عزاداری امام حسین علیہ السلام انسانی وحدت کا بہترین نمونہ
361
m.u.h
26/07/2023
0 0
تحریر:مولانا سید علی ہاشم عابدی
ذات واجب یعنی واجب الوجود فقط پروردگار ہے اس کے علاوہ جو بھی ہیں وہ سب کے سب ممکن الوجود ہیں ، چاہے وہ زمین ہو یا آسمان ، سورج ،چاند ہوں یا ستارے، جمادات ہوں یا نباتات، حیوان ہوں یا انسان ، انسانوں میں نبی ، امام جیسے معصوم ہوں یا ہمارے جیسے گناہگار ، سب کا خالق وہی پروردگار ہے۔
اللہ نے انسان کو پیدا کر کے لا وارث نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس نے ہدایت کے لئے معصوم رہنما بھیجے کبھی وہ رہبر نبی و رسول کی شکل میں تھے تو کبھی وہ امام کی شکل میں آئے، اس نے ہدایت پانے والوں کو بعد میں بھیجا پہلے ہدایت دینے والے کو بھیجا ، کوئی ایسا زمانہ نہیں گذرا کہ جب انسانی ہدایت کے لئے کوئی ہادی و رہبر نہ ہو ، معصوم رہبر چاہے وہ نبی و رسول ہوں یا امام چونکہ سب اللہ کی جانب سے آئے تھے لہذا سب کا دین و آئین بھی ایک ہی رہا ، حالات کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق شریعتیں بدلیہ رہیں لیکن سب کا دین ایک ہی تھا اور وہ دین اسلام ہے۔
فطرت سے تعلق ہی دین اسلام کا خاصہ رہا ہے، لہذا جو چیز انسان بعض اوقات دلیلوں سے نہیں سمجھ سکا توفطرت نے اس جانب اسکی رہنمائی کی ، جیسا کہ روایت میں ہے کہ ایک دہریہ صادق آل محمد امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اس نے وجود خدا پر دلیل مانگی ، امام جعفر صادق علیہ السلام نے وجود خدا پر کوئی دلیل دینے کے بجائے خود اس سے ایسا سوال کیا جس نے اسکی فطرت کو اکسایا اور وجدان کو جھنجھوڑ دیا ۔ امام جعفرصادق علیہ السلام نے پوچھا کیا تم نےکبھی دریا کاسفر کیا ؟ اس نے کہا : ہاں ! میں نے دریا کا سفر کیا ہے۔ آپؑ نے پوچھا: کیا کبھی ایسا ہوا کہ تیری کشتی طوفان کا شکار ہو گئی اور ہر جانب سے تیری امیدیں ٹوٹ گئی لیکن اس وقت بھی تیرے دل میں امید کی ایک کرن موجود تھی کہ تجھے اس خطرے سے نجات مل سکتی ہے۔ اس نے کہا: بالکل ایسا ہوا ہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ناامیدی میں اسی امید کو خدا کہتےہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ وجود خدا کےسلسلہ میں جہاں بہت سے دلائل پیش کئے جاتے ہیں وہیں انمیں سے ایک ‘‘برہان فطرت ’’ بھی ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ جب بھی وہ کوئی اچھی اور خوبصورت چیز دیکھتا ہے تو اس کی جانب کھنچتا ہے اور جب کوئی برائی دیکھتا ہے تو اس سے دور ی اختیار کرتا ہے۔ ان مفاہیم کے اثبات میں دلائل و برہان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ، تیزی سے جا رہےتھے کہ اچانک خود بخود قدم چند لمحات کے لئے رک گئے اور انسان گہری سانسیں لینے لگا ، اگر پوچھاجائے کہ کیوں ایسا کیا تو جواب ملا کہ یہاں گلستان ہے جہاں سے پھولوں کی خوشبو آ رہی ہے۔ اسی طرح انسان انتہائی وقار کے ساتھ آہستہ آہستہ چلس قدمی کر رہا تھا کہ اچانک خود بخود قدم تیز ہو گئے تو پتہ چلا کہ یہاں بد بو آرہی تھی لہذا یہاں سے جلدی گذر جانے میں ہی بھلائی سمجھی۔
مذکورہ دلیل سے واضح ہو گیا کہ اچھائی کی جانب قدم بڑھانا اور برائی سے دوری اختیار کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے، اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ اسلام کے جتنے بھی احکام و قوانین ہیں انکا تعلق انسان کی فطرت سے ہےاور اسلام کے جتنے بھی ہادی و رہبر آئے سب نے انسانیت کو جوتعلیم دی ان کا بھی تعلق انسان کی فطرت سے تھا۔ لہذا دشمنوں کی تمام تر مخالفتوں کے باوجود ہر آزاد فکر نے ان کی حمایت کی اور ان کی تعلیمات کو قبول کیا اگرچہ ان کی تعداد ہمیشہ کم رہی۔
انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ امن و سکون کو پسند کرتا ہے، بے چینی اور فسادسے دور رہتا ہے، انسان فطرتاً غرور و گھمنڈ، ظلم و ستم، فتنہ و فساد، قتل و خونریزی کو ناپسند کرتا ہے اور اصلاح کو پسند کرتا ہے۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر یہ بات سچ ہے تو قتل ہابیل سے آج تک زمین پر ظلم و ستم، غرور و گھمنڈ، قتل و خونریزی اور نہ جانے کتنے گناہ و برائی کرنے والا یہی انسان ہے۔ بلکہ اسی انسان کے ظلم و ستم اور فتنہ و فساد سے تاریخ انسانیت کے اوراق سیاہ ہیں اور جس انسان کو اللہ نے اشرف مخلوق بنا کر بھیجا تھا اس میں اکثریت چوپایوں سے بدتر ہے ؟ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ اکثریت نے قانون فطرت کی مخالفت کرتے ہوئے انسانی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے۔لیکن جب بھی توفیق الہی شامل حال ہوئی اورفطرت نے ضمیر کو جھنجھوڑا تو ہدایت ان کا نصیب اور صراط مستقیم ان کا مقدر بن گیا۔
اگرچہ ہر الہی رہبر و رہنما کی روش ایک ہی تھی ، ایسا قطعاً نہیں ہے کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی سیرت میں کبھی کوئی اختلاف رہا ہو لیکن حالات اور زمانے کے تقاضوں کے پیش نظر ہر ایک نے اسی کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا کہ اگر امام حسن علیہ السلام نے صلح کی تو حالات اور زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق تھی کہ اگر اس وقت ان کے بجائے امام حسین علیہ السلام یا کوئی اور امام ہوتے تو وہ بھی صلح ہی فرماتے ۔ اسی طرح اگر امام حسین علیہ السلام کا جہاد بھی حالات اور زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق تھا کہ اگر کوئی اور امام ہوتے تو وہ بھی جہاد ہی فرماتے ۔
چونکہ امام حسین علیہ السلام کے زمانے کے حالات کا تقاضہ یہی تھا کہ آپؑ کھل کر جہاد کریں اور قدم قدم پر اپنے مقدس مقصد سے لوگوں کو آگاہ کریں اور آپؑ نے ایسا کیا بھی ، نظام قدرت بھی کچھ اس طرح رہا کہ تاریخ آدم و عالم کے اس عظیم واقعہ کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے بلکہ قدرت نے اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی اس کا اہتمام کیا ، انبیاء و مرسلین علیہم السلام خود سید المرسلین حضرت محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اورفتح و ظفر کی بشارت دی گئی ۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر واقعہ کربلا کی یاد نہ صرف شیعہ بلکہ غیر شیعہ بلکہ غیر مسلم کیوں مناتے ہیں ، جب کہ امام حسین علیہ السلام رسول اسلام کے نواسے اور ہم شیوہں کے تیسرے امام ہیں ۔ پھر کیوں بلا تفریق مذہب و ملت ہر آزاد فکر انسان امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں شریک ہوتا ہے؟
اگر آپ نے مذکورہ مطالب پر غور کیا ہوگا تو آپ کے لئے واضح ہو چکا ہو گا کہ جس چیز کا تعلق انسان کی فطرت سے ہوتا ہےتو دین و مذہب اور ملک و ملت کی دیواریں اسے ماننے سے نہیں روک پاتی ہیں ۔ جیسے موت و حیات کہ اسے بلا تفریق دین و مذہب اور ملک ملت ہر انسان مانتا ہے بلکہ جو خالق موت و حیات کا منکر ہے وہ بھی موت و حیات پر عقیدہ رکھتا ہے۔ اسی طرح دنیا کی دیگر تمام اچھائیاں اور برائیاں ہیں کہ ہر انسان اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھتا ہے۔
شہید انسانیت امام حسین علیہ السلام کا جہاد بھی انسانی فطرت سے متعلق تھا ، اگر ہم مدینہ سے کربلا تک جہاد حسینی اور کربلا سے مدینہ تک اس کےتحفظ میں ہونے والے جہاد زینبی پر غور کریں تو قدم قدم پر ایسے کلمات آپؑ کی زبان پر جاری ہوئے اورآپؑ نے ایسے اقدامات کئے جو آج بھی انسانی ضمیر وں کو جھنجھوڑ دیتےہیں۔امام حسین علیہ السلام نے جب یزید ملعون کی بیعت سے انکار کی وجہ بتائی تو فرمایا: ‘‘ و یزید رجل فاسق شارب الخمر ، قاتل نفس المحرمہ و معلن بالفسق و مثلی لا یبائع مثلہ’’ اور یزید فاسق و گناہگار انسان ہے، شراب پیتا ہے، نفس محترم کا قاتل ہے، کھلم کھلا گناہ کرتا ہے او مجھ (حسینؑ) جیسا اس (یزید) جیسےکی بیعت نہیں کر سکتا ۔
غور فرمائیں یہاں امام عالی مقام نے بیعت یزید کے انکار میں جو وجہ بیان کی ہے اس میں یزید کے ان عیوب کو بیان کیا کہ انسانی فطرت جنہیں نا پسند کرتی ہیں کہ انسان فطرتاًفسق و فجور ، شراب، قتل و غارت اور برائیوں سے نفرت کرتا ہے ۔
مدینہ سے نکلتے وقت جب آپؑ نے اپنےبھائی جناب محمد حنفیہ کو وصیت فرمائیں تو فرمایا:
‘‘انی لم اخرج اشرا ، و لا بطرا، ولا مفسدا ، ولا ظالما، انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی’’
میں نے ہوا و ہوس کی وجہ سے قیام نہیں کیا اور دوسروں پر ظلم و فساد کا ارادہ بھی نہیں ہے (اور دنیا کے عہدوں ، مقام اور مال دنیا کو بھی پسند نہیں کرتا) بلکہ میں نے اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے قیام کیا ہے۔
اس منزل پر امام عالی مقام نے اپنی زبان مبارک پر وہ کلمات جاری کئے جن کا تعلق بھی انسان کی فطرت سے ہے کہ ہر انسان صلح و آشتی کرنے والے کو پسند کرتا ہے اور غرور و تکبر اور ظلم و فساد کرنے والے سے نفرت کرتا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘ الا ترون إلى الحق لا يعمل به، والى الباطل لا یتناھی عنہ ’’
کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جا رہا ہے۔
امام عالی مقام کے ان کلمات کا تعلق بھی انسانی فطرت سے ہے کہ ہر زمانے میں ہر انسان کی یہی خواہش رہی کہ حق پر عمل ہو اور باطل سے روکا جائے۔
صرف زبانی ہی نہیں بلکہ امام عالی مقام نے اس منزل پر وہ عملی نمونہ پیش کیا جس کی دنیا میں مثال لا پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ہر تحریک چلانے والا جب لوگوں کو اپنی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے تو اسے اس تحریک کی کامیابی کی صورت میں ملنے والے فوائد کی بشارت دیتا ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف امام حسین علیہ السلام نے کسی کو دنیوی فوائد کی بشارت نہیں دی بلکہ جو بھی آیا اسے موت کی یقین دہانی کرائی ۔ دنیا میں جب کوئی تحریک چلتی ہے تو تحریک چلانے والے افراد اپنے لشکر کی سیاہی کی بڑھانے کے لئے جو بھی آئے اور چاہے جس مقصد سے آئے اسے شامل کر لیتے ہیں ، لیکن امام حسین علیہ السلام نے ایسے ہر ایک کو شامل نہیں کیا، جنکی گردنوں پر بندگان خدا کے حقوق تھے انہیں اپنی تحریک سے دور رکھا بلکہ شب عاشور بیعت اٹھا لی کہ اگر کوئی جانا چاہے تو چلا جائے۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال پیش کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ۔
دنیا میں جو تحریکیں چلتی ہیں خطرات کے مواقع پر اپنے گھر والوں خصوصاً بھائیوں اور بیٹوں کو دور رکھا جاتا ، خاص کر گھر کی خواتین کوشامل نہیں کیا جاتا ہے وہ بھی جب خطرات کی زد میں ان کا آنا یقینی ہو جائے تو لوگ کسی بہانے سے دور کر دیتے ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام نے اپنی تحریک میں گھر والوں ، بھائیوں اور بیٹوں کو بھی شامل کیا بلکہ جب صبح عاشور دشمن نے حملہ کا شروع کیا تو آپؑ نے اپنے فرزند جناب علی اکبر علیہ السلام کو حکم دیا کہ آگے بڑھو۔
انسان جب کوئی تحریک چلاتا ہے تو تحریکی امور میں مصروفیت کے سبب بعض اوقات انسان بعض ایسے احکام سے غافل ہو جاتا ہے جن کی پابندی تحریک کےمقاصد میں اولیت رکھتی ہیں مثلاً اول وقت نماز سے غفلت، تلاوت اور دعا سے غافل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ تحریک کا مقصد ہی مذکورہ امور کی ادائیگی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برخلاف جب ہم امام حسین علیہ السلام کی تحریک پر نظر کرتے ہیں تو ہر مقام پر نماز ، تلاوت قرآن اور دعا و مناجات جیسےتحریک کے اہم مقاصد نظر آتے ہیں، صبح عاشور اپنے فرزند حضرت علی اکبر علیہ السلام سے اذان کہلوائی، عین جنگ کے دوران نماز ظہر کی ادائیگی اور رخصت آخر کے وقت شریکہ مقصد بہن سے نماز شب میں دعا میں یاد رکھنے کی وصیت بتاتی ہے اور انسان کے ضمیر اور فطرت کو آگاہ کرتی ہے کہ تحریک کربلا کے سربراہ امام حسین علیہ السلام کے نزدیک جتنی اہمیت تحریکی امور کو حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ اس کے مقاصد کو اہمیت حاصل ہے اور جب اس نکتہ کی جانب انسان متوجہ ہوتا ہے تو اس کےلئے واضح ہو جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام وہ عظیم رہنما ہیں کہ جن کے نزدیک ہر قدم پر مقصد کو اہمیت حاصل ہے۔
واقعہ کربلا میں آخری وقت سب سے نمایاں پیغام جو امام حسین علیہ السلام نے رہتی دنیا تک انسانیت کو دیا وہ یہ ہے کہ جب مجروح ہو کر زین سے زمین پر تشریف لائے تو فوج یزید خیام حسینی کی جانب بڑھی تو آپؑ نے انکو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘إن لَم یَکُن لَکُم دینٌ و کُنتُم لاتَخافونَ المَعادَ فَکونوا اَحراراً فِی دُنیاکُم’’ اگر تم لوگوں کے پاس دین نہیں ہے اور روز قیامت کا خوف نہیں ہے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو۔ یعنی انسان چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو ، خدا کو مانے یا نہ مانے، قیامت کا خوف نہیں ہے تو کم از کم دنیا میں آزاد رہوں اور آزادی کا تقاضہ یہ ہے کہ خواتین اور بچوں پر ظلم نہ کرےاور نہتوں پر حملہ نہ کرے۔
ایک آزاد فکر انسان جب تاریخ کربلا کا مطالعہ کرتا ہے اور مذکورہ نکات اور اس جیسے دیگر انسانیت ساز نکات پر اس کی نظر پڑتی ہے تو وہ بلا تفریق دین و مذہب اور ملک و ملت امام حسین علیہ السلام کو اپنا مقتدیٰ اور رہبر مان لیتا ہے اور اس کے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ اگر انسانیت کو نجات مل سکتی اور ملک و قوم میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے تو یہ صرف امام حسین علیہ السلام کی اقتدا کر کے ہی ممکن ہے، جیسا کہ بابائے قوم جناب مہامتما گاندھی نے بیان فرمایا تھا کہ ‘‘اگر ہندوستان کو آزادی مل سکتی ہے تو راہ امام حسین ؑ پر چل کر ہی ممکن ہے۔ ’’
صرف بابائے قوم مہاتما گاندھی ہی نہیں بلکہ واقعہ کربلا کے بعد سے دنیا کے جس ملک میں بھی آزادی کی تحریک چلی،تحریک چلانے والے نے چاہے وہ کسی ملک و ملت کا ہو ، کسی بھی رنگ و نسل کا ہو، کسی بھی دین مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس نے امام حسین علیہ السلام کو ہی اپنا رہبر و قائد بتایا۔
جس طرح مذکورہ اسباب کے سبب لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کو انسانیت کا رہبر اور قائد مانا اسی طرح انکی یاد منانے اور عزاداری کرنے کو خراج عقیدت سمجھا ۔ اگرچہ مذکورہ اسباب کےعلاوہ دعاؤں کی قبولیت اور مشکلات سے نجات بھی عزادری میں شرکت کا ایک سبب ہےاور بعض اوقات بعض کرامات نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلمانوں کو بھی عزاداری کی جانب جذب کیا ہے ، جیسا کہ عارف باللہ سالک الی اللہ آیۃ اللہ العظمیٰ محمد تقی بہجت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے واقعہ بیان فرمایا: ہندوستان میں ایک ہندو جو امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں شرکت کرتا تھا، مظلوم کربلا کی یاد میں سینہ زنی کرتا تھا ، جب وہ اس دنیا سےرخصت ہوا تو اس کی قوم والوں نے اپنی رسم کے مطابق اسے جلایا ، اس کا پورا جسم جل کر راکھ ہو گیا لیکن سینہ اور ہاتھ کہ جس سے وہ ماتم کرتا تھا نہیں جلا تو یہ دیکھ کر سب کو بہت تعجب ہوا اور یہ کہا گیاکہ جسم کا وہ حصہ جوامام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں استعمال ہوا اسے آگ نہیں جلا پائی، لہذا اس کو جلانے کےبجائے دفن کر دیا جائے۔
آج ہم خود وطن عزیز ہندوستان میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ عزاداری امام حسین علیہ السلام میں وہ لوگ بھی شرکت کرتے ہیں جو نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ ہی اس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عزاداری کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے کہ وہ ظالم سے نفرت کرے اور مظلوم سے ہمدردی کرے۔
عزاداری امام حسین علیہ السلام انسانی وحدت کا بہترین نمونہ ہے لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم منبروں سے خالص پیغام حسینی کو دنیا کے سامنے پیش کریں ، جیسا کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘جب لوگ ہمارے کلام کے محاسن کو جان لیں گے تو ہماری اتباع کریں گے۔ ’’عزاداری میں ہمیں اپنی انا، اپنی ذات ، اپنی خواہشات کو پامال کرتے ہوئےعزاداری کا جو مقصد ہے اسے بیان کرنا ہو گا تا کہ یہ انسانی وحدت ایمانی وحدت میں تبدیل ہو سکے۔
بارگاہ معبود میں دعا ہے کہ وہ ہمیں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔