امام الائمہ امام جعفر صادق علیہ السلام بزرگان دین کی نظر میں
1411
m.u.h
06/06/2020
0 0
سیدحمیدالحسن زیدی
الاسوه فاؤنڈیشن سیتاپور
حضرت امام جعفر صادقؑ مشہور قول کی بنا پر ۱۷؍ربیع الاول ۸۳ ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد امام محمد باقر ؑاور والدہ ماجدہ فاطمہ ام فروہ بنت قاسم ابن محمد تھیں القاب صادق، فاضل، طاہر، قائم، کافل، منجی اور صابر تھے آپ کی کنیت ابو عبد اللہ، ابو اسماعیل اور ابو موسیٰ تھی۔ ۱۵ یا ۲۵ ؍شوال ۱۴۸ھ کو ۶۵ سال کی عمر میں آپ کی شہادت ہوئی اور آپ کا جسد مطہر قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ بارہ سال تک اپنے جد امام زین العابدین ؑکے ساتھ رہے اور انیس سال اپنے والد امام محمد باقر ؑکے ہمراہ زندگی بسر کی آپ کی امامت کا زمانہ چونتیس سال تھا ۔ (۱)
شخصیت اور اسکے بارے میں علماءو فقہاکے بیانات
امام جعفر صادقؑ حسب و نسب، علم و فقہ عبادت و عرفان سیر و سلوک اور اخلاقی کمالات میں اپنے زمانے کی سب سے عظیم اور سب سے مشہور شخصیت تھے جس کی بہت سے بزرگ علماء نے گواہی دی ہے۔
مدینہ کے فقیہ مالک ابن انس نے آپ کے بارے میں کہا ہے: کہ میں کبھی کبھی جعفر ابن محمد صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا وہ میرا احترام کرتے تھے میرے لئے مخدہ (عبا) بچھاتے تھے اور فرماتے تھے مالک میں تمہیں دوست رکھتا ہوں میں آپ کے اس عمل سے خوش ہوتا تھا اور خدا کا شکر ادا کرتا تھا میں دیکھتا تھا کہ آپ ہمیشہ ان تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں رہتے تھے یا روزہ سے ہوتے تھے یا نماز میں مصروف رہتے تھے یا ذکر الٰہی میں مشغول ہوتےتھے لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار سب سے بڑے زاہد اور سب سے زیادہ مہربان تھے بہت زیادہ حدیثیں بیان فرماتے تھے آپ کے ساتھ نشست میں لطف آتا تھا اور اور اس سے بہت فائدہ حاصل ہوتا تھا۔ جب پیغمبر اسلاؐم کے حوالہ سے کوئی حدیث نقل کرتے تھے آپ کے چہرہ کا رنگ اس طرح زرد یا سبز ہو جاتا تھا کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا تھا۔ مجھے ایک سال آپ کے ہمراہ حج کا شرف حاصل ہوا جب آپ نے احرام کے لئے تلبیہ (لبیک اللّٰہم لبیک) کہنا چاہا تو آپ کی آواز گلے میں گھٹ کر رہ ہوگئی اور آپ تلبیہ نہیں کہہ سکے آپ کی حالت ایسی ہوگئی کہ قریب تھا اپنے مرکب سے زمین پر گر جائیں میں نے عرض کیا: فرزند رسولؐ تلبیہ کہنا ضروری ہے۔ تو آپ نے فرمایا: اے ابن عامر لبیک اللّٰہم کہنے کی جرأت کس طرح کروں جب کہ مجھے خوف ہے کہیں خداوند عالم جواب میں ’’لا لبیک و لا سعدیک‘‘ نہ کہہ دے۔ (۲)
مالک ابن انس کا بیان ہے: خدا کی قسم میں نے زہد، فضل، عبادت اور پرہیزگاری میں جعفر ابن محمد سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔ (٣)
عمرو ابن ابی المقدام کا بیان ہے: میں نے جب جعفر ابن محمد کی طرف دیکھا فوراً سمجھ گیا کہ یہ پیغمبر اسلاؐم کی نسل سے ہیں۔ (۴)
زید ابن علی ؑ فرماتے ہیں کہ ہر زمانے میں ہم اہلبیتؑ میں سے کوئی نہ کوئی شخص ایسا موجود رہتا ہے جس کے ذریعہ خد ااپنے بندوں پر حجت تمام کرتا ہے اس زمانے کی حجت میرے بھتیجے جعفر ابن محمد ہیں جو ان کی پیروی کرے گا گمراہ نہیں ہوگا اور جو ان کی مخالفت کرے گا اس کی ہدایت نہیں ہوسکتی۔ (٥)
اسماعیل ابن علی ابن عبد اللہ ابن عباس کا بیان ہے کہ میں ایک دن ابو جعفر منصور کے پاس گیا دیکھا وہ رو رہا ہے اور اس کی ڈاڑھی اس کے آنسوؤں سے تر ہے اس نے مجھ سے کہا تمہیں نہیں معلوم ہے اہلبیت ؑپر کیسی مصیبت پڑی ہے۔ میں نے عرض کیا: کیا کوئی حادثہ پیش آیا ہے؟ اس نے کہا دنیا کے سید سردار اور صالحین کی یادگار کی رحلت ہوگئی ہے میں نے سوال کیا کس کی اس نے جواب دیا : جعفر ابن محمد ؑ کی۔ میں نے عرض کیا خداوند عالم اس مصیبت میں آپ کواجر اور طول عمر عطا کرے اس نے کہا جعفر ابن محمد ؑان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں خداوند عالم کا ارشاد ہے {ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا} جعفر ان لوگوں میں سے تھے جن کو خدانے منتخب کیا ہے اور وہ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے تھے۔ (٦)
ابن حیان نے جعفر ابن محمد کو موثق افراد میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ فقہ، علم اور فضل میں اہلبیتؑ کے بزرگوں اور سرداروں سے تھے ان کی احادیث کے ذریعہ دلیلیں پیش کی جاتی ہیں(۷)
شہرستانی نے امام جعفر صادقؑ کے بارے میں لکھا ہے: وہ دین اور ادب میں مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے حکمت اور دنیا سے زہد کے سلسلہ میں کمال کی منزل پر فائز اور صاحب تقویٰ تھے خواہشات نفسانی سے پرہیز کرتے تھے کچھ عرصہ مدینہ میں رہے وہاں آپ کے شیعہ اور آپ کے چاہنے والے آپ کے علوم سے فائدہ اٹھاتے رہے اس کے بعد عراق تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ وہاں قیام کیا۔ (۸)
احمد ابن حجر ہیثمی نے لکھا ہے: امام محمد باقر ؑکی اولاد میں سب سے بہتر امام جعفر صادقؑ تھے اسی وجہ سے آپ اپنے والد کے خلیفہ اور ان کی وصی قرار پائے لوگوں نے آپ سے بہت سے علوم نقل کئے ہیں جو پوری اسلامی دنیا میں مشہور ہوئے۔ دین کے بڑے بڑے رہنماؤں نے بھی آپ سے احادیث نقل کی ہیں جیسے یحییٰ ابن سعید ابن جریح، مالک،سفیانی، ابو حنیفہ شعبہ، ایوب سجستانی۔ (۹)
ابن صباغ مالکی نے تحریر کیا ہے : جعفر ابن محمد اپنے بھائیوں کے درمیان اپنے والد کے خلیفہ وصی اور ان کے بعد امام تھے فضائل، ذہانت اور عظمت و جلالت میں سب سے بہتر تھے لوگوںنے بہت سے علوم آپ سے نقل کئے ہیں جن کا چرچا ہر جگہ ہوا کرتا تھا جتنی احادیث آپ سے نقل ہوئی ہیں اہلبیتؑ میں کسی اور سے نقل نہیں ہوئی ہیں۔ (١۰)
محمد ابن طلحہ شافعی نے لکھا ہے: جعفر ابن محمد صادقؑ اہلبیت ؑکے بزرگوں اور سرداروں میں سے تھے آپ بہت سے علوم کے حامل، بہت عبادت گذار، ذکر الٰہی میں مشغول رہنے والے، زاہد اور بہت زیادہ تلاوت قرآن کرنے والے تھے۔ قرآن کریم کے معانی میں غور فرماتے تھے اور علوم قرآن کے سمندر سے جواہرات نکالتے اور عجیب و غریب نتائج حاصل کرتے تھے اپنی عمر کو مختلف قسم کی طاعات و عبادات کے لئے تقسیم کر رکھا تھا اور اس سلسلہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہتے تھے آپ کی زیارت انسان کو آخرت کی یاد دلاتی تھی آپ کی باتوں کو سن کے انسان زہد اختیار کرنے پر مائل ہو جاتا تھا اور آپ کے اتباع میں جنت کی ضمانت تھی۔ آپ کو دیکھ کر ہر شخص آپ کے پاکیزہ کردار اور اولاد رسولؐ ہونے کی گواہی دیتا تھا۔ بہت سے دینی رہنماؤں اور علماء نے آپ سے احادیث نقل کی ہیں جیسے یحییٰ ابن سعید المناری ، ابن جریح، مالک ابن انس ثوری، ابن عینیہ ، شعبہ، ایوب سجستانی وغیرہ ۔یہ لوگ آپ سے حدیث نقل کرنا اپنے لئے باعث شرف سمجھتے تھے اور اس میں اپنی تعریف سمجھتے تھے۔ (۱١)
شیخ مفید نے آپ کے بارے میں لکھا ہے: صادق جعفر ابن محمد ابن علی ابن الحسین ؑاپنے بھائیوں کے درمیان اپنے والد کے وصی خلیفہ اور ان کے بعد امام معین ہوئے آپ فضائل کے اعتبار سے سب سے افضل تھے شیعہ اوراہل سنت دونوں ہی کی نظر میں سب سے زیادہ مشہور اور صاحب عظمت و جلالت تھے آپ کے علوم تمام شہروں میں پھیلے ہوئے تھے اہلبیتؑ میں کسی سے بھی اتنی زیادہ احادیث نقل نہیں ہوئی ہیں علماء حدیث نے آپ کی روایت نقل کرنے والے موثق راویوں کی تعداد چار ہزار بتائی ہے۔ (١۲)
حوالے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)بحار الانوارج٣۷ ص ١١-١
(۲)بحار الانوار، ج۴۷، ص۱۶
(٣)بحار الانوار، ج۴۷، ص۲۰؛ مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۲۹۷،؛ حلیۃ الاولیائ، ج۳، ص۱۹۳
(۴)بحار لانوار، ج۴۷، ص۲۹؛ تہذیب التہذیب، ج۲، ص۱۰۴؛ مناقب آل ابی طالبؑ، ج۴، ص ۲۷۰
(٥)مناقب ابن شہر آشوب، ج۴، ص۲۹۹
(٦)تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۳۸۳
(۷)تہذیب التہذیب، ج۲، ص۱۰۴
(۸)الملل و النحل، ج۱، ص۱۶۶
(۹)الصواعق المحرقہ، ص۲۰۱
(١۰)الفصول المہمہ، ص۲۰۴
(۱١)مطالب السؤول، ج۲، ص۱۱۰
(١۲)الارشاد، ج۲، ص۱۷۹