کے اس عمل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:جبرئیل نے ابھی مجھےساحل فرات پر موجود سرزمین{ کہ جسے کربلا کہا جاتا ہے }کی خبر دی ہے جہاں میرا بیٹا حسین ابن فاطمہ شہید کیا جائے گا ۔پوچھا گیا:یا رسول اللہ کون انہیں قتل کرے گا؟فرمایا:یزید نامی ایک شخص۔لا بارک اللہ فی نفسہ ۔[خدا اس کا برا کرے]اور گویا میں اسے اس کی قتل گاہ میں دیکھ رہا ہوں ،جبکہ اس کے سر کو بطور ہدیہ لے جا رہے ہیں واللہ!کوئی نہیں جو میرے فرزند حسین کے بریدہ سر کو دیکھ کر شاد ہو مگر یہ کہ خدا وند عالم اس کے دل اور زبان میں جدائی کر دے ۔
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر سے واپس آئے ،حزن وملال کے ساتھ منبر پر گئے اور لوگوں کے لئےخطبہ ارشاد فرمایا نیز وعظ و نصیحت فرمائی۔اس موقع پر حسین ابن علی اپنے بھائی حسن کے ساتھ رسول اللہ کے پاس موجود تھے ،جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان تمام ہوا تو آپ نے اپنا داہنا ہاتھ حسن کے سر پر اور بایاں ہاتھ حسین کے سر پر رکھا اور آسمان کی جانب سر اٹھاتے ہوئے فرمایا:خدایا!میں محمد تیرا بندہ اور تیرا پیغمبر ہوں اورروئے زمین پر یہ دونوں بہترین عترت،ذریت اور میرے جانشین ہیں ،خدایا!جبرئیل نے مجھے با خبر کیا کہ میرا یہ فرزند قتل کیا جائے گا۔خدایا!اس کے قتل کو اس کے لئے آسان کر دے اور اسے سید الشہداء قرار دے کہ تو ہر چیز پر قادر و طاقت رکھنے والا ہے،خدایا!اس کے قاتل کو ذلیل ورسوا کر۔اس وقت مسجد میں موجود سبھی گریہ وزاری کرنے لگے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:گریہ و زاری کر رہے کیا اس کی مدد نہیں کرو گے؟خدایا!تو ہی اس کا ولی وناصر بن جا۔
ابن عباس کہتے ہیں :اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم دوبارہ واپس آئے اور گلو گرفتگی کے ساتھ پریشانی کے عالم میں ایک بلیغ اور مختصر تقریر فرمائی اس حالت میں کہ آپ کی آنکھ اشک سے لبریز تھی ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا:اے لوگو!میں تمہارے درمیان ثقلین یعنی کتاب خدا اور اپنی عترت ،اپنی موت کے لئے راحت کا سبب اور میوہ دل کو چھوڑ کر جا رہا ہوں اور یہ دونوں کسی بھی صورت ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے نزدیک مجھ سے ملحق ہوں گے ،جان لو کہ میں تم لوگوں سے ان کے بارے میں وہی چاہتا ہوں جس کا خدا وند عالم نے مجھے حکم دیا ہے یعنی میری عترت کی مودت،خبردار!کہیں ایسا نہ ہو کہ تم مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات نہ کرو اس عالم میں کہ تم نے میری عترت اور ذریت کے حق میں ظلم کیا ہو،آگاہ ہو جائو!جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے فرزند حسین کو سرزمین کرب وبلا میں شہید کرے گی۔جان لو!اس کے قاتل پر قیامت تک خدا وند عالم کی لعنت رہے گی ۔
ابن عباس کہتے ہیں :اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبرسے نیچے آئے اور اب اس کے بعد ہر ایک مہاجر وانصار کو حسین کے قتل کئے جانے کا یقین ہو چکا تھا ۔
الفتوح، أحمد بن أعثم الكوفي، ج 4، ص 325.
۴:رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی امت کے ذریعہ آپ کے ہی خاندان کے بارے میں کینہ و کدورت کے اظہار پر گریہ:
یونس ابن حباب ،انس ابن مالک سے روایت کرتے ہیں :رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ تھے اور مدینہ کے اطراف میں موجود ایک باغ کے کنارے سے گزر رہے تھے،حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی:یا رسول اللہ!کتنا خوبصورت باغ ہے؟فرمایا:بہشت میں موجود تمہارا باغ اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔یہاں تک کہ ہم دیگر سات باغات سے گزرے اور یہی گفتگو ان دو بزرگوں کے درمیان رد وبدل ہوتی رہی ،اس کے بعد رسول خدا نے توقف فرمایااور ہم بھی آپ کے ساتھ رک گئے ،رسول خدا نے اپنا سر حضرت علی کے کاندھے پر رکھتے ہوئے گریہ فرمایا،علی علیہ السلام نے عرض کی:یا رسول اللہ!یہ گریہ کس لئے؟حضرت نے فرمایا:وہ بغض و کینہ جو اس قوم کے سینوں میں مخفی ہے اور یہ لوگ اس کا اظہار نہیں کریں گے مگر میری وفات کے بعد ۔
مجمع الزوائد، ج 9، ص 118 ـ كنز العمال، ج 13، ص 176ـ شرح نهج البلاغه، ج 4، ص 107ـ المناقب خوارزمي، ص 65 ـ ينابيع الموده،ج 1، ص 134.
۵: جناب ام سلمہ کی حدیث:
جناب ام سلمہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک پاک طینت زوجہ ہیں جنہوں نے آنحضرت کی زندگی وسیرت کے مختلف پہلو ہم تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آپ حسین ابن علی پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گریہ کو اس طرح بیان فرماتی ہیں :
ایک روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حجرے تھے آپ نے فرمایا:کسی کو بھی میرےحجرے میں داخل ہونے کا حق نہیں ہے،میں کمرے کے باہر منتظر تھی کہ کب مجھے اندر جانے کی اجازت ملے گی،اسی اثنا میں امام حسین علیہ السلام پیغمبر اکرم کے محضر مبارک میں پہنچے ،گریہ کی آواز میرے کانوں تک پہنچی ،تحقیق وجستجو کی خاطر میں مجبور تھی کہ حجرے کے اندر دیکھوں،میں نے دیکھا حسین رسول خدا کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے اور پیغمبر ان کی پیشانی پر اپنا ہاتھ پھیر تے ہوئے گریہ فرما رہے تھے۔ میں نے عرض کی:خدا کی قسم !مجھے گھر میں حسین کی آمد کی اطلاع نہ تھی و گر نہ انہیں آپ کے حجرہ میں داخل نہ ہونے دیتی۔حضرت نے فرمایا:ابھی جبرئیل ہمارے ساتھ تھے اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا: یا رسول اللہ!کیا آپ اپنے حسین کو چاہتے ہیں؟میں نے جواب میں کہا:ہاں!جبرئیل نے کہا:عنقریب آپ کی امت اسے کربلا نامی سرزمین پر قتل کر دے گی۔اس کے بعد اس سرزمین کی کچھ خاک مجھے دکھائی۔
مجمع الزوائد، ج 9، ص189.
اس حدیث کے ناقل ھیثمی روایت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
اس روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے اور اس کے اسناد میں سے ایک کے راوی سب کے سب موثق ہیں ۔
مجمع الزوائد، ج 9، ص189.
وہ دوسری حدیث کے بارے میں کہتی ہیں :
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:حجرہ کلے دروازے پر بیٹھ جائو اور کسی کو اندر آنے کی اجازت مت دینا ۔میں حجرے کے دروازے پر بیٹھی تھی کہ حسین گھر میں داخل ہوئے اور جیسے میں نے انہیں رسول خدا کے حجرے میں جانے سے روکنا چاہا وہ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی حجرے میں داخل ہو گئے۔میں بھی اندر گئی اور عرض کی:اے نبی خدا!آپ پر قربان جائوں آپ نے مجھے دوسروں کے اندر آنے سے روکنے پر مامور کیا تھا لیکن آپ کےفرزند آ گئے ہیں اور میں انہیں نہ روک سکی۔
کچھ وقفہ کے بعدمیں دوبارہ حجرے میں گئی میں نے دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں پر کوئی چیز ہے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔میں نے وجہ جاننی چاہی،حضرت نے فرمایا:جبرئیل ابھی آئے تھے اور مجھے با خبر کر کے گئے کہ میری امت اسے قتل کرے گی ۔جبرئیل اس سرزمین کی کچھ خاک میرے لئے لے کر آئے تھے جو اس وقت میری ہتھیلیوں پر ہے۔
المعجم الكبير، طبراني، ج 3، ص109 ـ مسند ابن راهويه، ج 4، ص 131.
۶:جناب عائشہ کی حدیث:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی دوسری زوجہ جناب عائشہ کہتی ہیں :
حسین ابن علی علیہ السلام ،رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب آنحضرت جبرئیل امین سے وحی سننے میں مشغول تھے۔جبرئیل نے پوچھا:اے محمد!کیا آپ حسین کو چاہتے اور اس سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا:کیوں اپنے فرزند سے محبت نہ کروں؟جبرئیل نے کہا:آپ کی امت آپ کے بعد اسےقتل کر دے گی ۔اس کے بعد جبرئیل نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور سفید خاک دیتے ہوئے کہا :آپ کے فرزند کو ''طف''نامی جگہ پر قتل کیا جائے گا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعض اصحاب جیسے علی،ابوبکر،عمر،حذیفہ،عمار اور ابوذر سے اشک آلود آنکھوں کے ساتھ متصل ہوئے۔آنحضرت کے اصحاب نے دیکھتے ہی دریافت کیا:کس چیز نے آپ کو رونے پر مجبور کر دیا ہے؟آپ نے فرمایا:جبرئیل نے مجھے میرے فرزند حسین کی سرزمین طف پرشہادت کی خبر سنائی ہے،اور یہ خاک اسی جگہ سے میرے لئے لے کر آئے جہاں اسے دفن کیا جائے گا ۔
المعجم الكبير، طبراني، ج 3، ص107ـ مجمع الزوائد، ج 9، ص187 ـ ابن عساكر، ترجمه الإمام الحسين عليه السلام، ج7، ص 260.
۷: امام حسین علیہ السلام کی شہاست کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزاداری:
سلمی کہتے ہیں:میں ام سلمہ کے پاس گیا جبکہ آپ گریہ فرما رہی تھیں ،میں نے پوچھا یہ گریہ کس لئے؟آپ نے فرمایا:میں نے رسول خدا کو خواب میں دیکھا اس عالم میں کہ آپ کے سر کے بال اور ڈاڑھی خاک آلود تھی،عرض کی:یا رسول اللہ!یہ آپ کو کیا ہوا ہے؟(کیوں آپ کو اس حال میں دیکھ رہی ہوں)؟آپ نے فرمایا:میں اس وقت حسین کی شہادت کا منظر دیکھ رہا تھا۔
سنن ترمذي، ج 12، ص 195، كتاب فضائل الصحابه باب مناقب الحسن و الحسين.
اس مختصر سی تحریر میں جیسا کہ آپ قارئین نے ملاحظہ فرمایا کہ رسول خدا بھی امام حسین علیہ السلام پر گریہ و عزاداری فرماتے تھےوہ بھی واقعہ عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے سالہا قبل ،جس سے عزاداری کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔کیا مذکورہ بالا اتفاقات میں پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت وسنت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری پر بہترین شرعی دلیل نہیں بن سکتی؟؟؟
فاعتبروا یا اولی الابصار