1980ء کی دہائی میں سید العلماء علی نقی نقوی اعلی اللہ مقامہ کی مجالس نے جو پیمانہ ذہن میں بنا دیا تھا، کم ہی مقررین اس تک پہنچ سکے۔ جب آپ کا آنا موقف ہوا تو یہ قلق ہی رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کیا کمی ہے۔ وہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ موجود ہے۔ ایک دن کسی نے بتایا کہ ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر کلب صادق مجلس سے خطاب کریں گے، جو کہ سید العلماء کے عزیز بھی ہیں۔ اسی شوق میں مجلس سننے پہنچ گئے۔ کسی کی رہائش گاہ پر مجلس تھی۔ عصر کا وقت تھا۔ ڈاکٹر کلب صادق رونق افروز منبر ہوئے۔ پہلی جھلک سے تو مایوسی ہوئی۔ منحننی سا جسم، نہ عبا نہ عمامہ اور خشخشی سی داڑھی۔ بھلا یہ کیا تقریر کریں گے، کئی مرتبہ دل میں سوچا۔ آپ نے انتہائی سادہ انداز میں حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت پر بات کی اور اس حکومت کی خوبیوں کو بیان کیا۔ مولا علی کا ذکر ہو اور مولائی نعرے نہ لگائیں یہ ہو نہیں سکتا۔
آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت کو انتہائی خوبصورت انداز میں حکومت اسلامی ایران سے تطبیق دی تو دل عش عش کر اٹھا۔ بس اس دن سے آپ میرے پسندیدہ مقررین کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ وہ جب لاہور تشریف لاتے تو میں ضرور سماعت کرتا۔ باب علم فاؤنڈیشن کے سلسلہ مجالس میں بھی جن مجالس سے آپ نے خطاب کرنا ہوتا، انہی مجالس میں شریک ہوتا۔ میرے بچوں کو بھی آپ پسند تھے، کیونکہ جو یہ کہتے ہیں، وہ سمجھ میں آتا ہے۔ ایک مرتبہ برادر ثاقب اکبر کراچی میں عشرہ محرم گزار کے آئے تو ایک کتاب کا مسودہ ان کے پاس تھا۔ بتایا کہ ڈاکٹر کلب صادق نے قرآن و سائنس کے موضوع پر مجالس سے خطاب کیا۔ اہمیت کے پیش نظر ان کی تمام تقاریر کو تحریر کر دیا ہے، اب اسے چھپوانا ہے۔ یوں یہ تقاریر کا مجموعہ مصباح القرآن ٹرسٹ نے شائع کیا۔
ڈاکٹر کلب صادق ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر، مفکر، مصلح، ماہر تعلیم اور مبلغ تھے۔ وہ لکھنؤ کے ایک انتہائی معزز شیعہ خاندان المعروف خاندان اجتہاد میں 22 جون 1939ء کو پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد کلب حسین اپنے وقت کے مشہور عالم دین تھے۔ مولانا کے بھائی مولانا کلب عابد بھی اسلامی اسکالر اور مبلغ تھے۔ ان کے بیٹے مولانا کلب جواد ہیں، جو مولانا کلب صادق کے بھتیجے ہیں۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مشہور مدرسہ سلطان المدارس میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے اور وہاں انھوں نے عربی ادب میں پی ایچ ڈی کی۔ عربی کے علاوہ آپ کو اردو، فارسی، انگریزی اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اسلامی تعلیمات سے متعلق لیکچر دینے کے لیے انھوں نے پوری دنیا کا سفر کیا ہے۔ ان کے پرستاروں میں تمام مذاہب کے پیروکار شامل ہیں۔
آپ مسلمہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے کے باوجود تمام اسلامی فرقوں میں یکساں طور پر قابل احترام دیکھے جاتے ہیں اور بھارت کی سب سے بڑی سماجی و مذہبی تنظیم "آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ" کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ آپ کو ہندو اور مسلمانوں، شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ایک بڑے داعی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لکھنؤ شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ تشدد کے لیے بھی جانا جاتا تھا، خاص طور پر محرم کے دنوں میں۔ لیکن ڈاکٹر کلب صادق کے اقدام اور مستقل کاوشوں سے دونوں مسالک کے مابین اعتماد سازی کے متعدد اقدام اٹھائے گئے ہیں اور خدا کے فضل و کرم سے حالات بہت بہتر ہوگئے۔ آپ نے تمام مسائل کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمارے مسائل کا ایک بڑا سبب جہالت ہے۔ آپ نے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے پوری زندگی وقف کر دی۔
یہ ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔ انہوں نے معاشرے میں تعلیمی تحریک شروع کی اور جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 18 اپریل 1996ء کو انہوں نے ضرورت مند اور غریب طلباء کو تعلیمی امداد اور وظائف دینے کے لیے "توحید المسلمین ٹرسٹ(TMT)" قائم کیا۔ یہ ٹرسٹ اب پورے بھارت میں بہت سارے اسکول، کالج، تکنیکی انسٹی ٹیوٹ، خیراتی اسپتال، مفت تعلیم کے پروگرام چلا رہا ہے اور ہزاروں طلباء کو وظائف مہیا کر رہا ہے۔ اس عرصہ میںTMT کے وظائف سے ہزاروں افراد فائدہ اٹھا کر اب ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ مولانا ڈاکٹر کلب صادق خاص طور پر ’’ T.M.T's مفت تعلیم پروگرام‘‘ کے ساتھ منسلک ہیں۔ معاشرے کے انتہائی مستحق اور پسماندہ طلبہ کو معیاری تعلیم، آمدورفت، یونیفارم، اسٹیشنری، کتابیں وغیرہ بالکل مفت فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت لکھنؤ، الہ آباد، جون پور، علی گڑھ، مراد آباد، جلال پور، بارہ بنکی وغیرہ جیسے بھارت کے مختلف شہروں میں طلباء معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت ڈاکٹر کلب صادق نے لکھنؤ میں ایک مکمل مفت تعلیمی مرکز قائم کیا ہے، جو "یونٹی مشن اسکول" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں جو طلباء زیر تعلیم ہیں اور ان کے تمام اخرجات بشمول کتابیں، کاپیاں اور یونیفارم TMT مہیا کراتی ہے۔ یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ سر سید احمد خاں کے بعد کسی بھی مسلم رہنماء نے، مسلم معاشرے میں جدید تعلیم اور سائنسی مزاج پھیلانے کی اتنی کوشش نہیں کی، جتنی ڈاکٹر کلب صادق نے کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ڈاکٹر کلب صادق کو دوسرا سر سید کہنے لگے ہیں۔
ڈاکٹر صادق کی قابل رہنمائی اور نگرانی میں چلنے والی تعلیمی، رفاہی اور تعمیری منصوبوں میں شامل ہیں:
۱) توحید مسلمین ٹرسٹ
۲) یونٹی کالج، لکھنؤ
۳) یونٹی مشن اسکول، لکھنؤ اور
۴) یونٹی انڈسٹریئل ٹریننگ سنٹر، لکھنؤ
۵) یونٹی پبلک اسکول، الہ آباد
۶) ایم یو کالج، علی گڑھ
۷) یونٹی کمپیوٹر سنٹر، لکھنؤ
۸) حنا چیریٹبل ہاسپٹل، لکھنؤ
۹) توحیدالمسلمین میڈکل سنٹر، شکار پور
۱۰) توحیدالمسلمین بیواؤں کی پنشن اسکیم
۱۱) توحیدالمسلمین یتیموں کی تعلیم کا بندوبست
۱۲) یونٹی فری ایجوکیشن پروگرام لکھنؤ، جونپور، جلالپور، الہ آباد، بارہ بنکی، مراد آباد اور علی گڑھ۔
۱۳) حضرت مولانا کلب صادق "ایرا میڈکل کالج" کے صدر اور جنرل سکریٹری آف آل انڈیا شیعہ کانفرنس رہے، اس کے علاوہ آپ انجمن وظیفہ سادات و مومنین کے بھی سر گرم محرک و رکن رہے۔
انہوں نے اپنی پوری زندگی اس مشن کو جاری رکھا۔ وہ صرف ایک موضوع پر بات کرتے ہیں اور وہ ہے "تعلیم" اس کے علاوہ مولانا کسی بھی موضوع پر بات نہیں کرتے، خصوصاً آپ نے اختلافی مسائل کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔ جدید وسائل ابلاغ نے فاصلے ویسے ہی کم کر دیئے ہیں، جس کی وجہ سے آپ کی بہت سی تقاریر سننے اور سرگرمیوں سے آگاہی ملتی رہی۔ آپ کی بیماری و صحت یابی کی خبریں بھی تواتر سے آرہی تھیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ بیٹی نے بتایا کہ آپ کے پسندیدہ مولانا کا انتقال ہوگیا ہے۔ فوراً تصدیق کے لیے سرچ کی تو معلوم ہوا کہ یہ جعلی خبر ہے، مگر اب تو ان کا جانا ہو ہی گیا اور وہ 24 نومبر 2020ء کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ ناصر کاظمی نے آپ جیسے لوگوں کے لیے کہا ہے:
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
(نوٹ: اس مضمون کی تیاری کے لیے جناب اقبال احمد خان، انڈیا کے مضمون سے بھی استفادہ کیا ہے۔)