1618 M.U.H 20/03/2018
سید حسین شیرازی کی گرفتاری کے بعد شیرازی طرز فکر کی جانب سے سامنے آنے والا رد عمل سب سے زیادہ دیکھی جانے والی خبروں کی صورت میں سر فہرست قرار پایا ،چنانچہ شیرازیت کی جانب سے ہونے والے رد عمل کی خبروں کو سب سے زیادہ فالو کیا گیا جو خود متعدد جوابی کاروائیوں کا سبب بنا ، شیرازیوں کا تعلق عراق کے ایک ایسے اصیل و تاریخی خاندان سے ہے جو حکیم ، خوئی ، خلخالی، صدر، کاشف الغطاء و دیگر خاندانوں کی طرح عراق میں ہمیشہ اثر انداز رہا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ عراق کی تاریخ میں موثر سرچشموں میں ایک خاندان شیرازی بھی ہے ۔
لیکن محمد شیرازی کے ایران آنے کے بعد شیرازی طرز فکر حوزہ علمیہ میں اسلامی حکومت کے لئے ایک چیلنج کی صورت سامنے آیا، سید محمد شیرازی کے جنگ کے سلسلہ سے متنازعہ فتوی، اور انکی جانب سے اختیار کئے جانے والے موقف کے چلتے اس طرز فکر کا اسلامی نظام سے تقابل شدید تر ہوتا گیا ، بظاہر گزشتہ کچھ دنوں میں سید حسین شیرازی کی گرفتاری کے بعد اس طرز فکر کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر جو رد عمل ظاہر ہوا ہے اس کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے ابال و اُپھان سے نزدیک ہو گیا ہے ۔
کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ایران میں رواں سال جنوری میں ایران میں ہونے والے اعتراضات کے درمیان بیت ِشیرازی سے وابستہ رسمی چینل نے ولایت فقیہ کی تخریب پر مشتمل ایک کلپ کو نشر کیا جس میں سید حسین شیرازی نے ولایت فقیہ کے نظریہ کی تخریب کے ساتھ ایران و عراق کے مابین ہونے والی آٹھ سال کی طولانی جنگ کے یاد گار ہفتہ ، ہفتہ دفاع مقدس پر بھی سوال اٹھائے ، یاد رہے کہ ولایت فقیہ اور ہفتہ دفاع مقدس دونوں ہی اسلامی نظام کے سرخ خطوط شمار ہوتے ہیں ،جسکے نتیجہ میں انہیں دو بار عدالت میں حاضر ہونے کا حکم جاری ہوا اور اسکی حکم عدولی کی بنیاد پر انہیں گرفتار کر لیا گیا ، جسکے بعد عراق میں کچھ لوگوں نے مظاہرے کئے ، اور گزشتہ چند دنوں میں پلیس کی موجودگی میں لندن میں واقع ایران کے سفارت پر حملہ کیا گیا اور ایران کے پرچم کو سر نگوں کر کے خدام المھدی نامی تنظیم کا پرچم چڑھا دیا گیا اور اس پوری کاروائی کو فدک چینل نے براہ راست نشر کیا۔
ان تمام حاشیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر واقعات کی تہہ تک پہنچنا ہو تو ڈاکٹر جفری ہالورسن(۱) کے اس مقالہ پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے جو انہوں نے حکومت ایران کے مقابل ایک روایتی دشمن کے عنوان کے تحت لکھا ہے ۔ ہالورسن نے ایزونا یونیورسٹی کے اسٹراٹیجک مطالعہ کی سائٹ پر اپنے اس مقالہ کو نشر کیا ہے:
مقالے کے کچھ اہم نکات : ۔
۔ انکا ماننا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کا تختہ پلٹنے اور اس کے نظام کو گرانے کے لئے ہرگز سختی اور تندی کی پالیسی کام نہیں آسکی ہے
۔ ہاولورسن، دیگر سلامتی و تحفظاتی اسٹراٹجیکل پالسییوں کی طرح نرم رویہ کو اپناتے ہوئے کولڈ وار کے ذریعہ ایران کے خلاف اپنی رائے کو نرم انداز میں حکومت کا تختہ الٹنے کی پالیسی کو تجویز کرتے ہیں
۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت ایران کے مقابلہ کے لئے ضروری ہے کہ روایتِ کربلا کو کربلا کے بالکل برعکس و برخلاف ایک دشمن کی صورت میں تبدیل کر دیں
۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایران کی حکومت کو یزیدی حکومت کے طور پر پیش کریں اور اسی سلسلہ سے اپنے وسائل کا استفادہ کریں کہ ایرانی حکومت کو یزیدی ثابت کیا جا سکے
۔ روایت کربلا کو منحرف انداز میں ہمیں اس طرح پیش کرنا ہے کہ ہمارا محور ، شیرازیت ہو جس سے ہم اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت میں فائدہ اٹھا سکیں
وہ آگے لکھتے ہیں :
ایسی چیز جو ایک حقیقی روایت کو اس کے بالکل برخلاف پیش کر سکے ، اسکے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے:
۔ اصلی و واقعی ماجرا کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جائے اور قیاسات کی نئی تشکیل ہو ، نیز تشابہات کو نشر کیا جائے اور پھر اسکا نفوذ ہو
۔ اسکی حقانیت کے بارے میں شک پیدا کیا جائے { ظاہرا مراد یہ ہے کہ واقعہ کربلا کو بنیاد بنا کر نظام کی حقانیت پر سوال کھڑے کئے جائیں }
۔ ان تمام چیزوں کی جگہ کو ایک بڑی روایت یا بڑے واقعہ سے بدل دیا جائے
انجام کار وہ یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ کربلا کی روایت مذکورہ بالا تنیوں نکتوں کے تحقق کی صلاحیت کو اپنے اندر رکھتی ہے جسے ایران کی موجودہ رژیم کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
ہالورسن کا ماننا ہے کہ شیرازی طرز فکر امام حسین علیہ السلام کی طرفداروں کا رول پلے کر نے کے لئے ایک بہترین آپشن رہے گا جو جعلی یزید یعنی اسلامی جمہوریہ کے مقابلہ کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔
سیکورٹی سے متعلقہ اس صاحب نظر شخصیت نے تجویز کئے گئے اپنے طریقہ کار کے مناسب ہونے کے اثبات میں متعدد دلائل ذکر کئے ہیں :
ا۔ اس طرز فکر کی قیادت کا سید ہونا
۲۔ اس طائفہ کے اکثر طرفداروں کا اہل کربلا ہونا
۳۔ اسلامی حکومت کا ناقد و مخالف ہونا
انجام کار ہالورسن نے ان باتوں کے نشر کرنے کا بہترین موقع اور اپنی تجویز کو عملی کرنے کی بہتر فرصت ،اپنے پیغامات کو پہونچانے کا بہترین وقت ماہ محرم اور عاشور سے نزدیک ایام کو قرار دیتے ہوئے آگے لکھا ہے : یہ وہ وقت ہے کہ جب شیعہ مسلمان ، جذبات و معنویت سے سرشار ہوتے ہیں ، اور کربلا سے آگاہ بھی اور اس واقعہ سے نزدیک بھی ، ایسی صورت میں اس پیغام کو پہچائے جانے کے سلسلہ سے جو بھی رکاوٹ کھڑی کی جائے گی یا اس کے نشر کو روکنے کے سلسلہ سے جو بھی اقدام ہوگا ،وہ ہمارے حق میں ہوگا حتی شیرازیوں کو اگر سرکوب کیا جائے گا تو یہ سبب بنے گا کہ روایت کربلا کا یہ عنصر غالب آئے کہ ایرانی رژیم یزید کا کردار ادا کر رہی ہے اور جتنا بھی اسکی جانب سے سیاسی دباو بڑھایا جائے اتنا ہی ستم گر یزید کا رنگ و روپ سامنے آئے گا اور یزیدی کردار واضح و آشکار ہوگا جو ہمارا مطلوب ہے۔
ہالورسن نے اپنے مقالہ کے اختتام میں امریکی سینٹ کو پیش کی گئی ایک تجویز کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرز فکر کی مدد کےلئے ضروری ہے کہ اجتماعی روابط عامہ کے وسائل جیسے سٹلائٹ چینل ، انٹر نیٹ ، اور مختلف سائٹس وغیرہ کل ملا کر ہر وہ چیز جو انسانی افکار پر اپنا اثر چھوڑتی ہے سب کے سب انکی مدد کے لئے آمادہ ہونا چاہیے، اور اس کے لئے شیرازی طرز فکر ایک بہترین آپشن ہے۔
گزشتہ چند دنوں میں شیرازی طرز فکر کے منصوبوں کے کھلنے اور انکی جانب سے ہونے والی کاروائی کو اگر دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ کچھ دنوں میں جو بھی ہوا ہے وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ وہی سب کچھ ہے جسے ہالورسن نے بیان کیا ہے اور اسی منصوبہ کا حصہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔
اپنی بات کے ثبوت میں ہم کہہ سکتے ہیں:
مثلا یزیدی حکومت ، کا اشاریہ وہی ہے جس سے اس طرز فکر کے حامی ایران کے نظام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں،
دوسری طرف مظلومیت کی عنصر پر تاکید کرنا اور اپنی مظلومیت کا اثبات اسی پروجیکٹ کا ایک ایسا حصہ ہے جس سے آگے بڑھ کر اس خبیث منصوبہ کی تکمیل کی جا سکتی ہے ، چنانچہ سید محمد شیرازی کے ہارٹ اٹیک کے چلتے گزر جانے کے بعد ہالورسن کا اشارہ یہ ہے کہ انکی مظلومیت کو پیش کیا جائے اور انکے قتل کی افواہوں کو لوگوں میں پھیلایا جائے، جس پر ابھی ہی عمل ہوا اور سید حسین شیرازی نے اس مظلومیت کو اپنی تقریر میں پیش کرنے کی کوشش کی اور عجیب بات یہ ہے کہ شیرازی طرز فکر اپنے چینلز کے سلسلہ سے یہ یوں تو کوشش کرتا ہے کہ جہاں جہاں انکے چینلز ہیں وہاں کی حکومت کی پالسییو ں کا لحاظ کیا جائے اس ملک کے قوانین کا احترام کیا جائے جہاں سے یہ اپنے خدمات پیش کر رہے ہیں لیکن جب بات اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی آتی ہے تو بارہا نہ صرف اپنے ملحوظات کو نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ کے قوانین کو پیروں تلے روند کر اپنے مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے ۔
تبرائی اسلام پر افراط کی حد تک تاکید وہ مفروضہ ہے جو طولانی مدت اسکتباری منصوبہ میں اسکتبار کی اس علاقہ میں تعاون و مدد کا سبب ہے ، اس وقت جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی کوشش ہے کہ برادران اہلسسنت کے اختلافات کو سمجھتے ہوئے انکے ساتھ ایک محترمانہ تعلقات کی داغ بیل ڈالی جائے چنانچہ ایران سےاندر اور باہر رہنے والے برادران اہلسنت کے ساتھ مل کر علاقے کے توازن کو اپنے حق میں کرتے ہوئے دشمن سے مقابلہ کے لئے مل جل کر آگے بڑھنے کی خاطر جہاں ایران کوششیں کر رہا ہے جہاں ایران کی کوشش ہے کہ برادران اہل سنت کو مشترکہ دشمن سے مقابلہ کی سمت لے جایا جائے وہیں اس شیرازیت کی شکل میں تبرائی فکر اختلافات کو بھڑکانے کے ساتھ علاقے میں شیعوں اور اہل سنت کے ما بین علاقائی جنگ کا سبب ہے۔
(۱) ڈاکٹر جفری ہالورسن Jeffry R.. Halversoj ، پی ایچ ڈی اسکالر، ساحل کیرولینا یونیورسٹی {Coastal Carolina University} کے فلسفہ اور مذہبی مطالعہ کے محکمہ میں مذہبی مطالعہ (اسلامی مطالعات) کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں. انہوں نے پیشر ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی Arizona State University میں انسانی مواصلات کے ہگ ڈیوس سکول میں اسسٹنٹ ریسرچ پروفیسر کے طور پر خدمت کی ہے . ہالورسن نے سنی اسلام ،مسلم عدم تشدد اور اسلام کا مستقبل ،اسلام پسند انتہا پسندی اور مغرب میں اسلام ،جیسی تحریروں اور کتابوں کے مصنف رہے ہیں ، انکے معروف آثار میں : Modern Sunni Islam in the Middle East and North Africa, Sunni Theology, Islamic Nonviolence, Islam in America کو پیش کیا جا سکتا ہے
Imambara Ghufranmaab
Add : Maulana Kalbe Husain Road, Chowk, Lucknow-3 (INDIA)
مجلس علماء ھند پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں۔ ادارہ کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔