صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد نقوی رحمت مآب
خدا وند عالم نے انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء ومرسلین کا سلسلہ قائم کیا ۔کتابیں نازل فر مائی۔ شریعتیں بھیجیں جن میں سب سے آخر اور کامل ترین شریعت وہ ہے جس کو خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ؐکے ذریعہ سے بھیجا گیا۔دور اور زمانہ کے لحاظ سے شریعتیں بدلتی گئیں۔ دین ایک ہی رہا۔ جیسا کہ ارشاد ہے ’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ‘‘ اللہ کے نزدیک دین بس اسلام ہی ہے۔ جناب ابراہیمؑ اورجناب یعقوبؑ کے متعلق یہ تصریح ہے کہ آپ نے اپنی اولادوں سے یہ وصیت فرمائی کہ تمہیں اسلام پر موت آئے۔تو معلوم ہوا کہ رسالت مآبؐ سے پہلے بھی جس دین کی تبلیغ کی جاتی رہی ہے وہ اسلام ہی تھا۔ شریعتوں کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ضروریات زمانہ کے لحاظ سے فروعی احکام میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔خود شریعتوں کابدلنا اس بات کی دلیل ہے کہ خداوند عالم کے احکام میں اغراض ومقاصد پیش نظر ہوتے ہیں ۔اگر اغراض و مقاصد کے پیش نظرشریعت کے احکام نہ ہوتے توزمانے کے بدلنے سے۔ حالات کی تبدیلی سے شریعت کی تبدیلی کے کوئی معنی نہیں ہوتے خود شریعتوں کا بدلنا اس نظریے کو باطل قرار دیتا ہے جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ خداکے احکام اغراض اور مقاصد کے پیش نظر نہیں ہوتے۔حقیقت میں کوئی اچھائی اوربرائی نہیں ہے جسکا لحاظ کر کے اللہ نے کسی بات کا حکم دیاہو یا منع کیا ہو بلکہ وہی اچھا ہے جو اللہ کہدے اور وہ براہے جسکی اللہ ممانعت کر دے اگر وہ جھوٹ کو واجب کر دیتا تو جھوٹ اچھا ہوتا اور اگر سچ کو منع کر دیتاتو سچ برا ہوتا۔یعنی اچھائی اوربرائی کی بنیاد اللہ کا حکم اوراس کی ممانعت ہے۔اس کو قطع نظر کرتے ہوئے واقعہ میںنہ کوئی چیز اچھی ہے نہ کو ئی چیز بری۔لیکن اگر یہ نظریہ درست ہو تو پھر خود احکام کے تبدیلی کی بنیاد کیا قرار پاتی ہے۔حالات وواقعات کے بدلنے سے احکام میں کیوں تبدیلی کی گئی۔ قرآن مجید بھی تصریح کر رہا ہے کہ خداوند عالم کے احکام بے مقصد نہیں ہوتے۔جیسا کہ روزے کے بارے میںارشاد ہے کہ روزہ اسلئے تم پر فرض کیا گیا ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو جائے۔نماز کیلئے ارشاد ہے ’’اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ‘‘ نماز ہر طرح کی کھلی اور چھپی برائیوں سے روکتی ہے۔نماز جماعت کی غرض وغایت یہی قرار دی جاتی ہے کہ مسلمانوں میں اجتماعیت پیدا ہو حج کا سبب یہ بیان کیاجاتا ہے کہ تمام عالم اسلامی ایک مر کز پر متحد ہو۔ ائمہ اہلبیت علیہم السلام سے بھی باکثرت ایسی روایتیں وارد ہیں جن میں شرعی احکام کے اغراض ومقاصد کو بیان فر مایا گیا ہے۔
یقینا احکام الٰہی کی پابندی سے اجرو ثواب اخر وی حاصل ہوگا لیکن یہ ثواب اطاعت کاہے۔چونکہ بندہ مومن نے احکام الٰہی کی پابندی کی اس کا ثواب اللہ آخرت میںدے گا جو مختلف عبادتوںکے لئے الگ الگ معین ہے لیکن نگاہ قدرت نے ان احکام کی غرض اخروی ثواب نہیں بلکہ اس نے جو حکم دئیے ہیں وہ انسان کی دنیاوی زندگی کے منافع و مصالح کا لحاظ رکھتے ہوئے دئیے ہیں۔
لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ واقعات کربلا اور مجالس عزاء سے سبق لے کر انسان کو اپنی زندگی سنوارنا چاہئے۔ اپنے اخلاق و کردار درست کرنا چاہئے ،شہدائے کربلا کی سیرت کو اپنانے کی کوشش کرنا چاہئے تو اس کو کوئی نئی بات اور نیا تخیل نہ سمجھنا چاہئے۔اہلبیت ؑ کی روایات موجود ہیں ’’مَنْ جَلَسَ مَجْلِساً یُحْییٰ فِیْہِ ذِکْرُنَا لَمْ یَمُتْ قَلْبُہٗ یَوْمَ تَمُوْتُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ‘‘جو شخص کسی ایسی مجلس میں بیٹھے جس میں ہمارا ذکر زندہ کیا جائے تو اس کا دل اس دن جب تمام دل مردہ ہوں گے (یعنی قیامت کے دن )مردہ نہ ہوگا۔
جن احادیث میں فضائل گریہ بیان کیے گئے ہیں ان سے انکار نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ تمام ثواب تو نتیجۂ اطاعت حکم امام میں ملیں گے ۔معصوم ؑ نے ذکر واقعات کربلا اور مصائب امام حسین ؑ پر حکم ہی کیوں فرمایا ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا کہ شریعت کے حکم کا مقصد ثواب اخروی نہیں ہوسکتا(کیوں کہ یہ نتیجۂ اطاعت ہے )اب وہ مقصد کیا ہے جس کے پیش نظر یہ حکم دئیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتاہے کہ جب کربلا کے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں تو ان سے ہمیں ایسے سبق ملتے ہیں جن سے ہم اپنی زندگی سنوار سکتے ہیں ،اپنے اخلاق و کردار کو اس سانچے میں ڈھال سکتے ہیں جو ایک سچے مومن اور مسلمان کا ہونا چاہئے۔ کبھی کبھی یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اہلبیت ؑ تو معصوم تھے۔امام حسین ؑ تو امام تھے، ہم معصوم یا امام تو نہیں۔ ان کی پیروی کیونکرکرسکتے ہیں ۔لیکن قرآن کی تصریح ہے خدا کسی کے اوپر اتنا بوجھ نہیں ڈالتاجو اس کی برداشت سے باہر ہو۔ اگر معصومین کی پیروی غیر معصوم کے لئے ممکن نہ ہوتی تو اللہ کبھی تمام مسلمانوں کو اتباع رسولؐ کا حکم نہ دیتاپھر کربلا کے آئینے میں تو معصوم کے کردار کے علاوہ کچھ غیر معصوم افراد کی زندگیاں بھی ہمارے سامنے مشعلِ راہ بن کر آتی ہیں۔کیا کسی نے بھی جناب حبیب ابن مظاہرؑ،جناب مسلم ابن عوسجہ ؑاور جناب زہیرقینؑ وغیرہ کے متعلق عصمت کا دعویٰ کیا ہے۔ امام حسین ؑ کے ساتھ آنے والوں میں صرف ہاشمی و مطلبی ہی نہیں ،صرف قریشی ہی نہیں ،ـصرف عرب ہی نہیں بلکہ روم و حبش کے رہنے والے بھی شامل تھے ۔تقریباً ہر سن کے جوان، بوڑھے اور بچے موجود تھے۔مرد بھی تھے،عورتیں بھی تھیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی دیکھئے وہ ایک بے مثال اور لا جواب نمونۂ عمل قرار پانے کے قابل ہے ۔کیا بلند اور اہم مقصد کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کردینے کی مثال واقعۂ کربلا سے بڑھ کر ملتی ہے ؟کیا اللہ کی عبادت کو کسی حال میں ترک نہ کرنے کا نمونہ یہاں سے بہتر حاصل کیا جاسکتاہے؟ کیا آپس میں اخوت و ہمدردی و مواسات کا جذبہ اس سے زیادہ کا مل ڈھونڈا جا سکتاہے ؟کیا سچائی پر جم جانے اور صداقت سے سر موقدم نہ ہٹنے کی مثال یہاں سے بہتر کہیں پائی جا سکتی ہے؟کیا ایثار و قربانی کے کربلا سے بہتر نمونے کہیں ملیں گے ؟کیا بڑی سے بڑی مصیبت کر برداشت اور صبر و استقلال میں فر ق نہ آنے کا کربلا سے بڑھ کر کوئی واقعہ پیش کیا جا سکتاہے ؟کیا امام کی اطاعت اور فرمانبرداری کو ہر شَے پر مقدم کردینے کی مثال یہاں سے بڑھ کر کہیں مل سکتی ہے ؟غرض کربلا کی ایک تصویر ہے مگر ہزاروں رنگ نمایاں ہیں ۔
کربلا ایک پھو ل نہیں گلدستہ ہے ،گلدستہ نہیں ایک چمن ہے جس میں اخلاق و کردار کے گلہائے رنگارنگ کے مختلف تختے کھلے ہیں اور ہر ایک اپنے رنگ و بر میں لاجواب و بے مثال ہے۔یہ تصور بالکل غلط ہے کہ امام حسین ؑ ہمارے لئے نجات کا وسیلہ قرار پاتے ہیں جیسے عیسائی جناب عیسیٰؑ کے متعلق فدیہ کا تصور رکھتے ہیں ۔یعنی ہم دعویٰ محبت امام حسینؑ کے بعد بالکل آزاد کر دئیے گئے ہیں جو چاہیں بداخلاقی کریں ،دوسروں پر ظلم کریں ، اس کے حقوق غصب کریں، احکام اسلامی کو پیروں سے روندیں لیکن جنت کا ٹھیکا ہمارے نام لکھ دیا گیا ہے ۔یقیاً امام حسینؑ ذریعہ ٔ نجات ہیں ،یقینا امام حسین ؑ وسیلۂ بخشش ہیں مگر کس طرح؟اسی طرح جس طرح حُرکو جہنم سے نجات دے کر جنت کا مستحق بنا دیا ۔یعنی زبانی دعویٰ محبت نہ کرو بلکہ عمل و کردار سے بھی حسینی بننے کی کوشش کرو۔اس وقت ہماری سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم نے مجالس عزا ء کو صرف رسمی چیز بنا لیا ہے ۔ہمارے باپ دادا مجلس کرتے تھے لہٰذا ہمیں مجلس کرنا ہے جو حصہ دس بیس برس پہلے بٹتا تھاوہی بٹنا ہے اگر حصے میں کوئی کمی آگئی تو دنیا کو منھ کیا دکھائیں گے۔دوستوں میں ناک کٹ جائے گی تو اب مجلس کیا ہوئی؟دوستوں میں ناک بچانے کا ذریعہ اور منھ دکھانے کا وسیلہ رہ گئی ہے ۔صبح سے شام تک ایک کے بعد ایک مجلس میں شرکت ہوتی ہے لیکن نہ یہ مقصد لے کرجاتے ہیں کہ کچھ حاصل کرنا ہے اور نہ کچھ تعلیم لے کر اٹھتے ہیں لیکن وہی لوگ جو ماتم کرکے نکل رہے ہیں ،جنھوں نے اپنی زبانوںسے ابھی تھوڑی دیر پہلے امام حسین ؑ اور شہدائے کربلا کے پاک و پاکیزہ نام لئے تھے جب ان کی گلیوں اور کوچوں میں گفتگو سنی جاتی ہے تو شر م و ندامت سے سر جھک جاتاہے۔ہماری قوم اخلاقی اعتبار سے روز بروز گر تی چلی جارہی ہے حالانکہ ذکر حسین ؑسننے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ میرے خیا ل میں تمام امراض کا واحد علاج یہ ہے کہ حضرات ذاکرین مجالس کو اہلبیت ؑ کے اخلاق وکردار کی درسگاہ بنا دیں اور شرکاء بھی مجلسوں میں صرف سننے،واہ واہ ،سبحان اللہ کے نعرہ بلند کرنے اور دوسرے کان سے اڑا دینے کی نیت سے نہیں بلکہ مجلس سے کچھ نہ کچھ حاصل کرکے اٹھیں۔ یقینا شہادت حسین ؑ نے ہمیں تبلیغ کا ایک بہترین وسیلہ دیا ہے جو کسی قوم کو حاصل نہیں اور وہ ہماری مجلسیں ہیں۔ بس ضرورت اتنی ہے کہ اس وسیلہ اور ذریعہ کا صحیح مصرف کیا جائے۔ تلوار جتنی جوہر دار اور تیز ہوگی غلط استعمال سے برے نتائج نکلنے کا اتنا ہی زیادہ امکان ہوگا ۔لہٰذا اس ذریعۂ تبلیغ کو بھی غلط ہاتھوں میں جانے سے بچانا چاہئے ورنہ بچائے مفید نتائج برامد ہونے کے برے نتائج حاصل ہوتے چلے جائیں گے ۔
نوٹ :-ماخوذ از ماہنامہ شعاع عمل لکھنؤ اُردو و ہندی، ناشر نور ہدایت فائونڈیشن امام باڑہ غفران مآب ، مولانا کلب حسین روڈ، چوک ، لکھنؤ ۔۳ ،یوپی -انڈیا