مولاناسید علی امیر رضوی
حوزہ علمیہ قم المقدسہ، ایران
فروع دین میں فریضہ حج کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اس فریضہ کو اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ایک قرار دیا گیا ہے جس پر اسلام کی عالیشان عمارت قائم ہے۔ امام باقرؑ فرماتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے، نماز، زکات،روزہ،حج اور ولایت۔
علماء نےعبادات کے تین مرحلے بیان کئے ہیں ؛احکام، آداب اور اسرار۔احکام سے مرا د وہ الہی فرامین ہیں جو کسی عبادت کے صحت و بطلان سے متعلق ہوں یعنی کچھ ایسے دستور و فرامین جن کی رعایت کسی عمل کی شرعی حیثیت کو قائم کرنے اور اسے صحیح قراد دینے میں مؤثر ہوں اورکچھ ایسے کاموں سے پرہیز جو کسی عمل کے باطل ہونے کا سبب بنیں؛ اس طرح کہ ان دستورات کی رعایت کے بعد بندہ اس عمل سےسبکدوش ہو جائے اور اس عمل کو دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہ ہو۔
احکام کے بعد آداب کی منزل آتی ہے۔آداب در حقیقت بندہ کے عمل کو ایک درجہ اوپر لے جاتے ہیں اور اس میں ایسی باتوں کی رعایت کا دستور دیا جاتا ہے جس سے عمل میں مزید حسن و جمال پیدا ہو جائے اور عام طور پراِن دستورات کی بازگشت عمل انجام دینے والے کے احوال و اوصاف کی طرف ہوتی ہے۔ لیکن اسرار کسی شرعی عمل کا آخری مرحلہ ہے۔
اسرار ،سر ّکی جمع ہے اور سر ّعلن کے مقابلہ میں ہے جس کے معنی راز کے ہیں۔ علن ظاہر عمل سے متعلق ہوتا ہے اور سرّ باطن عمل سے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرار سے مراد کسی بھی عبادت کے باطنی پہلو ہیں جن تک ظاہر کی پابندی کے ذریعہ ہی پہنچا جا سکتا ہے کیونکہ جب تک ظاہر موجود نہ ہو تب تک باطن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ظاہر و باطن دو متقابل مفاہیم ہیں یعنی ایک کے تصور سے خود بخود دوسرے کا تصور ذہن میں آ جاتا ہے جیسے اوپر اور نیچے کہ یہ دونوں تصور ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ اور متقابل ہیں۔
زیر نظر مقالہ میں حج کے اسرار پراختصار سے روشنی ڈالنا مقصود ہے حالانکہ جس طرح حج کے احکام کافی مفصل اور پیچیدہ ہیں اسی طرح اس کے آداب اور اسرار بھی مزید تفصیلی اور پیچیدہ ہیں لیکن ہماری کوشش یہ ہوگی کہ حج کے اسرار کا ایک مختصر جائزہ لے سکیں تاکہ اسلا م کی اس عظیم عبادت کےکچھ اسرار سے واقفیت ہو سکے اور جوحاجی حضرات آئندہ برسوں میں اس عظیم و مبارک سفر پر جائیں وہ کسی حد تک اس کے اسرار سے آشنا ہو کر جائیں اور یہاں سے معرفت کا زاد سفر ہمراہ ہو تاکہ ارکان حج انجام دیتے وقت زیادہ محظوظ او ر لطف اندوز ہو ں اور ان کی معرفت میں اضافہ ہو سکے۔
حج کی تین قسمیں ہیں ، قران ، افراد اور تمتع لیکن دنیا کے اکثر و بیشتر مسلمان حج تمتع ہی انجام دیتے ہیں لہذا ہم یہاں حج تمتع کے اسرار کو زیر بحث قرار دیں گے ۔
حج تمتع ایک عمرہ اور ایک حج پر مشتمل ہوتا ہے جس میں عمرہ حج سے قبل انجام دیا جاتا ہے اور اس عمرہ کو حج تمتع کی نسبت سے ہی’’عمرہ تمتع‘‘ کہا جاتا ہے ۔
عمرہ تمتع کا آغاز میقات پر احرام سے ہوتا ہے لہذا ہم سب سے پہلے احرام کے کچھ اسرار سے پردہ اٹھائیں گے ۔
۱۔ احرام کے اسرار
احرام وہ لباس ہےجسے میقات پر پہننے کے بعد حاجی پر چند چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جیسے نماز کے لئے تکبیرۃ الاحرام کہنے کے بعد نمازی پر کچھ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں۔ احرام دراصل بندگی اور دل کی طہارت و نور انیت کی علامت ہے۔احرام حق کی راہ پر چلنے اور اطاعت خداوندی کی مشق ہے۔ جب ایک حاجی میقات پر احرام باندھتا ہے تو گویا اسے ایک نئی زندگی ملتی ہے اور وہ پھر سے دنیا میں آتا ہے۔اپنے سارے لباسوں کو اتار کر حاجی گویا یہ عہد کرتا ہے کہ لباس معصیت کو بھی جسم سے اتار پھیکےا گا۔ غسل کرکے خود کو گناہوں سے پاک کرتا ہے تاکہ طہارت جسم و روح کے ساتھ احرام کا لباس زیب تن کرے۔ ایک سفید، پاک اور حلال لباس جو اطاعت الہی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
احرام کا لباس کفن سے مشابہ ہوتا ہے اور میقات میں حاضری گویا قیامت میں رب کے حضور جانے کے مثل ہے۔ اور سفید لباس احرام پہننے میں ایک راز یہ ہے کہ حالت احرام میں ہر امیر و غریب، چھوٹا بڑا، ہر نسل و نسب اورقوم و قبیلہ کا انسان ایک ہی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ سب کا لباس سفید ہوتا ہے گویا پروردگار اپنے گھر بلانے سے پہلے تمام مسلمانوں کو ایک رنگ میں دیکھنا پسند کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ حج اتحاد کا ایک عظیم نمونہ بن جائے ۔ لباس کا اتحاد دلوں کے اتحاد کے لئے زمین ہموار کر دے۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ تمام حاجی ایک ہی رنگ کا لباس احرام پہن کر ’’صبغہ الہی‘‘ یعنی الہی رنگ میں خود کو رنگنے کے لئے آمادہ ہو جائیں اور جیسا کہ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ ’’و من احسن من اللہ صبغا‘‘ الہی رنگ سے زیادہ بہتر رنگ کون سا ہے؟!
لباس احرام پہنتے وقت تلبیہ کہی جاتی ہے ۔تلبیہ یعنی ’’لبیک اللھم لبیک ‘‘ کہہ کر گویا حاجی عالم ذر میں کئے جانے والے عہد ’’الست بربکم قالوا بلی‘‘ کی تجدید کرتا ہے اور دعوت حق پر لبیک کہتا ہے۔اس وقت بندہ مالک سے یہ کہتا ہے کہ میں تیری خدمت کے لئے حاضر ہوں اور ایسی حالت میں انسان کا دل نرم و شکستہ ہوجاتا ہے اور اشک آنکھوں سے رواں ہو جاتے ہیں کیونکہ حاجی خو د کو اللہ کے گھر کا مہمان محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے اور اسے اس بات کی فکر ستاتی ہے کہ کیا میں اس گھر اور ایسی مہمانی کی شان کے مطابق خود کو آمادہ بھی کر پایا ہوں یا نہیں ؟! اگر میری صدائے لبیک پر مالک کا جواب یہ ہوا کہ تو حاضر ہے لیکن میں تجھے اپنی بارگاہ میں قبول کرنے پر حاضر نہیں ہوں تو میرا کیا ہوگا؟!
اِن تمام حالات کے باوجود بندہ اپنی جانب سے اتنی بار اس جملہ کی تکرار کرتا ہے کہ کریم مالک کا دریائے رحمت جوش میں آ جائے اور و ہ بھی جواب دے ہی دے کہ آ میرے بندے !میں بھی تیرے لئے حاضر ہوں اور میرا گھر بھی تیری پذیرائی کے لئے حاضر ہے اور اس دل نشیں جواب کو بندہ اپنےدل کے کانوں سے سن لے۔
روایات میں ہے کہ امام صادقؑ نے جیسے ہی لباس احرام زیب تن کیا اور لبیک کہنا چاہا تو صدائے گریہ سے آواز گلے میں رُندھ گئی اور جتنی بھی کوشش کی تلبیہ زبان سے جاری نہ ہو سکی ، کسی نے امام ؑ سے عرض کیا ، کیوں رکے ہیں اور تلبیہ نہیں کہتے؟ امام ؑ نے فرمایا: کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہوں خدایا ! میں آ گیا ہوں لیکن ادھر سے جوا ب یہ آئے کہ مجھے تمہارا آنا قبول نہیں ہے !
۲۔ طواف کا راز
میقات میں احرام کے بعد حاجی مکہ کی جانب روانہ ہوتا ہے اور اس شہر امن میں پہنچ کر ایک خاص طرح کا امن و سکون محسوس کرتا ہے۔ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی حاجی ماضی کی یادوں میں کھو جاتا ہے۔ تصور میں حضرت ابراہیم ؑ کی تصویر آ جاتی ہے جو اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ خانہ ٔ کعبہ کی تعمیر نو میں مشغول ہیں۔ جناب ہاجرہ کی یاد آ جاتی ہے جو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ حجر اسماعیل میں مدفون ہیں ۔ حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ؐ کا تصور ذہن و دماغ پر چھانے لگتا ہے کہ گویا اسی خانہ ٔ کعبہ کے اطراف اپنے چاہنے والے اصحاب کے ہمراہ طواف میں مصروف ہوں ۔ مولود کعبہ حضرت علی ؑ کی تصویر دل و دماغ کی دہلیز پر دستک دینے لگتی ہے۔ اور وہ منظر صفحۂ ذہن پر ابھرنے لگتا ہے کہ جیسے حضرت علیؑ دوش رسالت اور مہر نبوت پر قدم رکھ کر خانۂ کعبہ میں بت شکنی کر رہے ہوں ۔اور آخر میں تصوارت کا سفر علی ؑ کو اس بیٹے پر منتہی ہوتا ہے جسے دنیا مہدی موعود کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ حاجی محسوس کرتا ہے کہ یہی وہ خانہ کعبہ ہے جس کی دیوار پر ایک روز یوسف زہرا (س) ٹیک لگاکر آواز دے رہا ہوگاکے اے دنیا والوں ! پہچان لو کہ میں ہی بقیۃ اللہ ہوں ۔
طواف ہی عمر ہ کا وہ واحد عمل ہے جسے طہارت کی حالت میں انجام دینا واجب ہے۔ لہذا طواف بھی گویا ایک ایسی نماز ہے جو خانہ ٔ کعبہ کے اِرد گرد حالت حرکت میں انجام دی جاتی ہے۔طواف انسان کو تنگ نظری سے باہر نکالتا ہے اور اسکی نگاہ میں وسعت پیدا کرتا ہے ۔ طواف انسان کو صرف ایک پہلو پر نظر کرنےکی عادت سے باہر نکال کر ہر رخ پر نظر ڈالنے کی مشق کراتا ہے۔ طواف علامت توحید ہے یعنی اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ انسان کی زندگی کا ہر عمل بامقصد ہونا چاہئیے اور ہر عمل کا محور خدا کی ذات کو بنانا چاہئیے ۔ جیسے حاجی کے طواف کا محور خانہ کعبہ ہوتا ہے اسی طرح زندگی کے ہر تحرک کا محور ذات واجب کو ہونا چاہئیے ۔ جس طرح طواف میں حاجی خانۂ کعبہ کے اطراف چکر لگاتا ہے اسی طرح زندگی کے ہر پہلو میں پروانہ وار شمع توحید کے چاروں طرف چکر لگاتے رہنا چاہئیے ۔کعبہ ایک سنگ میل ہےتا کہ انسان اپنی منزل نہ کھو دے۔ اصل میں صرف جسم کا کعبہ کے اطراف گردش کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کو بھی خدا کی مرضی کے محور پر گردش کرنا چاہئیے ۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں : اپنے دل سے فرشتوں کے ساتھ طواف کرو۔ روایت میں کہ خانہ کعبہ کے چوکور ہونے کی حکمت یہ ہے کہ اس کی بنیاد چار کلموں پر رکھی گئی ہے جسے ہم ’’تسبیحات اربعہ‘‘ کے عنوان سے جانتے ہیں ’’ سبحان اللہ، والحمد للہ و لاالہ الا اللہ و اللہ اکبر‘‘ کتنا اچھا ہے کہ انسان حالت طواف میں انہیں چار کلمات پر غور کرے جن پر پوری کائنات کا نظام قائم و دائم ہے اور اپنی زندگی بھی انہیں چار کلمات کی بنا پر قائم کرے۔
طواف کا آغاز و انجام ایک بہشتی پتھر سے ہوتا ہے گویا وہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ تمہاری اصل بہشتی ہے اور بازگشت بھی وہیں ہونی چاہئیے ۔ طواف میں انسان کا بایاں شانہ خانہ کعبہ کی طرف رہنا ضروری ہے شاید اس کا راز یہ ہو کہ ہر انسان کے بائیں شانہ پر وہ فرشتہ ہے جو اس کے برے اعمال کو رقم کرتا ہے لہذا حاجی اس شانہ کو خانہ کعبہ کی طرف کرکے رحمت الہی کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کا بایاں شانہ سبک ہو جائے ۔
طواف میں یہ بھی شرط ہے کہ انسان اپنے چکر میں ’’حجر اسماعیل‘‘ کو بھی شامل کرے یعنی انسان حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ کی قبر کا بھی ساتھ میں طواف کرے تاکہ ان ہستیوں کی تعظیم اور شکریہ ادا ہو سکے جنہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر یا ارکان حج کی تصویر کو مکمل کرنے میں اہم کردار اد ا کیا ہے اور اس طرح یہ بھی روشن ہو سکے کہ خدا تک پہنچنے میں اس کے مخلص بندوں کا وسیلہ بیحد ضروری ہے اور انہیں ہم ہرگز مردہ گمان نہ کریں۔ اب یہاں پر کوئی اسلامی فرقہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مردوں سے توسل اور ان کی قبروں کا طواف بدعت ہے!
کیوں ایک حاجی طواف میں سات ہی بار کعبہ کے اطراف گردش کرتا ہے ؟ اس مقدس عدد کا اصلی راز تو خدا ہی جانے لیکن شاید یہ سات چکر سات آسمان و زمین ، قرآن کے سات باطن اور ہفتہ کے سات دنوں سے تعلق رکھتے ہوں !گویا انسان ہفتہ کے ہر دن کی نیابت میں سات چکر طواف اور سات چکر صفا و مروہ کی سعی کرکے اپنی پوری عمر کو طواف و سعی سے مزین کردیتا ہے کیونکہ سال اور عمر تو دنوں سے ہی تشکیل ہوتے ہیں۔
۳۔ نماز طواف یا خدا سے گفتگو
نماز دین اسلام کا ستون ہے ۔ نمازمومن کی معراج ہے ۔ اگر نماز قبول تو انسان کے باقی اعمال مقبول ہو جائیں گے اور اگر نماز رد تو باقی اعمال بھی رد ہو جائیں گے ۔ نماز دین کی نشانی، اسلام کی بنیاد،خدا کا عہد وپیمان،اعمال کا ترازو، جنت کی کنجی، قیامت میں سب سے پہلے پوچھا جانے والا عمل، انبیاء اور اولیاء کی آخری نصیحت، غرور وتکبر کی دوا، پیغمبر ؐ کی آنکھوں کا نور، خدا سے قرب کا ذریعہ ، گناہوں کی بخشش ،یاد الہی اور دلوں کے سکون کا باعث ہے۔
نماز وہ عمل ہے جسے امام حسین ؑ نے تیروں کی بوچھار میں بھی ترک نہیں کیا۔ ابراہیم ؑ نے جب اپنی زوجہ اور بیٹے کو بے آب و گیاہ صحرا میں لا کر بحکم خدا ساکن کیاتو خدا سے دعا فرمائی : ’’ تاکہ یہ نماز کو قائم کر سکیں ‘‘
حاجی طواف کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اور ان کی دعا کی قبولیت کی سند کے طور پر مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے نماز ادا کرتا ہے ۔ مقام ابراہیم ؑ مقام امامت کا ایک راز ہے۔ امت ابراہیمی ؑ اس مقام ابراہیم ؑ کی پشت پر جہاں اُن کے قدم مبارک کے نشان ہیں؛ نماز ادا کرکےگویا یہ سبق لینا چاہتی ہے کہ ہم آپ ہی کے نقش قدم پر چل کر توحید کا پرچم دنیا میں لہرائیں گے اور دنیا سے کفر و الحاد کا خاتمہ کریں گے۔یقیناً اسلام میں امامت اس قدر اہم ہے کہ وہ پتھر بھی جو امام کے قدموں کے نیچے آ جائے اسے نماز میں ہمارے آگے ہونا چاہئیے اور ہم اس کے پیچھے نماز ادا کریں۔ طواف میں بھی ہم سے یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ حتی الامکان طواف خانہ ٔ کعبہ اور مقام ابراہیم ؑ کے درمیان ہوگویا ہماری زندگی کی گردش ’’توحید‘‘ اور ’’امامت‘‘ کے درمیان ہونی چاہئیے ۔
نماز طواف کے بعد مستحب ہے کہ حاجی روئے زمین پر بہترین پانی ’’آب زمزم‘‘ کو پئیے اور اپنے سر و صورت کو اس سے دھوئے تاکہ اس سے ہماری عقل و خرد کو جلا حاصل ہو اوربرائیاں ہمارے وجود سے پاک ہو جائیں ۔
۴۔ سعی ،خوبیوں کی طرف بڑھنے کی کوشش
یہ سعی در اصل جناب ہاجرہ کے عمل کی تأسی اور پیروی ہے ۔ وہ پوری امید اور ایمان راسخ کے ساتھ تنہائی میں سات بار صفا ومروہ کے درمیان اپنے بیٹے کے لئے پانی تلاش کرنے کی خاطر دوڑیں اور آخر میں اللہ نے ان کی اس مقدس کوشش کو ’’ آب زمزم‘‘ کی شکل میں کامیاب کیا۔ مسلمانا ن ِعالم اُن کے اس عمل کی تأسی کرکےیہ سبق حاصل کرتے ہیں کہ زندگی کی سختیوں میں نا امید ہوئے بغیر، راسخ ایمان اور خدا پر بھروسہ کے ساتھ ساتھ اپنی پوری کوشش کرنے سے بہترین نتیجہ حاصل ہوتا ہے اور تنہائی کا بہانہ بنا کر سعی وکوشش سے کوئی لمحہ بھی خالی نہیں ہونا چاہئیے ۔کوشش کے باطن میں زمزم چھپا ہوتا ہے ۔ کوشش کے مسئلہ میں چھوٹے بڑے میں بھی کوئی فرق نہیں ہوتا۔اگر جناب ہاجرہ دوڑ سکتی ہیں تو دوڑ کر کوشش کریں اور اگر جناب اسماعیل ؑ ایڑیاں زمین پر رگڑنے بھر کی طاقت رکھتے ہیں تو اپنی حد اور توان بھر کوشش کریں ۔ ورنہ وہ خدا جو حضرت اسماعیل ؑ کے ایڑیاں رگڑنے سے چشمہ ٔ زمزم جاری کر سکتا ہے وہ بغیر ایڑیاں رگڑے بھی ایسا کر سکتا ہے لیکن کوشش کی سنت قائم کرنے میں اسے چھوٹے بڑے کے فرق کو مٹانا بھی مقصود تھا۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ خدا کے نزدیک سعی سے زیادہ محبوب کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ وہاں ہر ظالم و جابر ذلیل و خوا ر ہو جاتا ہے۔ یا آپ ؑ ہی کا فرمان ہے: صفا پر ٹھہر کر اپنے آئینہ دل کو قیامت میں خدا کے دیدار کے لئے صاف کرو اور مروہ پر پہنچ کر مروت اور جوانمردی کو خدا کی خاطر اپناؤ۔
۵۔ تقصیر ، برائیوں کی چھنٹائی
تقصیر میں ایک حاجی بال یا ناخن کو کاٹ کر عمرہ کے احرام سے خارج ہوتا ہے۔ تقصیر میں یہ راز پوشیدہ ہے کہ اپنی خوبصورتی کے مظاہر کو اس خالق کے سامنے قربان کرنا چاہئیے جو ہر جمال کا خالق بھی ہے اور ہمارا محبوب بھی۔ اس کے آستانہ پر سر جھکا کر یہ اعلان کرنا چاہئیے کہ ہم تیرے سامنے تسلیم ہو گئے ۔ اور ان بالوں کو کاٹنا اصل میں اس بات کی علامت ہے ہم جس طرح مالک کے اشارہ پر اپنے بالوں کو کاٹ سکتے ہیں اسی طرح اپنے وجود کو برائیوں اور گناہوں سے بھی پیراستہ کر سکتے ہیں ۔
عمرہ تمتع کے بعد حج تمتع کے ارکان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کچھ ارکان عمرہ والے ہی ہیں اور کچھ الگ ہیں ۔ ہم یہاں صرف اُن ارکان کے اسرار پر روشنی ڈالیں گے جو تکراری نہ ہوں ۔
حج تمتع میں حاجی مکہ سے ہی احرام باندھنے کے بعد ۹ ذی الحجہ جسے ’’روزعرفہ‘‘ کہا جاتا ہے، اُس دن میدان عرفات کی جانب روانہ ہوتا ہے ۔
۶۔ عرفات میں ٹھہرنے کا راز
میدان عرفات کو ’’عرفات‘‘ کیوں کہا جاتا ہے اس کے لئے متعدد اقوال روایات سے ماخوذ ہیں ۔ امام صادقؑ سے عرفات کی وجہ تسمیہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ؑ نے جواب میں فرمایا: حضرت جبرئیل ، ابراہیم ؑ کو روز عرفہ باہر لائے اور جب ظہر کا وقت آ گیا تو ان سے کہا:اے ابراہیم ؑ! اپنے گناہوں کا اعتراف کیجئے اور اپنی عبادتوں کو پہچانئے اسی وجہ سے اس میدان کا نام عرفات پڑا کیونکہ جبرئیل نے کہا کہ اعتراف کیجئے اور معرفت حاصل کیجئے ۔ حالانکہ دوسری وجوہات بھی اس سلسلہ میں بیان ہوئی ہیں جیسے یہ کہ خداوند عالم نے جناب آدم و حوا کو اس سرزمین پر بھیجا اور وہاں وہ ایک دوسرے سے ملے اور ایک دوسرے کو پہچانا یا یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جو خواب شب عرفہ دیکھا اس سے انہیں معرفت ہوئی کہ اپنے فرزند کو ذبح کرنا ہے ۔ یا اس سرزمین کی رفعت اور بلندی کی وجہ سے اس کا نام عرفات پڑا ہے ۔ البتہ مذکورہ بالا پہلی روایت کی روشنی میں عرفات کے وجہ تسمیہ میں دو وجہیں ہو سکتی ہیں یا گناہوں کے اعتراف کی وجہ سے گرچہ حضرت ابراہیم ؑ کے لئے گناہ کے اعتراف کو ایک خاص معنی میں لیا جائے گا ،جو ان کی عصمت کے منافی نہ ہو اور دوسری وجہ عبادت کی معرفت ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو اعتراف بھی معرفت کی طرف ہی پلٹتا ہے کیونکہ اعتراف تبھی ممکن ہے جب انسان کو اپنے گناہوں کی معرفت ہو۔چنانچہ عرفات کی بازگشت اسی معرفت کی جانب ہے۔
معرفت کے ذریعہ بصیرت حاصل ہوتی ہے اور بصیرت کے ذریعہ انسان حق و باطل میں تشخیص دینے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ بصیرت انسان کو ہر قسم کی سرگردانی اور حیرت سے نجات دیتی ہے۔ لہذا عرفات یعنی سرزمین معرفت سے نور معرفت طلوع ہوتا ہے اور اس نور سے بصیرت پیدا ہوتی ہے اور بصیرت کے نتیجہ میں فراست پیدا ہوتی ہے۔
میدان عرفات میں وقوف کا ایک راز یہ بھی ہے کہ حاجی صحرائے عرفات میں ایک ازدحام دیکھتا ہے جو ایک رنگ اور ایک لباس میں خدا کے ساتھ راز و نیاز میں مصروف ہے ۔حاجیوں کی صدائے نجوا صحرائے عرفات میں گونج رہی ہوتی ہے جبکہ سب کا رنگ، نسل اور زبان الگ الگ ہوتی ہے۔ یہ الگ الگ رنگ و نسل و زبان کے لوگ کیوں وہاں جمع ہوئے ہیں ؟ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ سب اپنے خالق سے مغفرت اور بخشش کی آرزو لے کر آئے ہیں ۔وہ آئے ہیں تاکہ خداوند متعال ان کے تضرع و زاری کو دیکھے اور اس کی دریائے رحمت جوش میں آ جائے او ر ان پر اپنی نظر کرم فرما دے۔ یہاں اس کیفیت کو دیکھنے پر حاجی کے ذہن میں صحرائے محشر کا سماں آ جاتا ہے کہ وہاں بھی ساری کائنات کے لوگ اسی طرح جمع ہوں گے اور مغفرت کی امید لگائے مالک کے فیصلہ کے منتظر ہوں گے ۔
حضرت علی ؑ رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ سے سوال کیا گیا کہ اہل عرفات میں کس کا جرم سب سے بڑا ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ جو میدان عرفات سے واپس آ جائے اور یہ گمان کرتا رہے کہ اس کی بخشش نہیں ہوئی ہے۔
بعض روایات کا مفہوم یہ ہے کہ بدنصیب ہے وہ انسان ہے جو خدا کی مہمانی کے مہینہ میں یعنی ماہ مبارک رمضان میں خود کو نہ بخشوا سکے اب ایسے انسان کی بخشش کی کوئی امید نہیں ہے سوائے یہ کہ میدان عرفات کو درک کر لے اور وہاں جاکر اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے۔
۷۔ مشعر ،شعور حاصل کرنے کی وادی
عرفات سے مغرب کے وقت کوچ کرنے کے بعد حاجی کا اگلا عمل شب عید قربان مشعر یا مزدلفہ (مشعر کا دوسرا نام) میں قیام ہے۔ مشعر، شعور سے ہے گویا عرفات میں اپنے گناہوں کو بخشوانے کے بعدحاجی اب ایک ایسی وادی میں قدم رکھ رہا ہے جہاں سے وہ اپنے لئے خدا سے رحمت کا تقاضا کرنے کے ساتھ ساتھ شعور اور بیداری کا مطالبہ بھی کرتا ہے تاکہ آئندہ گناہوں سے محفوظ رہ سکے۔ انسان کے اکثر و بیشتر گناہ غفلت اور نسیان کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں چنانچہ اگر اسے مشعر میں شعور و بیداری کی نعمت حاصل ہو جائے تو آئندہ کی زندگی میں گناہوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
مشعر میں ایک اہم عمل جو حاجی انجام دیتا ہے وہ یہ ہے کہ وہیں سے رمی جمرات (شیطانوں کو کنکری مارنا) کے لئے کنکریاں جمع کرتا ہے ۔ گویا حاجی اب تک اپنے اصلی دشمن ابلیس سے غافل تھا اور اس کے گزشتہ گناہوں میں اس دشمن کا اہم کرداررہا ہے۔ لہذا اب حاجی وادیٔ شعور و مشعر میں دشمن سے مقابلہ کے لئے ساز وسامان تہیہ کرتا ہے تاکہ اگلے دن منی میں جاکر اس دشمن پر کنکریاں مارکر ہمیشہ کے لئے یہ عہد کرے کہ میں تجھے اب اپنے دل میں راستہ نہ دوں گا۔
۸۔ منی میں توقف کا سرّ
مشعر سے عید قربان کے دن طلوع آفتاب کے بعد حاجی میدان منی کی جانب روانہ ہوتا ہے ۔ اس میدان میں اب اسے بارہ ذی الحجہ کی ظہر تک ٹھہرنا ہے اور یہاں اسے تین عمل انجام دینا ہیں : رمی جمرات، قربانی اور حلق یعنی سر منڈانا ۔
منی میں توقف کا اصلی مقصد یاد الہی ہے ۔خدا نے عرفات سے کوچ کرنے اور مشعر میں توقف کا مقصد یاد الہی کو بیان کیا ہے
فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ اس کے بعد پھر خداوند عالم فرماتا ہے کہ جب تم مشعر سے منی کی جانب روانہ ہو تب استغفار کرو ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ؛ اس کے بعد منی کے اعمال انجام دینے کے بعد دوبارہ اپنی یاد پر تاکید کرتا ہوئے فرماتا ہے: فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً
یاد الہی کی اس قدر تاکید اس لئے ہے چونکہ دو ر جاہلیت میں مشرکین نے منی میں اپنے لئے ایک بتکدہ بنایا ہوا تھا اور وہاں اپنے بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف رسم جاہلیت یہ تھی کہ مناسک حج کو انجام دینے کے بعد منی میں سب جمع ہوتے تھے اور اپنے آباء و اجداد اور نسل و قبیلہ کا تذکرہ نظم و نثر کی صورت میں کیا کرتے تھے اور اپنی قبائلی فضیلتوں کی تعریف کیا کرتے تھےاور جنگوں میں اپنی طاقت کو یاد دلاتے تھے۔دوسرے الفاظ میں جاہل عرب اس سرزمین پر فخر فروشی کیا کرتے تھے اور اپنے ماضی کو یاد کرکے خود پر افتخار کرتے تھے۔ قرآن کریم اس رسم جاہلی کی مذمت کرتا ہے اور اس نکتہ پر تاکید کرتا ہے کہ سرزمین منی ،اپنے بزرگوں کو یاد کرکے خود پر فخر کرنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ صحرا یاد الہی کی جگہ ہے۔یہاں خدا کو یاد کرکے اس سے مغفرت طلب کرنی چاہئیے ۔ اس کی بارگاہ میں پناہ لینی چاہئیے اور دنیا و آخرت کے سنورنے کی درخواست مالک حقیقی سے کرنی چاہئیے ۔ لہذا سرزمین منی یاد خدا کی جگہ،توحیدی معارف پر توجہ کا مقام اور اللہ کی نعمتوں و برکتوں کی قدردانی کا موقع ہے ۔
جو سرزمنی منی میں قدم رکھتا ہے خدا اس سے راضی ہو جاتا ہے ۔امام صادقؑ فرماتے ہیں : جب حاجی منی میں ساکن ہوتے ہیں تو اللہ کی جانب سے ایک منادی آواز دیتا ہے کہ اگر تم چاہتے تھے کہ میں تم سے راضی ہو جاؤں تو میں راضی ہو گیا ۔
خدا تو اسی سے راضی ہوتا ہے جوپاک ہو اور اس کے گناہوں کی سیاہی دور ہو چکی ہو ۔ اس بچہ کی طرح ہو جو ابھی بطن مادر سے دنیا میں آیا ہو۔ امامؑ فرماتے ہیں کہ جب حاجی منی سے کوچ کرتا ہے تو ایسا گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو۔ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ جب حاجی وہاں سے کوچ کرتا ہے ایک فرشتہ اس کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ اب نئے سرے سے اپنی زندگی شرو ع کرو ۔
دنیامیں خدا کی خوشنودی اور رضا سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے اور یہ ایک مومن کی منتہائے آرزو ہے۔ امام رضاؑ فرماتے ہیں کہ منی کو ’’منی‘‘ اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ جبرئیل ؑ نے وہاں حضرت ابراہیم ؑسے کہا یہاں جو بھی آرزو اور تمنا اپنے رب سے کرنا چاہتے ہو کر لو چنانچہ انہوں نے اپنے دل میں یہ آرزو کی کہ خد ا ان کے فرزند اسماعیل کی جگہ ایک دنبہ کو بھیج دے جو ان کے بیٹے کا فدیہ بن جائے چنانچہ خدا نے ان کی تمنا پوری کرد ی ۔
لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ منی میں توقف ’’تمناؤں ‘‘ کی برآوری کی غرض سے ہے اور خدا اپنے بندہ کی تمام تر جائز تمناؤں کو بر لانا چاہتا ہے اس لئے اسے منی میں ٹھہرایا ہے۔
۹۔ رمی جمرات کا راز
منی کے واجبات میں سے ایک عمل شیطان کو کنکری مارنا ہے۔ کنکریاں حرم کی ہونی چاہئیے اور انہیں خالصانہ نیت کے ساتھ جمرات کی طرف پھینکنا چاہئیے ۔یہاں بھی سات کا عدد خو نمائی کرتا ہے۔ یعنی سات کنکریاں مارنی چاہئیے ۔ تکبیر کہنا، پاک ہونا اور دعا کرنا ، رمی جمرات کے مستحبات میں سے ہے۔ ایسے موقع پر حاجی کو خدا سے دعا مانگنی چاہئیے کہ وہ اسے اپنے مضبوط قلعہ میں پناہ دے دے۔ سات کنکریاں اٹھانا اور انہیں پے در پے ایک بڑے سے ستون کی طرف پھینکنے کا کیا مطلب ہو سکتاہے؟شاید اس عمل کا ظاہر مبہم ہو لیکن اس کے معنی بیحد لطیف و عمیق ہیں۔ رمی جمرات شیطان سے مقابلہ اور جنگ کے معنی میں ہے ۔ یہ عمل در حقیقت ابلیس سے اعلان جنگ ہے۔جمرات کو کنکریاں مارنا گویا اپنی نفسانی اور حیوانی خواہشات کو نابود کرنا ہے۔رمی جمرات بے جا شہوت اور برے اخلاق کا خون کرنا ہے۔ حضرت علی ؑ اپنے نورانی کلام میں اس عمل کی حکمت کی جانب اشار ہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : شیطانوں کو اس لئے پتھر مارے جاتے ہیں کیونکہ جب جبرئیل ؑ نے حضرت ابراہیم ؑ کو مشاعر کا دیدار کرایا تو ابلیس ان کے سامنے ظاہر ہوا چنانچہ جناب جبرئیل ؑ نے انہیں ابلیس کو پتھرمارنے کا حکم دیا ۔
امام صادقؑ اس حکم کی حکمت کے متعلق فرماتے ہیں کہ رمی جمرات کے وقت شہوات، خساست، پستی اور مذموم افعال کو بھی خود سے دور کرو ۔
ہر سال دنیا کے تمام حاجی اس عمل کی تکرار کرتے ہیں اس کا ایک اور راز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر سال تمام مسلمان اندرونی شیطان کے ساتھ ساتھ دنیا میں موجود سامراجی شیطانی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے بھی خود کو آمادہ کریں ۔ حالانکہ افسوس کا مقام ہے کہ آج سارے مسلمانان عالم اس عمل کو بظاہر تو انجام دیتے ہیں لیکن صرف ایک گروہ جو تعلیمات قرآن و اہلبیت ؑ سے پوری طرح وابستہ ہے اس کے علاوہ کوئی دنیا کی شیطانی طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کرتا جبکہ انہیں سامراجی طاقتوں کی وجہ سے دنیا کے گوشہ گوشہ میں عام انسان اور مسلمان ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں چاہے وہ عراق ہو یا شام، لبنان ہو یا بحرین، یمن ہو یا نائجیریا، افغانستان ہو یا پاکستان۔
۱۰۔ قربانی یا نفس کی قربانی
حاجی رمی جمرات کے بعد منی میں قربانی کا عمل انجام دیتا ہے۔ اس عمل کا مقصد قرآن نے تقوا بتایا ہے۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ نہ قربانی کا گوشت اور نہ اس کا خون خدا کے پاس پہنچتا ہے بلکہ تمہارا تقوا اور پرہیزگاری خدا تک پہنچتی ہے ۔
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ؛ اس آیت کے ذریعہ ایک چھپے ہوئے سوال کا جواب ہے کہ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ خداوند عالم کو اس قربانی سے کوئی فائدہ ملتا ہے اور وہ اس کا محتاج ہے ۔یا پھر ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ سوال کرے کہ جب خداگوشت اور خون کا محتاج ہی نہیں ہے تو یہ قربانی کس لئے ؟ تو اس آیت میں دونوں طرح کے سوالوں کا جواب دیا گیا ہے کہ نہ خدا گوشت و خون کا محتاج ہے اور نہ ہی یہ عمل بے مقصد اور بے فائدہ ہے بلکہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تم کتنے متقی اور پرہیزگار ہو؟!
سوال یہ ہے کہ قربانی اور تقوا کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے تقوا کو سمجھنا ہوگا ۔ تقوا یعنی ایک ایسی طاقت اور جذبہ جو انسان کو اللہ کی اطاعت کی ترغیب و تشویق دلائے اور اس کی نافرمانی سے محفو ظ رکھے جس کے نتیجہ میں بندہ عذاب الہی سے خود کو محفوظ کر لے۔ تقوا ایک ایسی سپر ہے جو ابلیس کی جانب سے چھوڑے گئے تیروں سے انسان کو بچاتی ہے۔ انسان اپنے مادی مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے مال دوست ہے اور وہ مال کی ذخیرہ اندوزی کو بیحد پسند کرتا ہے اور اسی کے چلتے خود تو بہترین کھانےکھاتا ہے لیکن اپنے آس پاس موجود غریب و بے نوا افراد کو فراموش کر دیتا ہے۔لہذا جیسے خود گوشت اور بہترین غذائیں کھائے اسی طرح اسے چاہئیے کہ غرباء اور مساکین کو بھی کھلائے لیکن اس کے لئے اسے مال و دولت خرچ کرنا پڑے گی۔ جانور خرید کر اس کی قربانی کرنا پڑے گی جس میں مال خرچ ہوگا۔چنانچہ حاجی پر یہ قربانی اللہ نے واجب کر دی تاکہ اس کے ذریعہ وہ غریبوں کا خیال رکھ سکے ، مال سے دل لگی کم کر کے خواہشات نفس پر قابو پا سکے اور تقوا اسی کا نام ہے یعنی بظاہر جانور قربان کرکے پشت پردہ حاجی کو اپنے نفس کو قربان کرنے کی مشق کرانا مقصود ہے تاکہ اس کے اندر تقوائے الہی پیدا ہو سکے ۔
۱۱۔ حلق ، اپنی خواہشات اور پسندیدہ اشیاء سے دل لگی کو ترک کرنا
قربانی کے بعد حاجی پر اپنے سر کو منڈانا (حلق) یا اپنے ناخن یا تھوڑے سے بالوں کو کٹوانا واجب ہے (تقصیر)۔مستحب ہے کہ حاجی اپنے بالوں کو منی میں ہی دفن کر دے۔ سر منڈانے کے بھی اسرار ہیں منجملہ یہ کہ اس سے رحمت الہی کو حاجی اپنی طرف جذب کرتا ہے ۔ چنانچہ رسول خداؐ نے اپنی دعا میں فرمایا:اے اللہ سر منڈانے والوں پر اپنی رحمت کو نازل فرما۔
اسی طرح سر منڈانا باعث ہوتا ہے کہ انسان ان لوگوں کے زمرہ میں قرار پائے جو روز قیامت کی عظیم مشکلات سے محفوظ ہوں گے ۔ اور خداوند عالم حاجی کے ہر بال کےبدلے جنت میں ایک نور قرا دے گا۔ امام صادقؑ فرماتے ہیں :جب مومن سر منڈاتا ہے تو اس کے جتنے بال نیچے گرتے ہیں ہر ایک کے بدلے اللہ روز قیامت ایک نور قرار دے گا۔
اگر مومن سر منڈانے کےبعد اپنے بال وہیں دفن کر دے تو روز محشر اس کا ہر بال اپنے حاجی کے نام پر لبیک کہے گا۔ لہذا بظاہر حاجی سر منڈاتا ہے لیکن اس کے پیچھے ایک نور کو محشر کے لئے محفوظ کرتا ہے ۔ گویا حاجی کی وہ لبیک جو اس نے احرام باندھتے وقت کہی تھی اب اس کے بدن کے تمام اجزاء میں سرایت کر گئی ہے لہذا اس کے بال بھی دعوت حق کو لبیک کہیں گے۔ حاجی ان لمحوں میں ایک الگ ہی انسان بن جاتا ہے لہذا اپنی صورت میں تبدیلی کے ذریعہ اور اپنی ظاہری خوبصورتی کو خدا کے لئے قربان کرکے اپنی سیرت کا حسن ظاہر کرتا ہے ۔ ہرانسان اپنی صورت کو بیحد عزیز رکھتا ہے اور اپنی صورت کی خوبصورتی میں بالوں کا ایک اہم کردار جانتا ہے اسی لئے ہمیشہ بالوں کو سنوارنے کے لئے جد و جہد کرتا رہتا ہے۔ لیکن منی کے میدان میں اپنے ان بالوں کو کٹوا کر جنہیں وہ بیحد عزیز رکھتا ہے ؛یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اے میرے اللہ ! میں تیری خوشنودی کی خاطر اپنی ہر عزیز شئے سے دل لگی چھوڑنے کو تیار ہوں ۔ اور یہی وہ کیفیت ہے جو حاجی کو اوج کمال پر لے جاتی ہے کیونکہ جب بندہ خود کو چھوڑ کر اسے دیکھنے لگے تو انسانیت کی اس معراج پر پہنچ جاتا ہے جس پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں اور اس کے سامنے سر تعظیم کو خم کر دیتے ہیں ۔
حوالہ جات:
۔وسائلالشيعہ، ج۱، ص۱۰
۔ آشنائی با احکام،اسرار ومعارف عمرہ دانش آموزی، روزبہ برکت رضایی، ص ۸۱۔۸۲
۔ سورہ بقرہ ، آیت ۱۳۸
۔ الامالی، ص۲۳۴؛ علل الشرائع، ج۱، ص۲۳۵، شیخ صدوق ؒ
۔ آشنائی با احکام،اسرار ومعارف عمرہ دانش آموزی، روزبہ برکت رضایی، ص ۸۶ (تلخیص و تصرف کے ساتھ)
۔ مصباح الشریعہ، ص ۴۷
۔ علل الشرائع، شیخ صدوق ، ج ۲، ص ۳۹۸
۔ آشنائی با احکام،اسرار ومعارف عمرہ دانش آموزی، روزبہ برکت رضایی، ص ۸۸
۔ سورہ ابراہیم، آیت ۳۷
۔ آشنائی با احکام،اسرار ومعارف عمرہ دانش آموزی، روزبہ برکت رضایی، ص ۹۰
۔ کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج۴، ص۴۳۴
۔ شنائی با احکام،اسرار ومعارف عمرہ دانش آموزی، روزبہ برکت رضایی، ص ۹۲
۔ علل الشرائع، ص ۴۳۶، روايت۱؛ المحاسن، ج ۲، ص ۶۴، روايت ۱۱۷۹
۔ اسرار عرفانی حج، محمد تقی فعالی، ص ۴۵۸
۔ فقيہ، ج ۲، ص ۲۱۱، روايت ۲۱۸۳
۔ مفاتیح الجنان، اعمال ماہ مبارک رمضان
۔ سورہ بقره آیت ۱۹۸
۔ بقره آیت ۱۹۹
۔ بقره آیت ۲۰۰
۔ اسرار عرفانى حج، محمد تقى فعالى،ص ۴۸۴
۔فروع كافى، ج ۴، ص ۲۶۲، روايت ۴۲
۔ فقيہ، ج ۲، ص ۴۸۰، روايت ۳۰۱۹
۔ المحاسن، ج ۱، ص ۱۴۱، روايت ۱۸۷
۔ عيون اخبارالرضاؑ، ج ۲، ص ۹۱؛ علل الشرائع، ص ۴۳۵، روايت ۲
۔ قرب الاسناد، ص ۱۴۷، روايت ۵۳۲
۔ اسرار عرفانى حج، محمد تقى فعالى، ص ۴۹۰
۔ سورہ حج ، آیت 37
۔ صحيح بخارى، ج ۲، ص ۶۱۶، روايت ۱۶۴۰؛ صحيح مسلم، ج ۲، ص ۹۴۵، روايت ۳۱۷؛ سنن ترمذى، ج ۳، ۲۵۶، روايت ۹۱۳
۔ تفسير عياشى، ج ۱، ص ۱۰۰، روايت ۲۸۴
مولاناسید علی امیر رضوی
حوزہ علمیہ قم المقدسہ، ایران
(9389830801)