اسلام وہ دین ہے جس کی بنیاد وحی پر ہے، اور جس کا مزاج علم، عقل اور عمل کے توازن پر قائم ہے۔ اس نے افراط و تفریط، ریا و رسم، اور جذباتی ہیجان کے بجائے شریعت، بصیرت اور تزکیہ نفس کو اصل نجات کا ذریعہ قرار دیا۔ لیکن تاریخِ امت کا یہ بھی ایک تلخ باب ہے کہ جب وحی کی رہنمائی سے فاصلہ پیدا ہوا، تو دین کے نام پر تصنع، ریاکاری، اور جذباتی طوفانوں کو راہ ملی— اور اسی خلا میں تصوف کا پودا پروان چڑھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اہلِ بیتِ اطہارؑ کا چراغ علم و حکمت، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھا۔ ایک ایسا امام جو کربلا کا عینی شاہد بھی تھا، اور مدینہ کا مجتہد بھی؛ جس کی زبان پر نور تھا، اور جس کا سینہ علومِ الٰہی کا بحرِ بےکراں۔
تصوف کی ابتدا دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ظاہری زہد اور دنیا سے بیزاری کے رجحان سے ہوئی۔ بصرہ، کوفہ، اور بغداد میں چند افراد نے ترکِ دنیا، فقر و فاقہ، اور چُپ کی زندگی کو تقویٰ کا معیار بنا لیا۔ انہوں نے عبادت کو اجتماعی معاشرت سے جدا کر کے خلوت، کشف، اور وجد کی راہوں میں محدود کر دیا۔ یہ نیا رجحان عام مسلمانوں میں مقبول ہونے لگا کیونکہ وہ باطنی طہارت کے جذباتی تصور میں ظاہری ریاضت اور وقتی اثرات کو دین کا مقصود سمجھنے لگے۔ یہیں سے وہ راستہ کھلا جس نے رفتہ رفتہ شریعت بیزاری، عقل دشمنی، اور ولایتِ اہل بیتؑ سے انکار کی صورت اختیار کر لی۔
امام محمد باقرؑ نے اس ابھرتے ہوئے فکری طوفان کو خاموشی کے بجائے دلیل، فقہ اور معرفت کے ہتھیار سے روکا۔ آپؑ کے نزدیک دین نہ وجد میں ہے، نہ کشف میں؛ نہ خلوت میں ہے، نہ خواب میں؛ بلکہ وہ وحی کے روشن راستے، عقل کے معیار، اور علمِ اہلِ بیتؑ کی پیروی میں ہے۔ تصوف کے پیروکاروں نے عبادت کو دنیا سے فرار کا نام دیا۔ مگر امام باقرؑ نے اس تصور کو رد کرتے ہوئے فرمایا:
«العبادة لیست کثرة الصلاة والصیام، إنما العبادة التفکر فی أمر الله»
(تحف العقول، ص 295)
“عبادت کثرتِ نماز و روزہ کا نام نہیں، بلکہ اللہ کے امر (شریعت و دین) میں غور و فکر کرنا ہی اصل عبادت ہے۔”
«طلبُ الحلالِ عبادةٌ»
(الکافی، ج 5، ص 78)
“حلال روزی کی تلاش خود عبادت ہے۔”
یہ ایک ایسا فقرہ ہے جس نے تصوف کے اُس زہد کو رد کر دیا جس میں دنیا کو ترک کرنا ہی نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ امامؑ کے نزدیک، محنت، مشقت، اور سماجی فلاح دین کا لازمی جزو ہے۔
تصوف کے داعی یہ کہتے تھے کہ ہمارے دل پر واردات ہوتی ہیں، کشفی مشاہدات ہوتے ہیں، جو عقل اور نقل سے بلند ہیں۔ امام باقرؑ نے ان باطنی فریبوں پر فرمایا:
«من أخذ دینَه من غیرِنا أهلِ البیت، فاللهُ لا یومِنُه یومَ القیامة»
(بصائر الدرجات، ص 244)
“جو شخص اپنا دین ہم اہلِ بیت کے علاوہ سے لیتا ہے، اللہ قیامت کے دن اُسے امن نہ دے گا۔”
«کُلُّ ما لم یخرُج من هذا البیت، فهو باطلٌ»
(الاحتجاج، طبرسی)
“ہر وہ بات جو اس گھر (اہل بیت) سے نہ نکلے، وہ باطل ہے۔”
یہ فرمان تصوف کے اُن تمام رجحانات کو باطل قرار دیتے ہیں جنہوں نے قرآن، سنت اور عقل کی جگہ حال، وجد اور الہام کو دین کا منبع بنا لیا۔
صوفیاء میں بعض ایسے افراد بھی تھے جو فقر و فاقہ اور زہد کو دکھاوے کا ذریعہ بناتے۔ ان کی درویشی اصل میں شہرت کی ہوس تھی۔ امام باقرؑ نے فرمایا:
«شرّ الناس من یتزیّن بالزّهد و یرغب فی الدنیا علانیة و یحبّ أن یحمد بما لم یفعل»
(تحف العقول، ص 295)
“بدترین لوگ وہ ہیں جو زہد کا لباس اوڑھتے ہیں، ظاہر میں دنیا کے مخالف دکھائی دیتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں پر تعریف پائیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں۔”
یہ تنقید صوفیت کے اس چہرے پر ہے جس نے زہد کو لباس، چال، اور چُپ کی اداکاری تک محدود کر دیا۔
لیکن امامؑ نے صرف تنقید نہیں کی بلکہ متبادل فکری نظام کی بنیاد بھی رکھی۔ آپؑ نے علمی میدان میں فقہ، کلام، حدیث، تفسیر، اور منطق کے اصولوں پر مبنی ایک مدرسہ قائم کیا جس میں زرارہ بن اعین، محمد بن مسلم، حمران بن اعین، اور جابر بن یزید جعفی جیسے تلامذہ نے علم و معرفت کے جواہر تراشے۔ یہی لوگ بعد میں اہل بیتؑ کے فکری ورثے کو آگے لے کر چلے، اور امت کو تصوف کی دھند سے نکال کر شریعت، عقل اور اجتہاد کی روشنی میں داخل کیا۔
امام محمد باقرؑ نے تصوف کے ظاہری جلال اور باطنی زہر کو پوری بصیرت، حکمت اور حجت کے ساتھ رد کیا۔ آپؑ نے واضح فرمایا کہ ترکِ دنیا نجات نہیں، ترکِ نفس نجات ہے؛ خلوت نہیں، بصیرت اصل روحانیت ہے؛ کشف نہیں، قرآن اصل علم ہے؛ تسبیح نہیں، تفکر اصل عبادت ہے۔ آپؑ کی فکری رہنمائی آج بھی ایک مینارۂ نور ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ روحانیت، دین کے خالص منبع یعنی قرآن، سیرت رسولؐ و اہل بیتؑ سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ رقص، حال، یا خوابوں کے اسرار سے۔
مآخذ: الکافی، بصائر الدرجات، تحف العقول، من لا یحضره الفقیہ، الغدیر، تقویم شیعہ، بحار الانوار، الاحتجاج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔